شاہی ماہی کباب

 دریائے چناب میں سال 1973میں اگست کے مہینے میں جو قیامت خیز سیلاب آیا اس نے پورے جھنگ شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔دریا ئے چناب کی طوفانی لہروں کا بیس فٹ بلند ریلا جھنگ شہر کی دریائی پانی کی طغیانی سے حفاظت کے لیے مٹی سے بھر کر تعمیر کیے گئے تیس کلو میٹر لمبے ،پچاس فٹ بلند اور بیس فٹ چوڑے مضبوط بند کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے گیا اور اس قدیم اور تاریخی شہر کے گلی کوچوں میں پانی کی سطح آٹھ فٹ کی بلندی تک جا پہنچی۔اس سیلاب کے نتیجے میں جو جانی و مالی نقصان ہوا تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس الم ناک تباہی پرپُورا علاقہ سنسان ہو گیا اور شہر کا شہر سوگوار تھا ۔اس شہر کے مکین بے سروسامانی کے عالم میں در بہ در اور خاک بہ سر تھے مگر کوئی ان کا پرسان حال نہ تھا۔ گردشِ حالات کے گہرے زخم کھانے کے بعد شریف اور وضع دار لوگوں کے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آ پہنچی۔دریائے چناب کے سیلاب کی تباہ کاریوں کے دو چشم دید گواہ میاں نتھا اور میاں گھماں آج بھی اس آفت نا گہانی کی لرزہ خیز کہانی بیان کرتے ہیں تو ان کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگتی ہیں۔یہ دونوں داستان گو جو اپنی زندگی کے نشیب و فراز سے لبریز ایک سو برس دیکھ چکے ہیں اب چراغ ِ سحری ہیں۔تاریخ اور اس کے مسلسل عمل پر گہری نظر رکھنے والے یہ قدیم داستان گو اپنے سینے میں کئی راز لیے ہوئے ہیں۔طویل مسافت کٹ جانے کے بعد سفر کی دُھول کو اپنا پیرہن بنائے یہ ناتواں بُوڑھے یہ سمجھتے ہیں کہ ماضی کے حالات اور واقعات کی تلخی نے ان کی روح کو زخم زخم اور دِل کو کرچی کِرچی کر دیا ہے ۔ ماضی کے یہ معمر داستان گوسیل زماں کے تھپیڑوں کی روداد کچھ اس طرح بیاں کرتے ہیں:
میاں نتھا نے اپنی ٹوٹی ہوئی عینک اپنی ناک پر رکھی اور سر کی گنجی کھوپڑی کے اندر محفوظ یادوں کے گنجِ قارون سے پردہ اُٹھاتے ہوئے کہا:
’’ مقدر کے کھیل بھی عجیب ہوتے ہیں،سچ تو یہ ہے کہ تقدیر کی تو پہچان ہی یہ ہے کہ یہ ہر لمحہ اور ہر گام انسانی تدابیر کی دھجیاں اُڑا دیتی ہے ۔ ہماری پُوری زندگی ایک پیہم جبر اور کرب کے عالم میں بیت گئی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں کسی نا کردہ گناہ کی پاداش میں اس ہوا و ہوس میں حد سے تجاوز کرنے والے بے حس معاشرے میں رہنا پڑا ۔دردِ لادوااور غیر مختتم کرب کی خشک چپاتی پکانے اور اس سے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے ٹیسوں ،سُولوں اور آہوں کی ترکاری تیار کرنے کی خاطر اپنے دِل ،جگر اور استخواں کو بہ طور ایندھن استعمال کرنا پڑتا ہے ۔یہ آٹھ عشرے قبل کی داستان ہے جب جھنگ شہر سے بیس میل کے فاصلے پر جنوب کی سمت دریائے چناب اور جہلم کے سنگم پر واقع بر صغیر میں برطانوی استعمار کے آغاز پرتعمیر کیے جانے والے تریموں ہیڈ ورکس کے مغربی کنارے پر کثرت سے چھپر ہوٹل بن چُکے تھے۔ہر قسم کی سہولیات سے محروم یہ ہوٹل پتھرکے زمانے کا ماحول پیش کرتے تھے۔ مونج کے موٹے بان سے بُنی ہوئی ٹُوٹی پُھوٹی چارپائیوں پر مٹی کے لوٹوں میں دریا کا تازہ پانی اور ساتھ مٹی کے میلے کچیلے پیالے رکھے ہوتے تھے ۔ ان چھپر ہوٹلوں کے نزدیک ہی کچھ تھڑا ہوٹل بھی تھے جہاں گرد آلود ماحول میں کئی بھاڑ جھونکنے والے بھٹیارے اینٹوں کے چولھے پر میلی کڑاہی میں جلا ہوا تیل ڈالے اس کے نیچے جنگل سے چُنی ہوئی لکڑیا ں جلا کر مچھلی کے کباب تل کر فروخت کرتے تھے۔ دریا کی تازہ مچھلی کے کباب کھانے کے شائقین چٹائیوں پر بیٹھ کر مچھلی کے کباب اُڑاتے اور دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو ملا کر اُن میں دریا کا پانی بھر کر شوق سے پیتے اور اپنی پیاس بجھاتے ۔اس طرح عالم ِ شوق کے مناظر دیکھنے کے یہ بے تاب تمنائی فقر و مستی ،قناعت اور غریبی میں بھی نام پیدا کرنے کی سعی کرتے رہتے۔ دو دریاؤں کے سنگم پراس حسین مقام پرسیرو تفریح،سیاحت اور پکنک کی غرض سے آنے والے ہر طبقے کے لوگ اِس پُر فضا مقام پر بیٹھ کر تازہ دریائی مچھلی کے کباب بڑے شوق سے کھاتے اور ایک گُونہ بے خودی کے عالم میں وادیٔ خیال میں مستانہ وار گھومتے ہوئے بہت دُور نکل جاتے۔ ان ہوٹلوں کے ہٹ دھرم مالک اپنے گاہکوں کی پسند اور طلب سے اچھی طرح واقف تھے۔وہ گھٹیا عیاشوں کی نفسیات کو سمجھتے تھے اور ان کی تفریح ِ طبع کا پُورا خیال رکھا جاتا تھا ۔عیش و عشرت اور جنس و جنوں کے لیے درکار سب وسائل اس جگہ دستیاب تھے۔سال 1940میں سردیوں کے آغاز کے ساتھ اس مقام پر فاسٹ فوڈ کی ایک نئی دکان کھلی جس پرجلی حروف میں لکھا تھا ’’شاہی ماہی فرائی شاپ‘‘ ۔ اس اشتہاری بورڈ کے نیچے یہ بھی لکھا تھا ’’کم نگاہی اور کجکلاہی سے دُور ، واہی تباہی اور رُو سیاہی کے فراواں مواقع‘‘ ۔ اس کے ساتھ ہی ایک بدنام طوائف ثباتی، مغنیہ روبی،نائکہ شعاع ،اوررقاصہ پُونم کی نیم عریاں قد آدم تصاویر نصب کی گئی تھیں ۔ ان تصاویر کے نیچے لکھا تھا ، ماہی وے سانوں بھل نہ جاویں ۔عفونت زدہ تیل میں تلی ہوئی مچھلی کی اِس دکان پر کبابوں کے شائقین کا تانتا بندھا رہتا ہے اور کھانے کے اس بڑے چھپر کے مرکزمیں خواجہ سرا گھنگروباندھ کرہرزہ سرا ہوکر کہتے’’ ماہی آوے گا میں اوس نوں کباب کھلاواں گی‘‘۔
