آکاش 2اکتوبر 1990کو ایبٹ آباد میں پیداہوا۔
اس شہرکی فضائیں ہر وقت افواج پاکستان کے جری افسروں اور جوانوں کے نعرہ
تکبیر سے معطر رہتی ہیں۔ آکاش کا گھر پاکستان ملٹری اکیڈمی سے زیادہ فاصلے
پر نہ تھا۔ اسی ماحول کی وجہ سے وہ پیدا ہوتے ہی پی ایم میں داخل ہو گیا
تھا۔اس نے وطن کے رکھوالوں کو تربیت کے مراحل سے گزرتے دیکھتے جوانی میں
قدم رکھا تھا۔ہوشیار، آسان باش، جلدی چل․․․ کاشن سننے کی اسے عادت سی ہوگئی
تھی۔ اسے جنٹلمین کیڈٹ بہت بھاتے۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنے والد اور بڑے
بھائی کا، جن کا شمار ایبٹ آباد کے معروف معالجین میں ہوتا ہے ، پیشہ
اختیار کرنے کی بجائے فن سپہ گری میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا۔ آکاش 123ویں
پی ایم لانگ کورس میں منتخب ہوا تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ
تھا۔19اپریل 2009ء کو اس کے والدین اسے پی ایم اے کے گیٹ پر الودع کہنے آئے
تھے۔ ایبٹ آباد کے باسی ہونے کے ناطے ان کے لئے یہ ماحول اجنبی نہ تھا۔ وہ
اپنے اردگرد زرق برق وردیوں میں ملبوس جنٹلمین کیڈٹس، افسروں اور جوانوں کو
اکثر دیکھتے۔ ان کے لئے یہ معمول تھا لیکن اب جبکہ ان کے بیٹا اکیڈمی میں
داخل ہو رہا تھا تو ان کے معمولات کی تمام چیزیں یکایک غیرمعمولی شکل
اختیار کرچکی تھیں۔
کیپٹن آکاش نے پاکستان ملٹری اکیڈمی میں قاسم کمپنی کے ساتھ تربیت کے کٹھن
مراحل طے کئے۔ 23اپریل2011ء کوجب وہ قیادت کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا تو سپہ
سالار کے الفاظ کی بازگشت اس کے ذہن سے ٹکرا رہی تھی۔ قیادت کی سیڑھیاں
چڑھنا کوئی آسان کام نہیں بلکہ جو ستارے انہوں نے کندھوں پر رکھے ہیں وہ
دراصل وطن عزیز کی حفاظت و سلامتی کی ذمہ داریاں ہیں جن کو نبھاتے ہوئے
انہیں اپنی جان تک کی قربانی بھی دینا پڑے گی۔
پاکستان ملٹری اکیڈمی میں فوجی تربیت کے دوران آکاش کی جسمانی چستی میں ہی
اضافہ نہیں ہوا تھا بلکہ ذہنی بالیدگی بھی پروان چڑھی تھی۔ اسے پہلے بار
احساس ہوا تھا کہ فوجی وردی کی ذمہ داریاں اس کی سوچ سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔
اسے یہ بھی حقیقت حال معلوم ہوئی تھی کہ وطن عزیز کی آزادی کو بیرونی خطرات
تو تھے ہی دہشت گردی نے اسے جس قدرنقصان پہنچایا ہے اس کا اندازہ ممکن نہیں۔
آج کی فوجی زندگی صرف کٹھن راستوں کا ایک مسلسل سفر ہے۔ ان حالات میں کہ جب
دہشت گردوں نے ملک کے بہت سے حصوں میں حکومت کی رٹ ختم کر دی ہے۔ صرف افواج
پاکستان ہی ان کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی میں
اسے ایسے گر سکھائے گئے تھے کہ وہ اندرونی و بیرونی چیلنجوں سے نبردآزما
ہونے کے لئے پوری طرح تیار تھے۔ کیپٹن آکاش ربانی اور اس کے ساتھی عزم کر
