مرزا مظہر جان جاناں-اصلاح زبان اورشاعری

ہندوستان کی تاریخ میں اٹھارہویں صدی عیسوی کافی اتھل پتھل اور اتارچڑھاؤ کا عہد ماناجاتاہے ۔یہ عہد نہ صرف عوام الناس کے لیے سخت نقصان دہ اورسوہان روح ثابت ہوا بلکہ مغلیہ سلطنت کے زوال کا بھی باعث رہاہے۔ حالات اس قدر ابتر تھے کہ اس وقت کا مغل فرماں روا شاہ عالم ثانی اپنی علمی استعداداورسنجیدگی کے باوجود مشکلات پر قابونہ پاسکا۔نتیجہ یہ نکلا کہ اس عہدکا ہر شخص اقتصادی، مذہبی،روحانی ،اخلاقی اورسماجی پستی کا شکارہوتاچلاگیا۔
ایسے پرآشوب عہدمیں جب انسانیت کی صلاح وفلاح کی شدیدضرورت تھی، مختلف شخصیات نمودارہوتی ہیں اور اپنا واضح نشان چھوڑجاتی ہیں لیکن ان میں چار شخصیات ایسی ہیں جو عقائد، نظریات اور افکار کی بنیادپر ایک دوسرے سے کافی قریب ہیں،وہ شخصیات ہیں:
1. شاہ ولی اللہ محدث دہلوی(ولادت:1114ھ /1701ء،وفات:1176ھ /1762ء)
2. خواجہ میردرددہلوی(ولادت:1135ھ / 1721ء،وفات:1199ھ / 1785ء)
3. مولانافخرالدین دہلوی (ولادت:1126ھ/1788ء)
4. مرزامظہرجان جاناں
ان میںاول الذکریعنی شاہ ولی اللہ باوقارعالم دین اورمصلح امت ہونے کے ساتھ اعلیٰ محدثانہ مقام رکھتے ہیںاور شاعرنہ ہوتے ہوئے بھی شاعری میںکافی و شافی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ ثانی الذکریعنی خواجہ میر درد نہ صرف شاعرکی حیثیت سے مسلّم ہیں بلکہ اپنی صوفیانہ شاعری کے سبب معاصرین میں یک گونہ فوقیت بھی رکھتے ہیںاورثالث الذکریعنی مولانافخرالدین مایہ نازعالم دین ہونے کے ساتھ شاہراہ طریقت کے امام بھی ہیں۔ان کا شماربھی ان مصلحین میں ہوتا ہے جنھوں نے عوام کو خودساختہ تصوف کی بے راہ روی سے نجات دلائی ،جب کہ آخرالذکر یعنی مرزا مظہر جان جاناںمبلغ بھی ہیں، صوفی بھی ہیں، شاعربھی ہیں اور زبان وبیان کے اعتبارسے دیکھیں تو مصلح اعظم بھی ہیں۔
ولادت باسعادت
مرزامظہرجان جاناں کی پیدائش11؍رمضان بروزجمعہ1111 ھ مطابق 1700ء کالا باغ میںہوئی جو حدودمالوہ میں واقع ہے۔سنہ پیدائش کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض نے 1110ھ،بعض نے 1111ھ،بعض نے 1112ھ،جب کہ کچھ نے 1113ہجری لکھا ہے۔ البتہ! ڈاکٹر خلیق انجم نے اپنی تحقیق میں 1110ہجری کو قوی بتایاہے۔لیکن قرین قیاس 1111 ھ ہے ،کیونکہ اسی کو عام تذکرہ نگاروں اورمعاصرمحققین نے راجح اورقوی قراردیاہے اور یہی مرزامظہرجان جاناں کے اجل خلیفہ مولوی سید نعیم اللہ بہرائچی کے نزدیک بھی معتبرہے۔وہ لکھتے ہیں:
’’حضرت (مرزامظہر)نے خود اپنے عالیشان دیوان کے عنوان کے اندر اپنی پیدائش کے بارے میں ایک روایت نقل کی ہے جوکہ سالگرہ کے حساب وکتاب اورشمارکے اعتبار سے 1111ہجری کے مطابق وموافق ہے۔فرمایاکہ آج ایک ہزارایک سو ستّر ہجری ہے اور میری عمر ساٹھ سال ہے اوریہی صحیح ودرست بات ہے۔‘‘(معمولات مظہریہ،ص:10)
نام ونسب
مرزامظہرجان جاناںکااصل نام ’’جان جاناں‘‘ لقب ’’شمس الدین حبیب اللہ ‘‘ اور ’’مظہر‘ ‘تخلص ہے۔بقول مولوی نعیم الدین بہرائچی:
اظہرمن الشمس اورنورعلی نور کے نام سے بھی پکارے جاتے تھے۔ان کا سلسلۂ نسب انیس (مقامات مظہری کے مطابق اٹھائیس) واسطوںسے محمد بن حنفیہ کے ذریعے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم تک پہنچتاہے۔ (معمولات مظہریہ ، ص:20)
والدین کریمین
