بچوں کانامور ادیب اور پولیس انسپکٹر احمد عدنان طارق

آٹھ کتابوں اورآٹھ سو سے زائد کہانیوں کے مصنف ،بچوں کے معروف ادیب،احمد عدنان طارق کے حوالے سے ایک خصوصی تحریر
بچوں کے لیے لکھنا ایک مشکل ترین کام ہے اس لیے ہی اس فیلڈ میں کم لکھاری نظر آتے ہیں ۔اس کی وجوہات میں سے ایک وجہ بچہ بن کے لکھنا پڑتا ہے ۔جو کہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ۔بچوں کے لیے ایسا ادب تخلیق کرنا جس سے ان کی تربیت مقصود ہو اصل میں قوم کی تربیت ہے، اپنے مستقبل کی تربیت ہے ۔ہمارے بچوں کے لیے لکھنے والوں کو ادیب ہی نہیں مانا جاتا ،ان کو معاوضہ نہیں دیا جاتا،حتی کہ بچوں کا وہ میگزین جس میں ان کی کہانی شائع ہوئی ہو وہ تک اعزازی تک نہیں دیا جاتا ۔لیکن احمد عدنان طارق صاحب کوان چیزوں کی ضرورت نہیں ہے ۔ان کے سامنے مقصد ہے اسی وجہ سے بچوں کے لیے اتنا اچھا ادب تخلیق کر رہے ہیں ۔وہ بچوں کو سچائی کا درس دیتا ہے ۔انہیں ہنساتا ہے ،بنساتے ہوئے ،ان کو حیران کرتے ہوئے ،ان کی تربیت کرتا ہے ۔

میری ایک عادت ہے کہ میں جب تک کسی کتاب کو پڑھ نہ لوں اس پر نہیں لکھتا ۔میں اسے ادب سے بے ایمانی تصور کرتا ہوں ۔زندگی کی بے پناہ مصروفیت میں الجھ کر کافی دنوں تک احمد عدنان طارق کی کتابوں کو پڑھنے کا موقع نہیں مل رہا تھا ۔ایک بار احمد عدنان طارق کا فون آیا کہ ّ’’کیسی لگی کہانیاں ‘‘ میں شرمندہ ہوا ۔اسی دن میں نے بے دلی سے کتاب اٹھائی اور پڑھنے لگا ۔پھر کیا تھا میں اپنے بچپن میں کھو گیا۔آنے والا ایک ہفتہ میں جنوں ،بھوتوں ،پریوں کے دیس میں رہا ۔اپنے بچپن میں رہا۔احمد عدنان طارق نے بچوں کے عالمی ادب سے تراجم بھی کئے ہیں اور طبع زاد کہانیاں بھی لکھی ہیں ۔انتخاب تراجم کا کرتے ہوئے معیار و مقصد کا خاص خیال رکھا گیا ۔

معیار طبع زاد کا بھی اعلی ترین ہے ۔بچوں کی تربیت ،حقوق کے لیے صرف نعرے لگانے ،باتیں کرنے سے بڑھ کر ان کی تربیت کے لیے عملی قدم اٹھاتے ہوئے انہوں نے بچوں کے لیے کہانیاں لکھنا شروع کیں ۔ملک کے نامور ادیب جناب احمد عدنان طارق ادبی حوالے سے ایک معتبر نام ہیں۔ان کی کہانیاں ملک کے بڑے ماہناموں (بہت سے بچوں کے رسائل اورا خبارات میں سب میں ہی چند کے سوا ) میں تواتر کے ساتھ شائع ہوکر لاکھوں قارئین تک پہنچ رہی ہیں۔ احمد عدنان طارق ایم اے انگلش ،ایل ایل بی ہیں ۔ احمدعدنان طارق ایک روشن خیال ادیب ہی نہیں بہت شفیق اور زندہ دل انسان بھی ہیں۔ وہ زبان کی صحت اور درستی کا بہت خیال رکھتے ہیں ۔ادب کے حوالے سے تو احمد عدنان طارق کسی تعارف کا محتاج نہیں لیکن ادب کے ساتھ ساتھ وہ حاضر سروس پولیس انسپکٹر بھی ہیں ۔

