غالباََ 2009 ء یا10 ،ان دنوں کی بات
ہے جب میرا شعری سفر صرف سرائیکی شاعری تک محدود تھا اور اردو شاعری کی طرف
رجحان کچھ خاص نہ تھا البتہ سرائیکی مشاعروں میں شرکت گاہے بگاہے ضرور ہوتی
۔مقامی اور سرائیکی بیلٹ کے شعری حلقوں میں میرا ایک مختصر تعارف بھی ضرور
تھا۔انھیں دنوں دامان ادبی سرائیکی سنگت اپنے عروج پر تھی جس کے ماہانہ
اجلاس باقاعدگی سے ہوا کرتے تھے اور ہر اجلاس میں باہر سے کسی نہ کسی شاعر
کو ضرور مدعو کیا جاتا۔چوک قریشی سے عباس صادرؔدامان کے اجلاس کے علاوہ بھی
کبھی نہ کبھی آ نکلتے۔
ایک دن میں اپنے اسٹاپ پہ بیٹھا تھا کہ جناب عباس صادر ؔتشریف لائے اوران
کے ساتھ درازقد دبلی پتلی جسامت اورہنستے مسکراتے چہرے کے مالک ایک نوجوان
بھی تھے۔خیر خیریت اور چائے پانی کے بعد میرے استفسار پر عباس صادر نے
تعارف کرایاکہ یہ جی شہزادؔ ملک چوک قریشی کے خوبصورت اردو شاعر ہیں۔شہزاد
ملک کے ساتھ مل کر مجھے ان میں ایک اپنائیت،خلوص اور انس نظر آیا،جو
باقاعدہ تعلق اور قربت کی وجہ بنا۔میل ملاپ کا یہ سلسلہ بعد میں مستقل
بنیادوں پر چل نکلااور میں اکثر ان کے ہاں ان کی بھر پور دعوتوں پر چوک
قریشی چلا جاتا،کبھی ان کی بزم سانجھ کے اجلاس میں بطور مہمان تو کبھی ذاتی
ملاقات کے سلسلے میں ۔
یہ تو تھا شہزادؔملک کے ساتھ میرا انس اور محبت کا رشتہ،مگر وہ شاعر کتنا
بڑا ہے اس حوالے سے شاید میرا قلم اپنا حق ادا نہ کر سکے۔شہزادؔ ملک چوک
قریشی مظفر گڑھ کے نمائندہ شاعروں میں سے ایک ہیں ۔ان کا ادبی قد کاٹھ انکے
عصری تجربے کا محتاج نہیں،اچھا شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ان میں ایک اور
خاصیت اور انفرادیت یہ بھی ہے کہ شہزادؔ ملک ایک مخلص،خوش اخلاق،خوش گفتار
اور ملنسار شخصیت ہیں،ایک وسیع حلقہء احباب رکھتے ہیں ۔مجھے ان کی یہ خوبی
بہت پسندہے کہ جہاں بھی جاتے ہیں پہلی ہی فرصت میں دوستوں کو اکٹھا کر کے
نشست برپا کر دیتے ہیں ۔
ان کی شاعری میں روایت اور جدت دونوں عناصربخوبی پائے جاتے ہیں۔ان کی
ابتدائی شاعری رومانویت سے بھرپور ہے،وہ روائتی اسلوب اپناتے ہوئے عشق و
محبت کے پیامبراور پرچارک دکھائی دیتے ہیں۔شعروں میں سلاست اور روانی،سادہ
الفاظ پر مشتمل عام فہم پر تاثیر اسلوب،جس میں ہجر ِ و وصال،کربِ احساس،اور
غمِ دوراں کے ساتھ غمِ جاناں کے مسائل کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔شہزادؔ ملک
خوبصورت لب و لہجے کے شاعر ہیں ۔ان کی نئی شاعری میں عہدِ حاظر کے مسائل کی
نشاندہی بھی بھر پور طریقے سے کی گئی۔اگر ان کی رومانوی شاعری کا مشاہدہ
کیا جائے تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شہزادؔ ملک محبت اورامن کا شاعر
ہے۔محبت اس کی رگ رگ میں رچی بسی ہے ،لطیف جذبوں کا ترجمان ،ایک حساس اور
زندہ دل عاشق۔جس نے پیار اور محبت میں صرف اور صرف کھویا ہے،پایا کچھ بھی
نہیں۔البتہ ان کا ضمیر مطمئن ہے کہ ان کی یہ صعوبتیں اور امتحان رائیگاں
نہیں گئے۔
میں انتہائے عشق میں قربانیوں کی بدولت انھیں ’’مجنوں ‘‘ کہتا ہوں،مگر اس