والدہ ماجدہ کے سلسلے میں کچھ زیادہ وضاحت نہیں ملتی ۔لیکن اتنا ضرور معلوم ہوتاہے کہ وہ بیجاپور کی شیخ زادی اورامیر خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور بڑی نیک و پارسا، عابدہ ،زاہدہ اور جود وسخا میں بے مثال تھیں۔جب کہ والدبزرگو ار کا نام’’ مرزا جان‘‘ تھا جواپنے فضل وکمال میں ممتاز اور علم وفن میں ماہرتھے ، ساتھ ہی اچھے شاعر تھے اوراپنا تخلص جانیؔ رکھتے تھے۔ اورنگ زیب کے عہدمیںکچھ دنوںتک شاہی ملازم رہے لیکن کسی وجہ سے ملازمت ترک کردی۔ فقر وتوکل اورقناعت وصبرکی راہ اختیار کی ۔ سلسلہ قادریہ کے عظیم الشان بزرگ شاہ عبدالرحمن قادری سے بیعت ہوئے اور ان کی صحبت بافیض میں رہ کرتصوف میں کمالات حاصل کیے۔
مرزاجان(وفات:1127ھ ) اپنے شیخ سے کافی عقیدت ومحبت رکھتے تھے۔ ایک بار شیخ قادری قدس سرہٗ آم کھارہے تھے ۔ آم کھٹاتھا اس لیے اس کا رس زمین پرتھوک دیتے تھے۔ یہ موقع غنیمت جان کر مرزاجان نے گردوغبارمیں پڑے اس رس کو چاٹ لیاجس کااثریہ ہواکہ ان کے دل کی دنیا خوب سے خوب ترہوتی چلی گئی۔(مقامات مظہری،ص:48)
تعلیم وتربیت
چوںکہ مرزا مظہرجان جاناںکاخاندان آگرہ میں سکونت پذیرتھا، اس لیے ان کی ابتدائی تعلیم وتربیت بھی وہیں ہوئی ،مرزا جان نے اپنے بیٹے کی تعلیم کے لیے ہر ممکن راستے اختیارکیے ۔ خود مرزا مظہر جان جاناںقدس سرہٗ اپنی تعلیم کے تعلق سے لکھتے ہیں:
’’علوم متعارف درعہدپدرخواندہ بودوکتب حدیث درخدمت حاجی محمد افضل سیالکوٹی تلمیذ شیخ المحدثین شیخ عبداللہ ابن سالم مکی گزرانیدہ وقرآن مجید را ازحافظ عبدالرسول دہلوی تلمیذشیخ القراء شیخ عبدالخالق شوقی سندکرد۔‘‘
ترجمہ: والد بزرگوارکے عہد میںہی مختلف علوم سے متعارف ہوگئے تھے، حدیث کی کتابیں شیخ المحدثین حضرت عبداللہ ابن سالم مکی کے شاگردحاجی محمدافضل سیالکوٹی سے پڑھیں اور قرآن مجیدکی تعلیم شیخ القراء عبدالخالق شوقی کے شاگرد حافظ عبدالرسول دہلوی سے حاصل کی۔
مرزامظہر کے والدمرزاجان قناعت اورصبروشکرکے پیکر تھے اوراپنے بیٹے کوبھی ان ہی خوبیوںسے متصف دیکھناچاہتے تھے، وہ ہمیشہ مرزامظہرجان جاناںسے کہاکرتے تھے کہ اگر تم امیر ہوگئے تو ارباب ہنرکی قدروشناخت کروگے، مگرمیری خواہش ہے کہ فقیری وترک دنیا اختیار کرو تا کہ تم کواہل پیشہ اور ہنرمندوں کی حاجت نہ رہے ۔اسی کے مدنظر وفات کے وقت انھوں نے مرزا مظہرجاناں قدس سرہٗ کویہ وصیت بھی کی تھی:
’’کسب مال میں اپناوقت صرف کرنا ۔غیرضروری اشغال میں اپنی زندگی خراب نہ کرنا۔‘‘(مرزامظہرجان جاناںکے خطوط،ص:37)
چنانچہ اپنے والدماجد کی خواہش کے مطابق مرزا مظہر جان جاناںقدس سرہٗ نے مختلف پیشہ اور فن کو نہ صرف سیکھا بلکہ اس میں مہارت بھی حاصل کی، یوںمرزامظہر دینی اور دنیاوی دونوں علوم کے متدین عالم اور ماہر ہونے کے ساتھ فن سواری،فن سپہ گری اورحرفت میں بھی کمال پیداکیااور کبھی کبھی اس کا اظہاربھی کرتے تھے۔
شاہ غلام علی نے مرزامظہر جان جاناں قدس سرہٗ کا مختلف پیشہ اوران کی فنی مہارت کا ذکر کیا ہے جیسے وہ بہترین کپڑا کاٹتے تھے ۔ خاص کر شلوارکو پچاس طریقے پر کاٹناجانتے تھے۔ علم موسیقی کے ماہر تھے اوراس فن کے ماہرین آپ کے پاس اصلا ح کے لیے آیا کرتے تھے۔
شخصیت
مرزامظہر جان جاناںنہایت حسین وجمیل،ظریف،بلندقامت اور نازک مزاج انسان تھے ۔بچپن ہی سے طبیعت میں قلندری تھی اور بزرگان دین سے خاصہ لگاؤ رکھتے تھے ۔تعلق باللہ اورتعلق بالمخلوق دونوںخوبیوںسے متصف تھے۔مذہباًحنفی تھے اور مشرباً نقشبندی۔سنت کے مطابق عمامہ باندھتے اور قمیص سامنے سے چاک شدہ پہنتے تھے۔تقویٰ اورپرہیزگاری کا یہ عالم تھا کہ مشکوک کھانا کبھی نہ تناول فرماتے ،ہمیشہ زرق حلال کا حد درجہ اہتمام فرمایاکرتے تھے اور امیروں کی جانب سے آئے ہوئے کھانے کوتو کبھی ہاتھ بھی نہ لگاتے تھے،فرماتے ہیں:شرالطعام طعام الاغنیاء۔یعنی بدترین کھانا امیروںکا کھاناہے۔