احمد عدنان طارق کے والد محمد طارق شیخ ، 14 جولائی1963 ء کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے ، ایم اے انگلش تھے وہ بطور ایکسائز آفیسر 1994 ء میں جھنگ سے بطور ETO ریٹائرڈ ہوئے ۔اور 14جولائی 1996ء کو ان کا انتقال ہوگیا ۔ان کی والدہ مسز شمیم ملک بھی ڈبل ایم اے اور ہیڈ مسٹریس تھیں جن کا انتقال14 جولائی 1978 ء کو ہوا ۔

احمد عدنان کی اس وقت عمر صرف 15سال تھی جب ان کی والدہ کا ا نتقال ہوگیا، یہ ان کی زندگی کا سب سے پہلا اور بڑا صدمہ تھا ۔والدہ کی انتقال کے دو دن بعد انہیں میٹرک کا رزلٹ ملاتھا ۔احمد عدنان کے والد اور والدہ دونوں ان کی تاریخ پیدائش والے دن اﷲ کو پیارے ہوئے ۔احمد عدنان طارق پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی ہیں۔ سب کے سب گریجویٹ ہیں۔احمد عدنان طارق نے میٹرک تاندلیانوالہ ہائی سکول سے کیا ۔اور باقی تعلیم گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے حاصل کی ۔ان کی شخصیت کو بنانے سنوارنے میں بچپن کے اساتذہ نے بہت کردار ادا کیا اور خاص کر شخصیت سازی میں والدہ کا بہت زیادہ ہاتھ ہے حالانکہ ان کے ساتھ ان کی رفاقت بہت کم رہی ۔ والد کے بہترین دوست تھے۔

احمد عدنان طارق کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے ۔ ان کی تمام کہانیوں کا ہیرو ان کا بیٹا معاذ ہی ہے ،معاذ بچپن سے ہی دل کا مریض تھا ۔اﷲ پاک نے آپریشن کے بعد اسے صحت دی ہے ۔ ا ﷲ پاک نے انہیں ایک بیٹی تزئین کی رحمت سے بھی نوازا ۔جس کے نام پر انہوں نے اپنی کتاب ’’تزئین اور تتلیاں ‘‘ لکھی ہے ۔اﷲ پاک نے 2008 ء میں انہیں ایک بیٹا احمد عنریق طارق بھی عطا کیا ۔

احمد عدنان طارق کی اب تک آٹھ کتابیں شائع ہو چکی ہیں، دو ہزار تیرہ میں ان کی پہلی کتاب تزئین اور تتلیاں شائع ہوئی ۔ دو ہزار چودہ میں بارش اور گلاب دو ہزار پندرہ میں ننھا اژدھا ، دو ہزار سولہ میں خوابوں کا سوداگر ۔ سبز دروازے کے پیچھے اور ملک ملک کی کہانیاں نیشنل بک فاؤنڈیشن نے شائع کی ہے ۔جبکہ ننھی کہانیوں پر مشتمل دو کتابیں ،گلاب کہانی اور تزئین کہانی بھی شائع ہوچکی ہیں ۔اور اب تک ان کی سات سوسے زائد کہانیاں مختلف رسائل اور اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں ۔

احمد عدنان طارق دنیا بھر سے بچوں کا نایاب و نادر ادب بھی جمع کر رہے ہیں،اس کے لئے انہوں اپنے گھر میں لائیبریری بنارکھی ہے جس میں سینکڑوں کتابیں ہیں ۔جن میں قدیم و جدید بچوں کے ادب کا قیمتی خزانہ موجودہے وہ کہتے ہیں کہ میری زندگی کا یہ سب ہی سرمایہ ہے ۔جس پر مجھے فخر ہے ۔مجھے ان کتابوں ہی نے ایک نئی زندگی عطا کی مجھ میں بہت سی تبدیلیاں آئیں ۔ میں نے زندگی کو سمجھا ۔ اسے بامقصد گزارنے کا عہد کیا ۔بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے لگا ۔ ایک وقت تھا جب میں حالت بیماری میں تھا ،ان کتابوں نے ہی مجھے حوصلہ دیا میرا ساتھ دیااور مجھے جینے کی امنگ دی ۔احمد عدنان طارق نے ایک اور کتاب دوستی کا ثبوت دیا کہ جھنگ ،فیصل آباد ،ٹوبہ ٹیک سنگھ کے پانچ سوسے زائد ہائر سیکنڈری اسکولز کی لائیبریریاں اپنے خرچے سے ٹھیک کروائیں اور وہا ں پر بہت ساری کتابیں رکھ دیں تاکہ طالب علم مطالعہ کر سکیں۔

