تحریر : نجیب محفوظ
.......................... انتخاب : محمداسلم لودھی
نجیب محفوظ سر زمین مصر کے شہرہ آفاق نوبل انعام یافتہ ادیب ہیں۔ وہ ۱۹۱۱ء
میں قاہرہ کے مضافاتی علاقے میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۳۴ء میں قاہرہ یونیورسٹی سے
فلسفے میں گریجوایشن کی۔ زمانہ طالب علمی ہی میں قلم سے رشتہ استوار کر لیا
۔ تاہم ان کی مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا جس سے ادبی
اور عوامی حلقوں میں بطور افسانہ نگار انہیں پذیرائی ملی۔ بعدازاں ان کی
طویل و مختصر کہانیوں کے کئی مجموعے منظر عام پر آئے۔ نجیب محفوظ نے افسانے
کے میدان ہی میں طبع آزمائی نہیں کی بلکہ نصف درجن سے زائد ناول بھی تصنیف
کیے۔ عالمی سطح پر ان کی شہرت کا سبب ان کے ناولوں ہی کو گردانا جاتا ہے۔
ان ناولوں پر اسٹیج، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ڈراموں کے علاوہ فلمیں بھی
بنائی گئیں۔ قابل ذکر فلموں میں ہالی وڈ کی فلم "اے بگننگ اینڈ این انڈ"
بھی شامل ہے۔ جس میں عمر شریف نے لازوال اداکاری کی تھی۔ یہ فلم ان کے ناول
"بدایہ و نہایہ" پر مبنی ہے۔ نجیب محفوظ نے بہت لکھا او ر ہر موضوع پر
لکھا، تاہم معاشرے میں بسنے والے مختلف طبقوں کی نفسیات اور ان کے رویے ان
کا پسندیدہ موضوع ہیں۔ زیر نظر کہانی ان کے اسی پسندیدہ موضوع کی عکاس ہے۔
اسے ان کی طویل و مختصر کہانیوں کے مجموعے "دنیا ء اﷲ" (خدا کی دنیا) سے
منتخب کیا گیا ہے جو ۱۹۶۴ء میں شائع ہوا۔ ان کی عظیم ادبی تخلیقات نے انہیں
نوبل انعام یافتہ مصنفین کی صف میں جگہ دلوائی اور سب سے بڑھ کر شائقین ادب
کے دلوں میں انہیں دنیا بھر کے مرغوب و مطلوب ادیب ہونے کا اعزاز ہمیشہ
حاصل رہے گا۔ اس نوبل انعام یافتہ کہانی اردو زبان میں ڈھالنے کا فریضہ
خاقان ساجد نے انجام دیا۔
....................................................
یہ نماز عصر کے بعد درس کا وقت تھا اور آج بھی حسب معمول ایک سامع ہی درس
سننے کے لیے موجود تھا۔ جب سے چالیس سالہ شیخ عبدالربہ نے اس جامع مسجد کے
امام کا منصب سنبھالا تھا، صرف چچا حسنین ہی اس کا درس سننے کے لیے آتا
تھا۔ چچا حسنین مسجد سے ملحقہ بازار میں گنے کا رس بیچتا تھا۔ امام کی
تعظیم اور درس کی ناقدری نہ کرنے کے خیال سے، مسجد کا خادم اور موذن دونوں
بھی درس سننے کے لیے آ بیٹھتے تھے۔ یوں شیخ کے جملہ سامعین کی تعداد تین
تھی۔
شروع شروع میں شیخ عبدالربہ کو درس میں سامعین کی کمی سے سخت کوفت ہوئی مگر
پھر آہستہ آہستہ اس نے حالات سے سمجھوتا کر لیا ۔ درحقیقت جب اسے بازار حسن
کے قلب میں واقع اس مسجد کا امام مقرر کیا گیاتھا تو اسی وقت اسے اس امر کا
اندازہ ہوگیا تھا کہ مسجد میں جماعت اور درس کے دوران حاضری برائے نام ہی
ہو گی۔
درس کے دوران کوئی کیونکر آتا؟ مسجد ان دو گلیوں کے چوراہے پر واقع تھی جن
میں سے ایک میں ناچ گانا کا دھندا ہوتاتھا جبکہ دوسری میں جرائم پیشہ
افراد، دلال، منشیات فروش اور تماش بین رہتے تھے۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ
جیسے اس محلے میں صرف ایک وہی شریف انسان رہتا ہے اور وہ تھا چچا حسنین!
