کشمیر میں بھارتی مظالم کی صورتحال اور سماجی اثرات

2012ء میں وائس آف امریکہ کے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک پروگرام میں کہا گیا کہ دنیا کے ایسے دیرینہ سیاسی مسائل ،جن کے حل میں پیش رفت نہیں ہو رہی ،ان مسائل کے حوالے سے اگر انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں تو اس سے ان سیاسی مسائل کے پرامن حل کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔اس حوالے سے دیوار برلن کے خاتمے کی مثال دی گئی کہ مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی کا سنگین مسئلہ تھا،آئیڈیا لوجی کے شدید اختلافات تھے لیکن انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دیوار برلن کے انہدام کے اقدام سے جرمنی کا سیاسی مسئلہ بھی حل ہو گیا۔امریکہ کا وہ آئیڈیا دوبارہ سننے میں نہیں آیا۔لیکن بھارت مستقل طور پر کشمیریوں کو ظلم و جبر سے دباتے ہوئے کشمیر کا مسئلہ ظالمانہ طور پر اپنے حق میں حل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی ،بھارتی مظالم اور اس صورتحال کے سماجی و دیگر اثرات کے بارے میں بات کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے علاقے کی ہیت اور وہاں کے لوگوں کے بارے میں بات کی جائے کہ وہ کس طرح کے اورکن طور طریقوں کے لوگ ہیں۔پاکستان میں عمومی طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ جس طرح آزاد کشمیر پہاڑی علاقہ ہے اور جوں جوں کنٹرول لائین کی طرف جاتے جائیں ،پسماندہ علاقے نظر آتے ہیں،اس سے عام شخص کو گمان ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر جو اس سے بھی آگے ہے وہ مزید پسماندہ پہاڑی علاقہ ہو گا جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔وہاں ہزاروں سال سے سرکاری ،شہری نظام قائم ہے اور شرح خواندگی بہتر ہونے کے علاوہ وہاں کا تعلیمی معیار بھی بھارت کے ہم پلہ ہے۔چکوٹھی سے آگے جاتے ہوئے کنٹرول لائین پہ نصب کمان پل عبور کریں تو مقبوضہ کشمیر کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔اس سے آگے ضلع بارہمولہ میں شامل اوڑی کا قصبہ ہے۔اوڑی سے کچھ آگے تک کا علاقہ مظفر آباد سے چکوٹھی کے راستے کی طرح ہے۔جوں ہی بارہمولہ کی حدود شروع ہونے لگتی ہیں تو سفیدے کے درخت نظر آتے ہیں اور ساتھ ہی پہاڑی علاقہ ختم ہو کر وادی کا ہموار علاقہ نظر آتا ہے جہاں جھیلیں،چشمے اور دنیا کے خوبصور ت ترین مقامات ہیں۔یورپ خاص طور پر امریکہ میں سینکڑوں کی تعداد میںمقبوضہ کشمیرکے ڈاکٹر ہیں ۔کچھ ہی عرصہ قبل جس ڈاکٹر نے لندن وزیر اعظم نواز شریف کا آپریشن کیا ،وہ بھی امریکہ میں مقیم ایک کشمیری ڈاکٹر ہے۔کشمیری بہت رکھ رکھائو والے ،اپنی تہذیب و تمدن پر فخر کرنے والے ،روایت پسند لوگ ہیں۔آج جو ہم کشمیر کا کلچر دیکھتے ہیں،وہاں کے تہذیب و تمدن پہ حضرت شاہمدان کا گہرا اثر ہے۔کشمیر کا لباس،کھانا پینا،ان کے طور طریقوں پر حضرت شاہمدان کی تعلیمات،روایات کا گہرا اثر موجود ہے۔کشمیری وازوان بھی وسط ایشیا ،ایران کے کھانوں سے ملتا جلتا ہے۔جس نے کشمیری وازوان کھایا ہو ،وہ بچا طور کہہ سکتا ہے کہ اس نے شاہی دعوت کھائی ہے ،کیونکہ وازوان میں شامل متعدد لذیز ڈشیں باوقار طور پر منفرد انداز میں پیش کی جاتی ہیں۔کشمیری وازوان کھانے والے تا عمر اس دعوت کو یاد رکھتا ہے۔