چکے تھے کہ پاکستان کے وجود کے لئے بننے والے ہر ہاتھ کو وہ کاٹ کر رکھ دیں
گے۔
پاسنگ آؤٹ پریڈ کے بعد جب ماں نے آکاش کو اپنی آغوش میں لیا تو وہ پہلے سے
بھی زیادہ بے چین ہوگئی۔ آکاش اب اس کا بیٹا نہ رہا تھا بلکہ وہ قوم کا
بیٹا بن چکا تھا۔ اس کی سوچ اور خیالات گھر کے آنگن سے نکل کر دھرتی کی
وسعتوں کو چھو رہے تھے۔ماں نے خود کو دل ہی دل میں تسلی دی اور وہ گھر لوٹ
آئے۔ آکاش پاک فوج کا لیفٹیننٹ بن چکا تھا۔ فوجی زندگی اپنانے کے بعد اس کے
طور اطوار تبدیل ہو چکے تھے۔ اس کی سوچ سنجیدہ اور پختہ ہو چکی تھی۔ اس کی
سوچ انفرادی کی بجائے اجتماعی ہوچکی تھی۔ آخر وہ دن بھی آ گیا جب ایک صبح
آکاش نے اپنی ماں سے اجازت چاہی۔ ماں آج یونٹ جائن کر رہا ہوں۔ اپنی عملی
زندگی کا آغاز کر وں گا۔میری کامیابی کے لیے دعا کرنا۔ وہ گھر سے نکلا تو
ماں کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔
آکاش کو پاسنگ آؤٹ کے بعد فیلڈ رجمنٹ آرٹلری میں تعینات کیا گیا جس کا حصہ
بن کروہ فخر محسوس کر رہاتھا۔ یونٹ میں اس کا استقبال روایتی انداز سے کیا
گیا۔ بہت جلد یونٹ میں بھی اس نے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانا شروع کر
دیئے۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی میں کوئی شعبہ ایسا نہ تھا جس میں اس نے
کامیابی کے جھنڈے نہ گاڑھے ہوں، یونٹ میں بھی اس نے اپنی محبت‘ لگن اور
بہادری سے ہر افسر اور جوان کے دل میں گھر بنا لیا تھا۔ ہر کوئی اس کا
گرویدہ ہو چکا تھا۔ ہر کسی نے اس میں ایک بے چینی محسوس کی تھی۔ وہ ایک
منزل کے بعد دوسری منزل کا متمنی تھا۔ اس کی یہی تڑپ اور بے کلی اسے آرٹلری
رجمنٹ سے سپیشل سروس گروپ میں لے آئی۔ایس ایس جی کا نام آتے ہی دل دماغ میں
جرأت ‘ بہادری‘ عزم‘ ہمت‘ مردانگی‘ دلیری‘ قوت کے استعارے ابھرنے لگتے ہیں۔
جسم میں بجلیاں کوندنے لگتی ہیں۔ پہاڑ دہلنے لگتے ہیں۔ ایس ایس جی کے آکاش
پر اس کی عزم و ہمت کے ستارے اور بھی چمک اٹھے۔ یہاں کے تربیت مراحل
غیرمعمولی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ بس سمجھ لیجئے کہ آگ کا سمندر ہے اور تیر کے
جانا ہے۔ ایس ایس جی پاک فوج کا ایک ایسا عسکری شعبہ ہے جس میں من کی
مرادسے کٹھن زندگی کو لبیک کہا جاتا ہے۔
ایس ایس جی کو جائن کرنے والے ہر افسر و جوان کی منزل ہی کردار ہوتا ہے۔
قوم و ملت کے لئے جان دینا ہی ان کا طرہ امتیاز ہوتا ہے۔آکاش نے ایک تقریب
کے دوران والدین اور بھائی کو تربیلا آنے کی دعوت دی۔ اس دن وہ بہت خوش
تھا۔ اسے اپنی نئی وردی پر بے حد ناز تھا۔ اس نے پھر ماں کو اپنی تربیت کے
مقاصد بتانے شروع کر دیئے۔ اس کی آنکھوں میں ایسی چمک نمودار ہوئی کہ ماں