عرصہ تک (امام مسجد) شیخ کی یہ حالت رہی، جب وہ بازار میں نکلتا تو گہری
سانس لینے سے اجتناب برتتاکہ کہیں گلی کی مسموم ہوا اس کے باطن کو آلودہ نہ
کردے۔اول تو اس کی نگاہ اوپر چوباروں کی طرف اٹھتی ہی نہ تھی۔ تاہم اگرکبھی
غلطی سے ایسا ہو بھی جاتا تو اس کے جسم کا رواں رواں کانپ اٹھتا۔ اسے یوں
محسوس ہوتا جیسے اس لی روح کی پاکیزگی داغدار ہو گئی ہو لیکن پھر آہستہ
آہستہ اسے اس ماحول کی عادت سی ہو گئی تھی۔ اب اس نے ان برائیوں سے صرف نظر
کر کے اپنا ذہن ان اچھائیوں کی طرف متوجہ کر لیا تھا جن میں اس کے قلب کا
سکون موجو دتھا۔
چونکہ چچا حسنین ہی شیخ کا واحد سامع تھا اس لیے وہ اسے بہت عزیز رکھتا
تھا۔وہ اسے خوش کرنے کے لیے کہتا:
’’چچا حسنین! اگر تم اسی طرح شوق اور باقاعدگی سے درس سنتے رہے تو جلد ہی
ایک بڑے عالم دین بن جاؤ گے۔ پھر لوگ تم سے مسئلے مسائل پوچھنے کے لیے رجوع
کیا کریں گے اور دوسروں کے سامنے تمہاری رائے کو بطور حوالہ پیش کیا کریں
گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ارے نہیں شیخ!‘‘ چچا حسنین سرجھکا کر انکساری سے کہتا ’’میں تو طفل مکتب
ہوں‘ مجھے ابھی آپ سے بہت کچھ سیکھنا ہے!‘‘
آج درس کا موضوع تھا۔۔۔۔۔ منافقت! شیخ نے قرآن و سنت سے استدلال لے کر کہا
کہ وہ شخص جو بظاہر کچھ اور اندر سے کچھ اورہو، دنیا اور آخرت میں سخت عذاب
کا مستحق ہے۔ خدا اور اس کے فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں۔
درس ختم ہوا تو شیخ نے وہیں بیٹھ کر تسبیح شروع کر دی۔ چچا حسنین نے شیخ سے
مصافحہ کیا اور رخصت چاہی۔ کچھ ہی دیر میں موذن اور خادم بھی اپنے کام سے
چلے گئے۔ شیخ عبدالربہ نے کچھ دیر آنکھیں بند کر کے تسبیح کا ورد کیا اور
پھر تسبیح جیب میں ڈال لی اور یونہی مسجد کی جنوبی کھڑکی میں آکھڑا ہوا۔
مسجد کی اس کھڑکی سے اگر قبلہ کی سمت دیکھا جاتا تو دیکھنے والے کو اس گلی
کا سارا منظر صاف دکھائی دیتا تھا۔ جس میں طوائفوں کے کوٹھے بھی شامل تھے۔
یہ ایک طویل مگر تنگ گلی تھی جس میں پہلو بہ پہلو قہوہ خانے، حمام اور گل
فروشوں کی دکانیں تھیں۔ ان کے اوپر ایک دوسرے سے بغل گیر چھوٹے بڑے بوسیدہ
و آراستہ چوبارے تھے جن کی بالکونیاں اور چوبی کھڑکیاں ایک دوسرے میں گڈ مڈ
نظر آتی تھیں۔
اس وقت بازار گہری نیند سے انگڑائی لے کر بیدار ہوتا محسوس ہورہاتھا تا کہ
کچھ دیر بعد اترنے والی رنگین شام کے استقبال کے لیے تیار ہو سکے۔ کھڑکیاں
اور دروازے کھل رہے تھے۔ گلی میں پانی چھڑکا جار ہا تھا۔ قہوہ خانوں کی
کرسیاں اور گل فروش پھولوں کے ہار پرونے میں مصروف تھے۔