کشمیریوں کے رکھ رکھائو کا یہ عالم ہے کہ اگر وہ کسی کے گھر دعوت پہ جائیں تو وہ خود اپنے ہاتھ سے سالن ڈالنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں،یہ میزبان کا کام ہے کہ اس کے پلیٹ میں چاول ،سالن ڈالے۔کہنے کا مطلب یہ کہ کشمیرکوئی پسماندہ علاقہ نہیں ہے۔کشمیر ریاست کی پانچ ہزار سال کی تاریخ تحریری شکل میں موجود ہے۔دنیا میں بہت کم قوموں کی اتنی طویل تاریخ تحریری شکل میں موجود ہے۔کشمیر میں ہزاروں سال سے سرکاری نظام،شہری نظام قائم ہے۔برسر تذکرہ کہ مقبوضہ کشمیر کے دورے کے موقع پر مجھ سے کئی افراد نے مقبوضہ کشمیر اور آزادکشمیر میں تعمیر و ترقی کا موازنہ کرنے پر مبنی سوال کیا۔ان کو میں نے یہی جواب دیا کہ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کا آپس میں اس حوالے سے موازنہ کرنا غیر مناسب ہے کیونکہ مقبوضہ کشمیر میں ریاستی نظام ہزاروں سال سے قائم چلا آ رہا ہے۔آزاد کشمیر کے نام سے جو علاقے ہمارے پاس ہیں ،اس میں 1947ء سے پہلے کچھ بھی نہیں تھا۔آزاد کشمیر کا سب سے بڑا قصبہ مظفر آباد تھا جہاں ڈوگرہ دور میں اگر کسی سرکاری ملازم کا تبادلہ ہوتا تھا تو یہ سمجھا جاتا تھا کہ اسے سزا کے طور پر اس علاقے میں متعین کیا گیا ہے۔لیکن1947ء کے بعد آج تک آزاد کشمیر میں کئی سو گنا ترقی ہوئی ہے۔جہاں کچھ بھی نہیں تھا وہاں آج کئی میڈیکل کالج،یونیورسٹیاں وغیرہ قائم ہیں۔اگر ہم1947ء سے آج تک دیکھیں تو آزاد کشمیر میں مقبوضہ کشمیر کی نسبت کئی سو گنا زیادہ ترقی ہوئی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں جس طرح ہزاروں سال سے حکومتی،شہری نظام قائم ہے،اسے دیکھتے ہوئے وہاں جو ترقی ہونے چاہئے تھی ،وہ ترقی نہیں ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ 1947ء سے پہلے ڈوگرہ کی خاندانی حکومت تھی ،انہیں انگریزوں نے یہ علاقہ فروخت کیا تھا اور 47ء کے بعد وہاں بھارتی فوج آ گئی اور بھارت کا قبضہ ہو گیا ،یوں ریاست کے 80فیصد سے زائد اکثریت والے کشمیری مسلمان ڈوگرہ حکومت اور پھر بھارت کے زیر عتاب رہے۔بھارت کاقبضہ ہونے کے بعد کشمیریوں پر مظالم،جبر،ظلم،تشدد میں مزید اضافہ ہو گیا۔کشمیریوں نے بدترین غلامی کے باوجود اپنی روایات ،تہذیب وتمدن کو قائم رکھا۔

مقبوضہ کشمیر میں 1980سے سیاسی جدوجہد تیزی ہوئی اور1986میں تمام کشمیری آزادی کے پلیٹ فارم پہ اکھٹے ہو گئے۔کشمیریوں نے مسلم متحدہ محاذ کے نام سے مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا تا کہ مقبوضہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ نام نہاد اتحاد کو مسترد کیا جائے کہ بھارت کے آئین میں ہے کہ کشمیر کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کشمیر اسمبلی کی منظوری سے ہی ہو گا۔لیکن دنیا نے دیکھا کہ بھارت نے بدترین دھاندلی کرتے ہوئے حریت پسند نمائندوں کو ہار ا ہو ا ظاہر کیا،مغربی میڈیا نے بھی اس الیکشن میں بدترین دھاندلی کے بارے میں اپنی واضح رائے دی ۔انہی دنوں افغانستان میں روس کے خلاف لڑائی جاری تھی ۔دیوار برلن کی انہدام کا تاریخی واقعہ پیش آیا۔کشمیریوں میں شدت سے یہ احساس پیدا ہوا کہ اگر انہوں نے آزادی لینی ہے تو انہیں پرامن احتجاج کے بجائے آزادی کی مسلح جدوجہد شروع کرنا ہو گی۔کشمیر کے پڑھے لگے باشعور نوجوانوں نے مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی مسلح جدوجہد شروع کی ۔کشمیری عوام نے اپنے شہداء کی جدوجہد میں کوئی تعطل نہیں آنے دیا اوربھارت سے آزادی کے لئے جدوجہد اور قربانیوں کا سلسلہ انہوں نے جاری رکھا ہوا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں 1988سے اب تک جدوجہد آزادی کے مختلف مراحل آتے رہے ،کبھی مسلح جدوجہد تیز اور کبھی مدھم ہوئی ۔نائن الیون کے بعد بھارت کی کوشش رہی کہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کو دہشت گردی کے طور پر دنیا میں پیش کیا جائے۔لیکن بھارت اپنی تمام تر سازشوں کے باوجود اس میں ناکام رہا۔حالانکہ بھارت کے سفارتی تعلقات دنیا میں بہت اچھے ہیں لیکن اس کے باوجود مغرب،امریکہ نے بھارت کی اس بات کو تسلیم نہیں کیا اور کشمیریوں کی جدوجہد کو دہشت گردی کے طور پر قبول نہیں کیا۔2013ء میں امریکی سٹیٹ ڈیارٹمنٹ نے اپنی معمول کی بریفنگ میں ایک انڈین صحافی کی اس بات کہ کشمیر میں پاکستان دہشت گردی کروا رہا ہے، کے جواب میں کہا کہ آپ مسائل کو غلط ملط نہ کریں،جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کا معاملہ الگ ہے اور کشمیر کا مسئلہ اس سے بالکل الگ معاملہ ہے۔امریکہ کھل کر بھارت کی حمایت کر رہا ہے اور دونوں ملک اب ایک دوسرے کے فوجی اڈے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔اس کے باوجود امریکہ نے یہ واضح کیا ہے کہ دہشت گردی الگ معاملہ ہے اور کشمیر میں جاری جدوجہد،کشمیر کا مسئلہ الگ معاملہ ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کے حق اور بھارت کی مخالفت میں دس دس لاکھ کے جلوس نکلے لیکن کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دنیا سے اس طرح کی حمایت نہیں مل سکی جس طرح کشمیریوں کی قربانیوں ،ان کی جدوجہد کا تقاضہ تھا۔کشمیریوں نے بھارت کو بھر پور طور پر یہ موقع دیا کہ وہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کی راہ اپنائے،پاکستان،کشمیریوں سے مزاکرات کرے اور مسئلہ کشمیر کاا یک منصفانہ اور قابل قبول حل سامنے لائے۔لیکن69سال کی تاریخ گواہ ہے کہ بھارت نے ہرد فعہ کشمیر کا مسئلہ بندوق کی نوک پر حل کرنے کی کوشش کی۔

2012ء میں وائس آف امریکہ کے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک پروگرام میں کہا گیا کہ دنیا کے ایسے دیرینہ سیاسی مسائل ،جن کے حل میں پیش رفت نہیں ہو رہی ،ان مسائل کے حوالے سے اگر انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں تو اس سے ان سیاسی مسائل کے پرامن حل کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔اس حوالے سے دیوار برلن کے خاتمے کی مثال دی گئی کہ مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی کا سنگین مسئلہ تھا،آئیڈیا لوجی کے شدید اختلافات تھے لیکن انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دیوار برلن کے انہدام کے اقدام سے جرمنی کا سیاسی مسئلہ بھی حل ہو گیا۔امریکہ کا وہ آئیڈیا دوبارہ سننے میں نہیں آیا۔لیکن بھارت مستقل طور پر کشمیریوں کو ظلم و جبر سے دباتے ہوئے کشمیر کا مسئلہ ظالمانہ طور پر اپنے حق میں حل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔

اسی سال مقبوضہ کشمیر میں عید الفطر کے تیسرے دن9جولائی کو ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ ایک نوجوان فریڈم فائٹر برہان وانی جنوبی کشمیر میں بھارتی فوج کے ساتھ ایک جھڑپ میں اپنے دو ساتھیوں سمیت شہید ہو گیا۔کشمیر کے مشہور و معروف،مقبول شہید مجاہد کمانڈرز کی ایک طویل فہرست ہے جن سے کشمیری پیار کرتے ہیں،ان کے ساتھ والہانہ عقیدت رکھتے ہیں۔برہان وانی کو زیادہ مشہوری اس بات سے ملی کہ اس نے پہلی مرتبہ باقاعدہ طور پرسوشل میڈیا پہ آزادی کی تحریک کی مہم شروع کی۔برہان وانی 15سال کی عمر میں کشمیری مجاہدین کے ساتھ شامل ہوا۔اس سے پہلے اس کو بھارتی فورسز کے تشدد ،قید،ان کی ذلت کا سامنا کرنا پڑاجس سے پندرہ سال کے معصوم بچے کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنے ہاتھ میںبندوق اٹھا کر بھارت سے آزادی کی مسلح جدوجہد میں شامل ہو گیا۔برہان وانی نے نوجوانوں کو متوجہ کرنے کے لئے سوشل میڈیا کو باقاعدہ طور پر اپنا ہتھیار بنایا۔اس سے برہان وانی،کشمیری حریت پسندوں کا پیغام کشمیریوں میں مقبول ہو گیا۔اس سے بھارت کے لئے بڑا مسئلہ پیدا ہو گیا کیونکہ سوشل میڈیا کی اس مہم سے جنوبی کشمیر کے اضلاع میں ڈیڑھ دو سو ڑھے لکھے نوجوان بھارتی ظلم و ستم کی وجہ سے مسلح جدوجہدمیں شامل ہو گئے۔برہان وانی کی شہادت پر کشمیر کے ہر علاقے میں نوجوان،بچے،بوڑھے زار وقطار رو رہے تھے،جب ان سے صحافیوں نے پوچھا کہ آ پ کیوں رو رہے ہو ،برہان وانی تو دور شہید ہوا ہے،آپ اس کو کس طرح جانتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وہ ہمارا بھائی تھا،کسی نے کہا میرا بیٹا تھا۔برہان وانی کی شہادت کے واقعہ سے کشمیریوں کو بھارت کے خلاف بھر پور طور پر اٹھنے کا موقع ملا۔ اس سے پہلے انڈیا نے مسئلہ کشمیر کو حتمی طور پر اپنے حق میں حل کرنے کے لئے ' ڈیمو گرافک '' تبدیلی کے لئے فیصلہ کن اقدامات شروع کر دیئے تھے کہ انڈیا کے سابق فوجیوں ،ہندوئوں کو مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں خصوصی طور مخصوص کالونیوں میں آباد کیا جائے۔اس میں اس نے پیش رفت شروع کر دی تھی۔مقبوضہ کشمیر کے عوام میں اس کا بڑا احساس تھا کہ بھارت کشمیر کے اکثریتی مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے فیصلہ کن اقدامات شروع کر چکاہے،ہم کیا کریں انڈیا کے خلاف؟اسی صورتحال میں برہان وانی کی شہادت کا واقعہ ہو گیا اور اس سے بھارت کے خلاف غم و غصے سے بھرے ہوئے کشمیریوں کا غصہ بھارت کے خلاف پھٹ پڑا۔کومقبوضہ کشمیر کے ہر علاقے شہر،قصبوں،دیہاتوں میں لوگ گھروں سے باہر نکل آئے اور انہوں نے بھارت کی غیر قانونی و غیر اخلاقی حاکمیت کو چیلنج کیا۔اس صورتحال میں بھارت ایک بڑی مشکل صورتحال میں پھنس گیا۔وہ پریشان ہو گیا کہ اس صورتحال پر کیسے قابو پائے۔بھارت نے حسب روایت کشمیریوں کو جابرانہ طور پر فائرنگ کر کے،خاص طور پر جو انہوں نے اس مرتبہ کیا کہ مہلک چھروں والی پیلٹ گن کا وسیع پیمانے پر مظاہرین کے خلا ف استعمال کیا ۔بھارت فورسز اس کا استعمال گزشتہ کئی سالوں سے کر رہی ہے اور اس سے بڑی تعداد میں خصوصا نوجوان اور نوعمر بچے شدید زخمی ہوئے۔بھارتی فورسز کی فائرنگ سے اتنی بڑی تعدا د میں ہلاکتیں ہوئیں ،لوگ زخمی ہوئے کہ ہسپتالوں کے فرش بھی مریضوں سے بھر گئے۔دوسری طرف بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں اشیائے خورد ونوش کے ساتھ ادویات کی سپلائی بھی روک دی جس سے مقبوضہ کشمیر میں جان بچانے والی ادویات کی شدید قلت ہو گئی ہے۔اب ہسپتالوں میں اتنی گنجائش بھی نہیںہے کہ وہاں مزید زخمیوں کو رکھا جا سکے۔