میری سہیلی میری مایوسی

کہا جاتا ہے کہ بیوی اسلئے اتنی خوش رہتی ہے کہ اُسکی کوئی بیوی نہیں ہوتی۔ بیوی ہو یا بیوی کا میاں شادی ہوتے ہی ایک دوسرے سے مایوس ہو جاتے ہیں کہ اب اسکو ایسے ہی بھگتنا ہوگا بدلا نہیں جا سکتا۔
مایوسی کہنے کو بے حد چھوٹا سا لفظ ہے مگر یہ ایک مکمل کہانی بیان کر جاتا ہے۔ کوئی انسان کہہ دے کہ میں مایوس ہوں تو اسکے حوالے سے ذہن میں فوری طور پر آجاتا ہے کہ اسکے ساتھ یقینی کوئی ایسا سانحہ ہوا ہوگا جو کہ اسکو اس درجے پر لے آیا ہے کہ وہ مکمل امید چھوڑ بیٹھا ہے۔

مایوسی کا علاج اور حل تو بعد میں آئیگا پہلے مایوسی کے کچھ عواامل ہیں اگر انکو مکمل کر لیا جائے تو مایوسی کا دل و دماغ پر ڈیرہ ڈاالنا فٹ سے ممکن ہے۔

Newspaper / News
آج پاکستان میں صدر مملکت اور وزیراعظم بھی ایک ہی ہے اور قیام پاکستان کے وقت بھی ایک ہی تھے مگر ساٹھ کی دہائی میں ایک ٹیوی چینل تھا اور آج پچاس سے ستر صرف نیوز چینل ایک تین سے پانچ سو کی کیبل لگا کر آپ آرام سے دیکھ سکتے ہیں۔

پاکستان میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو اخبار کو پہلے لفظ سے پڑھنا شروع کر کے آخری لفظ تک ضرور پڑھیں گے۔ پھر مایوس ہو کر یہ ضرور کہیں گے کہ اس ملک کا کچھ ہو نہیں سکتا۔

اگر کوئی بریکنگ نیوز ہو تو ہر چینل اس خبر کو اپنے رنگ میں کئی کئی بار مختلف زاویوں سے سنسسنی خیز میوزک کے ساتھ ضرور نشر کرے گا اور ساتھ یہ ضرور بتائے گا کہ یہ خبر سب سے پہلے ہم نے آپکو بتائی ہے۔

اب تو جو ایک نیا سلسلہ چل نکلا ہے کہ قتل اور ڈکیتی کی وارداتوں کو پھر سے فلما کر دکھانے کا اسکو دیکھنے والے بے حد پسند کر رہے ہیں اور دیکھ کر آخر میں یہ خیال ضرور آتا ہے کہ اس ملک کا کچھ ہونا ممکن نہیں ہے۔

Attention Focus
اگر کسی کو کہا جائے کہ گلابی ہاتھی کے بارے میں نہ سوچیں تو دماغ کرتے کرتے لامحالہ آپکو گلابی اونٹ کے بارے میں ہی دکھائے گا۔۔

اسی طرح اگر ہیڈ لائنز میں ہم خبریں سنیں کہ " فلاں جگہ پر فلاں نے اتنے بندے مار دئے" اور " فلاں نے دوسرے انسان کی مدد کے لئے اتنی رقم خیرات کی" ہم لوگوں کی توجہ پہلی ہیڈ لائن کی طرف ہی رہے گی۔
دماغ کا یہ مسئلہ ہے کہ دماغ کو سنسنی خیز اور ایک دم جزباتی کر دینے والی چیزوں پر توجہ کرنے کا خیال بہت جلد آتا ہے۔ بغیر سوچے سمجھے وہ ان چیزوں کی طرف اپنا فوکس لگائے رکھتا ہے جو ظاہری طور پر آپکو ہلا ڈالیں مگر ایسی بات جو آپکو ہلائے نا اور کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو اس پر دیہان ذرا کم کم ہی رہتا ہے۔

اسی لئے پھر ہم سب سے پہلے یہی سوچتے ہیں کہ اس ملک کا کچھ نئیں بننے والا۔

Lacking knowledge
نوجوانان میں تو خاص طور پر ہاتھ میں ہر وقت سمارٹ فون ہونے کے باوجود بھی صیح معنوں میں معلومات بہت کم ہیں ۔ کمپیوٹر انجینئر بن رہے ہیں اسلئے کہ امی ابو نے کہا، ایم بی اے کر رہے ہیں اسلئے کہ دوست نے کہا۔

یہ ریسرچ کرنا کہ آیا ایم بی اے کی مارکیٹ ڈیمانڈ ہے کہ نہیں اور سب سے بڑھ کر مادکیٹ میں ایم بی اے کے ساتھ کس کس قسم کی ایک اور ڈگری اور تجربہ رکھنے والے لوگ کامیاب ہو رہے ہیں ذیادہ تر اپنے جیسے ہی لوگ جو کہ خود بھی بھیڑ چال کا حصہ ہوں اور وقت گزاری کے لئے ڈگری لے رہے ہوں ان کے ساتھ دوستی ہوگی۔

اسی طرح اگر میڈیا کی بات کر لی جائے تو فیلڈ رنگین لگتی ہے مگر اس کی صرف ڈگری لینا کافی نہیں اور ساتھ میں علم و تجربے کے حوالے سے کون کونسے لوازمات پورا کرنا ضروری ہے اس حوالے سے کوئی تحقیق اور عمل ہوگا نہیں اور پھر شکوہ ہو گا کہ میڈیا والوں کو جاب بالکل نہیں ملتی۔