چوباروں کی کھڑکیوں میں کئی عورتیں کندھوں پر تولیے ڈالے ستے ہوئے چہروں کے
ساتھ نیچے گلی میں جھانک رہی تھیں۔ کہیں قریب سے ایک نوخیز طوائف کے رونے
کی آواز آرہی تھی جسے نائیکہ بلند آواز میں کوس رہی تھی کہ اپنے اس دوست کو
رونا چھوڑدے جو ایک رقیب کی گولی کا نشانہ بن گیا۔ وہ اسے سمجھا رہی تھی کہ
اس کے اس رویے سے ان کا سارا دھندا چوپٹ ہونے کا خطرہ ہے۔
کہیں سے ایک ہیجان انگیز گانے کی مشق کی آواز آرہی تھی جسے شام کے لیے تیار
کیا جارہا تھا۔ گلی کے نکڑ پر کچھ لوگ آپس میں لڑرہے تھے ۔ چند لمحے پہلے
جو بات تو تکار سے شروع ہوئی تھی اب ہاتھا پائی تک جا پہنچی تھی اور دیکھتے
ہی دیکھتے کرسیاں اور سوڈے کی بوتلیں چلنے لگیں۔ چند گز دور ایک خوبصورت
طوائف نباویہ سب سے پہلے تیار ہو کر بالکونی میں آکھڑی ہوئی اور اپنی غزالی
آنکھوں سے نیچے گلی میں دیکھ رہی تھی۔
’’لعنتی لوگ!‘‘ شیخ عبدالربہ نے بیزاری سے خودکلامی کی۔ خدا جانے ’’انہیں
اس ذات نے ابھی تک زمین میں کیوں نہیں دھنسایا‘‘ یہ کہہ کر اس نے کھڑکی سے
ہٹناچاہا کہ اسی لمحے نباویہ نے ایک نگاہ اٹھا کر اوپر دیکھا اور شیخ کو
دیکھ کر مسکراہٹ کا ایک تیر پھینکا۔
’’لاحول ولاقوہ‘‘ شیخ عبدالربہ نے گھبرا کا پیچھے ہٹتے ہوئے کہا اور اس کی
جرات پر حیران اور پریشان دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا۔ اس کا دل زور زور
سے دھڑک رہا تھا۔
اگلے روز اسی وقت شیخ عبدالربہ کو تجسس نے آن گھیرا۔ اس کے ضمیر نے ملامت
کی مگر اس نے ضمیر کی آواز کو یہ کہہ کر دبا دیا:
’’میری کوئی برُی نیت تھوڑی ہے۔ ہر عمل کا دارومدار نیت پر ہے۔‘‘ یہ کہہ کر
اس نے احتیاط سے ادھر ادھر دیکھا اور پھر اس اطمینان کے بعد کھڑکی میں آن
کھڑا ہوا کہ اسے کوئی دیکھ نہیں رہا۔ ظاہر ہے وہ اپنی عزت لوگوں کی نظر میں
گرانا نہیں چاہتاتھا۔
اتفاق سے نباویہ اس وقت بالکونی میں کھڑی تھی۔ اس نے ایک مرتبہ پھر جو شیخ
کو کھڑکی میں دیکھاتو اچنبھے سے مسکرا دی۔ اس نے تو گزشتہ روز محض دل لگی
کی تھی مگر یوں لگتا ہے جیسے تیر نشانے پر بیٹھا ہے۔ اسے شیخ پر ترس آگیا۔
اس نے سوچا:
’’آہ! بیچارہ مولوی ہے تو کیا ہوا۔ اس کے سینے میں بھی تو دل ہے!‘‘ اس نے
سوچاکیوں نہ اسے خوش کرنے کی نیکی کرے! یہ سوچ کر اس نے ایک بار پھر ایک
دلکش مسکراہٹ شیخ کی طرف پھینکی۔ شیخ جیسے دھکا کھا کر پیچھے گرا اور نیم
جاں ہو کر ’’استغفراﷲ‘‘ کا ورد شروع کر دیا۔ ایک تسبیح پڑھ کر اس نے سینے
میں پھونک ماری اور ٹھنڈی سانس لے کر کہا:
’’اہ! یہ چالباز عورتیں۔۔۔۔ یوسف والیاں!