مہینوں پر محیط مسلسل کرفیو،ہڑتال سے لوگوں کو کھانے پینے کے لالے پڑ گئے ۔1988ء سے لیکر اب تک28سال میں اور اب گزشتہ تین ماہ سے نہتے کشمیریوں کی سخت مزاحمت شدت سے جاری ہے ،اس میں کشمیری ہر طرح کی قربانیاں دے رہے ہیں۔کشمیریوں کو اربوں،کھربوں کا مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں8لاکھ بھارتی فوج موجود ہے۔کشمیر تقریبا چالیس ضرب اسی میل علاقے پر مشتمل وادی ہے۔ اب انڈیا نے 4برگیڈ فوج کے علاوہ سینٹرل ریزرو پولیس فورس اور باڈر سیکورٹی فورس کے مزید دستے مقبوضہ کشمیر بھیجے ہیں۔جنوبی کشمیر کے چار اضلاع کلگام،پلوامہ،شوپیاں ،اسلام آ باد (اننت ناگ) مکمل طور پر فوج کے حوالے ہیں۔ایک مربع میل میںتقریبا80بھارتی فوجی متعین ہیں۔یعنی ہر دس کشمیریوں پہ ایک بھارتی فوجی متعین ہے۔مقبوضہ کشمیر کو بجا طور پر بھارتی جیل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہاں درخت ،پودے کم ہیں اور بھارتی فوجی زیادہ۔بھارتی فوجی وہاں حالت جنگ کی طرح کشمیریوں کے خلاف مسلسل متحرک ہے۔

کشمیریوں پر بھارت نے عرصہ دراز سے کشمیریوں پرجو مظالم ڈھائے ہیں،ان کے خلاف ظلم و جبر،تشدد،قید وبند،ہلاکتوں کی جو کاروائیاں کی ہیں،اس سے کشمیریوں کے جسم ہی نہیں ان کی روحیں بھی گھائل ہیں۔پہلے ہمارے بزرگ بتایا کرتے تھے کہ انڈیا نے ہم پر بڑا ظلم کیا ہے ،وہ ہمارا دشمن ہے،ہم نے اس سے آزادی لینی ہے لیکن اب وہاں چھوٹے بچوں کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ بھارت سے نفرت ان کے ''جینز'' میں شامل ہو چکی ہے۔آج کا کوئی کشمیری چاہے نوجوان ہو،خواتین ہوں،چھوٹے بچے ہوں ،کوئی بھی بھارت کی ظالم فوجی طاقت سے خوفزدہ نہیں ہے،وہ بے باک ہو کر باہر نکلتے ہیں،آرمی کی گاڑیاں جلا دیتے ہیں،خالی ہاتھوں ہی انڈین آرمی کو بھاگنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔اس تمام صورتحال کا کشمیر کے امن پسند ،تہذیب یافتہ معاشرے کے لوگوں پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ وہاں کی تقریبا55فیصد آبادی '' ڈپریشن'' میں مبتلا ہے۔ خاص طور پر خواتین بڑی تعدا د میں اس کا شکار ہیں۔ہر وقت خوف ہے ،کچھ معلوم نہیں کہ کس وقت انڈین فورسز گھروں میں داخل ہو کر خواتین ،بچوں ،بوڑھوں،نوجوانوں پر تشدد کرتے ہیں،گھر میں توڑ پھوڑ کریں گے،ہر کشمیری گھر کو اسی صورتحال کا سامنا ہے۔رات کے وقت گھروں میں چھاپے مارے جاتے ہیں،اہل خانہ کو بلا تخصیص تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔یعنی ناقابل بیان صورتحال ہے۔آفرین ہے کشمیریوں پر جو بھارت کے بدترین مظالم کے باوجود کسی صورت اپنے عزم آزادی،جدوجہد اور قربانیوں سے دستبردار ہونے کوتیار نہیں ہیں۔کشمیر کے دلیر نوجوانوں ،بیٹیوں ،بہنوں،بچوں ،بزرگوں کو سلام پیش کرتا ہوں جو بھارت کے تمام تر ظلم و ستم کے باوجود اپنے حق آزادی،مطالبہ آزادی سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں اور نامساعد ترین صورتحال میں بھی اپنی آزادی کی جدوجہد اور قربانیوں کو انہوں نے جاری رکھا ہوا ہے۔سماجی زندگی معیشت سے متاثر ہوتی ہے۔کشمیر سے مختلف نوعیت کے پھل ،خاص طور پر سیب سے لدی روزانہ سینکڑوں گاڑیاں ہندوستان کے مختلف علاقوں میں جاتی ہیں۔یہ اربوں مالیت کی تجارت ہوتی ہے۔اس مرتبہ کشمیری تاجروں نے،باغات مالکان،پھلوں کے تاجروں ،چیمبر آف کامرس کا کہنا ہے کہ ہم اپنے عوام کے ساتھ ہیں،ہم نے اربوں کا نقصان برداشت کیا ہے،اربوں کا مزید بھی برداشت کرلیں گے لیکن اب آزادی تک ہمارے قدم رکیں گے نہیں۔