احمد عدنان طارق بچوں کے لئے عالمی معیار کا خوبصورت ادب تخلیق کررہے ہیں۔ویسے تو اس دورمیں بچوں کے پاس وقت ہی نہیں رہا،سکول سے واپس آئیں تو ٹیوشن کا فیشن چل نکلا ہے اس کے بعد کارٹون ہیں ۔ احمد عدنان طارق کی کتابیں پڑھنے کے بعدمیں دیکھ رہا ہوں کہ بچوں کا ادب دوبارہ زندہ ہو رہا ہے ۔ کیونکہ ان کی ہر کہانی میں اپنا پن ایک نئی چیز اور سب سے بڑھ کر ہر کہانی سبق آموز اور نصیحت آموزہے ۔احمد عدنان طارق نے 9 سال کی عمر میں ادب کو پڑھنا شروع کیا ،سعید لخت صاحب ان کے پہلے پسندیدہ ادیب تھے ،اس کے بعد یونس حسرت نے دل میں جگہ بنائی ۔جبار توقیر ،مقبول جہانگیر ،راز یوسفی وغیرہ نئے ادباء میں نذیر انبالوی ،فہیم عالم ،علی اکمل تصور ،عبدالرشید فاروقی ،ضیا ء اﷲ محسن وغیرہ ۔علاوہ ازیں ابن آس،نوشاد عادل ،جاوید سبام وغیرہ اور بہت سے نئے لکھنے والے جو بچوں کے لئے ایک اچھا ادب لکھ رہے ہیں ۔

ایسی تمام کہانیاں جو معاشرتی ہوں ،چاہے مافوق الفطرت ہوں ۔جن میں بچوں کو غیر محسوس طریقے سے اخلاقی سبق سکھایا گیا ہوپسند ہیں ۔چھوٹے بچوں کے لیے بہت ہی کم ادب لکھا جا رہا ہے ۔ادیب مشاہدے اور مطالعہ کے بغیر لکھتے ہیں ۔کہانی گھر سے شروع ہو کر محلے میں ختم ہو جاتی ہے ۔جس سے بچوں میں کہانیاں پڑھنے کا رحجان ختم ہوتا جا رہا ہے ۔

احمد عدنان طارق نے ملک ملک کی سیر کی ہے سارا یورپ گھوما ،ایشیا اور افریقہ دیکھا ہے ،سمجھا ہے ،پرکھا ہے ۔اس بات کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ انہوں نے مختلف ممالک کی ایسی کہانیاں جو ان ملکوں کی ماں بولی میں ہوں ان کو اردو میں ڈھالا ہی نہیں ،لکھا بھی ہے ۔ویسے وہ بیانیہ لکھتے ہیں ۔نانیوں ،دادیوں کی طرح بچوں کو پکڑ کر کہانیاں سناتے ہیں۔ احمد عدنان طارق قصہ خوانی بازار کا داستان گو بننا چاہتے ہیں ۔

چونکہ وہ بچوں کے لیے لکھتے ہیں اور اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہیں اور بچے بن کر لکھتے ہیں ۔ ان کی طرز تحریر بیانیہ ہے لکھنے کا مقصد ہمیشہ پیش نظر رکھتے ہوئے یہ بھی خیال رکھتے ہیں کہ ان کے لکھے ہوئے کو بچے پسند کریں اور اس میں بچوں کے لئے کچھ سبق بھی ہو ۔ وہ کوشش کرتے ہیں کہ بچوں کی نازک طبیعت پر بوجھ نہ پڑے ۔ وہ بچوں کوملک ملک کی سیر کرواتے ہیں ۔ لفظوں سے ان کے ذہنوں کو قابو کر کے تتلیوں ، جگنوؤں ، بونوں اور پریوں کے دیس میں لے جاتے ہیں اور ساتھ ساتھ کوئی اخلاقی سبق اور نصیحت بھی کرتے جاتے ہیں ۔
Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal
About the Author: Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal Read More Articles by Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal: 496 Articles with 578426 views Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal
Press Reporter at Columnist at Kassowal
Attended Government High School Kassowal
Lives in Kassowal, Punja
.. View More