عظمت وشان کا یہ عالم تھا کہ معاصرین میں کوئی ان کاہم پلّہ نہ تھا ،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہٗ جیسے عظیم اسلامی اسکالر بھی مرزامظہر جان جاناں قدس سرہٗ کی انفرادیت اورہمہ جہت شخصیت کے قائل تھے،وہ لکھتے ہیں:
ہم لوگ ان کو جانتے ہیں وہ کیاچیز ہیں۔ہندوستان کے لوگوں کے احوال ہم پر پوشیدہ نہیں ۔ عرب کے شہروں میں بھی ہم گئے ہیں اوران لوگوں سے آپ کی ولایت کے پختہ وٹھوس احوال سنے ہیں۔کتاب وسنت اورشریعت وطریقت پر احسن طریقے سے مستقیم و استوار ہیںاورطالبین کے درمیان عالیشان عظمت کےمالک ہیں،عمدہ شخصیت ہیں۔ اس زمانے میںان جیسا انسان ہمارے شہروں میں کوئی نہیں بلکہ ہرزمانے میں ایسے لوگوں کا وجودبہت کم ہوتاہے۔ (معمولات مظہری،ص:218-219)
خودداری اورتوکل علی اللہ کا حال یہ تھا کہ بادشاہوںسے کبھی کوئی ہدیہ یا تحفہ قبول نہیں کیا۔ دنیا اور اہل دنیاسے بالکل مستغنی رہے۔ایک بار کسی امیرنے خانقاہ کے لیے ایک حویلی بنوائی، قبول نہ کیا اور فرمایا:چونکہ ایک نہ ایک دن مکان چھوڑنا ہی ہے تو مکان چاہے اپنا ہو یا پرایا برابر ہے اورروزی جو مقرر ہے وہ مل کر رہے گی اس لیے فقراکے لیے صبروشکراورقناعت کا خزانہ کافی ہے۔
اکثرکہاکرتے تھے:قل متاع الدنیاقلیل۔یعنی دنیاکی دولت بہت ہی معمولی اور حقیر ہے۔ اعلی ظرفی ،اخلاقی بلندی اوراخلاص و للہیت کی اس سے بڑی مثال اورکیا ہوسکتی ہے کہ مرزا مظہر جان جاناں نے اپنے قاتل سے بھی قصاص نہیں لیا۔ جب بادشاہ نے استفسار کروایا تو کہلا بھیجا کہ میں نہیں بتاؤں گا اوراگر خدانخواستہ ملزمان کاپتہ چل بھی گیا تو بھی انھیں سزا نہ دی جائے کیونکہ:بندہ کشتۂ راہ خدا است، وکشتہ راکشتن داخل جرم نیست۔
یعنی بندہ تو اللہ کی راہ میں مراہواہے اورمرے ہوئے کو مارنا جرم نہیں ۔
اور یوں :عَاشَ حَمِیْدًامَاتَ شَہِیْدًا۔( زندہ رہے تواچھائی کے ساتھ اورموت پائی تو شہید کی)کے تحت 1195ھ مطابق1781ء میں اس دنیا کو خیرباد کہا۔(اِنَّالِلہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ)
اصلاح زبان وشاعری
چ اصلاح زبان:مرزامظہرجان جاناںچوںکہ زبان وادب کے ارتقائی عہدسے تعلق رکھتے ہیں اس لیے ان کا کلام تاریخ ارتقامیں ایک اہم مقام رکھتاہے ،کیوںکہ انھوںنے نہ صرف اردوزبان کو صاف وستھراکیا بلکہ اس میں فارسی کی کچھ نئی ترکیبیں اور نازک خیالات پیدا کیے اور قدیم ایہام گوئی کو خیرباد کہا،یہی سبب ہے کہ کم غزلیں کہنے کے باوجود مرزامظہرجان جاناں کا شاعرانہ قد نہایت بلند ہے۔ پروفیسراحتشام حسین لکھتے ہیں:
’’مرزامظہرجان جاناں...نے اردو میں بہت کم غزلیں لکھی ہیں مگرایک بہت بڑے صوفی اورعالم ہونے کے باعث انھیں بہت اہم سمجھاجاتاہے۔ انھوںنے اردو میں جوکچھ لکھاہے،اس کا کچھ حصہ تذکروںمیں مل جاتاہے۔انھوںنے زبان درست کرنے اور شاعری کوان صنائع سے بچانے کی سعی کی جو شاعری کو محض الفاظ کاایک گورکھ دھندا بنادیتے تھے۔اس طرح انھوںنے ایہام گوئی کی مخالفت کی ،فارسی کے عالم ہونے کی وجہ سے ان کی زبان میں فارسی تراکیب کا استعمال بہت ملتاہے۔‘‘(تاریخ اردوادب کی تنقید،ص:54)
مشہورشاعر مصحفی مرزامظہرجان جاناںکو زبان ریختہ کا نقاش اول قراردیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اول کس کہ شعر ریختہ بہ تتبع فارسی گفتہ اوست،فی الحقیقت نقاش اول زبان ریختہ بایںوطیرہ فقیر مرزاست۔ بعدہٗ تتبعش بدیگراں رسیدہ۔‘‘
(تذکرۂ ہندی،ص:203)
ترجمہ:سب سے پہلے جس شخص نے زبان فارسی کی تقلیدمیں ریختہ گوئی کی وہ مرزا مظہر جان جاناں ہے،اسی وجہ سے حقیقتاً زبان ریختہ کا نقاش اول مرزامظہرہے۔اس کے بعد ان کی اتباع میں ریختہ گوئی دوسروںتک پہنچی۔
ڈاکٹرخلیق انجم لکھتے ہیں:
’’اردوشاعری میںمرزاصاحب کو ’’نقاش اول ریختہ‘‘اس لیے نہیں کہاگیاکہ انھوں نے شمالی ہندمیںپہلی باراردومیں شعرکہنا شروع کیا،بلکہ یہ اعزازاس لیے ملاہے کہ انھوںنے ایہام جیسے’’ستم‘‘اورغیرفطری چیزکے خلاف پہلی بارآوازبلند کی اوراپنی اس مخالف آوازکو باقاعدہ تحریک کی صورت دی۔انھوںنے اردو شاعری کی ان تاریک راہوں کو روشن کیااورمنورکیاجن پر گامزن ہوکر دردؔ،میرؔ،سوداؔ،آتش اورغالبؔ جیسے عظیم شاعروںنے نئی راہیںاورنئے راستے نکالے۔
اسی طرح مرزاصاحب نے فارسی مکتوب نگاری میں بھی سادگی کی بنیادرکھی اوراس کی اصلاح کی۔غالب نے اردو مکتوب نگاری میں جواصلاحیں کی تھیں اورجس سادگی اور بے تکلفی کی طرح ڈالی تھی اس کی ابتداستّراسّی سال قبل مرزا صاحب ہی نےکی تھی۔‘‘
(مرزامظہرجان جاناںکے خطوط،ص:81-82)
مرزامظہرجان جاناںکا اصلاح زبان کی جانب متوجہ ہونے میں ان کی نازک مزاجی اور لطافت طبع کا بہت بڑا دخل ہے،اس لیے کہ جو انسان آبخورے کے ٹیڑھے رکھنے کے سبب نواب کی نوابیت پر ہی سوال کھڑاکردے اور ٹیڑھی تراش کی ٹوپی پہننے سے سرمیں دردمحسوس کرنے لگے بھلاوہ زبان کی ناہمواری اورکھردرے پن کو کیسے برداشت کرسکتاتھا، چنانچہ مرزا صاحب لطافت طبع سے مجبورہوکر اصلاح زبان کی طرف مائل ہوئے ۔مولانا محمدحسین آزاد لکھتے ہیں:
’’لطافت مزاج اورنزاکت طبع کا نتیجہ ہے کہ زبان کی طرف توجہ کی اوراسے تراشا کہ جو شعراپہلے گزرے تھے ،انھیں پیچھے ہی چھوڑکراپنے عہد کا طبقہ الگ کردیااورزبان کو نیانمونہ تراش کردیا،جس سے پرانہ رستہ ایہام گوئی کا زمینِ شعرسے مٹ گیا۔‘‘(آب حیات، ص:173)
سطوربالا سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ مرزامظہر جان جاناں نے شاعری کے ذریعے محض اپنے جذبات وخیالات کا اظہار نہیںکیا بلکہ طرز شاعری میں ایک انقلاب برپاکیاجس کے باعث آگے چل کر زبان وادب کی ترقی کے راستے ہموارہوئے۔ جو اصلاحات مرزامظہرجان جاناں کے ذریعے ہوئیں وہ درج ذیل ہیں:
1. ایہام گوئی ترک کرکے سادہ الفاظ کے ذریعے رنگ تغزل پیداکیاگیا۔
2. سوقیانہ اورمبتذل خیالات کا دروازہ بندکردیاگیا۔
3. عمدہ اورغنائی بحروں کا چلن عام ہواجن کا استعمال اس سے پہلے نہ تھا۔
4. برج بھاشااوردکن کے بہت سے الفاظ متروک ہوگئے اور ان کی جگہ اردو-فارسی کے الفاظ اورمحاورات استعمال ہونے لگے،جیسے:نین کے مقام پر چشم،ساجن کے بدلے معشوق، درشن کے عوض زیارت وغیرہو۔
5. عربی -فارسی کے وہ الفاظ جواردومیں صوتی اعتبارسے لکھے جاتے تھے متروک ہوگئے، جیسے:تسبی سے تسبیح،صحی سے صحیح وغیرہ
6. مشکل وثقیل اوربوجھل الفاظ کا استعمال بندہوگیا،جیسے:آئیاں،جائیاں،سوں،کوں وغیرہ
7. نئی نئی تشبیہیں،استعارے اورصنعتوں کو فروغ دیاگیا۔
غرض کہ مرزامظہرجان جاناںنے عمدہ اور فصیح وبلیغ شاعری کے ساتھ زبان اردوکی اصلاح میں نمایاں کرداراداکیا اورنت نئے ادبی ولسانی اختراعات کرکے اردوزبان میں بیش بہا اضافہ بھی کیاجس کے ذکرکے بغیراردوزبان کی تاریخ ادھوری اورنامکمل رہے گی۔
شاعری
مرزامظہر جان جاناں زندہ دل ،صوفی مزاج ،عاشقانہ طبیعت کے مالک اور شعری خمیرسے مرکب تھے ،جس نے ان کو شعرگوئی کی طرف مائل کیا،سیدتبارک علی لکھتے ہیں:
’’مزاج عاشقانہ لے کر پیدا ہوئے تھے،شیرخوارگی کے زمانے سے حسن ظاہر میں حسن حقیقی کانظارہ فرمانے لگے تھے۔... حضرت مرزاصاحب کے الفاظ میں کہ شاعری اور پریشان نظری فقیرکی طینت میں سے ہیںجوپارہ کی طرح عاشقانہ دل لے کر پیدا ہوا ہے۔ جس کو نظارۂ حسن کے بغیر قرارنہ آتا ہو، جس کی خمیرطینت شاعری وپریشان نظری ہو اُس کی شاعری میں شعور نہ ہوگاتواور کیا ہوگا۔‘‘(مرزامظہرجان جاناں،ان کا عہد اور اردو شاعری، ص:64)
اس کے باوجود شعر کہنامرزامظہرجان جاناںکا شوق یا مشغلہ نہیں تھا اورنہ ہی انھوں نے کسی مظاہرے یا نام ونمودکے لیے شاعری کی،بلکہ جب کبھی حقیقی محبت کی چاشنی سے مغلوب ہوتے، ان کامافی الضمیرشعری قالب میں ڈھلتاچلاجاتا۔وہ لکھتے ہیں :
’’گاہ گاہ ازکشش طبع رسااسرار مافی الضمیر رادرقالب نظم فارسی و ریختہ ظاہر می کند۔‘‘
ترجمہ:کبھی کبھی طبع رسا جذبے سے مغلوب ہوتاہوںتوقلبی واردات ریختہ اورفارسی زبان میں نظم ہوتے چلے جاتے ہیں۔
اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ مرزامظہر جان جاناں نے فارسی اوراردوہردوزبان میں شاعری کی اور خوب کی۔کم وبیش فارسی اوراردو شاعری میںخیالات و جذبات ایک جیسے ہیں۔ مرزامظہرجان جاناں چونکہ اپنے آپ کو کشتہ ٔ راہ خدا کہتے تھے اس لیے ان کی شاعری میں بھی عشق حقیقی کی تڑپ، وارفتگی شوق کی کثرت اور واردات قلبیہ کی بہتات اورتصوف جیسے پاکیزہ خیالات کی فراوانی پائی جاتی ہے۔
مرزامظہر جان جاناں کی شاعری ہر خاص وعام میں مقبول اورپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھی گئی اور وہ ہر طرح کے قارئین کو اپنا گرویدہ بنائے رکھی۔جب بھی کوئی مرزاکے اشعار کو سنتا ہے وہ اپنے دل پر ایک چوٹ سی محسوس کرتا اورکچھ نہ کچھ فیض ضرورپاتاہے۔شیخ حاجی محمدافضل سیالکوٹی کے بقول: اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ مرزا مظہرجان جاناں مردان خدا،اہل دل اوراہل دردہیں، اس لیے ان کا کلام سننے والوں کو اس کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔
چنداشعار ملاحظہ کریں:
چلی اب گل کے ہاتھوں سے لٹاکر کارواں اپنا
نہ چھوڑا ہائے بلبل نے چمن میں کچھ نشاں اپنا
یہ حسرت رہ گئی کیا کیامزے سے زندگی کرتے
اگر ہوتا چمن اپنا، گل اپنا، باغباں اپنا
ہم نے کی توبہ اور دھومیں مچاتی ہے بہار
ہائے بس چلتا نہیں کیا مفت جاتی ہے بہار
ہم گرفتاروں کو اب کیا کام ہے گلشن سے لیک
جی نکل جاتاہے،جب سنتے ہیںآتی ہے بہار
لالہ و گل نے ہماری خاک پر ڈالاہے شور
کیا قیامت ہے مُوْوَنْ کو بھی ستاتی ہے بہار
دراصل مرزا مظہرفانی فی اللہ اور باقی باللہ کے مقام پر فائز تھے اورجس کا حال اللہ والوںکا ساہوجائے تویقینااس کی ہر بات اثر کن ہوگی چاہے نظم ہو یا نثر۔کیوںکہ ایسا مردحق آگاہ ہر تصنع اورہرتکلف سے پاک ہوجاتاہے ،جو کچھ کہتاہے حق کہتاہے اورحقانیت اپنا اثر ضروردکھاتی ہے ،چنانچہ مرزامظہرجان جاناںکاکلام سن کر دل میں شعلہ سا بھڑکناتولازمی امرہے۔