اس موسم میں کشمیر میں دھان(چاول) کی فصل کی کٹائی کا وقت ہے لیکن بھارتی فورسز کشمیریوں کو کھیتوں میں جانے سے روکتی ہے جس سے چاول کی فصلیں بھی خراب ہو رہی ہیں۔بھارتی فوج کشمیریوں کو ہر طرح سے نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔یوں بھارت کشمیریوں کو بھوک ،بیماریوںسے بھی مارنا چاہتا ہے۔اس تمام صورتحال میں سب سے زیادہ خواتین متاثر ہوتی ہیں ۔خاند ان میں سب سے زیادہ حساس خواتین ہوتی ہیں چاہے وہ ماں ہو،بہن ہو،بیٹی ہو یا بیوی۔وہ اپنے بھائی ،باپ ،بیٹے ،شوہر کا دکھ درد سب سے زیادہ محسوس کرتی ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں کی تعداد میں ایسی خواتین ہیں جنہیں '' ہاف وڈوز'' کہا جاتا ہے ،جنہیں کچھ معلوم نہیں ہے کہ ان کے شوہر زندہ ہیں یا مار دیئے گئے ہیں،وہ روز یہی فریاد لیکر سرینگرمیں احتجاج کرتی ہیں کہ خدارا بتایا جائے کہ ان کے شوہر زندہ ہیں یا مر چکے ہیں۔ہزاروں یتیم بچے ہیں جن کا کوئی آسرا نہیں ۔بھارتی مظالم کی صورتحال سے خواتین اور بچے بھی بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔خواتین کو ڈلیوری ،بیماریوں کے باوجود بھارتی فورسز ہسپتال نہیں جانے دیتیں۔گزشتہ تین ماہ میں ایسی خبریں عام ہوئیں کہ بھارتی فورسز نے زخمیوں،بیماروں کو لیجانے والی ایمبولنسز کو روک کر اس میں سوار افراد کو زخمیوں سمیت تشدد کا نشانہ بنایا اورایمولنسز کی توڑ پھوڑ کی۔یہ درندگی کی وہ انتہا ہے جس نے بھارت کودنیا میں عریاں کر دیا ہے۔یور پ،امریکہ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے ہیں لیکن بھارت نے کشمیر میں جو انسانیت سوز کاروائیاں کی ہیں،وہ بھی اس کا دفاع نہیں کر سکے اور مسئلہ کشمیر کو پرامن طور پر بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ہر مہذب ملک کا بھارت سے یہی مطالبہ ہے۔بھارت کہتا ہے کہ کچھ لوگ ہیں جو لوگوں کو بھارت کے خلاف اکساتے ہیں۔کوئی لاکھوں انسانوں کو نہیں اکسا سکتا۔یہ کشمیریوں کا عزم آزادی ہے ،بھارت کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہئے کہ یہ کشمیریوں کی تیسری ،چوتھی نسل ہے جو مسلسل آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہے۔اس خوف اور دہشت کے عالم میں آپ سمجھ سکتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں ،ان کی نفسیات ،ان کے ماحول پر کتنے مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔پاکستان نے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن یا کوئی بھی عالمی وفد خود مقبوضہ کشمیر جا کرحالات کا خود جائزہ لے کر فیصلہ کرے۔لیکن بھارت نے انکار کر دیا۔اسی بات پرمغربی میڈیا نے بھارت سے پوچھا کہ اگرآپ کچھ چھپانا نہیں چاہتے تو کیوں کسی بھی عالمی وفد کو وادی کشمیر آنے نہیں دیتے؟