بھی اس کی تاب نہ لا سکی۔ ماں اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کی دل کی دھڑکنیں بے قابو
ہوگئیں۔ وہ سمجھ گئی کہ اس کے تمام وہم دراصل حقیقت ہیں اور اﷲ تعالیٰ نے
اس کے بیٹے کو واقعی اس دھرتی کے لئے چن لیا ہے۔
کیپٹن آکاش نے جونہی اپنے لہو سے ایس ایس جی کے عہد وفا پر دستخط کئے، نئی
منزل اس کی منتظر تھی۔ وطن عزیز کو دہشت گردوں نے گزشتہ کئی سال سے جس طرح
اپنی مذموم سرگرمیوں کا مرکز بنایا ہوا ہے اس نے پاکستا ن کے وجود کی سنگین
خطرات سے دوچار کر دیا تھا۔ اس کی بیخ کنی کے لئے شروع ہونے والے فیصلہ کن
آپریشن ضرب عضب اس کی منزل تھی۔ کیپٹن آکاش کو خصوصی ٹاسک فورس میں شامل
کرکے شمالی وزیرستان میں فرائض سونپے گئے۔ ضرب عضب کا آغاز ہوتے ہی پاک
فورسز نے میران شاہ میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو نیست و نابود کردیا
تھا۔دہشت گردایسی غار نما لمبی لمبی سرنگوں میں پناہ گزین تھے کہ جہاں
اسلحے اور گولہ بارود کی فراوانی تھی۔ بم بنانے والی فیکٹریاں بھی دریافت
ہوئیں۔ دہشت گردوں کے خلاف اتنی بڑی کامیابی پر پاک فوج کا ہر افسر اور
جوان خوش تھا۔ قوم کو بھی اس کامیابی کی اطلاع مل چکی تھی اور دہشت گردوں
کے خلاف کامیابیوں پر ہر کوئی انہیں خراج تحسین پیش کر رہا تھا۔سپیشل سروس
گروپ کے کیپٹن آکاش ربانی اور ان کے ساتھیوں نے دہشت گردوں کے خلاف ان
کامیابیوں میں نمایاں حصہ لیا تھا۔ انہی کی جرات بہادری کی بدولت دہشت گردی
کے مضبوط نیٹ ورک کو ناکارہ بنا یا جاچکا تھا۔ پاک فوج نے جب میران شاہ میں
دہشت گردوں کے تربیتی مراکز اور خود کش بمباروں کی تیاری کا کھوج لگایا اور
وہاں سے بھاری مقدار میں اسلحہ و گولہ بارود برآمد کیا تو کیپٹن آکاش اور
اس کے ساتھی اس کا میابی پر بے حد خوش تھے۔
ماں نے خیر خیریت کے لئے آکاش سے رابطہ کیا تو اس نے فون اٹھاتے ہی ماں کو
اپنی کامیابیاں بتانا شروع کردیں۔ماں ہم نے یہ کیا، ماں ہم نے وہ کیا۔ میرے
ساتھی ڈٹے ہوئے ہیں، انشاء اﷲ دہشت گردوں کو شکست دے کر لوٹیں گے۔وہ بولتا
رہا، ماں سنتی رہی۔ لیکن وہ بیٹے کی آواز سننے کے باوجود بے چین تھی۔ آکاش
کے فون رکھتے ہی بولی: اس لڑکے کو گھر کی کوئی فکر نہیں ، ماں کی فکر نہیں
بلکہ اپنی بھی فکر نہیں رہی۔ وہ اپنی بات کیوں نہیں کرتا۔ اپنی خیریت کیوں
نہیں بتاتا۔ ہے کوئی فکر اسے ہماری بھی……؟ ماں کی آنکھوں میں موٹے موٹے
آنسو تھے۔ آکاش کے والد ڈاکٹر ربانی نے معاملہ بھانپتے ہوئے تسلی دی۔ کل
پھر بات کرلینا، صبح ہوگی تو پھر رابطہ کرلینا۔
اس رات جب قوم میران شاہ کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کی اطلاع اپنے ٹی وی
سکرینوں پر سن رہی تھی، پاک افواج اپنے اگلے ہدف میر علی کی طرف پیش قدمی
کرچکی تھیں۔ اس علاقے کے مضافات میں بھی دہشت گردوں کے مضبوط ٹھکانے موجود