شہر کے بدنام اٹھائی گیرے اور ما ہی گیر زادو لدھیک اور اس کے شریک جُرم ساتھی آسفو بلا نے مِل کر شاہی ماہی فرائی شاپ میں دھندے کا آغاز کیا تھا۔اس زمانے میں دیگر شعبوں کی طرح محکمہ آب پاشی اور انتظامیہ میں انگریز اور ہندو چھائے ہوئے تھے اور مسلمانوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ تریموں ہیڈ ورکس کی انتظامیہ کے متعدد با اثر اہل کار بھی شاہی ماہی فرائی شاپ کے کرتا دھرتا بھڑووں کے ساتھ ملے ہوئے تھے ۔ انگریز افسروں اور ہندو اہل کاروں کے لیے رسد کے انتظامات شاہی ماہی فرائی شاپ کی طوائفوں نے سنبھال رکھے تھے ۔ان انتظامات میں تان سین کے خاندان سے تعلق رکھنے والی گوالیار کی رسوائے زمانہ جسم فروش طوائف،مغنیہ اور رقاصہ کنزو سب سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھی ۔یہ ڈھڈو کٹنی نیم عریاں لباس پہن کر شام ہوتے ہی روزانہ اُٹھتی جوانیوں والی دوشیزاؤں اور الھڑ سوانیوں کو جن کی چاندی کی گردنوں میں سونے کی گانیاں سجی ہوتی تھیں ساتھ لے کر محکمہ آب پاشی کے ریسٹ ہاؤس جا پہنچتی اور یہ سب مے ارغوانی اور تازہ دریائی مچھلی کے گرما گرم کباب کھا کر دل کے ارمان پورے کرتی تھیں۔مُوذی و مکار انگریز حاکموں کی طرف سے زادو لُدھیک اور آسفو بلا کو یہ ہدایت کی گئی تھی کہ وہ ہر روز نئے مال کی رسد کو یقینی بنائے۔زاد لدھیک اور آسفو بلا دونوں دُم ہلاتے ہوئے کنزو کے پاس آتے اور اسے یہ قبیح دھندا پُوری راز داری سے جاری رکھنے کے لیے مطلوبہ ر قم فراہم کر دیتے ۔ کنزو نے گرد و نواح کی بہت سے خانگی ٹھاکرائنوں،طوائفوں اور زناخیوں کو ہم نوا بنا رکھا تھا جن کے تعاون سے وہ جنس و جنوں کی ہوس کے مارے عقل کے اندھوں اور گانٹھ کے پُورے بے ضمیروں کی سادیت پسندی ،ذہنی خباثت اور خست و خجالت کی ہر گتھی آسانی سے سلجھا لیتی تھی۔‘‘
جہاں دیدہ داستان گو میاں گھماں جو بڑی توجہ سے یہ گفتگو سن رہا تھا ،ایک آہ بھر کر بولا:
’’ اس دنیا کو محض ایک شیشہ گری کی کار گہ سمجھنا چاہیے جہاں ہر لمحہ خیالِ خاطر احباب رکھتے ہوئے سانس بھی آہستہ لینا پڑتا ہے کہ کہیں آبگینے ٹھیس لگنے سے ٹُوٹ نہ جائیں ۔کنزو نے قحبہ خانوں میں طویل عرصہ گزارا تھا وہ نو دولتیے درندوں اور کالا دھن کمانے والوں کو شیشے میں اُتارنے اورانھیں اپنی انگلیوں پر نچانے کا فن اچھی طرح جانتی تھی۔ عیش و نشاط کی محفلوں میں رنگ رلیاں مناتے ہوئے وہ نظام ِ کائنات کے تلخ و تند حقائق سے بے خبر ر ہی ۔ اسے یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے تھی کہ لبِ بام آنے والا خورشیدِ جہاں تاب روزانہ سرِ شام غروب ہو جاتا ہے ،نجوم ِ فلک اور ماہتاب صبح کے وقت دُور اُفق میں ڈوب جاتے ہیں،رات بھر فروزاں رہنے والی شمعیں دن کے اُجالے میں گُل کر دی جاتی ہیں۔ایام گزشتہ کی کتاب کے اوراق کی ورق گردانی کرتے ہوئے وہ حالات کے جبر ،مسموم ماحول کے کرب اور بیتے ہوئے شباب کے عذاب پر ٹسوے بہاتی اور گلو گیر لہجے میں کہا کرتی تھی :
’’ ہم نے نصف صدی تک ہر ایرے غیرے ،نتھو خیرے کی راہ میں محض چند ٹکوں کی خاطر آنکھیں بچھائیں ۔ بے غیرت ،بے ضمیر ،بے حس متمول بھیڑئیے ہمارے جسم کو نوچتے اور بھنبھوڑتے رہے اور اس کے بدلے میں ہمیں کیا ملا صرف معمولی رقم اور زمانے بھر کی ذلت، رسوائی اور جگ ہنسائی ۔جب ہمارا شباب ڈھل گیا تواس کڑے وقت میں ہماری اپنی نوجوان بیٹیوں نے ہماری جگہ لے لی ،ہمیں دھتکار کر گھر سے نکال دیا اور ہم سے نگاہیں چُرا لیں۔ ہمارے شباب کے زمانے میں ہمارے حسن و جمال پر جان دینے والے بد وضع پروانوں نے جب یہ جان لیا کہ اب ہمارا زمانہ بیت گیا ہے تو اُنھوں نے گلشنِ ہستی میں نئے شگوفوں،عنبر فشاں غنچوں ،ثمر نورس اور حسین کلیوں پر منڈلانا شرع کر دیا۔ہوس پرستوں اور جنسی جنونیوں کے اس بے حس معاشرے میں ایسے خسیس لوگوں کی کمی نہیں جو اہلِ درد کی آنکھوں میں دُھول جھونک کر انھیں بصارت سے محروم کر دیتے ہیں اور پھر حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر سفاک ظلمتوں کو کافور کر نے کا فریب دینے کی غرض سے جھٹپٹے کے وقت سر ِ ر اہ مشعلیں فروزاں کر نے میں نہایت عیاری اور عجلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔‘‘