اُن کی شاعری کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں سنجیدگی،لطافت،سادگی اور عام فہم الفاظ ہوتے ہیں اور اس طرح کا اندازو اسلوب، عشق ومحبت میں ڈوبے ہوئے کلام کو اور بھی پرتاثیربنادیتاہے، اسی پر بس نہیں بلکہ فصاحت وبلاغت اور سلاست وروانی کے اعتبارسے بھی مرزامظہرجان جاناں کی شاعری مثالی نظرآتی ہے،جیسے یہ اشعار:
خدا در انتظار حمد ما نیست
محمد چشم بر راہ ثنا نیست
خدا مدح آفرینِ مصطفی بس
محمد حامدِ حمدِ خدا بس
محمد از تو می خواہم خدا را
الٰہی از تو حبِّ مصطفی را

جھکی ہے فوج گل اور عندلیباں کی پکار آئی
ارے ہنستاہے کیا وہ دیکھ دیوانے بہار آئی
تجلی گر تری پست و بلند ان کو نہ دکھلاتی
فلک یوںچرخ کیوںکھاتا زمیں کیوںفرش ہوجاتی
بلبل فدا ہوئی ہے ترے رخ پہ اے صنم
سنبل ہے پیچ پیچ تری زلف و بال دیکھ
مرزامظہرجان جاناںکے کلام میںجو کچھ مضامین باندھے گئے ہیں وہ خیالی نہیں بلکہ اصلی اور حقیقی ہیں ،یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ کلام میں عاشقانہ مزاج دیکھ کر عوام الناس تڑپ اٹھتے ہیں اور دل میں میٹھامیٹھاسادردمحسوس کیے بنا نہیں رہ پاتے۔محمدحسین آزاداپنی کتاب ’’آب حیات‘‘میں لکھتے ہیں:
’’ان کے کلام میں مضامین عاشقانہ عجب تڑپ دکھاتے ہیں اوریہ مقام تعجب نہیں کیونکہ وہ قدرتی عاشق مزاج تھے ،اوروں کے کلام میں یہ مضامین خیالی ہیں،ان کے اصل حال۔‘‘ (ص: ۱۷۳)
اب ملاوٹی کلام اوردکھاوٹی خیالات کے درمیان جب خالص جذبات اورلطیف کلام مل جائے توسننے والاکیوںنہ اثرلے۔ چنانچہ اس وجہ سے بھی مرزامظہرجان جاناں کے کلام کی چاشنی اور اثرانگیزی لوگوں کواپنی طرف مائل کرلیتی ہے ،جیسے یہ کلام:
رسوا اگر نہ کرنا تھا عالم میں یوں مجھے
ایسی نگاہ ناز سے دیکھا تھا کیوں مجھے
چلے کیا زور چشموں کا کہو دریائے شورا کا
نہ دی نالوںنے مجھ آنکھوںکوفرصت کھل کے رونے کی
گر یہ سرد مہری تجھ کو آسائش نہ سکھلاتی
توکیوں کر آفتاب حسن کی گرمی میں نیند آتی
آتش کہو، شرارہ کہو، کوئلہ کہو
مت اس ستارہ سوختہ کو دل کہا کرو
مرزامظہرجان جاناں کے کلام کی زبان وبیان سے متعلق محمدحسین آزادلکھتے ہیں:
’’زبان ان(مرزامظہر) کی نہایت صاف وشستہ وشفاف ہے ۔‘‘(آب حیات، ص: 173)
دوسری جگہ لکھتے ہیں:’’جوسودااورمیرکی زبان ہے وہی ان کی(مرزامظہر)زبان ہے۔‘‘(آب حیات، ص:175 )

محمدحسین آزادکے اس بیان کی روسے دیکھیں تو مرزامظہرجان جاناں کی زبان وبیان میرؔ اورسوداؔدونوں کے مقابلے کہیں زیادہ ارفع واعلی ہے ۔وہ یوںکہ مرزامحمدرفیع سوداؔاپنے کلام میں شوکت الفاظ پر زوردیتے تھے اور میرتقی میرؔسادگی وسلاست پر زیادہ توجہ دیتے تھے ،اس لیے سودا ؔکے کلام میں شوکت الفاظ ہے تومیرؔ کی سی سادگی نہیںاورمیرؔ کے کلام میں سادگی ہے تو سودؔا کی سی شوکت الفاظ نہیں۔جب کہ مرزامظہرجان جان جاناںکے کلام میں شوکت الفاظ کا برمحل استعمال بھی ہے اورسادگی وسلاست کی مٹھاس بھی۔
تصوف کی بازگشت
اگرمختصر لفظوںمیںکہاجائے تو اسلام،ایمان اوراحسان کے مجموعے کا نام تصوف ہے ، لیکن صوفیۂ کرام نے احسان پر زیادہ زوردیاہے۔اب اس کسوٹی پر مرزا مظہر جان جاناں کی شاعری میں تصوف کی بازیافت کی جائے تو پوری تشفی حاصل ہوتی ہے اور اس کی واحد وجہ ہے مرزا کا تصوف سے مربوط ہونا،چونکہ وہ نقشبندیہ سلسلے سے منسلک تھے اس لیے ان پر تصوف کا رنگ و روغن چڑھنا فطری امرہے،بلکہ وہ نقشبندی سلسلے سے مربوط نہ بھی ہوتے تو بھی مزاج ایسا پایاتھا کہ وہ تصوف کی جانب مائل ہوئے بغیر نہ رہتے اور جس کا رشتہ تصوف سے اس قدر مضبوط اورگہرا ہو اوروہ شاعربھی ہوتواس کے کلام میں تصوف کا آنا لازمی ہے، وہ چاہ کر بھی اس سے بچ نہیں سکتاہے، یہی کچھ مرزامظہرجاناںکے ساتھ بھی ہوا کہ ان کے کلام میں تصوف کی واضح بازگشت سنائی دیتی ہے، جس نے مرزاکی غزل گوئی کولازوال بنادیااورایسا کیوںنہ ہو کہ ان کی غزل گوئی کی بنیادہی عشق ومحبت ہے جو قلبی واردات سے تعلق رکھتی ہے۔