تھے۔ فورسز کو بھی ان کی موجودگی کی اطلاع تھی اور ان کی جانب سے انہیں
مزاحمت کی بھی توقع تھی۔ فورسز نے جب زمینی کارروائی کا آغاز کیا تو ان کے
خدشات کے عین مطابق دہشت گردوں نے شدید مزاحمت شروع کردی۔
میران شاہ سے 30کلومیٹر دور احمد خیل کا علاقہ ہے۔ 15جولائی کوجب فورسز کے
دستے یہاں کے پرپیچ راستوں سے گزررہے تھے، تو دہشت گردوں کے ایک بڑے جتھے
نے ان پرحملہ کردیا۔ قافلے میں اس وقت کئی گاڑیوں کے علاوہ تین سو سے زائد
جوان اور سازوسامان موجود تھا۔ حملہ اتنا شدید اور اچانک تھا کہ ان میں
فورسز کو شدید نقصان کا خطرہ لاحق ہوگیا۔ دونوں اطراف سے فائرنگ کا سلسلہ
شروع ہوگیا اور قافلہ اس میں پھنس کر رہ گیا۔شام کے سائے گہرے ہونے لگے
تھے۔ قافلے کو دہشت گردوں کے چنگل سے نکال کر اس کی پیش قدمی کو یقینی
بنانے کے لئے کیپٹن آکاش کو ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ حکم ملتے ہی کیپٹن آکاش
اپنے ساتھیوں کے ہمراہ وہاں پہنچے اور دہشت گردوں کو بچھاڑ کر رکھ دیا۔ ایس
ایس جی کے جوانوں کی آمد سے دہشت گردوں کی مزاحمت دم توڑ گئی اور وہ بھاگنے
کا راستہ تلاش کرنے لگے۔قافلہ جانب منزل گامزن ہوگیا جبکہ کیپٹن آکاش اور
ان کے جانباز ساتھیوں نے مزاحمت کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس موقع پر کہ جب وہ
اپنے مشن کی تکمیل کے بعد اپنے زخمی ساتھیوں کو منتقل کررہے تھے کہ گولیوں
کی ایک بوچھاڑ ان کا سینہ چیرتے ہوئے گزر گئی۔کیپٹن آکاش زخمی ہوکر زمین پر
گر پڑے۔ انہوں نے دہشت گردوں کے چنگل سے نکالے جانے والے قافلے پر نظر
دوڑائی تو وہ جانب منزل رواں دواں تھا۔ مطمئن ہوکر انہوں نے آنکھیں بند
کرلیں اور شہادت کی منزل حاصل کرلی۔ اس حملے میں ان کا ایک اور ساتھی بھی
شہید ہوا تھا۔
آکاش اپنی منزل پا چکا تھا۔ وہ منزل جس کا تعین کیپٹن آکاش نے ایبٹ آباد
سکول میں کیا تھا کہ کردار ہی منزل ہے۔آج اس نے اس کا عملی مظاہرہ کرکے
اپنی درسگاہ والدین اور اساتذہ کا سر فخر سے بلند کردیا تھا۔کیپٹن آکاش
شہید کا جسد خاکی ایبٹ آباد پہنچا تو وہاں کی فضاؤں نے اسے خوش آمدید کہا۔
ماں نے تربیلا میں اپنے بیٹے کی آنکھوں جو چمک دیکھی تھی، اس کی روشنی دو
چند ہوچکی تھی۔ وہ شہید ہوکر ابدی حیات پا گیا تھا۔ ماں کے دامن میں شہید
کی صرف یادیں رہ گئیں تھی۔ماں کواس نے آج وہ چادرتحفے میں دی تھی جس
پرچمکتے ستارہ و ہلال یہ گواہی دے رہے تھے کہ تیرے بیٹے نے مادر وطن کی
حفاظت میں سینے پر گولی کھائی ہے۔ آج چھ ستمبر یوم دفاع پاکستان کے موقع پر
پوری قوم کیپٹن آکاش شہید جیسے وطن پر جان قربان کرنے والے افواج پاکستان
کے جری افسروں اور جوانوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ |