آج کے شیریں فرہاد

 دیکھا گیا ہے کہ عشق و محبت کی داستانیںگیتوں کے بغیر ادھوری رہتی ہیں۔ ہالی وڈ، بالی وڈ اور لالی وڈ کی جتنی فلمیں بھی بنی ہیں ان میں طربیہ، المیہ سولو یا دوگانے ضرور موجود ملیں گے۔ خوشی کے عالم میں فلمی لیلیٰ مجنوں، ہیر رانجھا، یا شیریں فرہاد اس قسم کے دوگانے گاتے تھے
؎ملتے ہی آنکھیں دل ہوا دیوانہ کسی کا
افسانہ میرا بن گیا افسانہ کسی کا
جب ہیرو ہیروئین معاشی ناہمواری یعنی امیر و غریب کے فرق یا ظالم سماج جو زیادہ تر ان کے مغرور والدین ہوتے تھے یا ولن جو شاید ان کا خود سر اور مغرورکزن ہوتا تھا ۔ معاشرتی پابندیوں کی وجہ سے وہ ایک دوسرے سے دورکردیئے جاتے تھے۔ زیادہ تر فلموں میں کہانی کو اسی طرح ٹوئسٹ Twist(موڑ)دیتے ہوئے ہیرواور ہیروئین کی زندگی Twisterیعنی بگولوں کی نذر کردی جاتی تھی اور جب تک یہ دونوں سماج کی دیواروں کو گرا کر فاصلوں کو قربتوں میں نہ بدل دیتے ، ایک دوسرے سے دور بیٹھ کر المیہ گیتوں کی صورت میں اپنا اپنا دردگاتے اور فلم بینوں کو رلاتے رہتے تھے جیسے
آسماں والے تیری دنیا سے جی گھبرا گیا
جل گیا دل سوز غم سے جب کوئی یاد آگیا
کچھ گلوکار وں کی آوازوں کا سوز و گداز اور اس پر اداکاروں کی درد میں ڈوبی ہوئی اداکاری فلم بینوں کو رلادیتی تھی جبکہ مشرقی خواتین کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنی آنکھوں میں آنسوؤں کی پوری تھیلی محفوظ رکھتی ہیں اور بوقت ضرورت ٹسوے بہاتی رہتی ہیں۔ اتنے دردناک مناظر پر تو انہیں اپنے ماضی کے دکھ بھرے ’’قصے کہانیاں‘‘ بھی یاد آجاتی ہوں گی اس لیے وہ آنسو بہانے میں پوری فراخ دلی کا مظاہرہ کرتی تھیں اور فلم ختم ہونے کے بعد زیادہ تر خواتین متورم آنکھوں اور سرخ نتھنوںکے ساتھ سینما ہال سے باہر آتی تھیں لیکن ان ہی میں سے بعض خواتین جب دورِ حاضر کے شیریں فرہاد کی درد بھری فریاد سنتی ہیں تو کھڑکی میں سے جھانکتے ہوئے دوپٹہ منہ میں ٹھونس کر ہنستی ہیں حالانکہ مذکورہ گیت بھی سوز و گداز میں درج بالا گیتوں سے کسی طور بھی کم نہیں ہے جو اس دورکا پریمی جوڑا وہیل چیئر چلاتے ہوئے ہیمنت کمار اور شمشاد بیگم کے انداز میں گاتے ہوئے گزرتا ہے۔
آٹا روٹی خدا کے نام، دینے والے اللہ کے نام
پیسے دے دے خدا کے نام، دینے والے اللہ کے نام
یہ گیت جب میں نے پہلی مرتبہ سنا اورگائیکوں کو دیکھا تو مجھے خود بھی ہنسی آگئی کیوں کہ یہ دونوں گائیک نہ تو پیشہ ور بھکاری تھے اور نہ ہی انہیں بھیک کی ضرورت تھی وہ تو ایک دوسرے کا سہارا بنے ہوئے محبت کی نئی داستان رقم کررہے تھے جس میں ہاتھ پیر سے معذور فرہاد کی وہیل چیئر کو ہاتھ اور پیروں پر جلنے کے نشان لیے ہوئے شیریں کھینچتی ہوئی مذکورہ ڈوئیٹ گاتے ہوئے اپنے عالیشان بنگلے کی طرف رواں دواں ہوتی ہے۔ فرہاد نہ تو بچپن سے معذور تھا اور نہ ہی جوانی میں ٹریفک حادثے کا شکار ہوا تھا اس کے ہاتھ پیر اس کی حماقت بھری چاہت کی بھینٹ چڑھ گئے تھے جبکہ شیریں بھی اسی کی چاہت کے ہاتھوں، اپنے ہاتھ پیروں پر جلنے کے ان مٹ نشان لئے پھرتی ہے۔ فرہاد کا نام اس کے والدین نے اس کی ظاہری شناخت اور سماجی پہچان کیلئے رکھا تھا لیکن بعد کے حالات و واقعات نے اسے سچ مچ نئے ہزارئیے اور نئی صدی کی شیریں کا فرہاد بنادیا۔ وہ میرا ہم جماعت اور پڑوسی بھی تھا اور پرائمری اسکول میں ہم ساتھ ہی پڑھے تھے۔ فرہاد بچپن سے ہی شرارتی تھا، نچلا بیٹھنا اور خاموش رہنا اس کی فطرت میں شامل ہی نہ تھا۔ اگر کلاس میں کبھی خاموش اور سکون سے بیٹھا ہوتا تب بھی ٹیچرز کو فکر ہوتی کہ نجانے اب یہ کیا شرارت سوچ رہا ہے اور دیکھیں اس کی شرارت اب کون سا نیا گُل کھلاتی ہے۔ گھر اور کلاس دونوں جگہوں پر اپنی شرارتوں کی وجہ سے پٹتا بھی بہت تھا، لیکن پھر بھی باز نہیں آتا تھا۔ ایک دن کلاس ٹیچر نے تمام بچوں سے ہیڈ ماسٹر کے نام چُھٹّی کی درخواست لکھنے کو کہا۔ سب نے لکھ کر دے دی، لیکن جب انہوں نے فرہاد کی درخواست پڑھی تو ہنسی اور غصے کی ملی جلی کیفیت ان پر طاری ہوگئی اور وہ اسی حالت میں اسے کان سے پکڑ کر درخواست سمیت ہیڈ ماسٹر کے پاس لے گئیں اور درخواست ان کے سامنے رکھ کر بولیں ’’ دیکھیں اس شریر نے آپ کو اپنی درخواست میں کیا لکھا ہے، یہ کسی بھی وقت اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتا۔‘‘ ہیڈ ماسٹر صاحب نے فرہاد کی طرف دیکھا جو معصوم سی صورت بنائے انہیں دیکھ رہا تھا، پھر اس کی لکھی ہوئی درخواست کی طرف متوجہ ہوئے جس کا ابتدائیہ اس نے لکھا تھا :
’’ بخدمت جناب ہیڈ ماسٹر صاحب مرحوم و مغفور ‘‘ ہیڈ ماسٹر صاحب نے ابتدائیہ پڑھتے ہی اس سے پوچھا ’’ بیٹے یہ آپ نے کیا لکھا ہے؟‘‘ تو فرہاد صاحب انتہائی سنجیدگی سے گویا ہوئے ’’ جناب لوگ ہر بڑے آدمی کو مرحوم و مغفور لکھتے ہیں، جیسے قائداعظم مرحوم و مغفور، علامہ اقبال مرحوم و مغفور، میرے نزدیک آپ بھی بڑے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں اس لئے میں آپ کو بھی مرحوم و مغفور سمجھتا ہوں۔‘‘ ایک بچے سے اتنا ذہانت آمیز جواب سن کر ہیڈ ماسٹر صاحب بھی حیران رہ گئے اور انہوں نے کلاس ٹیچر سے کہا کہ ’’ اس بچے نے ٹھیک لکھا ہے، تم خواہ مخواہ اسے سزا دلوانے پر تُلی ہو ۔‘‘ امتحانات کی تیاریوں کے سلسلے میں ایک دن ہماری کلاس ٹیچر نے کہا کہ کل تمام بچے تاریخ کا اچھی طرح مطالعہ کرکے آئیں، وہ سوالات پوچھیں گی۔ دوسرے دن کلاس میں موجود ٹیچر سمیت سب ہی یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ فرہاد صاحب مختلف سالوں کے کیلینڈر سامنے رکھے بڑی شد و مد سے انہیں دیکھنے میں مشغول ہیں۔ کلاس ٹیچر کے استفسار پر بولے کہ ’’ میڈم کل آپ نے تاریخ کا مطالعہ کرنے کو کہا تھا، آج میں گزشتہ دس سالوں کے کیلینڈر لے کر آگیا ہوں، میں نے ہر تاریخ کا مطالعہ کرلیا ہے تاکہ آپ جو بھی تاریخ پوچھیں میں دن، مہینے اور سال سمیت بتادوں۔ چھٹّی کے بعد اسکول سے باہر آکر اس کی شرارتوں کا رنگ کچھ اور ہی ہوجاتا تھا، کیونکہ وہ میرے ساتھ ہی گھر واپس جاتا تھا، اس لئے اس کی شرارتوں کا خمیازہ زیادہ تر مجھے ہی بھگتنا پڑتا، وہ تو اپنی معصوم صورت کی وجہ سے بچ نکلتا۔ روزانہ شام کو کھیلنے کے بعد ہم دونوں محلّے کے حلوائی کی دکان پر جا کر دودھ پیتے تھے جس کے پیسے زیادہ تر وہی ادا کرتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی شوخی و شرارتوں میں کمی ہونے کی بجائے اضافہ ہی ہوتا رہا۔ ایک دن اس نے مجھ سمیت چند دوستوں کو اپنے گھر کے سرونٹ کوارٹر میں مشاعرے پر مدعو کیا۔ ہم سب اس دعوت پر حیران تھے کہ بیٹھے بٹھائے اسے مشاعرے کی کیا سوجھی کیونکہ شاعری سے اس کا کبھی دورکا بھی واسطہ نہیں تھا۔ یہ راز بعد میں کھلا کہ اسے پڑوس میں رہنے والے نانا ابا کا موٹا تازہ مرغا پسند آ گیا تھا، جسے ذبح کرکے اس نے خانساماں سے رازداری کی قسم دے کر پکوایا تھا اور اسی مرغ پر دوستوں کی دعوت کی تھی۔ مشاعرے کے آغاز میں ہر شاعر نے آ ںجہانی اور مرحوم و مغفور شعرائے کرام کا کلام خود سے منسوب کرکے سنایا۔ سب سے آخر میں میزبان مشاعرہ یعنی فرہاد کی باری آئی جنہوں نے اپنی شاعری صرف ایک شعر سنا کر ختم کردی،
چوری کی مرغیوں پہ، پل کر جواں ہوئے ہم مرغا پڑوسیوں کا، قومی نشان ہمارا
پوری نظم سنانے کی نوبت اس لئے نہ آ سکی کہ جس وقت میزبان مشاعرہ اپنا مصرع طرح شروع کر رہے تھے، نانا ابا اپنے مرغے کو ڈھونڈتے ہوئے گھرکے بھیدی کی مخبری پر جائے واردات تک پہنچ چکے تھے اور شاعر موصوف کے شعر میں پڑوسیوں کے مرغے کے ذکر نے ان کے شبہے کو تقویت پہنچادی تھی۔ اپنی مرغیوں کے واحد سہارے کی جواں مرگی کے صدمے نے انہیں آمادئہ انتقام کیا اور وہ مجاہدانہ انداز میں کوئے قاتل میں گھس آئے اور انہوں نے محفل مشاعرہ کو اپنی ’’ نانا گیری ‘‘ کی نذرکردیا۔
کچھ عرصے بعد فرہاد کے ابّو اپنے کاروبار کے سلسلے میں دوسرے شہر منتقل ہوگئے یوں فرہاد اور میرا ساتھ چھوٹ گیا۔ دن، ماہ و سال بن کر گزرتے رہے۔ بچپن اور لڑکپن نے خیر باد کہا اور پھر جواں عمری کا آدھا حصہ بھی بیت گیا۔ ایک دن میں بجلی کا بل جمع کرانے کیلئے لائن میں لگا ہوا تھا کہ ایک نوجوان میرے آگے آ کر کھڑا ہوگیا۔ میں نے اسے غصے سے دھکا دے کر لائن سے باہرکردیا۔ وہ چند لمحے تو مجھے ایسے گھورکر دیکھتا رہا جیسے پہچاننے کی کوشش کررہا ہو، پھر چیخ کر بولا، ’’ احسان فراموش مجھے دھکادیتا ہے، بھول گیا وہ دن جو میرے ساتھ گزارے تھے، جا میں بھی تجھے وہ دودھ نہیں بخشوں گا جو برسہا برس تک کلّو حلوائی کی دکان پر پلاتا رہا ۔‘‘ یہ جملے سن کر جیسے مجھے کرنٹ سا لگا اور جب میں نے اس نوجوان کا چہرہ غور سے دیکھا تو وہ فرہاد تھاجو اب ایک قوی ہیکل جوان بن گیا تھا۔ یوں ہم دو بچھڑے ہوئے دوست ایک مرتبہ پھر مل گئے۔ اس ملاقات میں اپنے بیتے ہوئے دنوں کے بارے میں ایک دوسرے کو بتاتے رہے۔ اس کی باتوں میں بچپن کی شوخی و شرارت کا رنگ اب بھی باقی تھا۔
فرہاد کے والد اپنے کاروبار سمیت دوبارہ اسی شہر میں لوٹ آئے تھے، اس لئے میں اور فرہاد ایک مرتبہ پھر ایک جان دو قالب بن گئے۔ اس کے والد نے بہت کوشش کی کہ وہ ان کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹائے، لیکن وہ کاروباری معاملات سے دور رہنے کی کوشش کرتا تھا۔ ذہین تو تھا لیکن اپنی بے چین اور شرارتی طبیعت کی وجہ سے اپنی ذہانت کا درست استعمال کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ والدین کے بہت زیادہ زور دینے پر اپنے والد کے ساتھ ان کے آفس میں بیٹھنے لگا لیکن وہاں بھی اپنی غیر سنجیدہ حرکات اور حماقت آمیز باتوں کی وجہ سے سارے اسٹاف کیلئے دلچسپی کا سامان بن گیا تھا۔ اسے جھوٹے اور بلند و بانگ دعوئوں اور لفّاظیوں سے سخت نفرت تھی۔ ایک مرتبہ اس نے اپنے آفس سے چھٹی لے کر آٹھ دس دوستوں کے ساتھ آئوٹنگ کا پروگرام بنایا۔ ہم مختلف شہروں کی سیر کرتے ہوئے ایک دور افتادہ پہاڑی علاقے میں پہنچے اور وہاں ایک ریسٹ ہائوس میں قیام کیا۔ ریسٹ ہائوس کا چوکیدار عبدالغفور ہمارا دوست بن گیا۔ جب رات کو ہم سیر و تفریح کرکے واپس آتے تو وہ ہمارے پاس ہی آکر بیٹھ جاتا اور روزانہ نئے نئے قصے کہانیاں سناتا جن میں اس کی اپنی بہادری کے کارنامے زیادہ ہوتے تھے۔ ایک دن باتوں باتوں میں ارواح کا ذکر آیا تو عبدالغفور نے بتایا کہ اس کی تو روحوں سے دوستی ہے اور وہ اکثر آدھی رات کو قبرستان جاتا ہے جہاں قبروں میں لیٹے مردے اس سے باتیں کرتے ہیں۔ اس کے اس دعوے کو آزمانے کیلئے میں نے اور فہیم نے اس کے ساتھ قبرستان جانے کا پروگرام طے کیا جبکہ فرہاد جو خاموشی سے اس کی تمام باتیں سنتا رہا تھا، اس نے اور دیگر دوستوں نے ہمارے ساتھ جانے سے معذرت کرلی، جسے ہم نے ان کی بزدلی پر محمول کیا۔ ایک انتہائی تاریک رات فہیم اور میں چوکیدار عبدالغفور کے ہمراہ رات پونے بارہ بجے قبرستان پہنچے، جہاں کا تاریک ماحول دل دہلا دینے والا منظر پیش کررہا تھا، صرف چوکیدار کے ہاتھ میں دبی ہوئی لالٹین کی ٹمٹماتی ہوئی زرد روشنی تاریکی سے نبردآزما ہونے کی کوشش کررہی تھی لیکن اس کی وجہ سے ماحول اور بھی پُرہیبت نظر آرہا تھا۔ قبروں کے درمیان پہنچ کر چوکیدار نے زور سے خالص عربی لب و لہجے میں ’’ السلام وعلیکم یا اہل القبور ‘‘ کہا لیکن دوسرے ہی لمحے صرف ہماری ہی نہیں بلکہ چوکیدارکی بھی خوف سے گھگھی بندھ گئی بلکہ فہیم کی تو چیخیں نکل گئیں کیونکہ ہمارے چاروں طرف قبروں سے سفید کفن میں ملبوس مردے ’’ وعلیکم السلام میاں عبدالغفور ‘‘ کہہ کر اٹھ کھڑے ہو ئے جنہیں دیکھ کر سب سے پہلے دوڑ ہمارے جری اور نڈر چوکیدار نے لگائی جبکہ دوسرا اور تیسرا نمبر میرا اور فہیم کا تھا۔ سرپٹ دوڑتے ہوئے میں نے پیچھے مڑ کر جو دیکھا تو ایک کفن پوش میرے پیچھے پیچھے قبریں پھلانگتا ہوا چلا آرہا تھا۔ میرے قریب پہنچ کر اس نے مجھے دبوچ لیا۔ اس سے پہلے کہ میں دہشت سے بے ہوش ہوتا یا میرا ہارٹ فیل ہوجاتا، اس نے کفن اتارکر جب اپنا چہرہ دکھایا تو وہ فرہاد تھا۔ ریسٹ ہائوس پہنچ کر فرہاد نے بتایا کہ چوکیدار کی زبان سے اس کی بہادری کے من گھڑت قصے سن سن کر وہ تنگ آچکا تھا اور اس نے باقی دوستوں کے ساتھ مل کر اُسے اُس کی جھوٹی کہانیوں سمیت اُس کے گھر تک پہنچانے کا ارادہ کیا، جس دن میں اور فہیم غفور کے ساتھ قبرستان جانے والے تھے، اِسی دن اِس نے سفید لٹھے کا تھان خریدا اور نصف درجن لڑکوں کے ساتھ ہم سے پہلے قبرستان پہنچ گیا جہاں وہ سفیدکپڑا کفن کی طرح لپیٹ کر قبروں کے درمیان لیٹ گئے اور جب ہم قبرستان پہنچے تو چوکیدار عبدالغفور کے سلام کا جواب دیتے ہی یہ مصنوعی مردے ہمارے چاروں طرف قبروں سے اٹھ کرکھڑے ہوگئے۔ بہادری کے اس عملی امتحان میں ناکامی کے بعد عبدالغفور صاحب ہماری وہاں سے روانگی تک تیز بخار میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اپنی جھونپڑی میں ہی لیٹے رہے۔
جس طرح اسے دقیانوسیت سے چِڑ تھی اس سے بھی زیادہ اسے حد سے بڑھی ہوئی جدّت پسندی اور فیشن زدہ ماحول سے نفرت تھی۔ ماڈرنائزیشن کے نام پر غیر ممالک سے درآمد کردہ مضحکہ خیز اور بے ہنگم فیشنوں میں محبوس شخصیات کو دیکھ کر بقول اُس کے، اُسے متلی ہونے لگتی تھی۔ ایک دن معلوم ہوا کہ اس کے خالو مع اپنی دختر کے امریکا سے واپس آکرکراچی شفٹ ہوگئے ہیں اور عارضی طور سے اسی کے گھر میں مقیم ہیں۔ اس کی خالہ زاد بہن شیریں بچپن میں ہی اس سے منسوب کردی گئی تھی جبکہ خالہ کا چند برس قبل امریکا میں ہی انتقال ہوگیا تھا۔ وہ ان دنوں شہر سے باہرگیا ہوا تھا۔ واپس آیا تو اسے ان کی آمد کے بارے میں معلوم ہوا۔ غسل وغیرہ سے فارغ ہوکر وہ لان میں آیا تو اس نے دیکھا کہ جینز اور جیکٹ میں ملبوس ایک عجیب الخلقت شخص اس کی طرف پشت کئے ہوئے بیٹھا اخبارکے مطالعہ میں منہمک تھاجس کی کمر پر لمبی سی چوٹی لہرا رہی تھی۔ اسے دیکھ کر اس کی رگ شرارت پھڑک اٹھی اور وہ چپکے سے اس کے پاس کھڑا ہوگیا اور اس کی چوٹی ہاتھ میں لے کر بولا، ’’ آپ کی دراز زلفیں دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ امریکا میں اب بھی صنف نازک کی چٹیا کی حرمت باقی ہے ورنہ یہاں تو صنف قوی کا پہلا حملہ عورت کی چوٹی پر ہی ہوتا ہے۔ اسے چٹیا سے پکڑ کر پیٹتا ہے جبکہ بسا اوقات ناک چوٹی کاٹ کر اسے گھر سے بھی نکال دیتا ہے، ارے یہاں کے مرد تو عورت پر اپنی مردانگی کی دھاک بٹھانے کیلئے خود چوٹی رکھ کر ایڑی چوٹی کا زور لگادیتے ہیں۔‘‘ چوٹی بردار شخص جو اس کی بکواس نما گفتگو کو سمجھنے کی کوشش کررہا تھا جب اس نے اس کی طرف گھوم کر دیکھا تو فرہاد کے دیوتا کوچ کرگئے کیونکہ اس شخص کے چہرے پر داڑھی بھی لہرا رہی تھی اور وہ کوئی اور نہیں بلکہ اس کے ہونے والے سسر تھے جو امریکی طرز معاشرت کی نشانی کا بوجھ ایک عدد چٹیا کی صورت میں اپنی کمر پر لادے ہوئے کراچی میں وارد ہوئے تھے۔ اسی وقت اس کی نظر شیریں پر پڑی جو ڈرائنگ روم کا دروازہ کھول کر لان میں داخل ہو رہی تھی۔ پونے چھ فٹ قامت، دو من وزنی جثہ اور بوائے کٹ بالوں کے ساتھ شیریں کو فرہاد نے دیکھتے ہی ناپسند کردیا جبکہ شیریں فرہاد کو دیکھ کر پہلی ہی نظر میں دل ہار بیٹھی۔
اپنے بہنوئی اور ہونے والی بہو کی آمد کی خوشی میں اس کی امی نے ایک عظیم الشان دعوت کا اہتمام کیا جس میں فرہاد کے دوستوں کو بھی مدعوکیا گیا۔ فرہاد اپنی ہونے والی بیوی اور سسرکا تعارف اپنے ہر دوست سے ان الفاظ میں کرا رہا تھا۔ ’’ یہ میرے ہونے والے سسر ہیں جنہوں نے اپنی اہلیہ کے انتقال کے بعد اپنی بیٹی کو ماں اور باپ دونوں کا پیاردیا۔ ماں کی کمی پوری کرنے کیلئے انہیں اپنی کمر پر چوٹی بھی رکھنا پڑی یعنی انہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ آگے سے خالو نظر آئیں اور پیچھے سے خالہ، یہی نہیں بلکہ اپنی بیٹی کو بھی لڑکوں کی طرح پالا ہے۔ پہلی بار تو میں بھی نہیں پہچان سکا کہ یہ لڑکی ہے یا لڑکا۔ اس کے خالو جو اس کی تمسخرانہ باتیں بڑی مشکل سے برداشت کر رہے تھے، پارٹی کے بعد انہوں نے فیصلہ سنادیا کہ وہ ایسے بدتمیز اور منہ پھٹ شخص سے اپنی بیٹی کی شادی نہیں کرسکتے۔ اس کے ماں باپ نے ان کا فیصلہ بدلنے کی کافی کوشش کی لیکن انہیں اپنی بے عزتی پر خاصا غصہ چڑھا ہوا تھا جبکہ شیریں اپنے باپ کے یک طرفہ فیصلے کے باوجود اپنے فرہاد کو اس کی حماقتوں سمیت قبول کرنے کو تیار تھی۔
اس واقعے کے بعد شیریں اپنے والد کے ساتھ اپنے ذاتی گھر میں منتقل ہوگئی لیکن اسے فرہاد کی بے رخی کا بہت صدمہ تھا۔ اس نے اپنے والد کو اپنا فیصلہ بھی سنادیا کہ وہ شیریں بنے گی تو صرف فرہاد کی۔ اس کے ڈیڈی نے بھی اس کی ضد کے آگے مشروط طور پر رضامندی کا اظہار کردیا۔ شرط یہ عائد کی کہ فرہاد کو اپنی غیر سنجیدہ حرکتوں اور احمقانہ باتوں کو خیرباد کہنا ہوگا۔ شیریں فرہاد سے دوبارہ تعلقات استوار کرنے اور اس کے دل میں اپنی جگہ بنانے کے طریقے سوچنے لگی۔ اس کیلئے اس نے خود کو فرہاد کی منشاء کے مطابق خالص مشرقی ماحول میں ڈھالنا شروع کیا۔ مغربی لباس کی جگہ مشرقی پہناوا اپنایا۔ بوائے کٹ بالوں کی جگہ پونی ٹیل نے لے لی جو بعد ازاں خوبصورت سی چوٹی کی شکل اختیار کرگئی۔ اس کے بعد اس نے فرہاد کو ایک ریستوران میں لنچ پر مدعو کیا۔ اتفاق سے جس ٹیبل پر وہ دونوں آ کر بیٹھے اس کے پیچھے والی میز پر میں بھی بیٹھا تھا۔ ریستوران میں آنے کے پندرہ منٹ بعد ہی میں نے دیکھا کہ شیریں صاحبہ بغیر لنچ کئے غصے سے پیر پٹختی اکیلی ہی ریستوران سے باہر جا رہی ہیں جبکہ فرہاد ہونقوں کی طرح بیٹھا انہیں جاتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ یہ دیکھ کر میں اس کے پاس گیا اور اس سے ماجرا پوچھا تو معلوم ہوا کہ شیریں نے فرہاد کو منانے کیلئے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’ فرہاد، میں نے تمہاری خاطر خود کوکتنا بدل لیا ہے، یہ مانا کہ میری پرورش امریکا کے آزاد ماحول میں ہوئی ہے لیکن میں ہی وہ ہستی ہوں جو تمہیں بے پناہ پیارکرتی ہے اور تمہارا بڑھاپے تک ساتھ نبھا سکتی ہے۔