کشمیریوں کی رواں جدوجہد میں اوڑی کا واقعہ ہو گیا۔اس بارے میںمقبوضہ کشمیر کے بعض بھارت نواز عناصر کا بھی یہی کہنا ہے کہ اوڑی میں فوجی کیمپ پر حملے کا واقعہ مشکوک ہے۔ایک اطلاع کے مطابق اوڑی میں بھارتی فوج کے ایک کیمپ میں آگ لگنے سے فوجی مرے تو اس سے انڈیا کو ایک بہانہ مل گیا ۔بھارت اس کوشش میں تھا کہ کشمیر کی مشکل ترین صورتحال سے کیسے باہر نکلے۔ا ن کو ایک موقع ملا کہ دنیا کی توجہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی،مسئلہ کشمیر سے ہٹا تے ہوئے پاکستان پر مداخلت کا الزام لگایا جا سکے۔لیکن انڈیا کی یہ سازش بھی ناکام ثابت ہوئی کہ وہ کسی طرح بھی اس واقعہ میں پاکستان سے منسلک کرنے میںناکام ثابت ہوا ہے۔ دنیا کے سامنے یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ انڈیا اپنے مقصد کے لئے جھوٹ پہ جھوٹ بولتا جاتا ہے۔ انڈیا کی کوشش ہے کہ پاکستان کو حملے ،جنگ کا خوف دلا کر کشمیریوں کی تحریک کو دبایا جائے لیکن پاکستان نے بھارتی جارحیت کا بھر پور جواب دینے کے عزم کا عملی مظاہرہ کیا تو بھارت نے معاملے کو دوسرا رنگ دیتے ہوئے پاکستان کے خلاف پانی کی جنگ چھیڑنے کی کوشش شروع کردی ہے۔مشرف دور میں ایک اعلی سطحی اجلاس،جس میں فوجی افسران،تمام صوبوں کے گورنر،وزرائے اعلی اور چند وفاقی وزراء شریک تھے،بریفنگ میں بتایا گیا کہ ہم نے ایسے بہت سے امکانات کو ختم کر دیا ہے جس سے بھارت سے جنگ کی نوبت آ سکے لیکن اس بارے میں ایک امکان کو ختم نہیں کیا جا سکا ہے،کہ اگر بھارت پاکستان کے خلاف پانی کو'' واٹر بم''کے طور پر استعمال کرتا ہے،ضرورت کے وقت تین چار ماہ پانی روک دیتا ہے اورسیلاب کے وقت پانی چھوڑکر پاکستان کو قحط اور سیلاب کا شکار کرنے کی کوشش کرے تو پاکستان کے پاس جنگ کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہو گا۔

دنیا میں کشمیر کا مسئلہ اجاگر کرنے کی ساتھ آج اس بات کی بھی ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ ملک میں انحطاط پزیری کی صورتحال میں یہ بتانا ضروری ہے کہ پاکستان میں لوگوں کو ،طبقات کو بتایا جائے کہ کشمیر پاکستان کے لئے کتنی اہمیت رکھتا ہے،کشمیر پاکستان کی سلامتی اور بقاء سے مربوط معاملہ ہے۔یہ کوئی افغانستان یا کسی دوسرے ملک کے مسئلے کی طرح کا معاملہ نہیں ہے،یہ پاکستان کی اپنی سلامتی اور بقاء کا معاملہ ہے۔آج مقبوضہ کشمیر پاکستان کے ساتھ نہیں ہے ،وہاں پہ بھارت کا قبضہ ہے لیکن اس کے باوجود مقبوضہ کشمیر پاکستان ہے۔انڈیا اسی بات پہ پریشان ہوتا ہے کہ جب کشمیری احتجاج کرنے نکلتے ہیں تو ان کے ہاتھوں میں پاکستان کا پرچم ہوتا ہے،جب کشمیری شہید ہوتا ہے تو اس کو پاکستان کے پرچم میں لپیٹ کر سپرد خاک کیا جاتا ہے۔کشمیریوں کا یہی عزم آزادی ہے جس سے انڈیا نا صرف نہایت پریشان ہے بلکہ انڈیا مکمل طور پر کشمیریوں کے سامنے ناکام ہو چکا ہے۔انڈیا گزشتہ68,69سالوں میں تمام تر سازشوں ،فوجی طاقت کے بہیمانہ،ظالمانہ استعمال کے باوجود کشمیروں کی جدوجہد آزادی کودبانے میں ناکام رہا ہے۔اس طرح بھارت کشمیریوں کے سامنے ناکام ہے۔کشمیریوں نے نامساعد ترین حالات میں بھی آزادی کے لئے جدوجہد ،قربانیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہے اور یہی کشمیریوں کی کامیابی ہے کہ جدوجہد اور قربانیوں کا سلسلہ جاری رہے۔دنیا میں آج میڈیا کا دور ہے،پرویگنڈے کا دور ہے۔ بھارت نے کئی ریڈیو سٹیشن اور ٹی وی چینلز خاص طور پرکشمیرکے بارے میں قائم کئے ہوئے ہیں جو کشمیر سے متعلق جھوٹا ،بے بنیاد،گمراہ کن پروپیگنڈہ کرتے ہیں ۔لیکن ہمارے سرکاری اور غیر سرکاری میڈیا کی توجہ بھارتی پرویگنڈے کو 'کائونٹر' کرنے کی جانب نہیں ہے۔بھارت اپنے جھوٹ کو بھی اپنی حیلہ سازیوں سے سچ بنا کر پیش کرتا ہے اور ہم اپنی بدانتظامی ،بد کرداری سے اپنے سچ کو بھی جھوٹ ثابت کر دیتے ہیں۔