غصے کو انسان کیلئے تباہ کن سمجھا جاتا ہے
کیونکہ غصے میں بے قابو ہو کر انسان نہ صرف اپنی بلکہ دیگر افراد کی زندگی
کو بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے ماہرین کا کہنا ہے غصہ ایک ایسا عمل ہے جس میں
مبتلا ہو کر انسان اپنی صحت کے علاوہ کئی انسانوں کی موت کا سبب بھی بن
جاتا ہے غصے کی حالت میں انسان نہ صرف منفی احساسات سے دوچار ہوتا بلکہ
اپنی اندرونی کیفیت کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے پیچیدہ اور نفسیاتی
مراحل میں داخل ہو جاتا ہے جہاں اگر وہ چاہے تو اس عمل پر قابو پاسکتا ہے
اور مناسب طریقے سے مقررہ حدود تجاوز نہ کرے لیکن غصے پر قابو پانا آسان
نہیں ہوتا تاہم انسان چاہے تو سیکھ سکتا ہے۔سوین بارنو کتابوں کی ایک دوکان
میں کافی دیر سے میگزین کی ورق گردانی میں مشغول تھا کہ دوکان کے مالک نے
غصے میں آکر چلانا شروع کر دیا یہ کوئی پبلک لائبریری نہیں ہے کہ جہاں مفت
میں رسالے پڑھے جائیں میں نے انکی قیمت ادا کی ہے اور فروخت کرنے کیلئے
شیلف پر رکھے ہیں نہ کہ تم جیسے بور لوگوں کی بوریت دور کرنے کیلئے کہ جس
کا جب جی چاہے میری دوکان میں آئے اور ٹائم پاس کرے پتہ نہیں کہاں سے چلے
آتے ہیں مفت خور،بارنو دوکان دار کی مغلظات سن کر آپے سے باہر ہوا،اسکا دل
تیزی سے دھڑکنا شروع ہوا،دماغ کی نسیں پھولنے لگیں،بلڈ پریشر بھی ہائی ہوا
اور اس کا جی چاہا کہ دوکاندار کے منہ پر جا کر ایک جھانپڑ رسید کرے ،اتنی
بے اعزتی اور ذلالت کوئی بھی نہیں برداشت کر سکتا اور شدید غصے میں آجانا
ایک فطری عمل میں شمار ہوتا ہے بارنو جانتا تھا کہ اس کی جگہ کوئی اور ہوتا
تو پولیس موقع واردات پر بہت پہلے پہنچ چکی ہوتی ،وہ جانتا تھا کہ دوکان
دار کا غصے میں آجانا بالکل نارمل ہے اور وہ درست کہہ رہا تھا بارنو نے
سنجیدگی اختیار رکھی اور معافی مانگنے کے بعد دوکان سے باہر نکل گیا کیونکہ
سوین بارنو کوئی عام آدمی نہیں تھا جو دوکان میں ٹائم پاس کر رہا تھا بلکہ
ایک ماہر نفسیات،پروفیسر،ناول نگار اور غصے پر ریسرچ کرنے والا ماہر تجزیہ
کار تھاوہ یہی چاہتا تھا اور انہیں وجوہات پر ریسرچ کر رہا تھا کہ ایسے
حالات میں انسان کی کیسی حالت اور کیفیت ہوتی ہے جب انسان غصے اور جذبات کی
رومیں بہہ جاتا اور اپنے آپ پر کیسے کنٹرول کرتا ہے،کیونکہ بارنو ایک تجزیہ
کار تھا اس لئے اس نے کسی قسم کا منفی رویہ اختیار نہیں کیا اور خاموش رہا۔
بارنو کا کہنا ہے کئی حالات اور موقعوں پر غصہ جارحیت میں بدل جاتا ہے
کیونکہ غصہ ایک جذباتی اور بنیادی احساس ہے جیسے کہ خوف، خوشی،
سرپرائز،حقارت،نفرت،افسوس اور دکھ وغیرہ اور انسان کو زندگی میں ان تمام
عوامل سے گزر نا ہوتا ہے لیکن ان عوامل پر قابو پانا مشکل ترین مرحلہ ہوتا
ہے۔امریکی ماہر نفسیات پروفیسر پال ایکمین کا کہنا ہے غصہ ایک آزاد عمل ہے
جسے کوئی قید نہیں کر سکتا اور نہ اسکی کوئی حد مقرر ہے غصہ کسی مذہب یا