ایک دو بارپھر اسی طرح ہوا۔ نباویہ ترس کھا کر شیخ عبدالربہ کو اپنا سراپا
دکھاتی اور مسکراہٹ پھینکتی رہی جبکہ وہ دل ہی دل میں اس کی طرف خاصا مائل
ہونے کے باوجود آخر میں ’’لعنتی عورت‘‘ کہہ کر کھڑکی سے پرے ہٹتا رہا۔
پھر جمعہ کے روز صبح صبح جب سارا بازار سویا ہوا تھا اور نباویہ نہ جانے کس
طرح اتنی صبح اٹھ کر چادر لپیٹے کھڑکی میں آن کھڑی ہوئی ، اسے شیخ عبدالربہ
اپنے حجرہ کی کھڑکی میں کھڑا نظر آیا۔ یہ حجرہ مسجد کی نچلی جانب گلی میں
تھا۔ نباویہ کے جی میں نہ جانے کیا آئی کہ وہ اسے یہ الفاظ کہہ کر نیچے کی
طرف لپکی:
’’یا شیخ! دم کروانے آرہی ہوں‘ میرے سر میں درد ہے۔‘
یہ سن کر شیخ عبدالربہ کانپ گیا اور اپنے رب کے حضور بلند آواز سے گڑگڑانے
لگا۔
’’یا اﷲ یہ لعنتی عورت کیوں میرے درپے ہے!‘‘ مگر اس کا دل آنے والے لمحوں
کے احساس سے مستانہ وار دھڑک رہا تھا اور نظریں بے تاب ہو کر دروازے کی طرف
لگی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر نباویہ نہیں آئی۔ اسے شلدام دلال نے نیچے آتے
ہوئے دیکھ لیا تھا۔ شیخ کی عزت کے خیال سے اس نے دو گھر آگے حسن نامی بے
روز گار نوجوان کے دروازے پر دستک دے ڈالی۔۔۔۔۔ جب کافی دیر گزر جانے کے
باوجود نباویہ نہ آئی تو شیخ نے ’’اطمینان‘‘ کی گہری سانس لی اور آسمان کی
طرف منہ کر کے کہا:
’’یا مولا تیرا کرم ہے‘ تو نے اس لعنتی عورت کے شر سے مجھے بچا لیا ہے۔‘‘
لیکن اس سے اگلی صبح جب نباویہ شیخ کے حجرے میں آدھمکی تو شیخ نے گھر آئی
نعمت کو لات مارنے کاکفران نہیں کیا بلکہ نباویہ کو یہ بھی باور کرایا کہ
وہ کسی سوالی کو خالی ہاتھ لوٹانا گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نباویہ کو اپنے وصل سے سرفراز کرنے کے بعد شیخ کا خیال تھا کہ یہ وظیفہ وصل
آئندہ بھی جاری رہے گا مگر نباویہ نے اس روز کے بعد شیخ کی طرف آنکھ اٹھا
کر دیکھنا بھی چھوڑ دیا۔ ادھر شیخ عبدالربہ کانٹوں پر لوٹ رہا تھا مگر بے
بس تھا۔ آخر ایک صبح‘ فجر کی نماز کے بعد اس نے کمبل اوڑھا اور ملگجے
اندھیرے میں نباویہ کے چوبارے کا رخ کیا۔ ذہن میں پکڑے جانے کا خوف مگر دل
کا فیصلہ دماغ پر غالب آگیا۔
سیڑھیوں کا دروازہ کھولا ہوا تھا۔ شیخ نے اوپر چوبارے میں قدم رکھا تو
نباویہ کو تکیے سے لپٹے اکیلے سوتے ہوئے پایا۔ اس کے بدن پر مہین لباس تھا
جبکہ اس نے سوتے میں جو چادر اوڑھی تھی وہ پلنگ سے نیچے گری ہوئی تھی۔ شیخ
نے پلنگ پر بیٹھ کر آہستگی سے نباویہ کے بدن پر ہاتھ پھیرا اور پھر بے
اختیار ہو کر اس سے لپٹ گیا۔ نباویہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی اور ڈر کے مارے ایک
زور دار چیخ ماری۔ چیخ سن کر شیخ کے ہوش ٹھکانے پر آگئے۔ اس نے پلنگ سے
چھلانگ لگائی اور بھاگ کر، دو دو سیڑھیاں پھلانگتا ہوا حجرے میں آگیا۔ خوش
قسمتی سے اسے کسی نے نہیں دیکھا‘ تاہم اس خیال سے اس کا دل لرز رہا تھا کہ
نباویہ دوسروں کو بتا دے گی مگر پھر اس نے یہ کہہ کر خود کو سمجھایا:
’’بتائے گی تو اس کی بات پر کون اعتبار کرے گا؟ پاک دامن صالحین پر رنڈیاں
ہمیشہ اس طرح تہمتیں لگاتی رہی ہیں۔۔۔۔۔۔‘‘
نباویہ کی چیخ پر اردگرد سے کئی رنڈیوں نے کھڑکیوں سے جھانکا۔ شلدام دلال
اوپر چوبارے میں پہنچ گیا۔ اس نے نباویہ سے پوچھا: ’’کون تھا؟ تو کسے دیکھ
کر چیخی تھی؟‘‘
’’ک ۔۔۔۔۔۔ کوئی چور تھا!‘‘ نباویہ نے ہکلاتے ہوئے کہا۔ وہ شیخ کا نام نہیں
لینا چاہتی تھی۔
’’ہونہہ!‘‘ شلدام معنی خیز انداز میں سر ہلا کر بولا۔ ’’مجھے خوب معلوم ہے
وہ چور کون ہے‘‘ یہ کہہ کر وہ سیڑھیاں اتر گیا۔
شیخ عبدالربہ جب گلی میں داخل ہوا تو اس وقت بازار حسن کا سب سے بڑا اور
مشہور دلال شلدام ’’چشم براہ شراب خانہ‘‘ میں اپنے نائبوں کی میٹنگ کر رہا
تھا۔ یہ شراب خانہ مسجد سے چند قدم ہی دور تھا۔ شلدام اس وقت سخت غصے میں
تھا اور اس کا غصہ سرخ شراب کے ہر گھونٹ کے ساتھ بڑھتا جا رہا تھا۔
’’نباویہ۔۔۔۔۔۔۔ احمق لڑکی محبت میں گرفتار ہو گئی ہے!‘‘ وہ دھاڑا۔ ’’اس
کنگلے بے وقعت حسن کی محبت میں! مجھے یقین ہے وہ اس سے عشق کرتی ہے۔‘‘
’’میرا خیال ہے وہ اسے ایک گاہک سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتی ۔۔۔۔۔ محض ایک
گاہک۔۔۔۔۔۔‘‘ اس کے ایک معتمد ساتھی نے اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
شلدام نے جھنجھلا کر ہاتھوں میں پہنا ہو اآہنی مکا میز پر مارا جس سے
پلیٹوں میں پڑی ہوئی نمکین مونگ پھلی کے دانے اور بھنے ہوئے چنے فرش پر
بکھر گئے۔
’’نہیں!اس نے گرج کر کہا۔ وہ بغیر کوئی دام دیے اس سے عشق کرتا۔ مجھے اس کا
یقین ہے اور اس قدر یقین ہے کہ جس قدر اس بات کا کہ میرے خنجرکا وار کبھی
خالی نہیں جاتا۔ وہ اسے دھیلا نہیں دیتا جبکہ یہ اسے تحفے دیتی پھرتی ہے۔‘‘
چہروں پر ناپسندیدگی کے تاثرات ابھرے۔ نشے میں سرخ ہوتی ہوئی آنکھوں نے
شلدام کے ساتھ تعاون و آمادگی کا اظہار کر دیا۔
’’سور کا بچہ عین اس وقت آتا ہے جب محفل عروج پر ہوتی اور وہ کتیا ترنگ میں
ہوتی ہے۔‘‘ وہ بولتا چلاگیا۔ ’’ تم لوگوں نے اس کی آمد تک انتظار کرناہے۔
جونہی وہ آئے اسے گھیر لینا۔ اس کے بعد میں جانوں اور میرا کام۔‘‘
انہوں نے اپنے اپنے جام خالی کیے اور اپنے منصوبے پر عمل کرنے کا عزم
آنکھوں میں لیے وہاں سے روانہ ہو گئے۔
رات جوبن ہر آئی تو نباویہ کا کوٹھا تماش بینوں سے بھر گیاسب نے شراب چڑھا
رکھی تھی اور اپروی صحن میں دائرے کی شکل میں لکڑی کی کرسیوں پر بیٹھے تھے۔
صحن گیس لیمپ کی تیزروشنی سے چمک رہا تھا۔ تماش بینوں کے درمیان نباویہ
تھرکتے ہوئے ناچ رہی تھی۔ اس نے گلابی رنگ کا شب خوانی کا مہین لباس پہن
