تو اپنے کرم سے ہمیں کر عطا
یہ حسیں خطہ ارض کشمیر
ہو تری بارگاہ اور سجدہ مرا!
اپنے وارثوں،بھائیوں ،بیٹوں کو بھارتی غاصب فوجیوں کے ہاتھوں شہید ہونے ،سینے
پہ گولیاں کھاتے ، کبھی نہ کبھی لوٹ آنے کی آس لئے سجدوں میں گری ماؤں اور
بے ردا بہنوں کے دعا کے لئے اٹھے ہوئے ہاتھوں کا لاج رکھنے والے کشمیر کے
لاکھوں حریت پسند جانبازوں اور سرفروشوں کو سلام جو اس لہو رنگ آزادی کے 68
سالوں سے ایک طویل اور صبر آزماء جنگ میں مصروف عمل ہیں۔
وادی کشمیر پاکستان کے شمال میں واقع ہے جس کے مغربی حصے سے نہایت مختصر
پٹی بھارت کی سرحد سے ملتی ہے جس کی بنا پر وہ اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا
ہے جبکہ اس کے تمام زمینی راست آزاد جموں و کشمیر سے نکلتے ہیں۔ریاست جموں
وکشمیر بنیادی طور پر 7 بڑے ریجنوں وادء کشمیر،جموں، کرگل،
لداخ،بلتستان،گلگت،پونچھ اور درجنوں چھوٹے ریجنوں پر مشتمل 84 ہزار 471
مربع میل پر پھیلی ریاست ہے اس کی سرحدیں پاکستان ،بھارت،چین،روس
اورافغانستان سے ملتی ہیں۔
آج بھی اس بات سے تمام اہل اسلام کو دلی تکلیف پہنچتی ہے کہ تقسیم ہند کے
فارمولے کے تحت مسلم اکثریتی صوبہ ہونے کے باعث کشمیر کو پاکستان کا حسہ
بننا تھا اور یہاں کے 85 ÷ فیصد مسلمان بھی پاکستان سے الحاق چاہتے تھے مگر
26 اکتوبر 1947ء کو مہاراجہ کشمیر نے بھارت سے سازباز کر کے انہیں کشمیر سے
الحاق کی دعوت دی اور 27 اکتوبر1947ء کو بھارتی افواج کشمیر پر قابض ہو
گئیں۔
کشمیریوں کے اس سیاہ تاریک دن سے لے کر آج تک انسانی حقوق کے علمبرداروں کو
جموں کشمیر میں بھارتی سیکیورٹی اداروں کی بہیمانہ اور سفاکانہ کاروائیاں
دکھائی نہیں دیتیں۔بے حسی کی انتہا ہے کہ نہ جانے کتنے بے گناہ نہتے کشمیری
نوجوان بچے بوڑھے عورتیں ان ظالمانہ کاروائیوں کے نتیجے میں جان سے ہاتھ
دھو بیٹھے ہیں آتھ لاکھ بھارتی فوجیوں کے نرغے میں زندگی کی بنیادی ضرورتوں
اور آسائشوں سے محروم زندگی گذار رہے ہیں پھر بھی ان کے حوصلے بلند اور عزم
جواں ہیں۔
یہ مقبوضہ کشمیر کے قابل تحسین سرفروش جانباز جو اپنے اہل وعیال اور مالو
متاع اور گھربار کی فکروں سے بے نیاز اپنی سرزمین کی آزادی کے لئے شہادت
جیسے عضیم منصب کو منتخب کر چکے ہیں وہ غلامی پر عزت کی موت کو ترجیح دیتے
ہیں بھارت کے سفا کانہ اور منافقانہ کردار کے ساتھ اقوام مغرب اور عالمی
اداروں کی بے حسی اور سرد مہری ان کے دوہرے معیار کا ثبوت ہے۔اقوام متحدہ
کی سلامتی کونسل نے مسئلہ کشمیر پر نظر رکھنے کے لئے جو دو کٹھ پتلی ذیلی
ادارے یونائیٹڈ نیشن ملٹری اور یونائیٹڈ نیشنز کمیشن فار انڈیا پاکستان
بنائے اناداروں نے کبھی کشمیر آزادی تحریک کے قائدین سے کبھی یہ جاننے کی
کوشش نہ کی کہ وہ کن حالات کا شکار ہیں۔کشمیریوں نے آزادی کے نام پر کئی
لاکھ جانبازوں کی قربانی دی مگر آزادی کی یہ جنگ ظلم جبر اور تشدد کا سبب
بنی ہے بلکہ دنیا کا یہ حسین خطہ ایک فوجی کیمپ
خوف مایوسی کی تصویر نظر آتا ہے۔