’’ مجھے ماضی کی ان رسوائے زمانہ طوائفوں کے قبیح کردار اور گھناونے کرتوتوں کے بارے میں مکمل آگاہی حاصل ہے ۔‘‘ میاں نتھا کھانستے ہوئے بولا’’ان طوائفوں کے منشیات فروشوں اور جرائم پیشہ درندوں سے گہرے مراسم تھے۔ ان بد طینت چڑیلوں نے بے شمار کلیاں شرر کر دیں اور سیکڑوں گھر بے چراغ کر دئیے۔ہزاروں سال سے ان بد نام طوائفوں کا خاندان اسی طرح ضمیر فروشی اور جسم فروشی کی دلدل میں دھنس کر حرام خوری کی لت میں مبتلا چلا آ رہا ہے ۔ملک بھر کے چھٹے ہوئے بد معاش اور بے حیا بھڑوے اور گھٹیا عیاش ان طوائفوں کے شریک جرم رہے ۔ بخیل مفاد پرست ،خرمست ابن الوقت ،اُجرتی بدمعاش،پیشہ ور قاتل، مکارتلنگے ،بے رحم لُچے ، احمق مسخرے اور مکھی چُوس شہدے ان کے آگے دُم ہلاتے پھرتے تھے۔ جنسی جنون اور ہوس ِزر کی ماری یہ سب طوائفیں اور ان کے بھڑوے عاشق ایڈز کے مہلک مرض میں مبتلا ہو گئے تھے اور ان کی زندگی ایک عذاب سے کم نہ تھی ۔کنزو کی محرم راز اور رذیل طوائف ظلو ہمیشہ کنزی کی ہاں میں ہاں ملاتی اور اس کے اشاروں پر ناچتی تھی۔ بیتے دنوں کی یاد میں جب باسی کڑھی میں اُبال آتا تو ظلومگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے اکثر کہا کرتی تھی :
’’سنگلاخ چٹانوں اور جامد و ساکت پتھروں سے بھرے ہوئے اس معاشرے میں ہر جگہ بکاؤ مال کی فراوانی ہے ۔ چاند کے مانند صبیح چہرے،ناگن کی طرح بل کھاتی ہوئی سیاہ زلفیں، چُوڑیوں سے بھری سفید کلائیاں اور لہراتے ہوئے نیم عریاں بازو،گلاب کی پنکھڑیوں اور لعلِ ناب جیسے لب ، چاہِ زنخداں، چشم غزال،عشوہ،غمزہ، حسن و ادا کا گنجِ گراں مایہ ،،ناز و انداز اورمنھ زور شباب کی اُمنگیں اور جذبات کی ترنگیں سب کچھ بکا ؤ مال ہے۔فصلی بٹیرے ہمارا سب اثاثہ لُوٹ کر لمبی اُڑانیں بھر گئے۔اب تو ہماری خاک میں کچھ بھی باقی نہیں بچا۔زندگی میں خرچی کی کمائی سے تجوری بھرنے کی کوششوں میں یہ بات یا دنہ رہی کہ میری گود تو کب سے خالی ہے ۔اس مقصد کے لیے میں سیال کوٹ گئی اور مسلسل تین اتوار وہاں پورن بھگت کے کنویں کے پانی سے غسل کیا۔تین ہزار سال پرانے پُورن بھگت کے کنویں سے چرخڑی سے بندھے چمڑے کے کئی ڈول بھر کر پانی نکالا۔ نہانے کے لیے بنائی گئی خاص جگہ پر بیٹھ کر میں وہاں خوب نہائی مگر میری زندگی کی بے ثمر رُتوں کو پُورن بھگت کے کنویں کا پانی بھی ہریالی نہ دے سکا۔نا چار میں نے کُوڑے کے ڈھیر سے ملنے والی دو بچیاں گود لیں ،انھیں پروان چڑھایا اور انھیں رقص و سرود کی تربیت دی اور طوائف کی زندگی کے اسرار و رموز سے آگاہ کیا ۔حیف صد حیف کی میری پروردہ ان مشکوک نسب کی حسیناؤں نے مجھے بے نیلِ مرام گھر سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔احسان فراموش معاشرہ جہاں محسن کشی روز کا معمول بن جائے وہاں وفا کا صلہ ہمیشہ جفا کی صورت ہی میں ملتا ہے۔‘‘
ضعف پیری سے نڈھال اور تلخ حالات سے دِلبرداشتہ میاں گھماں نے آہ بھر کر کہا ’’ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں گدڑی کے لعل کا کوئی پرسان حال ہی نہیں جب کہ ہر طرف کھوٹے سکے خوب چل رہے ہیں۔کالے دھن میں اس قدر قوت ہے کہ جس طرح کچا پپیتا بُوڑھے اونٹ کے گوشت کو تھوڑی سی دیر میں گلا دیتا ہے ،اسی طرح جب کسی کی دال نہ گل رہی ہو تو وہ کالا دھن استعما ل کر کے پتھر اور چٹان کو بھی گلا سکتا ہے ۔خلوص ،مروّت،ایثار اور وفا کے آبِ شیریں سے لبریز کنویں میں جب ہوس ،جنسی جنون اور جفا کا خارش زدہ سگ راہ گِر پڑے تو وہاں سے عفونت و سڑاند کے اس قدر بھبھوکے اُٹھتے ہیں کہ سانس لینا اور راہ چلنا دشوار ہو جاتا ہے ۔جب معاشرے سے وفا اُٹھ جائے تو وہ جس ہولناک بے حسی اور اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہو جاتا ہے اور اس سے نجات جناتی سرمائے سے بھی ممکن نہیں۔‘‘
شاہی ماہی فرائی شاپ کے ساتھ ہی ان ننگِ انسانیت درندوں،سفاک قاتلوں اور پیشہ ور لُٹیروں نے ایک چنڈو خا نہ اور قحبہ خانہ بھی کھول رکھا تھا۔ جہاں رات بھر مو سیقی،رقص و سرود اور جنس و جنوں کے قبیح سلسلے جاری رہتے ۔ طوائفیں اور خواجہ سرا بندِقبا سے بے نیازہو کراچھل کود اور دھما چوکڑی میں مصروف رہتے ۔
دو بڑے دریاؤں کے سنگم پر عجیب پُر اسرار ماحول تھا۔دریائے چناب کی طوفانی لہریں الھڑ دوشیزہ سوہنی کے ڈوب مرنے کے غم میں کناروں سے سر پٹختی ہوئی گزرتیں تو دیکھنے والوں کے دِل پر قیامت گزر جاتی۔ چشم بینا پر یہ حقیقت واضح ہو جاتی کہ دریاؤ ں کو سدا اپنی لہروں کی روانی اور اُٹھتی ہوئی موجوں کی طغیانی سے دلچسپی ہوتی ہے ۔دریاؤں کی لہروں کو اس بات کی ہر گز فکر نہیں ہوتی کہ کسی کا سفینہ گرداب میں پھنس کر منجدھار میں غرقاب ہو گیا ہے یا کوئی تیراک طوفانی لہروں میں اُلجھ کر زندگی کی بازی ہار گیا ہے ۔ دریاؤ ں کا طوفان حسن و رومان کے ہیجان کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتا ہے۔ تریموں ہیڈورکس سے کچھ فاصلے پر شمال کی جانب دریائے چناب کی تین فٹ کے قریب بلند ٹھاٹیں مارتی ہوئی بلاخیز موجیں اپنی پُوری روانی اور طغیانی کے ساتھ دریائے جہلم کی آہستہ خرام اور درماندہ لہروں کو دبوچ لیتی ہیں اور ان پر حاوی ہو جاتی ہیں ۔یہی وہ مقام ہے جہاں دریائے جہلم کا وجود ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا ہے۔مقامی ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ صدیوں سے اس مقام پر بے شمار نہنگوں نے اپنا ٹھکانہ بنا رکھا ہے ۔دریا بُرد کی جانے والی دُور سے بہہ کر آنے والی ننگ انسانیت درندوں کی لاشیں ان خون آشام نہنگوں کا لقمۂ تر بن جاتی ہیں۔ تریموں ہیڈ ورکس سے آگے صرف دریائے چناب ہی ملتان کی جانب اپنی روانی اور طغیانی کے ساتھ رواں دواں رہتا ہے ۔بھارتی مقبوضہ کشمیر میں واقع ہمالیہ کے پیر پنجال کے آسمان سے باتیں کرتے ہوئے پہاڑی سلسلے کی ڈھلانوں میں ورناگ کے چشمے سے زمین کی جانب اپنے بہاؤ کا آغاز کرنے والا اور سری نگرکے نواحی علاقوں سے گزرتا ہوا یہ دریا جس نے دریائے نیلم اور دریائے کنہار کے پانیوں کو اپنے دامن میں سمو لیا پاکستان کے شہر جہلم ، خوشاب اور کوٹ شاکر کو سیراب کرتا ہواسات سو پچیس کلو میٹر کی طویل مسافت طے کرنے کے بعد اپنی پہچان اور وجود تریموں کے مقام پر کھو دیتا ہے۔اسی دریا پر مٹی سے بھرا ہوا دنیا کا سب سے بڑا ڈیم منگلا کے مقام پر 1967میں تعمیر کیا گیا تھا ۔اس سے بہتر (72)کلو میٹر نیچے رسول بیراج کی تعمیر نو کا کام سال 1968میں مکمل ہوا۔دریاؤں کی روانی اور دفعتاً ان کی گم نامی بے مہریٔ عالم کی دلیل ہے جہاں بڑے بڑے نامیوں کے نشاں تک باقی نہیں رہتے۔ان حقائق سے یہ راز کُھلتا ہے کہ سیر جہاں کا حاصل حیرت اور حسرت کے سوا کچھ بھی نہیں۔
ایک صدی قبل تریموں ہیڈ ورکس کے مقام سے کچھ دُور ایک گھنا جنگل تھا ۔یہ جنگل کیا تھا اِک طویلا تھا جہاں جرائم پیشہ سفاک لٹیروں،مفرور مجرموں،منشیات فروشوں ،سمگلروں،بھتہ خوروں اورجنسی جنونیوں کا میلا لگتا تھا ۔ اس پُر اسرار طویلے کی ہر بلا ان ننگ انسانیت درندوں اور لنگوروں کے سر ہوتی جنھوں نے دریا کے کنارے چھپر ہوٹل بنا رکھے تھے۔اس گھنے جنگل میں سانپ،اژدہا ،بچھو،بھیڑئیے ، لنگور،باگڑ بِلے ،گیدڑ ،نیولے، چیتے،شیر ،جنگلی سور ،خار پُشت،بجو اور مافوق الفطرت عناصر کثرت سے پائے جاتے تھے۔اس دُور افتادہ پس ماندہ علاقے کے ناخواندہ لوگوں نے اِس پُر اسرار جنگل میں کئی آدم خور، چلتے پھرتے ہوئے مُردے ،متکلم انسانی ڈھانچے ، سر کٹے انسانوں کی ٹولیاں، ہوا میں محو پرواز ہیولے ،دل دہلا دینے والی آوازیں نکالنے والے حشرات ، منھ سے شعلے اُگلنے والے مار خور، دیو ،بُھوت،چڑیلیں ،جن ،پریاں اور پچھل پیریاں دیکھیں۔سب سے بڑھ کر حیران کن بات یہ تھی کہ زمانہ قدیم سے تعلق رکھنے والے بہت سے ایسے رسوائے زمانہ گُرگِ باراں دیدہ جو زمین کا بوجھ بن گئے تھے ان کی بد روحیں اس جنگل کے جرائم پیشہ افراد کی ہم نوالہ و ہم پیالہ بن جاتی تھیں اور عیش و نشاط کا طویل سلسلہ جاری رہتا۔جن ابلیس نژاد درندوں کی بد روحیں اس جنگل میں روپوش منشیات فروشوں اور دہشت گردوں کی مہمان بنتیں ان میں راسپوٹین،رابن ہُڈ،ہلاکوخان،ہٹلر ،مسولینی،چنگیز خان،نعمت خان کلانونت ،لال کنور ،زہرہ کنجڑن،میر جعفر ،میر صادق اور ڈائر شامل تھے۔زادو لدھیک اور آ سفو بلا اپنے ان پُرکھوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے ۔ اپنی سیاہ کاریوں اور کالے جادو کے بل بوتے پر ان نا ہنجار بے ضمیروں نے کالا دھن بٹورنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی تھی۔ پُورے ہند سندھ میں قتل ،ڈکیتی،اغوا ،دہشت گردی اور جنسی جنون کی جو بھی واردات ہوتی کھوج لگانے والے اس کا نشان اسی پُر ہول جگہ پر تلاش کرتے تھے۔ بر طانوی استبداد کے پروردہ اور مراعات یافتہ چور محل میں جنم لینے والے اور چور دروازے سے جاہ و منصب پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے سانپ تلے کے عقرب اور اُن کے متعدد عزیز و اقارب یہاں اکثر آتے اور شرم و حیا کو دریا بُرد کر کے رات بھر داد ِعیش دیتے اور صبح ہوتے ہی غسلِ آفتابی کے مزے لیتے۔ سارے گاؤں والے دریا کے کنارے موجود بھڑووں ،طوائفوں، لُچوں اور تلنگوں کے اس طوفان بدتمیزی سے عاجز آگئے ۔سب لوگ جھولیاں اُٹھا کر ان سفہا اور اجلاف و ارذال کے لیے بددعائیں کرتے کہ یہ جلد فطرت کی تعزیروں کی زد میں آئیں۔
اس پُر اسرار جنگل میں پائی جانے والی مافوق الفطرت مخلوق کے معمولات اور سرگرمیوں کے بارے میں تفصیلات اور ان کے معمولات سے وابستہ تمام حقائق سے کوئی واقف نہ تھا۔ قحبہ خانے کے بڑھتے ہوئے جنسی جنون کو مافوق الفطرت مخلوق بھی نفرت کی نگاہ سے دیکھتی تھی ۔کئی بار ایسا ہوا کہ دوران رقص فحش حرکات کرتی ہوئی ان رذیل طوائفوں پر فاختہ کی جسامت کے بے شمار چمگادڑمنڈلاتے ہوئے نمودار ہوتے اور ان رذیل طوائفوں کے سر اور چہرے پر بڑی مقدار میں محلول کی صورت میں اپنا عفونت زدہ ضماد گرا کر فضا میں گُم ہو جاتے ۔ بادی النظر میں یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح تھی کہ جنگل کے طول و عرض میں پائے جانے والے دوسری دنیاؤں سے تعلق رکھنے والے عناصر کو بھی دریا کے کنارے ہمہ وقت جاری رہنے والی عریانی اور فحاشی سے شدید نفرت تھی۔ایک دِن لال کنور نے اپنی ہم جولیوں سے رازدارانہ لہجے میں کہا:
