دلاور جنگ مولانا احمد اﷲ شاہ مدراسی :جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کے سالاراعظم
(Ata Ur Rehman Noori, India)
دلاورجنگ مولانااحمداﷲ شاہ مدراسی (متولد
۱۲۰۴ھ/۱۷۸۷ء۔شہید ۱۲۷۴ھ/ ۱۸۵۸ء )دریائے شور کے ساحلی علاقہ چنیاپٹن تعلقہ
پورنا ملی جنوبی ہند کے نواب محمد علی مشیر و مصاحب سلطان ٹیپو کے فرزند
تھے۔آپ کا تعلق گولکنڈہ کے قطب شاہی خاندان سے تھا۔ آپ انقلاب ۱۸۵۷ء کے
سالار اعظم تھے۔آپ کی شجاعت ومردانگی تاریخ ِ ہند اور تاریخ ِ انقلاب کے
روشن ابواب ہیں۔احمد علی نام،ضیاء الدین لقب اور دلاور جنگ خطاب ہے۔ اپنے
عقیدت مندوں اور مریدوں کے ساتھ جب مولانا مدراسی کہیں نکلتے تو ایک دستہ
نقارہ اور ڈنکا پیٹتا ہواساتھ ساتھ چلتا تھا اسی لیے آپ کو’’ ڈنکا شاہ‘‘
اور’’ نقارہ شاہ‘‘ بھی کہاجاتا تھا ۔عہد شباب ہی میں آپ پر فقر وتصوف کا
غلبہ ہوا اور ریاضت ومجاہدہ کے لیے گھر بار چھوڑ کر حیدرآباد دکن اور مدراس
وغیرہ ہوتے ہوئے انگلستان پہنچ گئے،وہاں سے مصر گئے اور پھر حجاز پہنچ کر
حج وزیارت کے بعد ترکی، ایران اور افغانستان ہوتے ہوئے ہندوستان واپس آئے ۔بیکانیر
و سانبھر میں بارہ سال تک ریاضت ومجاہدہ اور چلہ کشی کی۔پھر جے پور آکر میر
قربان علی شاہ چشتی کے مرید ہوئے اور خلافت سے سرفراز کیے گئے۔یہاں سے ٹونک
گئے اور پھر گوالیار میں محراب شاہ قلندر گوالیاری کی خدمت میں پہنچے اور
اس حکم کے ساتھ آپ کو محراب شاہ نے اجازت وخلافت دی کہ ہندوستان کو
انگریزوں کی غلامی سے ہر حال میں آزاد کرانا ہے۔ حضرت قربان علی شاہ چشتی
جے پوری اور حضرت محراب شاہ قلندر قادری گوالیاری سے چشتی وقادری خلافت
پاکر آپ چشتیت وقادریت کا سنگم بن گئے۔چنانچہ اپنے مرشد کے وعدے کی تکمیل
کے ارادہ سے آپ تقریباً ۱۸۴۶ء میں گوالیار پہنچے۔دہلی کے مشاہیر علما
ومشائخ سے آپ نے ملاقات وگفتگو کی۔مفتی صدرالدین آزردہؔ نے مشورہ دیاکہ اس
مہم کے لیے ماحول سازی آگرہ کے اندر بہتر اور مؤثر طریقے سے ہوسکتی ہے۔ساتھ
ہی مفتی آزردہؔ صاحب نے مفتی انعام اﷲ خان بہادر( سرکاری وکیل آگرہ،ساکن
گوپامؤ ضلع ہردوئی)کے نام ایک سفارشی خط بھی لکھا۔آگرہ پہنچ کر آپ نے دینی
وعلمی شخصیات اور سربرآوردہ حضرات سے رابطہ قائم کیا۔آپ کا اثر روزبروز
بڑھتا اور پھیلتا گیا۔’’مجلس علما آگرہ ‘‘قائم کرکے آگرہ کے علما کو آپ نے
مربوط ومنظم کیا،اس طرح علما آپ کے دست وبازو بن گئے۔مولانا صاحب نے اپنے
اثرورسوخ سے دیسی فوج کی تمام رجمنٹوں میں کمیٹیاں بنا دی تھیں،قاصد تیار
کئے اور سپاہیوں کی آدھی رہائش گاہوں پر آدھی رات کو خفیہ کانفرنسیں
کرواتے۔میلسن اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ نئے کارتوسوں کے بارے میں دیسی
سپاہیوں کو معلومات مولانامدراسی نے ہی دی۔(چند ممتاز علمائے انقلاب۱۸۵۷ء ،
ص۱۰۴)
آپ کے وعظ وبیان میں ہزاروں کا مجمع ہوتا تھا۔جگہ جگہ آپ کے تبلیغی واصلاحی
دورے ہوتے تھے۔آپ کی شہرت اور آپ کے تعلقات واثرات کا دائرہ کافی وسیع
ہوگیا۔ بڑے بڑے علما وفضلاوادبا وشعرا آپ کے گرویدہ ہوگئے۔آپ کے عزائم اور
آپ کی ہر دل عزیزی نے حکومت ِ وقت کو چوکنا کردیااور انگریزمخالف سرگرمیوں
نے سرکاری کارندوں کے ہوش اڑا دیئے۔ مولانا امیر علی شاہ (امیٹھی،لکھنؤ) کی
شہادت پر لکھنؤ آئے،فیض آباد گئے۔حکومت نے آپ کو نظربند کر دیا ۔انقلاب