عام غزل میں بھی عشق وعاشقی کا وجود ہوتا ہے اور صوفیانہ غزل میں بھی ،لیکن دونوںمیں بنیادی فرق یہ ہے کہ صوفی شاعر حقیقی عشق کے نورسے شرابورہوتاہے جب کہ عام غزل گوعشق مجازی کی آگ میں جلتاہے۔بہرحال!اس بات سے انکارممکن نہیں کہ غزل گوئی کی ترقی میں صوفیانہ شاعری کا اہم کردارہے ۔آج ہم جو رعنائی اورتوانائی غزل میں محسوس کررہے ہیں وہ تصوف کی مرہون منت ہے۔مولاناشبلی نعمانی لکھتے ہیں:
’’اس کشش یعنی عشق کامبداحسن ہے۔یعنی حسن جہاںپایاجائے گا یہ کشش بھی ہوگی اور جس قدر حسن کامل تر ہوگااسی قدرکشش بھی زیادہ قوی اورسخت ہوگی اورچونکہ حسن کامل صرف شاہد حقیقی میں پایاجاتاہے، اس لیے عشق بھی وہی کامل جوشاہد حقیقی سے تعلق رکھتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضرات صوفیہ کی شاعری میںجوجذبہ اور اثرہے اوروں کے کلام میں اس کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ حضرات صوفیہ کا مطلوب عموماً شاہد حقیقی ہے اس لیے ان کا عشق ہوا وہوس سے پاک اورنہایت قوی اور مستقل ہوتاہے۔مجازی حسن ناکامل اور سریع الزوال ہے۔اس لیے عشق مجازی میں وہ زور،وہ جذبہ، وہ استقلال نہیں ہوسکتا جو عشق حقیقی کا خاصہ ہے۔...
عشق میں سیکڑوںقسم کی وارداتیں پیش آتی ہیں۔محویت، شوق، جانبازی، شکایت، انتظار، وصل،ہجر،یہ تمام واردات اور جذبات عام شاعری کے موضوع ہیں۔لیکن یہی جذبات جب تصوف کی زبان سے اداہوتے ہیں تو ان میں نہایت زوراورجوش پیدا ہوجاتا ہے۔...اس موقع پریہ شبہ ہوسکتا ہے کہ عشق مجازی میں جووارداتیں پیش آتی ہیں عشق حقیقی میں ان کا کیا موقع ہے۔ شاہدحقیقی (یعنی ذات باری) زمان، مکان، صورت، شکل، سمت اورجہت سے مطلق بری ہے۔ دیدار،وصال،فراق،انتظار، شوق، محویت، جذبات، کا کیامحل ہے۔لیکن واقعہ یہ ہے کہ عارف پر ذاتی اورصفاتی تجلیات اور مشاہدات میں جو کیفیات گزرتی ہیں وہ عشق مجازی کی واردات سے بالکل ملتی جلتی ہیں۔ اس لیے اسی قسم کے لیکن زیادہ لطیف زیادہ پرجوش اورزیادہ پاک جذبات پیداہوتے ہیں اور صوفی شعراانھیں کو عام الفاظ میں اداکرتے ہیں۔‘‘ (شعرالعجم،جلد:5،ص:84-87)
اورمرزامظہرجان جاناںکے کلام کی خوبی بھی یہی ہے کہ وہ سیدھے سادے اور عام الفاظ میں کہے گئے ہیں اور اس پر صوفیانہ رنگ اور عشق حقیقی کی آمیزش ،ان کے کلام میں اوربھی لطف ، شیرینی،تازگی، رعنائی اوربالیدگی پیداکردیتی ہے۔
لیکن اہم بات یہ ہے کہ مرزامظہرکے کلام میںصوفیانہ مضامین کی کثرت کے باوجود رنگ تغزل کہیں کم نہیں ہوااورنہ ہی کہیں کوئی خشکی یا بدمزگی کا احساس ہوتاہے ،عبدالرزاق قریشی لکھتے ہیں:’’مرزاصاحب صوفی تھے۔ان کی ساری عمرسلوک اورارشادوہدایت میں گزری۔اس لیے صوفیانہ مضامین کا ان کے یہاں ہوناناگزیرتھا۔ انھوںنے ’سردلبری‘ کوبڑی دل کشی وندرت کے ساتھ ’’فاش‘‘کیاہے اورلطف یہ ہے کہ ان اشعار میںزہدکی خشکی نہیں بلکہ تغزل کی رنگینی ورعنائی ہے۔‘‘ (مرزامظہرجان جاناںاوران کاکلام،ص:162)
یہ تمام باتیں ان اشعارمیں محسوس کی جاسکتی ہیں:
الٰہی درد و غم کی سرزمیں کا حال کیا ہوتا
محبت گر ہماری چشم تر سے مینہ نہ برساتی
یہ دل کب عشق کے قابل رہا ہے