رکھا تھاجس کے اندر سے اس کا بھرپور جوان جسم تمام تر رعنائیوں سمیت چھلک
رہا تھا۔ اس کی نازک کلائیوں میں پھولوں کے گجرے تھے جن سے بھینی بھینی
خوشبو آرہی تھی۔ تماش بین اس کے ناچ سے مست ہو کر تالیاں پیٹ رہے تھے اور
جذباتی انداز میں آہیں بھر رہے تھے۔ اس ماحول میں جبکہ ہر کوئی اردگرد سے
بیگانہ ہو رہاتھا۔ شلدام دلال سیڑھیوں کے قریب براجمان تھا۔ اس کی نظریں
بیرونی دروازے پر لگی ہوئی تھیں۔
حسن داخل ہوا۔ اس نے صاف ستھرا لباس پہن رکھا تھا اور بال سلیقے سے بنائے
ہوئے تھے۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ شلدام نے اسے قہر آلود
نگاہوں سے گھورا۔ حسن کھڑا ہو کر نباویہ کو دیکھنے لگا۔جونہی نباویہ کی نظر
اس پر پڑی اس نے ناچتے ہوئے ایک ادائے دلبرانہ سے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا
اور اپنی خوبصورت ناک کو چڑھا کر آنکھ سے اشارہ کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ
ظالم اتنی دیر سے کیوں آئے ہو؟ پھر وہ کولہے مٹکاتے ہوئے اس کے نزدیک
دیوانہ وار ناچنے لگی۔ حسن کے چہرے پر ایسے تاثرات چھا گئے جیسے وہی اس
محفل کا دولہا ہو۔ اس نے خالی کرسی کے لیے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی اور پھر
ایک کرسی سنبھال کر بیٹھ گیا۔
یہ منظر شلدام دلال کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ اس کا خون کھول اٹھا۔ اس نے
غصے سے اپنی مٹھیاں بھنیچیں اور منہ میں دو انگلیاں ڈال کر سیٹی بجائے۔ اس
کی سیٹی سنتے ہی اس کے گروہ کے دو افراد نے منصوبے کے مطابق آپس میں لڑائی
شروع کر دی۔ باقی بیچ بچاؤ کے بہانے اس لڑائی میں ملوث ہوگئے۔ دیکھتے ہی
دیکھتے لڑائی پھیل گئی اور اس کا اندازخطرناک ہو گیا۔ شراب کے نشے میں دھت
تماش بینوں کا نشہ ہرن ہوگیا۔ وہ جانیں بچا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ ایک کرسی
گیس کے لیمپ پر جا کر لگی۔ لیمپ فرش پر گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ صحن میں ایک
دم اندھیرا چھا گیا۔ ہر طرف چیخ و پکار مچ گئی۔ دھینگا مشتی اور شور شرابے
کے درمیان ایک عورت کی چیخ اندھیرے کا سینہ چیرتی ہوئی فضا میں بلند ہوئی۔
پھر ایک مرد کی کربناک آہ سنائی دی۔ جلد ہی صحن خالی ہو گیا۔ اب وہاں صرف
دو لاشیں پڑی تھیں۔۔۔۔۔۔ نباویہ اور حسن کی لاشیں!
فجر کے وقت موذن مینار پر چڑھا۔ ابھی خاصا اندھیرا تھا فضامیں خنکی تھی اور
آسمان پر پورا چاند ساکت و جامد نظر آرہا تھا۔ ابھی موذن نے ’’اﷲ اکبر‘‘ کی
صدا ہی بلند کی تھی کہ ہوائی سائرن خوفزدہ کردینے والی بلند آواز کے ساتھ
بج اٹھا۔ موذن کا دل زور سے دھڑکا۔ اس نے دل ہی دل میں خدا سے عافیت کی دعا
مانگی اور دوبارہ اذان دینے کے لیے سائرن کے خاموش ہونے کا انتظار کرنے