ثقافت کا حصہ نہیں اور نہ کوئی وابستگی ہے ،انسان کے تاثرات کا تجزیہ دو
خاص عوامل سے کیا جا سکتا ہے ایک خوشی اور دوسرا غصہ،کیونکہ دونوں صورتوں
میں انسانی چہرہ ہی رد عمل ظاہر کرتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ
ایسی صورت حال میں انسان کیسے اپنے جذبات اور احساسات پر قابو پاتا
ہے۔آسٹرین ماہر نفسیات ڈاکٹر ہائیڈی کیسٹنر جو ریاست لنز کے ذہنی مریضوں کے
ہاسپیٹل میں جرائم پیشہ افراد کی قانونی مشیر کے عہدے پر فائز ہیں کا کہنا
ہے دنیا بھر کے کسی کلچر کرائس میں غصے کو خوشگوار عمل نہیں سمجھا جاتا
جرائم پیشہ افراد کی مشیر ہونے کے ناطے سے میں جانتی ہوں کہ غصے کی حالت
میں انسان کی کیسی کیفیت ہوتی ہے جو اپنا غصہ ظاہر کرتا ہے وہ ان انسانوں
میں شمار کیا جاتا ہے جو اپنے جذبات اور احساسات پر قابو نہیں پا سکتا اور
فوراً اپنا کنٹرول کھو دیتا ہے اور ایسے عوامل یا خصوصیات کو منفی تصور کیا
جاتا ہے منفی سوچ ہی انسانوں میں خوف ،دشمنی اور اموات کی ابتداء ہوتی ہے
اپنے غصے پر قابو پانے اور توجہ دینے کی بجائے دوسروں کی معمولی بات کا
بتنگڑ بنایا جاتا اور ہمیشہ منفی ری ایکشن ظاہر کیا جاتا ہے ایسا بھی ہوتا
ہے کہ جو افراد غصے پر قابو پا کر خاموشی اختیار کرتے ہیں اور اسی خاموشی
کو دوسرے لوگ اپنی جیت سمجھتے ہیں یا مزید دشمنی کی ابتداء ہوتی ہے۔ماہرین
کا کہنا ہے غصہ انسان کو بیمار کر دیتا ہے ،غصہ ہمیں آگاہ کرتا ہے کہ
انفرادی رواداری کی حد تجاوز کر دی گئی ہے اور سگنل کو سنجیدگی سے لینا
چاہئے کیونکہ جو انسان غصہ نگل جاتا ہے وہی عام طور پر بیمار ہو جاتا ہے
اسکے جسم کے روئیں روئیں میں کشیدگی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور جب تک غصہ مکمل
طور پر تحلیل نہیں ہوتا انسان جنونی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے کیونکہ غصہ دل
اور بلڈ پریشر کیلئے منفی کردار ادا کرتا ہے،جسم کے ہارمون کورٹی سول اور
رگوں میں تیزگی پیدا کرتارہتا ہے مسلز مزید سخت ہوجاتے اور شریانوں میں خون
کی بندش پیدا ہونے کے سبب انسان ڈپریشن،سردرد اور آکسیجن کی فراہمی منقطع
ہونے سے موت کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔عام طور پر انسانی زندگی میں کئی ایسے
واقعات پیش آتے ہیں کہ برداشت ختم ہو جاتی ہے کیونکہ مد مقابل کسی صورت میں
کمپرومائز نہیں کرتا اور بات کو بے مقصد طول دے کر تلخ کلامی کی ابتداء
ہوتی اور حالات انتہائی پیچیدہ ہو جاتے ہیں جہاں سے غصے کا چیپٹر شروع ہوتا
اور اختتام موت تک ہو سکتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے ایسی صورت حال میں فوری
طور پر گفتگو کا اختتام کیا جائے کیونکہ زندگی میٹھی کم اور کڑوی کچھ زیادہ
ہے اور جتنی جلدی ممکن ہو انسان غصے پر قابو پائے اس سے وہ خود بھی محفوظ
رہے گا اور دیگر افراد بھی |