کہاں اس کو دماغ و دل رہا ہے
سجن کس کس مزہ سے آج دیکھا مجھ طرف یارو
اشارہ کرکے دیکھا، ہنس کے دیکھا، مسکرا دیکھا
اگر ملئے تو خفت ہے و گر دوری قیامت ہے
غرض نازک دماغوں کو محبت سخت آفت ہے
مرا جلتا ہے دل اس بلبلِ بے کس کی غربت پر
کہ گل کے آسرے پر جن نے چھوڑا آشیاں اپنا
رقیباں کی نہ کچھ تقصیر ثابت ہے نہ خوباں کی
مجھے ناحق ستاتا ہے یہ عشقِ بد گماں اپنا
اسی معجزبیانی کو دیکھ کرسید انشاء اللہ خاں جیسے زبان داں،مرزامظہرکے کلام کی چاشنی کو لایزال کہنے پرمجبورہوئے،انشاکے اس نظریے کو ’’دریائے لطافت ‘‘سے مع فارسی عبارت مولانا محمدحسین آزادنے اپنی کتاب ’’آب حیات ‘‘میں نقل کیاہے ،جس کا خلاصہ یہ ہے :
’’ایک بارجب یہ بندہ ٔگنہ گاروالدمغفورکے ساتھ دارالخلافہ میںتھاتو فیض مآب مرزا جان جاناں مظہرعلیہ الرحمہ کی فصاحت وبلاغت کاچرچا سنا۔میرے دل اورآنکھ میںکشمکش ہونے لگی کہ مرزا صاحب کے دیدارسے میںکیوںمحروم رہا اوران بزرگ کے کلام معجزنظام میں جو لایزال روحانی اور جاودانی لذت وسرور ہے اس سے خودکوکیوںبازرکھا ۔چاروناچاران سے ملاقات کے لیے گئے۔ وہ جامع مسجدسے متصل ایک مقام پر تھے اورشریفانہ وبزرگانہ لباس میں ملبوس تھے۔ میں نے ان کی بارگاہ میںادب کے ساتھ سلام پیش کیا۔اس فرط عنایت اورمکارم اخلاق کے ساتھ میرے سلام کا جواب دیااور اپنے قریب میں بٹھایاجو اللہ کے نیک بندوںکا شیوہ رہاہے۔‘‘ (ص:174)
نیازفتح پوری جیسامستنداورباشعورنقادنے ہندوستان کے جن پانچ شاعروں کو ایرانی مسلم الثبوت کے مقابلے پیش کیا ہے ان میں ایک نام مرزا مظہر جان جاناں کا بھی ہے،مرزاکی غزل گوئی کے تعلق سے وہ لکھتے ہیں:
’’ان کی غزل گوئی میں سعدی ومابعدسعدی دونوں زمانوں کارنگ سمویاہواہے۔‘‘ (انتقادیات،جلد:2،ص:209)
بالفاظ دیگرہم یہ کہہ سکتے ہیںکہ مرزامظہرجان جاناں کے کلام میںسعدی کی سی سادگی و صفائی،لطافت وچاشنی،سوزوگداز،شستگی وشگفتگی،موسیقیت وغنائیت،دلکشی ورعنائی اورکیفیات عشق کے سوسواظہارتوملتے ہیںلیکن ان تمام خصوصیات پر تصوف کا رنگ زیادہ غالب وحاوی ہے: ؎
سحر اس حسن کے خورشید کو جا کر جگا دیکھا
ظہور حق کو دیکھا خوب دیکھا باضیا دیکھا
جو اٹھ کر نیند سے تری طرف دیکھااوسارا دن
طماچہ قہر کا دیکھا، غضب دیکھا، بلا دیکھا
معاون کتابیں:
1-معمولات مظہریہ،محمدنعیم الدین بہرائچی،مترجم:محمدالطاف نیروی،کرمانوالہ بک شاپ ، لاہور ۲۰۰۹ء
2-مرزامظہرجان جاناں کے خطوط،مرتب:ڈاکٹر خلیق انجم،مکتبہ برہان ،اردوبازار،جامع مسجد، دہلی-۱۹۸۹ء۔
3-مقامات مظہری،تالیف:شاہ غلام علی دہلوی ،مترجم:محمداقبال مجددی،لاہور۔۲۰۰۱ء۔
4-مرزامظہرجان جاناں اوران کاکلام،مرتب:عبدالرزاق قریشی،دارالمصنفین ،اعظم گڈھ۲۰۰۴ء
5-آب حیات،تالیف:محمدحسین آزاد،احسان بکڈپو،لکھنو،مطبوعہ شاہی پریس لکھنو۔سنہ ندارد۔
6-تذکرۂ ہندی،غلام ہمدانی مصحفی،انجمن ترقی اردوہند۔۱۹۳۴ء۔
7-تذکرہ مشائخ نقشبندیہ،علامہ محمدنوربخش توکلی،مشتاق بک کارنر،اردوبازار،لاہور۔
8-شعرالعجم،جلد:۵،مولانا شبلی نعمانی،معارف پریس،یوپی۔۱۹۴۰ء۔
9-انتقادیات،نیازفتح پوری،جلد:۲،ناشر:عبدالحق اکیڈمی،حیدرآباد،سنہ ندارد۔
11۔مرزامظہرجان جاناں،ان کاعہداوراردوشاعری،سیدتبارک علی، ناشر: مصنف، ۱۹۸۸ء
Md Jahangir Hasan Misbahi
About the Author: Md Jahangir Hasan Misbahi Read More Articles by Md Jahangir Hasan Misbahi: 37 Articles with 52019 views I M Jahangir Hasan From Delhi India.. View More