’’ سو پشت سے ہمارا خاندان پیشہ ور طوائفوں کادھندہ کرتا چلا آیا ہے مگر میں نے اپنے پیشے سے خرچی کے ذریعے جس قدر زرومال سمیٹا تاریخ ہر دور میں اس پر حیران و پریشان اور پشیمان رہے گی۔میں نے ناز وادا کے وار سے مغل بادشاہ جہاں دار شاہ کو اس قدر گھائل کیا کہ وہ میری دل کشی اور حسن کا قائل ہو گیا اور خود چل کر میرے کوٹھے پر پہنچا۔میں نے اس عقل کے اندھے بادشاہ کو اپنی زلفوں کا قیدی بنایا،اسے اپنا گرویدہ بنا کر امتیاز محل کا لقب حاصل کیا اور ملکۂ ہند بن گئی۔ میں نے اپنا جسم ضروربیچا لیکن اس کی قیمت بھی بھرپور وصول کی،میرا چچا زاد بھائی نعمت خان کلاونت ملتان کا صوبے دار بنا کئی عزیز منصب دار بنے۔ اس وقت میرے پہلو میں جو مہ جبیں حسینہ بیٹھی ہے یہ میری ہم پیشہ ،ہم راز اورہم جولی زہرہ کنجڑن ہے جو میرے ساتھ قصر ِشاہی میں پہنچی اور لا ل قلعہ میں منتظر ملکۂ ہند بن گئی۔‘‘
زہرہ کنجڑن نے لال کنور کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور ممنونیت کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
’’ ماضی کی یادیں ہمارے لیے سوہانِ روح بن گئی ہیں۔ہمار ا شباب بھی عالم شتاب میں رخصت ہو گیا لیکن ہم نے اس کا بھر پور فائدہ اُٹھایا۔اُٹھتی جوانی میں جب میرا دل شدت کرب سے بیٹھ جاتا تو میں نے ہمیشہ لا ل کنور کے قیمتی مشوروں پر عمل کیا ۔ ہمارے قحبہ خانے کے دروازے پر عیاش تاجر،بگڑے ہوئے رؤسا ، دولت کے نشے میں چُورراجے اور قوت و ہیبت کے زعم میں مبتلا مہاراجے سر جھکا کر پہروں کھڑے رہتے تھے تب کہیں انھیں ہماری بزم میں جگہ ملتی تھی۔اب تو یہ حال ہے کہ جس عیاش کو پورا معاشرہ دھتکار دیتا ہے وہ قحبہ خانے کا رُخ کرتا ہے اور کالے دھن کے بل بوتے پر اپنا منھ کالا کرنے کے جتن کرتا ہے اور طوائفوں پر نوٹ نچھاور کرنے کے لیے کئی پاپڑ بیلتا ہے۔ عہدِ شباب میں جسم فروشی کے ساتھ ساتھ اپنے کھیتوں کی سبزیاں اور تربوز بیچنا میرا پیشہ تھا مگر میں ہر سبزی اور تربوز کے ساتھ اپنے جسم کے نرخ کا فرق سب گاہکوں پر واضح کر دیتی تھی تاکہ کوئی کسی غلط فہمی میں مبتلا ہو کر اپنے جی کا زیاں نہ کرے۔ ہمارے بعد جنس و جنوں کے سب افسانے خیال و خواب بن چُکے ہیں اب تو آوے کا آوا ہی بگڑ چکا ہے اور ہر بو الہوس نے حسن پرستی کو اپنا وتیرہ بنا رکھا ہے ۔اس قبیح روش نے جنس و جنوں کے سب افسانے عبرت کے تازیانے بنا دئیے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ نئے دور کی چکا چوند نے طوائفوں کو خجل کر دیا ہے اور قحبہ خانے کی طوائفوں نے جنس و جنوں کی ارزانی سے خود اپنا خانہ خراب کر لیا ہے ۔ ‘‘
اپنے عہد میں وادیٔ جنس و ہوس کاایک آبلہ پا رہرو اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے نمودار ہوا ۔یہ ماضی کا رسوائے زمانہ جنسی جنونی راسپوٹین تھا جو چاک گریباں وہاں آ پہنچا اور بولا:
’’آہ! یہ دریا کے کنارے منشیات فروشی، جنسی بے راہ روی، فحاشی اور عریانی کا جو گھناونا دھندا ان ننگ انسانیت درندوں نے شروع کر رکھا ہے اسے دیکھ کر کلیجہ منھ کو آتا ہے ۔یہ سب لوگ بھیڑئیے اور گدھ ہیں جو گرش ایام کی زد میں آجانے والے عیاش انسانوں کو نوچ کر کھانے میں لگے ہیں۔آسفو ،رنگو ،زادو لُدھیک،تارو ،گھونسہ بیابانی،عارو موہانہ اور روپن مل جنھوں نے دریا کے کنارے یہ قحبہ خانہ اور چنڈو خانہ تعمیر کر رکھا ہے وہاں ملک بھر کے جن درندوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں وہ سب اپنی بد اعمالیوں کے باعث مردودِ خلائق ہیں۔ میں نے جنسی ہوس کی خاطر گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے مگر ماضی کا کوئی بھی جنسی جنونی ان بے غیرتوں کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ زمانہ قبل از تاریخ سے لے کر ماضی قریب تک دنیا بھر کے ہوس پرست بھڑووں نے جہاں اپنی جنسی ہوس کاسفر ختم کیا، وہا ں سے ان لُچوں اور تلنگوں کی شرم ناک مسافت کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ چلتے ہیں تودو طرفہ ندامت اور اہلِ نظر کی ملامت مسلسل ان کا تعاقب کرتی ہے ۔حالات نے جو رُخ اختیار کر رکھا ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بہت جلد یہ سب ظالم حالات کی زد میں آ کر رہیں گے۔جب یہ شتر بے مہار آسمان سے باتیں کرنے والے کوہسارکے نیچے آئیں گے تو انھیں آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا اور انھیں صرف اپنی اوقات ہی نہیں چھٹی کے دودھ کے ساتھ نانی کی یاد بھی ستانے لگے گی۔‘‘
پُر اسرار مافوق الفطرت مخلوق میں شامل انسانوں کی طرح روانی سے بولنے والے طیور اور درندے اس علاقے کے ہر باشندے نے اکثر دیکھے تھے۔ایک دُم کٹا گدھا جنگل کے قانون اور جنگل کے حالات سے ناخوش و بیزار دکھائی دیتا تھا ۔ایک دِن اس نے اپنے ایک رازدان چغد سے کہا:
’’میں اب جنگل کے قانون اور یہاں کے کٹھن حالات سے تنگ آ چُکا ہوں ۔میں بہت جلد نزدیکی قصبے میں جانا چاہتا ہوں ۔‘‘
’’یہ بھی خوب رہی !ایسی مجنونانہ سوچ اور احمقانہ فیصلے پر جس قدر بھی گریہ و زاری کی جائے بر محل ہو گی ۔‘‘چغد نے اپنے دیرینہ رفیق کی باتیں سن کر روتے ہوئے کہا’’ کیا قصبے میں پہلے گدھوں کی کمی ہے جو تم وہاں جا کر قسمت آزمائی کرنے پر تُل گئے ہو ؟جس ماحول میں وارد ہونے کے لیے تمھارے پیٹ میں مروڑ اُٹھ رہے ہیں وہاں جو فروش گندم نما ،بگلا بھگت،گندے انڈوں ،کالی بھیڑوں اور سفید کووں کی پہلے سے بھرمار ہے۔اور گدھوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں ایک کی تلاش میں نکلو راستے میں ایک سو ایک گدھے ہنہناتے ہوئے ملیں گے جودولتیاں جھاڑ کر تمھاری راہ میں لِید بکھیر دیں گے۔‘‘