۱۸۵۷ء رونما ہواتو جیل ٹوٹی تو آپ رِہاہوکر مع محبان وطن کے لکھنؤ آئے اور
نصف لکھنؤ پر قبضہ کر لیا اور اپنا اقتدار بڑھانا شروع کیا۔ممو خاں نے
شہزادہ برجیس قدر کو تخت پر بٹھایااور بہادر شاہ ظفر کے نائب کااعلان کیا۔
نگراں ملکہ اَودھ حضرت محل تجویز ہوئیں۔کمپنی اور حضرت محل کے کئی محاذ پر
بڑے بڑ ے مقابلے ہوئے۔
دلاورجنگ مولانااحمداﷲ شاہ مدراسی نے دہلی وآگرہ کے بعد میرٹھ،پٹنہ،کلکتہ
وغیرہ کے بھی دورے کئے اور انگریزوں کے خلاف مہم کا دائرہ کافی وسیع
کرلیا۔’’تحریک ۱۸۵۷ء کے لیے پورے ملک کو تیار کرنے میں مولانا شاہ احمداﷲ
کانام سر فہرست آتا ہے۔وہ ملک کے گوشے گوشے میں دورے کرکے بغاوت کے لیے
عوام کو آمادہ کررہے تھے۔لکھنؤ ،فیض آباد، شاہجہاں پورمیں مولانا مدراسی نے
انگریزوں سے گھمسان کی جنگ لڑی۔آخر میں قصبہ محمدی (شاہجہاں پور)میں مولانا
مدراسی،شہزادہ فیروز شاہ، جنرل بخت خاں، مولانا فیض احمد بدایونی، ڈاکٹر
وزیر خاں اکبرآبادی وغیرہ نے اپنی حکومت قائم کرلی ۔شاہزادہ فیروز شاہ وزیر
مقرر ہوئے اورجنرل بخت خاں کمانڈر۔ خلافت راشدہ کی اتباع میں حکومت شرعیہ
کا نقشہ قائم ہوا اور سکہ مولانا مدراسی کے نام کا جاری ہوا۔‘‘(چند ممتاز
علمائے انقلاب۱۸۵۷ء ،ص۱۰۷)
مفتی انتظام اﷲ شہابی اکبرآبادی اپنی کتاب’’ایسٹ انڈیا کمپنی اور باغی
علما‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:’’مولوی احمد اﷲ شاہ ہفتے میں تیسرے دن بعد نماز
عصر قلعہ اکبرآباد کے میدان میں مردوں کو لے جاکر فن سپاہ گری اور شہ سواری
کی مشق کرایا کرتے۔خود بھی ایسا نشانہ لگاتے جس کا جواب نہ تھا۔تلوار کے
ہاتھ ایسے جچے تُلے ہوتے جس کی دھوم تھی۔․․․․․․․․․․․جامع مسجد میں آپ کے
زمانے میں جتنے آدمی جمع ہوگئے اتنے دیکھنے میں نہیں آئے۔‘‘(مرجع سابق
،ص۱۰۷)
مولانا مدراسی پوائیں (شاہجہاں پور)پہنچے ،راجہ بلایو سنگھ نے غداری
کی،راجہ بلدیو سنگھ نے آپ کا سرمبارک ۱۲۷۴ھ/۱۸۵۸ء کوتن سے جداکرکے آپ کو
شہیدکردیا، بلدیو سنگھ کو انگریزوں نے پچاس ہزار روپئے کا انعام
دیا۔سرمبارک عرصہ تک شاہجہاں پور کوتوالی میں لٹکا رہااور جسم کو آگ میں
پھونک دیاگیا۔مولانا مدراسی کی شہادت کے ساتھ ہی انقلاب ۱۸۵۷ء کا یہ باب
ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔
پروفیسر محمدایوب قادری ’’جنگ آزادی ۱۸۵۷‘‘مطبوعہ کراچی میں لکھتے ہیں کہ :
شاہ احمد اﷲ صاحب کی شہادت پر روہیل کھنڈ کی ہی جنگ آزادی نہیں بلکہ
درحقیقت ہندوستان کی جنگ آزادی ۱۸۵۷ء ختم ہوگئی۔ (مرجع سابق۱۱۳)مولانا
مدراسی کی شہادت کے بعد انگریزوں کا عام تاثر یہ تھا کہ شمالی ہند میں
ہمارا سب سے بڑا دشمن اور سب سے خطرناک انقلابی ختم ہو گیا۔
انگریز مؤ رخ جی ڈبلیو فارسٹر لکھتا ہے:’’ یہ بتا دینا ضروری ہے کہ وہ عالم
باعمل ہونے کی وجہ سے مولوی تھا،روحانی طاقت کی وجہ سے صوفی تھا،جنگی مہارت
کی وجہ سے سپاہی اور سپہ سالار تھا․․․․․ظلم طبیعت میں نہ تھا،ہر انگریز اس
کو قدرکی نگاہ سے دیکھتا تھا۔‘‘(ہسٹری ڈی انڈین میونٹی، بحوالہ:مرجع
سابق،ص۱۱۳۔۱۱۴)
انگریزوں نے برملا اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ :باغیوں میں وہ ہی بادشاہت
کے لیے سب سے زیادہ مستحق تھا۔(مرجع سابق،ص۱۱۵)اس طرح شاہ صاحب کا بارہ
سالہ جہاد کا سفر اختتام پذیر ہوا۔
٭٭٭ |
|