جب ہم یہ کہتے ہیں کہ کشمیر پاکستان کی سلامتی اور بقاء سے مربوط معاملہ ہے۔کشمیریوں کے لئے '' اب یا کبھی نہیں '' والی پوزیشن آ گئی ہے۔انڈیا تو کشمیر کو فتح کرنے کے لئے اپنی فوجی طاقت سے فیصلہ کن اقدامات کر رہا ہے لیکن ہم پاکستان میں کشمیر سے متعلق فیصلہ کن اقدامات تو دور ،ہم نے ایک متعین راستہ بھی صحیح طور پر اختیار نہیں کیا۔ہم کہتے ہیں کہ انڈیا اپنی ہٹ دھرمی پر اڑا ہوا ہے لیکن ہم اپنے حق، جوہر لحاظ سے ہمارا مقدمہ مبنی بر انصاف ،ؤؤ ،مبنی برحق ہے،ہم اپنی پالیسیوں میں اسے مسلسل طور پرترجیح نہیں دے پاتے۔

اس سال عیدالاضحی کے موقع پر کرفیو کی وجہ سے کشمیری عید کی نماز نہیں پڑ سکے۔بھارت کے سخت کرفیو کے باوجود کشمیریوں نے بھارت کے خلاف مظاہرے کرتے ہوئے عید الاضحی کے دن بھی انسانی جانوں کا نذرانہ دیتے ہوئے اسلام کے فلسفہ قربانی کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ کشمیری یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کتنی بھی جدوجہد کر لیں،پاکستان کی فیصلہ کن مدد کے بغیر آزادی کی منزل تک ان کا پہنچنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔دنیا انسانیت کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرتی ،انصاف کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرتی اور اس کی بڑی مثال فلسطین کا مسئلہ ہے۔دنیا میں فلسطین اور کشمیر کے دو بڑے مسئلے ہیں جن کے حل نہ کئے جانے سے مسلمانوں کو غلط اشارے ملتے ہیں۔جہاں غیر مسلم تنازعات ہوں وہ تو حل کر لئے جاتے ہیں،فوری طور پر مشرقی تیمور میں ریفرنڈم کے ذریعے اس کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ بھی ہو جاتا ہے۔خود بھارت نے عالمی برادری میں بیٹھ کر اور عالمی برادری نے بھی عہد کیا ہوا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کے ذریعے حل کیا جائے گا۔بھارت ایک بڑی جمہوری طاقت ،جمہوری ملک ہونے کا دعویدار ہے لیکن وہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت ،رائے شماری سے خوفزدہ ہے۔بھارت جانتا ہے کہ ایک کشمیری بھی ایسا نہیںہے جو بھارت کے ساتھ رہنا چاہتا ہو،ہر کشمیری بھارت سے آزادی کا خواہاں ہے۔ بھارت کہتا ہے کہ پاکستان نے شملہ سمجھوتے میں عہد کیا ہواہے کہ کشمیر کا مسئلہ باہمی طورپرحل کیا جائے گا،اس عہد کو بھی32,33سال ہو گئے ہیں۔امریکہ اور دوسری عالمی طاقتیں بھی دونوں ملکوں کو مسئلہ کشمیر باہمی طور پر مزاکرات سے حل کرنے کی بات کرتی ہیں لیکن ان عالمی طاقتوں کو یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ یہ انڈیا ہے جو بات چیت نہیں کرتا ،جو پاکستان کے ساتھ مزاکرات نہیں کرتا،اگر کرنا چاہتا ہے تو صرف اپنی شرائط کے مطابق مزاکرات کرنا چاہتا ہے۔

آخر میں میںخاص طور پرڈاکٹر ندیم شفیق ملک کا شکریہ ادا کرتا ہوں ،ان کو ،ان کے کام،ان کی جدوجہد دیکھ کر میں فخر محسوس کرتا ہوں کہ آج بھی پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناح کے کارکن ،قائد اعظم کے سپاہی ناصرف زندہ موجودہیں بلکہ وہ قائد اعظم کے ا فکار،نظریات اور کردار کے مطابق دن رات مصروف عمل ہیں۔( وفاقی ادارہ نیشنل ویلفیئر کونسل میں دیا گیالیکچر)
 
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699211 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More