بِجُو نے اپنے خون آلودپنجے جھاڑتے ہوئے کہا ’’گدھے ،اُلّو ،کرگس،شپر اور زاغ و زغن کی شہروں اور قصبوں میں کوئی کمی نہیں ۔جس طرف نظر دوڑائیں ان کے غول کے غول دکھائی دیتے ہیں۔ارے او عقل سے عاری دُم کٹے گدھے !تم اِسی جنگل میں آرام سے ہو۔اس جنگل کے نواح میں سدا منگل ہی رہتا ہے ۔دو دریاؤ ں کے سنگم پر جو چیزیں موجود ہیں وہ دیکھنے کے قابل ہیں اس لیے انھیں بار بار دیکھا کرو اور اپنے دُم کٹا ہونے پر ناز کیا کرو ۔ جس مقام کو تم للچائی ہوئی نظر سے دیکھ رہے ہووہاں تو کردارسے عاری اندھے ،بہرے،کانے، ناک کٹے ،کان کٹے ،لُولے اور لنگڑے بھی اِتراتے پھرتے ہیں اور اپنے منھ میاں مٹھوبنتے وقت ان کی زبان آری کی طرح چلتی ہے۔جو مسخرا کہیں سے ہلدی کی ایک گانٹھ چُر ا لاتاہے وہ اپنے تئیں پنساری بن بیٹھتا ہے۔‘‘
دریا کے کنارے تھوڑے سے فاصلے پر پھتو موہانہ ،دتو لکڑ ہارا اور نتھو بڑھئی رہتے تھے۔نتھو بڑھئی لکڑی کی کشتیاں تیار کرنے کا ماہر تھا۔وہ خشک چیڑ،چلغوزے،دیودار اور پڑتل کی لکڑی کے بڑے بڑے تختوں کو اس مہارت سے جوڑ کر کشتی تیار کرتاکہ دیکھنے والے اش اش کر اُٹھتے۔ نتھو بڑھئی عام طور پر وہی کشتیاں تیار کرتا جن کی تیاری کے لیے اسے مو ہانے سامان اور محنت کی پیشگی رقم فراہم کر دیتے اور کشتی کی جسامت اور حجم سے بھی مطلع کرتے۔جنگلی درندوں کی دراندازی اور آوارہ کتوں سے بچنے کی خاطر اس نے اپنی خستہ حال جھو نپڑی کے ارد گرد لمبے سر کنڈوں سے ایک کھدھلا سا تیار کیا تھا جو قد آدم دیوار کی صورت میں اس کے گھر کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کافی تھا۔کچھ دنوں سے نتھو بڑھئی ایک کشتی تیار کرنے میں مصروف تھا۔اس کشتی کی تیاری میں وہ دن رات ایک کر رہا تھا اور جلد از جلد اس کشتی کو مکمل کرنے کا خواہش مند تھا۔ایک دن پھتو موہانہ جب نتھو بڑھئی سے ملنے اس کی جھو نپڑی میں پہنچا تو وہ ایک چھوٹی سی خوب صورت کشتی دیکھ کر دم بہ خود رہ گیا ۔اس کشتی میں بہ مشکل پانچ مسافر بیٹھ سکتے تھے۔پھتو موہانہ حیرت و استعجاب کے عالم میں اس کشتی کو دیکھتے ہوئے بولا :
’’ اس چھوٹی سی کشتی کا مالک کون ہے اوراس کشتی میں کون سفر کرے گا ؟‘‘
نتھو بڑھئی نے مسکراتے ہوئے کہا:’’یہ شرم و حیا،اخلاقیات،عزت و ناموس،غیرت مندی ،احساس اور ضمیر کا سفینہ ہے اور وہی اس کے مالک ہیں۔‘‘
’’میں تمھاری ذہنی حالت کو سمجھ گیا ہوں ۔‘‘پھتو مو ہانہ ـآہ بھر کر بولا’’جب سے تمھارا نوجوان اکلوتا بیٹا تمھاری اجازت سے اپنی بیوی اور تین بچوں کو لے کرمحنت مزدوری کے لیے شہرگیا ہے تم تنہائی کا شکار ہو گئے ہو ۔اس کے بعد گزشتہ برس تمھاری بیوی تمھیں دائمی مفارقت دے گئی ۔اس کے ساتھ ہی تمھارا دماغ بھی چل بے چل ہو چکا ہے ۔ عجیب بات ہے تم نے شرم و حیا،اخلاقیات،عزت و ناموس،غیرت مندی ،احساس اور ضمیر کا سفینہ تیار کرنے میں اس قدر محنت اوررقم صرف کر ڈالی۔تم شہر جا کر دماغی امراض کے کسی ماہر معالج سے اپنا طبی معائنہ کراؤ ۔میاں ہوش کے ناخن لو اورسکون قلب کی دوا کھا کر باقی زندگی آرام سے گزارو۔‘‘
’’تم یہ بات نہیں سمجھو گے کہ اصل معاملہ کیا ہے ۔‘‘نتھو بڑھئی نے اپنی پگڑی سے اپنی پیشانی کا پسینہ اورپتھرائی ہوئی پر نم آنکھوں سے بہنے والے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا’’جب کسی بستی کے لوگ عیاشی،بد معاشی،فحاشی،عریانی،ظلم وستم اور عزت و ناموس کی سر عام نیلامی کو دیکھ کر چُپ سادھ لیں اور ٹس سے مس نہ ہوں تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اُس بد قسمت بستی پر بے حسی کاعفریت منڈلا رہا ہے ۔یہ اجتماعی بے حسی کسی بھی بستی کے باشندوں کے لیے بہت بُرا شگون ہے ۔میں اس بستی کے لوگوں کو بُلا کر ان کی موجودگی میں یہ کشتی دریائے چناب کی طوفانی لہروں میں اُتاروں گا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ کشتی جب غرقاب ہو جائے گی تو سب کو بتا دوں گا کہ تمھاری بے حسی کے باعث شرم و حیا،اخلاقیات،عزت و ناموس،غیرت مندی ،احساس اور ضمیر کا سفینہ چھپر ہوٹلوں کے سامنے دریائے چناب کی بپھری موجوں میں غرقاب ہو چُکا ہے۔یہاں شاہی ماہی کباب کی آڑ میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے دیکھ کر شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپانے والے بے حس لوگوں کے لیے میرا یہ اقدام عبرت کا تازیانہ ثابت ہو گا۔‘‘