اس کی خوبصورت سرسبز وادیاں بلند و بالا پہاڑ برف پوش پہاڑی سلسلے اب سیاہ
دھوئیں جیسے بادلوں کی لپیٹ میں نظر آتے ہیں آج کا کشمیر فوجی کیمپ،جلے
ہوئے علاقوں ، عورتوں اور بچوں کی پامالی ظلم و تشدد قتل وغارت، بچوں کا
تاریک مستقبل، کوئی کاروبار زندگی نہ ہونے کی صورت میں پسماندگی کا نقشہ
نظر آتا ہے۔ہر طرف خستہ حال عمارتیں مقبوضہ کشمیر کی زبوں حالی کی داستان
سناتی ہیں۔ یہ وادی اور اس کے بہتے پانیوں کے چشمے جو بھارت کی ہزاروں میگا
واٹ بجلی کے بننے کا سبب ہیں آج یہ وادی خود لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے گذر رہی
ہے۔ بھارتی فوج کے ظلم و استبداد کی منہ بولتی تصویر بنے کشمیر میں سیاحوں
کی آمد نہ ہونے کے سبب اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے بھی کشمیر کے مسلمان
باسی محروم ہیں-
کن کن مظالم کا ذکر کیا جئے ان کی تحریک آزادی کو مٹانے کے لئے یہ شرمناک
حربے استعمال کیے گئے مگر کشمیریوں نے ابھی بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں
چھوڑا. ہر وقت لاشیں اٹھانے والی اور اپنے پیاروں کو کھونے اور انہیں جیلوں
میں مظالم کا شکار دیکھنے والی کشمیری قوم کی یہ لازوال جدوجہد ہمارے لئے
سوچنے کا مقام ہے۔ہم کیا کر رہے ہیں ان کے لئے ؟
کیا ہماری سالمیت اور بقا ان کی آزادی سے نہیں جڑی؟ کیا ہماری سرزمین کشیر
کے الحاق کے بغیر مکمل ہے؟ ہمارے پرچم اپنے ہاتھوں میں اٹھائے اپنے گھروں
پہ سجائے علی الاعلان سبز قومی پرچم کو اپنے سینے سے لگائے گولیاں کھاتے
کشمری جوانوں کی میتیں یہ تقاضا کرتی ہیں کہ ہم سفارتی اور عملی سظح پر
پوری قوت کے ساتھ ان کا حق آزادی کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھائیں اور
انہیں ان کے حق
خود ارادیت کے تحت انہیں ان کی آزادی کی منزل تک پہنچانے میں اپنا کردار
ادا کریں۔
مگر ہم کیا کر رہے ہیں ؟
گزشتہ 79 سالوں سے 5 فروری کو یوم کشمیر مناتے ہیں اور پھر سال کے باقی
دنوں میں اپنی زندگیوں میں مگن ان کی مصیبتوں اور قربانیوں کو بھول جاتے
ہیں کشمیر کی آزادی محض مسودوں اور قراردادوں تک محدود ہے اب ضرورت اس امر
کی ہے کہ پوری شدت اور تیاری کے ساتھ اس مسئلہ کو اجاگر کیا جائے کشمیریوں
کو ان کے حق خود ارادیت کا انحصار پاکستان کی سفارت اور وکالت پر ہے۔ ہمارے
حکمران اس مسئلے کی سنگینی کو نظر انداز کیے ہوئے ہوئے ہیں۔
اب حالیہ چند ہفتوں سے جہاں جنت نظیر وادی کشمیر میں شدت کے ساتھ ظلم کے
مناظر دیکھنے میں آئے ہیں اور ان کشمیریوں کے جذبہ حریت آزادی میں ایک
ولولہ اور جوش نظر آتا ہے اس سے دل میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ ذادی کی
نعمت بغیر قربانیوں کے نہیں ملتی جب بھی اس شدت سے قربانیاں دی گئیں ہیں
آزادی کا سورج ضرور طلوع ہوا ہے اور ان شاء اﷲ یہ سورج اس جدوجہد آزادی کے
لہو رنگ سے گلنار ہو کر ایک دن اپنی پوری اب وتاب کے ساتھ کشمیر میں ضرور
نکلے گا۔ |