مجنوں کو اس کی لیلیٰ نے بہت تڑپایا،بہت رلایا۔اور آفریں اس مجنوں کے ضبط و
تحمل پرجس نے کبھی زندگی کی تلخیوں سے منہ نہیں موڑا،کبھی دوستوں کے سامنے
بے اعتنائی نہیں برتی،اور نہ ہی کبھی اپنے محبوب کے بارے میں انھیں شکوہ
کناں دیکھا۔شہزاد ملک نے ہمیشہ حالات کا بھرپور مقابلہ کیا۔عشق میں ان کی
فریفتگی اور شخصی توقیر کا عالم دیکھئے:
میرا پیار امانت رکھ لو
کچھ دن یار امانت ر کھ لو
اس نے پھر سے سر مانگا ہے
تم دستار امانت رکھ لو
شہزادؔ ملک پیہم ہجر و فراق کی زد میں رہے،وصال ِ یار اور رضائے یارکے
علاوہ نجی زندگی میں حصول ِ مقاصد کے لیے مسلسل محنت،ریاضت اور بھاگ دوڑبھی
کرتے رہے:
تو جو مجھ سے ذرا سا خفا رہ گیا
درد دل میں جو تھا لا دوا رہ گیا
زندگی د و قدم مجھ سے آگے رہی
اور میں عمر بھر بھاگتا ر ہ گیا
شہزادؔ ملک محبوب کی کج ادائی اورہمیشہ بے وفائی کے با وجود انکے ساتھ
مستقل وفا کا عہد کیے بیٹھے ہیں۔کیونکہ حساس مزاج کے مالک شہزادؔ ملک بخوبی
جانتے ہیں کہ درد و الم عشق و محبت کا خاصا ہیں :
تو اگرچہ ہے مجھ سے خفا مستقل
ساتھ تیرے ہے میری وفا مستقل
زندگی کے سبھی درد و غم عارضی
ساتھیا ! ہجر تیر ا ہو ا مستقل
زندگی میں ہر طرح کے نشیب و فراز آتے رہتے ہیں کبھی خوشیاں رقص کرتی ہیں تو
کبھی غم ڈیرے ڈال لیتے ہیں،کبھی نا کامیوں سے واسطہ پڑتا ہے تو کبھی
کامیابی اور کامرانی انسان کا ماتھا چومتی ہیں۔جہانِ ِعشق میں بھی جہاں
قربتوں کے لمحات میں ذہنی و روحانی تسکین اور سرورِلمس کا احساس ہوتا ہے
وہیں انسان کو تہمتوں اور رسوائیوں کو بھی گلے لگانا پڑتا ہے۔کیونکہ دنیا
پیار محبت کے پاکیزہ جذبات اور تعلقات کو بری سوچ، تنگ نظری اور شک کی
نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے ،اور پیار محبت کو تماشا بنا دیا جاتا ہے:
تھی محبت مجھے اور تھا کچھ نہیں
میں نے اس کے سوا تو کیا کچھ نہیں
دنیا والوں نے یوں ہی تماشا کیا
اس تماشے میں ان کو ملا کچھ نہیں
شہزادؔملک کے مزید خوبصورت اشعا ردیکھیے:
فسانہ یاد رکھتا ہوں کہانی یاد رکھتا ہوں
میں تیرے حسنِ تاباں کو زبانی یاد رکھتا ہوں
جب منافق مزاج بدلے گا
پھر ہمارا سماج بدلے گا
من و سلویٰ کو یاد کیا کرنا
تُو بدل جا ، اناج بدلے گا
اس بستی سے تب تک میرا رشتہ قائم ہے
جب تک یہ احساس کہ میری امّی زندہ ہے
آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ ہمہ جہت مقبول شاعر،شہزادؔملک نے بڑی سرعت کے
ساتھ ادبی حلقوں میں نہ صرف خود کو متعارف کروایا بلکہ اپنا ایک اچھا مقام
بھی بنایا۔ وہ ہمیشہ غیر جانبدار اور غیر متنازع رہے ہیں۔ان کا شعری سفرلگن
اور مستقل مزاجی کیساتھ تسلسل میں جاری ہے ،و ہ اپنے جذبات اور خیالات
کوالفاظ کا پیرہن پہنانے کا فن خوب جانتے ہیں،اور اپنے محسوسات کا اظہار
بصورت ِ سخن خوبصورت انداز میں کرتے ہیں ۔میری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ
شہزادؔملک کو اسکی محنت کے ثمرات،مزید شہرت ،ترقی اور کامیابی عطا
فرمائے۔(آمین)
|