‘‘ فرہاد صاحب اس پر بولے ’’ سوچ تو میں بھی رہا ہوں کہ خالو سے معافی مانگ کر امی کو تمہارے گھر شادی کی تاریخ طے کرنے کیلئے بھیجوں، لیکن ‘‘… اس نے اپنی بات ادھوری چھوڑدی جس سے شیریں بے چین ہو کر بولی ’’ لیکن کیا فرہاد، بولو تمہیں انتظار کس بات کا ہے؟‘‘ فرہاد صاحب اطمینان سے بولے ’’ تمہارے بوڑھی ہونے کا تاکہ تم بڑھاپے میں میرا ساتھ نبھاسکو۔‘‘
فرہاد صاحب جو شیریں کا مشرقی روپ دیکھ کر شیریں فرہادکی نئی داستان کو عملی شکل دینے کیلئے سنجیدگی سے غور کر رہے تھے اس کے روٹھ کر جانے کے بعد منانے کے طریقے سوچنے لگے۔ اس کیلئے اس نے ماضی و حال کے تمام عشاق کے مطبوعہ اور غیر مطبوعہ آزمودہ نسخوں کا مطالعہ کیا جس کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اپنی محبوبہ کو منانے کیلئے پھول سے بہتر کوئی تحفہ نہیں ہے، لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنی شیریں کے شایان شان کون سا پھول لے کر جائے ۔ گلاب، بیلا یا چنبیلی، اس کے بقول یہ تو عام سے پھول ہیں۔ پھول کے چناؤ کے معاملے میں بھی اس نے انفرادیت کو ملحوظ رکھا۔ وہ محبوبہ کو منانے کیلئے جو پھول لے کرگیا اور وہ پھول جب اس کی نذرکیا تو اس کی محبوبہ نے اسی پھول کو اس کے سر پر دے مارا کیونکہ وہ گوبھی کا پھول تھا، جو وہ شیریں کی بھاری بھرکم جسامت کی مناسبت سے لے کر گیا تھا لیکن شیریں نے اسے تحفہ محبت کی بجائے محبت کی تضحیک قرار دیا۔
اس احمقانہ واقعے کے بعد وہ افسردہ رہنے لگا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ لوگ اس سے اتنی جلد ناراض کیوں ہو جاتے ہیں، اس کی بات کو سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ مجھ سے ملاقات ہوئی تو یہی سوال اس نے مجھ سے کیا تو میں نے اسے کہا کہ اپنی بچکانہ شرارتیں چھوڑدو، تم ہر بات میں ہنسی مذاق کا پہلو تلاش کرتے ہو۔ شیریں کو اگر اپنانے میں سنجیدہ ہو تو اس کے ساتھ غیرسنجیدہ حرکتیں ترک کردو۔ اس نے میرا مشورہ ماننے کا وعدہ کیا لیکن اب سب سے پیچیدہ مسئلہ جو اسے درپیش تھا وہ یہ کہ شیریں کو دوبارہ کیسے منایا جائے۔ میں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ شیریں کی پسند کی مٹھائی لے کر جائے۔ اس نے جواب دیا کہ اسے مٹھائی کے معاملے میں شیریں کی پسند نہیں معلوم۔ میں نے کہا پھر تم اپنی پسند کی مٹھائی لے جانا اور شیریں کو اپنے ہاتھ سے کھلانا۔ اس نے میرے مشورے پر عمل کرنے کی حامی بھری لیکن دوسرے دن وہ پھر میرے پاس روتا بسورتا ہوا موجود تھا۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ میرے مشورے کے مطابق اپنی پسند کی مٹھائی شیریں کیلئے لے کر گیا تھا لیکن جیسے ہی اس نے اسے کھلانے کیلئے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا اس نے وہ ساری مٹھائی اس کے منہ پر دے ماری کیونکہ وہ اپنی محبوبہ کو منانے کے لیے موتی چور کے لڈّو لے کر گیا تھا۔
شیریں فرہاد کی داستان میں خاص ٹریجڈی آ گئی تھی۔ جوں جوں فرہاد اس کے قریب جانے کی کوشش کر رہا تھا، وہ اس سے دور ہوتی جا رہی تھی۔ اس سے بھی زیادہ سخت رویہ شیریں کے ڈیڈی کا تھا، وہ فرہاد کی حماقتوں کی وجہ سے اس سے خاصے الرجک ہوگئے تھے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ اس کی اور شیریں کی شادی تک خطرے میں پڑگئی تھی۔ ایک دن اس نے میرے سامنے بیٹھ کر یہ تہیہ کیا کہ وہ اپنی شیریں کو اپنانے کیلئے ایسا کارنامہ انجام دے گا جو آئندہ نسل کے عشاق کیلئے ایک مثال بن جائے گا۔ میرا ماتھا ٹھنکا اور میں اس کے کسی انتہائی اعلیٰ درجے کی حماقت سے بھرپورکارنامہ سننے کیلئے خود کو ذہنی طور سے تیار کرنے لگا۔
اس کے بعد وہ اکثر میرے گھر پر آجاتا اور مجھ سے ویڈیو فلم دیکھنے کی فرمائش کرتا۔ ویڈیوکیسٹ ہمیشہ وہ ساتھ لے کر آتا اور ایک ہی فلم دیکھا کرتا تھا۔ ماضی کی بھارتی فلم ’’ شیریں فرہاد ‘‘۔ ایک دن اس نے مجھے بتایا کہ اب میری شیریں بھی اس فلم جیسی شیریں بنتی جا رہی ہے۔ ہم دونوں بہت جلد شیریں فرہاد کی نئی لو اسٹوری فلمانے والے ہیں۔ شیریں نے بھی مجھ سے کہا ہے کہ اس کے ڈیڈی مجھے معاف کرنے کو تیار نہیں ہیں اور انہیں منانے کیلئے مجھے اپنے پیش رو فرہاد کی طرح کا کوئی کارنامہ انجام دینا پڑے گا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اس کا کیا ارادہ ہے تو اس نے کہا جب فرہاد انتہائی مشقت کرکے اپنی شیریں کو حاصل کرنے کے لیے پہاڑی چٹان کو کاٹ کر دودھ کی نہر نکال سکتا ہے تو میں اپنی محبت پانے کیلئے اس سائنسی دور میںکیا نہیںکرسکتا۔
ایک روز فرہاد شام کے وقت شیریں کے گھرگیا تو وہ پریشان سی پھر رہی تھی۔ فرہاد کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ ڈیڈی غسل خانے میں ہیں اور وہ غسل کے بعد چائے ضرور پیتے ہیں لیکن دودھ ختم ہوگیا ہے۔ دودھ والا آیا نہیں ہے، سارے ملازم چُھٹّی پر ہیں اور دودھ کی دکان قریب میںکوئی ہے نہیں۔ فرہاد نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اس میں پریشانی کی کیا بات ہے، جب فلم والا فرہاد اپنی شیریں کو پانے کیلئے پہاڑی چٹانوں سے دودھ کی نہر نکال سکتا ہے تو تمہارا فرہاد بھی تمہاری خاطر کہیں سے بھی دودھ لے کر لائے گا، آج خالو بھی تمہارے فرہاد کو مان جائیں گے۔
فرہاد صاحب یہ کہہ کر ایک جنرل اسٹور تک گئے اور نصف درجن خشک دودھ کے پیکٹ اٹھا لائے اور بجائے کچن میں شیریں کے پاس آنے کے وہ ٹاپ فلور کے اوپر پانی کی اوور ہیڈ ٹنکی پر چڑھ گئے اور ٹنکی کا بھاری ڈھکن ہٹا کر اوپر سے آواز لگائی ’’ شیریں جس طرح فرہاد نے شیریں کو پانے کے لئے اس کے ظالم باپ کے حکم پر دودھ کی نہر نکالی تھی اسی طرح میں بھی محبت کی اُسی داستان کو دہرانے جا رہا ہوں۔ تمہارا باپ بھی تمہارے اور میرے درمیان ویسے ہی ظالم باپ کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اسے بھی آج دودھ کی ضرورت آپڑی ہے۔ مجھے تمہارے گھر کے آس پاس کوئی پہاڑی تو مل نہ سکی، اس لئے میں تمہارے گھر کے ہر نلکے سے دودھ کی نہر نکال رہا ہوں‘‘۔ فلم زدہ فرہاد نے یہ ڈائیلاگ ادا کرکے دودھ کے سارے پیکٹ اس ٹنکی میں ڈال دیئے۔ شیریں کے ڈیڈی جو غسل کرنے کیلئے بدن پر صابن لگا کر کھڑے تھے، انہوں نے جب بدن پر پانی بہانے کیلئے شاور کا نل کھولا تو اس میں سے پانی کی جگہ دودھ کا فوارہ برآمد ہوا۔ دوسرا نلکا کھولا تو اس میں سے بھی دودھ کی دھار نکلی، پریشان ہوکر انہوں نے شیریں کو آواز دی۔ ’’ شیریں یہ پانی کے نلکوں کو کیا ہوا، ان میں سے پانی کی جگہ یہ سفید سفید کیا نکل رہا ہے‘‘۔ شیریں نے ہنستے ہوئے کہا ’’ ڈیڈی، فرہاد نے فلم شیریں فرہاد کے سین کی نقّالی کرتے ہوئے آپ کی چائے کیلئے گھر میں سے ہی دودھ کی نہر نکال دی ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی ڈیڈی آپے سے باہر ہوگئے اور وہ اسی حالت میں کپڑے پہن کر غسل خانے سے برآمد ہوئے اور غصے سے دھاڑے کہ میں ایسے احمق اور نامعقول شخص کو مزید اپنے گھر میں برداشت نہیں کر سکتا اور نہ ہی تمہاری شادی اس سے کرکے تمہاری زندگی برباد کر سکتا ہوں‘‘۔ فرہاد جو ابھی تک پانی کی ٹنکی کے کنارے کھڑا شیریں اور اس کے ڈیڈی سے اپنے اس کارنامے پر داد ملنے کا منتظر تھا، شیریں کے ڈیڈی کی زبان سے ان الفاظ کی ادائیگی کے ساتھ ہی چکرا سا گیا اور توازن بگڑنے کے باعث پچیس فٹ کی بلندی سے نیچے آ گرا۔ عین اسی وقت شیریں جو اپنے ڈیڈی کا غصہ ٹھنڈا کرنے کیلئے کھولتا ہوا پانی چائے دانی میں ڈال رہی تھی، فرہاد کی دردناک چیخ سن کر لرزگئی اور وہ سارا پانی اس کے پیٹ، ہاتھ اور پائوں پر آن گرا، آبلہ شکم و آبلہ پا شیریں اپنی اذیتوں کو بھول کر اپنے فرہاد کی مددکیلئے اوپری منزل کی جانب دوڑی جہاں اس کا فرہاد بے ہوش پڑا تھا۔ اس کا ایک ہاتھ اور ٹانگ ٹوٹ گئی تھی جبکہ سر سے بھی خون بہہ رہا تھا۔ شیریں کی گریہ زاری سن کر اس کے ڈیڈی بالائی منزل پر پہنچے اور انہوں نے ایمبولینس منگوا کر دونوں زخمی پریمیوںکو اسپتال پہنچایا جہاں شیریں کو تو ڈریسنگ کرکے اسی روز ڈسچارج کردیا گیا جبکہ فرہاد کو دو مہینے تک اسپتال میں رہنا پڑا، اس دوران اس کی ٹانگ اور ہاتھ کے تین آپریشن کئے گئے لیکن اس کی ٹانگ کی ہڈی نہیں جڑ سکی اور وہ مستقل طور سے معذور ہوگیا۔ اس دوران شیریں دن رات اس کی تیمارداری کرتی رہی جبکہ فرہاد بھی صرف شیریں کو ہی پکارتا رہا۔
اسپتال سے فارغ ہونے کے بعد شیریں اور فرہاد کے والدین نے ان دونوں کی محبت کو دیکھتے ہوئے انہیں رشتہ ازدواج میں منسلک کردیا۔ امریکا کے آزاد معاشرے میں پروان چڑھنے والی شیریں نے اپنے اس دعوے کو سچ ثابت کردکھایا کہ وہ فرہاد کا ہرطرح کے حالات میں سہارا بنے گی۔ آج فرہاد جو بغیر سہارے کے اٹھ نہیں سکتا، وہیل چئیرکے بغیر چل نہیں سکتا، شیریں اسے سہارا دے کر اٹھاتی ہے، اسے کار میں بٹھا کر آفس لے جاتی ہے اور چھٹی کے بعد گھر لاتی ہے۔ شام کو سیر کے لیے وہیل چیئر پر بٹھا کر اسے خود کھنچتی ہوئی پارک تک لے جاتی ہے۔ اس نے خود کو مکمل طور سے فرہاد کے رنگ میں ڈھال لیا ہے۔ آج میں ہندوستانی فلم شیریں فرہاد کے کرداروں کا اِس دور کے حقیقی شیریں فرہاد سے موازنہ کرتا ہوں تو فلم کی عشقیہ کہانی موجودہ دور کے شیریں فرہاد کے جنونی عشق کے سامنے ہیچ لگتی ہے۔ فلمی فرہاد تو دودھ کی نہر نکالنے کے بعد شیریں کی موت کی غیر مصدقہ خبر سن کر سر پر تیشہ مار کر خودکشی کر کے ناکام عشاق کی فہرست میں اپنا نام ثبت کرالیتا ہے اور شیریں اس کی کوئی مدد نہیں کرپاتی جبکہ ہمارے شیریں فرہاد اپنی جان کی بازی لگا کر ایک دوسرے کو حاصل کرلیتے ہیں اور نئے محبت کرنے والوں کیلئے ایک تاریخ رقم کردیتے ہیں۔ فرہاد معذوری کے باوجود وہی ہنستا کھیلتا فرہاد ہے، اپنی شرارتوں سے آج بھی لوگوں کا دل بہلاتا ہے اور شیریں اس کی مضحکہ خیز حرکتوں میں بھی اس کا ساتھ دیتی ہے۔ شیریں جب اسے شام کی سیر کیلئے وہیل چئیر پر بٹھا کر کھینچتے ہوئے لے کر چلتی ہے تو فرہادکی شرارتی رو بہک جاتی ہے اور وہ فقیروں کے انداز میں راگ الاپنے لگتا ہے جس میں شیریں بھی اس کی محبت میں اس کا ساتھ دیتی ہے
آٹا روٹی خدا کے نام، دینے والے اللہ کے نام
دے دے پیسے خدا کے نام، دینے والے اللہ کے نام
 
RAFI ABBASI
About the Author: RAFI ABBASI Read More Articles by RAFI ABBASI: 213 Articles with 226080 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.