لگا۔
جب سے اٹلی نے اتحادیوں کے خلاف جنگ میں کودنے کا اعلان کیا تھا، رات کو
چوکسی کی خاطر سائرن بجانے کا عمل عام ہو گیا تھا لیکن آج تک عملاً کچھ بھی
نہیں ہوا تھا۔ موذن نے اپنی جرات مجتمع کی اور ایک بار پھر اذان شروع کی:
’’اﷲ اکبر‘ اﷲ اکبر!‘‘ اس کی آواز میں خاصا سوز آچکا تھا۔
اچانک ایک زور دار دھماکے کی آوازآئی اور موذن کی آواز دھماکے کی شدت میں
دب گئی۔ وہ اپنی جگہ کسی برف کے تودے کی مانند جم کر رہ گیا۔ اس کی نظریں
دو اندھیرے میں گھور رہی تھیں جہاں سرخ شعلے فضا میں بلند ہورہے تھے۔ اس نے
کپکپاتی ٹانگوں کے ساتھ بمشکل دو قدم چل کر دروازے کھولا اور سیڑھیوں پر
لڑکھڑاتا ہوا نیچے آیا۔ مسجد کے اندر گھپ اندھیرا تھا۔ ہال میں داخل ہو کر
اسے امام اور خادم کی سرگوشیوں سے سمت کا تعین کرنے میں مددملی تو وہ تیزی
سے ان کی طرف بڑھا۔
’’حضرات! معاملہ اس بار سنجیدہ ہے۔‘‘ امام نے جواباً کہا۔ اس نے لرزتی ہوئی
آواز میں کہا۔‘‘ ہمیں جلدی سے کچھ کرنا چاہیے۔
’’اجتماعی زمین دوز پناہ گاہ بہت دور ہے۔‘‘ امام نے جواباً کہا۔ اس کی آواز
قدرے بھرائی ہوئی تھی۔ ویسے بھی اس وقت تک وہ عوام کے ہجوم سے بھر چکی
ہوگی۔ مسجد بہت مضبوط ہے یہ بہت اچھی پناہ گاہ ثابت ہو گی۔
وہ ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گئے اور قرآن کی تلاوت کرنے لگے۔ باہر سے
بھاگتے قدموں کی، بلند آوازوں اور نصیحت آمیز جھنجھلائی ہوئی صداؤں کا شور
بلند ہوا۔ کئی کھڑکیوں اور دروازوں کے پٹ بجے اور گیٹ کھلنے کی چڑچڑاہٹیں
فضا میں مرتعش ہوئیں۔ دفعتاً کئی زور دار دھماکے ایک ساتھ ہوئے۔ سب کے حواس
جواب دے گئے۔ دل اچھل کر حلق میں آگئے۔ مسجد کے خادم نے خوفزدہ ہو کر کہا:
’’حضرت! میری فیملی گھر میں ہے اور میرا مکان بہت بوسیدہ ہے۔‘‘
’’خدا پر بھروسہ کرو ۔۔۔۔۔۔۔ یہ جگہ چھوڑ کر نہ جاؤ۔‘‘ امام نے لرزتی ہوئی
آواز میں کہا۔
لوگوں کا ایک گروہ بھاگ کر مسجد میں آگیا۔ ان میں سے کئی ایک نے کہا:
’’یہ سب سے محفوظ جگہ ہے۔‘‘
’’آج معاملہ بہت خراب لگتا ہے ۔۔۔۔۔‘‘ کسی نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
امام آواز سن کر چونک پڑا۔ یہ یقینا شلدام دلال تھا‘ علاقے کا سب سے بڑا
بدقماش آدمی۔ اس کی یہاں موجودگی کا مطلب بد نصیبی کے سوا کچھ نہیں تھا۔
لوگوں کا ایک اور ریلا اندر آگیا۔ یہ ہجوم پہلے سے کہیں بڑاتھا۔ اس میں
عورتیں بھی تھیں جن کی آوازیں شیخ کے لیے نامانوس نہ تھیں۔ ان میں سے ایک
عورت بولی:
’’شراب کے نشے کا اثر اب خاصا کم ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔‘‘ شیخ کے صبر کا پیمانہ
لبریز ہوگیا۔ وہ اپنی جگہ سے اچھل کر کھڑا ہو گیا اور جارحانہ انداز میں
کہا:
’’دفعان ہو جاؤخبیثو! بے شرمو! اور جا کر اجتماعی پناہ گاہ میں پناہ لو!