دتو لکڑ ہارا حیرت کی تصویر بنایہ سب باتیں چپ چا پ سُن رہا تھا ۔اچانک وہ اُٹھا اور اُس نے نتھو بڑھئی کے ہاتھ چُوم لیے اور بولا’’ نتھو بڑھئی ! تم ہمارے عہد کے بہت بڑے دست کار اور مصلح ہو۔تم نے میری آنکھیں کھو ل دی ہیں۔ مجھے تو تم بہت بڑے فلسفی معلوم ہوتے ہوجس نے ارسطو کا تصور المیہ بھی پڑھ رکھا ہے ۔میں گھنے جنگل میں روزانہ لکڑیاں چُننے جاتا ہوں اور یہ لکڑیاں نزدیکی قصبے میں فروخت کر کے اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا ہوں۔گھنے جنگلوں کا بھی سنا ہے کوئی قاعدہ اور قرینہ ہوتا ہے،وہاں کی عجیب الخلقت مخلوق گرد و نواح کے حالات سے با خبر رہتی ہے ۔اس پُر اسرار جنگل میں عجیب مانوس سی مخلوق سے میرا واسطہ پڑتا رہتا ہے جو ہم الم نصیبوں اور دِل فگاروں کے لیے اپنے دِل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔میں تمھارے ساتھ ہوں مگر ابھی اس سفینے کو غرقاب کرنے کا فیصلہ کچھ روز کے لیے ملتوی کر دو ۔یہ بھی تو ممکن ہے کچھ اور لوگ ہمارے ہم نوا بن جائیں اور ہم سب مل کر ان درندوں کو یہاں سے بارہ پتھر کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔‘‘
’’آج سے میں بھی تمھارا ہم زبان ہوں ۔‘‘ پھتو موہانہ بولا’’مجھے خوشی ہوئی ہے کہ اس بستی سے غلاظت کی عفونت ختم کرنے کے بارے میں تم پُورے خلوص سے سوچ رہے ہو۔جلد بازی نہ کرو شاید کچھ اور لوگ بھی ہمارے ساتھ آملیں اور ہم سب مِل کر ظلم و ستم کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کی کوششوں میں کامیاب ہو جائیں۔‘‘
’’بہت دیر ہو چُکی ہے اور اب تو پانی سر سے گزرنے والا ہے ۔‘‘نتھو بڑھئی نے پُر عزم انداز میں کہا’’ٹھیک چار ہفتے بعد میں علامتی انداز میں تیار کیا گیا شرم و حیا،اخلاقیات،عزت و ناموس،غیرت مندی ،احساس اور ضمیر کا سفینہ دریائے چناب کی طوفانی لہروں میں غرقاب کرنے کے بعد دریا کے کنارے بستی کے باشندوں کی بے حسی اور سفینے کی غرقابی پر صفِ ماتم بچھاؤں گا اور تنہائی کی چادر اوڑھ کر زندگی بھر یہ غم نبھاؤ ں گا۔یہاں تک کہ اجل کے ہاتھوں جب زندگی کی شمع بجھ گئی تو عدم کی جانب کُوچ کر جاؤں گا۔‘‘
دتو لکڑ ہارا اور پھتو موہانہ دِل گرفتہ ہو کر وہاں سے ایسے اُٹھے جیسے دشتِ فنا کے بے بس مسافر حسرت و یاس کے عالم میں سب اسباب لُٹا کر جہاں سے اُٹھتے ہیں۔
وقت پر لگا کر اُڑتا رہا، اس قحبہ خانے میں دن کے وقت بھی سفاک ظلمتیں اور پُر ہول سماں دیکھ کر دِل دہل جاتا تھا۔حد نگاہ تک نحوست ،بے برکتی،بے توفیقی،بے ضمیری،بے غیرتی،بے حسی،بے شرمی اور بے حیائی کے اعصاب شکن کتبے نوشتۂ تقدیر کی صورت میں آویزاں محسوس ہوتے تھے۔عجیب لرزہ خیزماحول تھا جس نے طوائفوں ،بھڑووں اور عیاش امرا کے سب فاصلوں کو نگل لیا تھا۔شراب وشباب کے نشے میں بد مست عیاش امرا جب مستانہ وار ناچتے ناچتے سدھ بدھ کھو دیتے تو اوندھے منھ زمین پر دھڑام سے گِرتے۔ایسے حال میں ڈوم ،ڈھاری ،بھانڈ ،بھڑوے ،کلاونت ،مسخرے ،لُچے ،شہدے رجلے اور خجلے ان سب عیاشوں کو ٹُھڈے مارتے اور کفش سے ان کی خوب دُھنائی کرتے تھے مگر یہ چکنے گھڑے اس تضحیک، توہین اور تذلیل کو بڑی ڈھٹائی کے ساتھ پی جاتے اور ہنہناتے رہتے۔ساتھ والے جنگل کی پر اسرار مخلوق بھی ان کی ہر روز شام سے شروع ہونے والی اور صبح تک جاری رہنے والی بے وقت کی راگنی سے نالا ں رہتی تھی۔پنجابی زبان کا یہ قلب اورروح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والا مقبول لوک گیت جب ان بے سُرے بھانڈوں کے ہتھے چڑھا توناقص موسیقی ،آہنگ اور لے میں ہم آہنگی کے فقدان اور بے ڈھنگی ادائیگی کے باعث اس کی تاثیر ہی عنقا ہو گئی۔ یہ ڈُوم گلا پھاڑ پھاڑ کر ڈھول اور سارنگی بجا کر صبح ومسا یہ گیت گاتے اورلوگ کی نیندیں اُڑا دیتے۔ رقص ِ مے کے ساتھ یہ ڈُوم ، ڈومنیاں،بھانڈ،طوائفیں ،خواجہ سرا ،کلاونت اور مسخرے رقص کی صورت میں ہاتھوں میں خنجری تھام کر اسے بجاتے اور اپنی پنڈلیوں کے ساتھ گھنگرو باندھ کر اس طرح پاؤں زمین پر پٹختے جس طرح کچی مٹی میں بُھوسہ اور پانی مِلا کر چھتوں کی لپائی کے لیے کمھار گارا تیار کرنے کے لیے اس میں زور زور سے پاؤں مارتا ہے۔ دُور سے سننے والوں کو خر ،خچر،اسپ اور استرکے ہنہنانے جیسی آوازیں سُن کر یہ گھڑی محشر کی لگتی اور وہ پُکار اُٹھتے کہ ہم سب عرصۂ محشر میں ہیں کیونکہ دجال کے خر کی آواز سے سارا علاقہ گونج اُٹھا ہے ۔نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان خبیث کلاونتوں کی کریہہ آواز سُن سُن کر جنگل کے باسیوں کا قہر بھی حد سے بڑھ گیا۔ جس گیت کو ان بے سُرے بھانڈوں نے تختۂ مشق بنا رکھا تھا اس کے بول کچھ یوں تھے:
بالو بتیاں تے ماہی سانوں مارو سنگلاں نال
پیتل بنایا ای سونا بنساں عملاں نال
ترجمہ:
کرو شمعیں فروزاں اور ہمیں ماروزنجیروں سے
ہمیں پیتل بنا ڈالا اب سونا بنیں گے تدبیروں سے