جب آپکو پتہ کم ہوتا ہے عمل خود بخود کم ہوتا ہے اور سب پر ادھر کسی کو لعن طعن کر ادھر کسی کو شکایت کر والا کام چلتا رہتا ہے۔

حالات میں جل کر کندن ہوئے بغیر سب کو ہمالیہ سر کرنا ہوتا ہے جب ایسا ہوتا نہیں تو مایوسی بڑھا لیتے ہیں۔

Try Try Again
چیونٹی والی کہانی بہت سے لوگوں نے سن رکھی ہے جس نے بادشاہ کو یہ طاقت دی کہ وہ ہار ماننے کی بجائے جب تک جیت نہیں جاتا تب تک کوشش جاری رکھے۔

مجھے خود جب ایک زماننے میں ریڈیو کرنے کا شوق ہوا شروع شروع میں اندر نہین گھسنے دیا گیا کہ میں کچھ نہیں کر سکتی۔ جب اندر گھس ہی گئے تو کبھی بولنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ میں نے تنگ آکر اپنے موبائل کو ریڈیو سمجھ کر بولنے کی پریکٹس شروع کر دی اور صرف اس پریکٹس نے وہ کانفییڈنس دیا کہ مجھے باہر نکالنے والے تین سال بعد بہترین ریڈیو پرزینٹر کا ایوارڈ دینے پر مجبور ہوگئے۔

اللہ نے کائنات اسی طرح بنائی ہے پھل پھولدار درخت بھی اپنا پھل اور کلیاں گرا گرا کر ایک وقت آتا ہے کہ ہرے بھرے اور پھل دار بنتے ہیں۔

انسان کی قسمت میں کیا اور کب ہے یہ نہیں انسان نے دیکھا ہوتا مگر جب انسان بار بار کوشش کو چھوڑ کر صرف شکایت پر آمادہ ہو تو انسان واقعی کچھ نہیں کر سکتا ۔ جب آپ کوشش بھی چھوڑ دیں تو کچھ نہ کرنا بالاخر گھر والوں کو اور آپکو ایک دوسرے سے مایوس ہی کر دیتا ہے۔

Childhood memories
پچپن کے حالات کچھ لوگوں کے انکو بنا بھی دیتے ہیں اور انکو بگاڑ بھی دیتے ہیں۔ اب یہ انسان انسان پر منحصر ہوتا ہے یہ اور بات ہے کہ کچھ لوگ بچپن کو اپنے پچپن تک یاد رکھتے ہیں اور اس وقت کی باتیں آپکو بھولتی نہیں اسی لئے آپ پوری زندگی ان چند سالوں کے احساسات کو محسوس کرتے ہوئے ضائع کرکر کے گزارتے ہیں۔

اسی لئے ہر اچھی چیز میں جو کہ وقوع پزیر ہو کوئی نہ کوئی منفی چیز نکالنا آسان ہوتا ہے۔

Social circle
ایک ریسرچ کے مطابق آپ وہی ہوتے ہیں جیسے کہ آپکے آس پاس کے پانچ لوگ ہوتے ہیں۔

آپ آہستہ آہستہ انکے جیسے ہی بنتے جاتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اگر ہمارے آس پاس اگر کوئی مثبت سوچ والا ہو تب بھی ہمیں منفی سوچ والا پر کشش ذیادہ دکھے گا اسکی بات ہم ذیادہ غور سے سنیں گے اسکی طرف ہم توجہ ذیادہ دیں گے۔

Social media
کچح عرصہ پہلے جو بچوں کے اغوا کا قصہ چھڑ گیا بے شک وہ مسئلہ ایمرجنسی بنیادوں پر حل کرنے والا تھا مگر سوشل میڈیا نے جو اعداوشمار اور جو جو حقائق کھوج کھوج کر پیش کئے بعد میں حکومتی سطح پر بھی یہی نعرہ لگا یا گیا کہ وہ بہت کچھ جھوٹ پر مبنی تھا اسکے علاوہ جو لوگ بہت یادہ ٹینشن میں آئے وہ ایک الگ قصہ ہے-

سوشل میڈِیا پر بغیر تحقیق کے کچھ بھی پڑھ لینا اور اسکو سچ سمجھنا آج کے دور کا سب سے سنگین المیہ بنتا جا رہا ہے۔

Actions speak louder than words
قائداعظم ، عبدالستار ایدھی، سلیم غوری، انصار برنی، سدرہ اقبال، ڈاکٹر صداقت علی، پرقفیس معیز حسین، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ وہ چند لوگ ہیں جنھوں نے ملک کے لئے کچھ کیا انکی پوری زندگی آپکو حرکت میں برکت والی نطر آئے گی۔ آپکے اپنے کام آپکو مایوسی سے دور و نزدیک کررہے ہوتے ہیں۔

جو کچھ کر رہے ہوں چاہے کوشش میں کامیاب نہ ہوں...

ان سے ذیادہ مایوس مجھے وہ نظر آئے جو کرتے کچھ نہیں سوائے شکایتوں کے-
sana
About the Author: sana Read More Articles by sana: 231 Articles with 273062 views An enthusiastic writer to guide others about basic knowledge and skills for improving communication. mental leverage, techniques for living life livel.. View More