کچھ تو خدا کے گھر کی عزت کا خیال کرو۔ چلو! نکلو یہاں سے۔۔۔۔۔۔۔!‘‘
جواب میں ایک آدمی کی آواز آئی۔ یا شیخ براہ کرم بکواس بند!۔
ہجوم نے ٹھٹھے کے طورایک قہقہہ لگایا مگر ان کی آواز ایک کان پھاڑ دینے
والے دھماکے کی آواز میں دب گئی۔ مسجد میں چیخ پکار مچ گئی۔ امام پر خوف
طاری ہو گیا وہ وحشیانہ انداز میں کچھ اس طرح چیخا جیسے وہ بموں سے مخاطب
ہو مگر وہ ان لوگوں سے کہہ رہا تھا:
’’پرے ہٹو۔۔۔۔۔ خدا کے گھر کو گندہ نہ کرو۔‘‘
’’ایسا کہتے ہوئے تمہیں شرم آنی چاہیے۔‘‘ ایک رنڈی کی آواز آئی۔
’’دفع ہو جاؤ!‘‘ شیخ دھاڑا۔ ’’خدا تمہیں غارت کرے! لعنتی عورت!‘‘
’’یہ خدا کا گھر ہے۔ تمہارا گھر نہیں کہ ہمیں نکل جانے کو کہہ رہے ہو۔ رنڈی
نے غصے سے کہا۔
اندھیرے میں شلدام کی آواز سنائی دی:
’’حضرت صاحب! آپ اپنا منہ بند نہیں کر سکتے؟‘‘
لوگ حوصلہ پا کر ایک ساتھ شیخ کو لعن طعن کرنے لگے۔ عورتوں نے اس پر کوسنوں
کی بارش کر دی۔ موذن نے آگے بڑھ کر شیخ کے کان میں سر گوشی کی۔
’’حضرت چپ ہو جائیں۔ براہ کرم کوئی جواب نہ دیں‘ میں آپ سے التجا کرتا
ہوں۔‘‘
عبدالربہ نے بمشکل رندھی ہوئی آواز میں کہا:
’’کیا تم اس بات کو ٹھیک سمجھتے ہو کہ مسجد ان جیسے لوگوں کی پناہ گاہ
بنے؟‘‘
ان کے پاس کوئی متبادل بھی تونہیں! موذن نے ان کی حمایت کی۔ کیا آپ کو علم
نہیں کہ یہ محلہ پرانے گھروں پر مشتمل ہے۔ یہ گھر اس قدر بوسیدہ ہیں کہ محض
دھماکوں کی تھرتھراہٹ سے زمین بوس ہو سکتے ہیں، بموں کے گرنے کا تو ذکر ہی
کیا؟
شیخ اپنی ہتھیلی پر مکا مار کر غصے سے سر ہلاتے ہوئے بولا: ’’اے کاش میں اس
بدقماش اور لعنت کے مارے ہوئے طبقے کو برداشت کر سکتا! مگر نہیں! میرا دل
کہتا ہے کہ خدا نے ان سب کو جس طرح ہانک کر یہاں اکٹھا کیا ہے اس کی کوئی
وجہ ضرور ہو گی۔
قریب ہی بم کا ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ ان کے دل دہل گئے۔ یہ دھماکہ میدان
الخازن میں ہوا تھا۔ روشنی کا ایک کوندا لپکا جس نے ان کے خوفزدہ چہروں کو
لمحہ بھر کے لیے روشن کیا اور پھر اندھیرے میں معدوم ہوگیا۔
فضا میں جہازوں کی کان پھاڑ دینے والی چنگھاڑ سنائی دی۔ عورتیں چیخ اٹھیں۔
شیخ عبدالربہ بھی اپنی چیخ ضبط نہ کر سکا۔ وہ حواس باختہ ہو گیا اور اندھا
دھند بیرونی دروازے کی طرف دوڑ لگا دی۔ مسجد کا خادم اس کے پیچھے بھاگا اور
اسے روکنے کی کوشش کرنے لگا مگر عبدالربہ نے جارحانہ انداز میں اسے ایک طرف
دھکیلتے ہوئے کہا:
’’بے وقوفو! دونوں میرے پیچھے آؤ‘ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے ۔۔۔۔۔۔‘‘
یہ کہہ کر وہ دیوانہ وار باہر کی طرف بھاگا اور لرزتی ہوئی آواز میں یہ
کہتے ہوئے اندھیری گلی میں غائب ہوگیا:
’’بلاشبہ خدا نے ان سب کو یہاں کسی مصلحت کے تحت جمع کیا ہے ۔۔۔۔۔۔‘‘
فضائی حملہ مزید پانچ منٹ جاری رہا۔ اس دوران چار مزید بم پھینکے گئے جن
میں سے ایک بم بہت قریب گرا۔ دس پندرہ منٹ تک فضا میں خاموشی طاری رہی اس
کے بعد حملے کے اختتام کا سائرن بج اٹھا۔ اندھیرے کی ملگجی چادر اور
گردوغبار کے بادلوں کی اوٹ سے آہستہ آہستہ سپیدہ سحر نمودار ہوئی صبح کی
دھندلی روشنی میں مسجد سے کچھ ہی دور پیشہ ور عورتوں کی گلی کے عین بیچ
میں، شیخ عبدالربہ کی لاش پڑی تھی۔
اس کا وجود بم کے ٹکڑوں سے چھلنی تھا۔
|