نتھو بڑھئی کے واقعے کو ایک ہفتہ گزر گیا تھا اور گزشتہ روزسے ایک عجیب کیفیت دیکھی جا رہی تھی ۔دسمبر کا مہینہ تھا اور سردی اپنے پورے جوبن پر تھی ۔ہر طرف ہُو کا عالم تھااور مہیب سناٹوں اور سکوتِ مرگ کی کیفیت سے قرب وجوار کے توہم پرست لوگ اور قدیم روایات کے اسیر باشندے سہمے ہوئے تھے۔تشویش ناک بات یہ تھی کہ پُورے علاقے سے طائران خوش نوا ناسازگار ماحول سے تنگ آ کرنا معلوم مقامات کی جانب پرواز کر گئے۔تیتر،بٹیر،تلیر،عنادل،قمریوں ،چڑیوں ،کبوتروں ،فاختاؤں ، موروں اور متعدد طیور کا یوں چپکے سے غائب ہو جانا اور ان کی جگہ بہت بڑی تعداد میں زاغ و زغن ،بُوم و شپر اور کرگسوں کا ہر طرف منڈلانا آفاتِ نا گہانی کی علامت سمجھا جا رہا تھا ۔ سردیوں کی اس خون منجمد کر نے والی رات کے پچھلے پہر جب تنہائیوں کا زہر اور ان بھڑووں کا پھیلایا ہوا شر ناقابلِ برداشت ہو گیا۔گاؤں کے نواح میں واقع پُر اسرارجنگل کی مافوق الفطرت مخلوق نے نیزوں کی انی پر ناقابل استعمال اور بوسیدہ کپڑے باندھے اور ان کو آگ لگا کر ان کی مشعلیں بنائیں ۔ ہاتھوں میں گدھوں اور خچروں کو باندھنے کے لیے استعمال ہونے والے مضبوط زنجیر اٹھائے اور قحبہ خانے، چنڈو خانے اور عشرت کدے کا چاروں طرف سے گھیراؤ کرلیا ۔ بے شمار چڑیلوں ،ڈائنوں،سر کٹی لاشوں،بھبوت ملے آدم خوروں اور مشتعل ہجوم نے سب اُچکوں ،تلنگوں ،لُچوں، مسخروں اور شہدوں کو دبوچ لیا اور کوئی بھی وضیع بچ کر نہ جا سکا۔ قحبہ خانے کے ان مکینوں کے ہاتھ پاؤں رسیوں سے باندھ کر سنگلوں کے ساتھ ان کی بُری طرح ما رکٹائی کی گئی۔ ہجوم میں شامل ڈائنوں نے طوائفوں کو جکڑ لیا اور ا ن کی خوب پٹائی کی ۔ سب طوائفوں نے بہت واویلا مچایا اور اپنی جاں بخشی کی دُہائی دی مگر کسی نے ان کے نالہ ،فریاد اور آہ و زاری پر توجہ نہ دی ۔سب بھڑووں کے ناک اور کان کاٹ دئیے گئے اور بوسیدہ کفش مونج کی رسی میں پرو کر ان کے گلے میں ڈالے گئے ۔ ایک عینک والے بھوت اور انگوٹھی والے جن کے حکم سے ان سب کوگھسیٹ کر دریا کے کنارے پھینک دیا گیا،سب جسم فروش رذیل طوائفوں کا منھ کالا کیا گیا اور ان کے سر کے بال کاٹ دئیے گئے اور بھویں تک مونڈ دی گئیں ۔ قحبہ خانے ،چنڈو خانے اور عشرت کدے کو نذرِ آتش کر دیاگیا اور شراب کی پیٹیاں ٹوٹ کر بہہ گئیں۔اس موقع پر ایک ستم ظریف بُھوت نے بلند آواز میں کہاہم نے تو صرف ان کی فرمائش پوری کی ہے۔ خود ہی کہتے تھے کہ ہمیں شمعیں فروزاں کرکے سنگلوں سے مارو۔ قحبہ خانے کے مکینوں اور وہاں عیاشی میں مصروف کمینوں کی پٹائی سے فارغ ہوکر مافوق الفطرت مخلوق نے اپنے ہاتھو ں میں تھامے ہوئے جلتے ہوئے نیزے زمین میں گاڑدیئے اور واپس جنگل کی جانب روانہ ہوگئے ۔ اس موقع پر قحبہ خانے کا گھیراؤ کرنے والی پُر اسرار مخلوق کے مشتعل ہجوم میں سے کسی ڈائن نے بد نام زمانہ رقاصہ اور طوائف ظلو کی نقل اُتارتے ہوئے یہ تان الاپی :
بتی بال کے بنیرے اُتے رکھنی ہاں
گلی بھل نہ جاوے ماہی میرا
میں سدا راہ سجناں داتکنی ہاں
ترجمہ:
شمع فروزاں کر کے میں منڈیر پہ رکھتی ہوں
میرا ماہی کہیں گلی کا رستہ بُھول نہ جائے
میں تو سدا ساجن کارستہ تکتی ہوں
سدا ساجن کی راہ تکنے والی طوائفوں کو یہ معلوم نہ تھاکہ فطرت کی سخت تعزیروں کے نتیجے میں ذلت ناک انجام اورعبرت ناک موت ان کا تعاقب کر رہی تھی۔ وہ دِن اور آج کا دِن پھر کسی نے ان پیشہ ور طوائفوں اور ان کے بھڑووں کے بارے میں کچھ نہیں سنا ۔آج تک کسی کو ان کااتا پتا معلوم نہ ہو سکا۔قحبہ خانے،چنڈو خانے اور عشرت کدے کے مکمل انہدام کے بعد دریا کے کنارے بُور لدے چھتناروں پر طائرانِ خوش نوا پِھر سے لوٹ کر آنے لگے۔ نسیم سحر اور صبا کے عطر بیز جھونکوں سے فضا مہک اُٹھی۔نزدیکی دیہاتوں کے سادہ لوح مگر معاملہ فہم لوگوں نے اس تمام واقعہ کو فطرت کی سخت تعزیروں پر محمول کیا اور توبہ کرنے لگ گئے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ نتھو بڑھئی ،پھتو موہانہ اور دتو لکڑ ہارا کی کوششیں رنگ لائیں اور بے بس و لاچار لوگوں کو ان درندوں سے نجات ملی ۔کہانی ختم کرتے ہوئے ماضی کے داستان گو میاں نتھا نے کہا:
’’ ہر کہانی کی طرح ہر انسان کی بھی ایک کہانی ہوتی ہے ۔نا معلوم انسان کی زندگی کی کہانی کا آخری موڑ کب آ جائے ۔ہماری پوری زندگی کہانیاں سنتے اور سناتے بیت جاتی ہے مگر ہماری اپنی زندگی کی کہانی نا گفتہ رہ جاتی ہے ۔مجھے اپنے انجام کے بارے میں تو کچھ معلوم نہیں مگر دریا کے کنارے بنایا جانے والا قحبہ خانہ عبرت کی مثال بن گیا۔میں نے اپنے بزرگوں سے یہ بات سنی ہے کہ جنگل کی پُر اسرار مخلوق نے ان بد معاشوں کے تمام ٹھکانے تہس نہس کر دئیے۔آدم خور قبائل کا ایک گروہ بھی اس وقت کہیں سے آ نکلا جنھوں نے سب درندوں کا خون پی لیا اور ان کی بوٹیاں تک نوچ کر کھا گئے۔ اگلی صبح جلے ہوئے قحبہ خانے کے ملبے پر بے شمار اُلّو،کرگس اور زاغ و زغن منڈلا رہے تھے ۔اس آسیب زدہ مقام سے کچھ فاصلے پر ان بد قماش بھڑووں اور رذیل طوائفوں کی ہڈیاں اور کھو پڑیاں بکھری پڑی تھیں جن سے بے شمار کیڑے مکوڑے چمٹے ہوئے تھے۔ مقامی باشندے سالہا سال سے اس مقام کو اسی حوالے سے مکوڑیا ں والا کہتے ہیں ۔آج بھی اس جگہ بے شمار کیڑے مکوڑے رینگتے دکھائی دیتے ہیں جنھیں دیکھ کر یقین ہو جاتا ہے کہ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں کی زد میں آکرجنس و جنوں اور خرچی سے کمائے گئے زرو مال کے سب دفینے اور کبر و نخوت کے سب سفینے غرقاب ہو جاتے ہیں۔‘‘
Ghulam Ibn-e- Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e- Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e- Sultan: 277 Articles with 686798 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.