شادی کی گہما گہمی عروج پر تھی ۔۔ذرا دیر
پہلے نکاح کی پر وقار تقریب تھی نکاح خواں کافی مستند عالم دین تھے انہوں
نےاپنے خطبے میں نکاح کی اہمیت اور افادیت پر روشنی ڈالی زوجین کے حقوق
واضح کئے انکی نیک اولاد کی دعا کی ، دعا کے بعدمبارک ،سلامت اور گلے ملنے
کا سلسلہ جاری تھا ۔ دولہا دولہن دونوں ڈومینیکن سے ڈاکٹر بنے تھے اور اب
امریکہ میں ملازمت کرتے تھے ۔ ابتدائی لوازمات سے فارغ ہوئے تو بڑے
بینکوئیٹ ہال میں گول میزوں پر آئے ۔شادی کے انتظامات انتہائی پر تکلف
تھے،اخراجات دل کھول کر کئے گئے تھے ۔
اتنے میں ہماری میز پر ایک نوجوان جوڑا بچے کو سٹرالر میں لئے آیا میں انکی
شادی میں شریک تھی ۔ لیکن ایک عرصے کے بعد ملی تھی اڑتی اڑتی سنی تھی کہ
اللہ نے انہیں اولاد کی نعمت سے نوازا ہے ۔ اولاد کے لئے انکی اور انکے
خاندان کی بیتابی اور بے صبری مجھے یاد تھی ۔ مبارک سلامت کے بعد پیارے سے
من موہنے بچے کو دیکھا جسے پہلے تو ماں کھلانے پلانے میں مصروف تھی ،بعد
میں باپ نے آکر جو والہانہ طریقے سے ذمہ داری سنبھالی کہ ماں بے فکر ہوکر
کھانے پینے میں مصروف ہوگئی بلکہ جت گئی جیسے آج وہ بہت دیر سے بھوکی ہو۔
یوں بھی وہ ماں بننے کا اعزاز حاصل کر چکی تھی ان آٹھ نو سالوں میں اسے
کیسی کیسی اذیت ،طعنے ، تشنے برداشت کرنےپڑےہونگے،لیکن باپ ،تو یوں لگ رہا
تھا جیسے کہ اسکی جان بچے ہی میں ہے ۔دنیا و مافیہاسے بے خبر وہ اپنے بچے
کے ساتھ ہی خوش اور مگن تھا ،کھلانا،پلانا،کھیلنا،اچھالنا بچے کی ایک ایک
ادا سے پھڑک اٹھنا اسکا والہانہ پن دیکھنے کے قابل تھا۔ میری ساری توجہ اب
شادی سے زیادہ انکی جانب تھی ماں کا بے ڈھنگے پن سے کھانا پینا اور بار بار
اپنا دوپٹہ ٹھیک کرنا جو ٹک کر ہی نہیں دے رہاتھا اور باپ جو اپنے بچے میں
اسقدر محو تھا کہ اسے کسی چیز کا ہوش ہی نہیں تھا ۔ ذرا دیر میں دولہا دلہن
نے کیک کاٹا ، بھنگڑا ناچ ہوا اور کھانے کا اعلان ہوا ۔ بچے کی ذمہ داری اب
نانی نے سنبھالی تھی اور نا نا ذرا ذرا دیر کے بعد انکو مطلع کرتے کہ وہ
أرام سے کھانا کھالیں چھوٹے میاں خیریت سے ہیں ۔ یہ وہ حلال اور جائز رشتے
ہیں جو اللہ کے حدود اور احکام کی پاسداری میں بنے اور بنتے ہیں۔ والدین ان
حلال رشتوں کو اس مدر پدر أزاد معاشرے میں جوڑنے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور
لگا لیتے ہیں۔ یہ رشتے فخر و انبساط اور سرخ روئی کا باعث ہوتے ہیں۔
اولاد، بچے ہر ماں باپ کو پیارے ہوتے ہیں ۔ اتنے پیارے ہوتے ہیں کہ ماں باپ
انکے لئے انکی بہتر مستقبل کے کیسی کیسی اور کیا کیا قربانیاں دیتے ہیں
اسکا اندازہ لگا نا مشکل ہے ۔ بہتر مستقبل امن اور چین کی تلاش میں جانے
والا ایلان کردی بھی کسی کی آنکھ کا نور تھا جسکی ترکی کے ساحل کی طرف بہتی
ہوئی منہ کے بل گری ہوئی لاش نے ساری دنیا کو رلا دیا۔۔ ورنہ دنیا تو
ہزاروں لاکھوں بچوں کی لاشوں پر خاموش تماشائی بنی رہتی ہے،
دنیامیں سفاک ماں باپ کی کہانیاں بھی بھری پڑی ہیں ۔ان میں اتنی سفاکی اور
بے رحمی آجاتی ہے کہ وہ دنیا بھر کے دکھوں ،محرومیوں اور غموں کا بدلہ اس
معصوم سے لینا چاہتے ہیں جسے اللہ کی رحمت نے انکے حوالے کر دیا ۔۔ ٹینا
اسی معاشرے کی ایک ماں ہے اس ملک کی باشندہ جہاں پر غیر شادی شدہ لڑکی کا
ماں بننا کوئی عیب نہیں جانا جاتا۔ اس غیر قانونی ، ناجائز، غیر اخلاقی فعل
کو طرح طرح کے بے جا اور بے حیا طریقوں سے اپنایا گیا ہے۔ اسکولوں میں کم
عمری سے ہی جنسی تعلیم شروع ہو جاتی ہے ۔ اسقدر دکھ اور صدمے کی بات ہے کہ
اسقدر مہذب اور ترقی یافتہ انسان جنسی لحاظ سے ایک جانور بن جاتا ہےاور ان
ناجائز طریقوں کے لئے راہ ہموار کرتا ہے ۔دنیا کے قوانین کی پاسداری
کرنیوالوں نے اللہ کے احکامات ،ان حدود اور قوانین کو بری طرح پامال کر دیا
ہے۔
ٹینا نےپندرہ سال کی عمر میں اس بچے سے جان چھڑانے کی پوری کوشش کی لیکن
اسنے دنیا میں آکر ہی دم لیا ۔ اکیلی جان، باپ تو کام کرکے چلتا بنا تھاوہ
بھی ۱۴ ،۱۵ برس کا ہی ہوگا ۔ایک روز ایسے زور سے چند ماہ کی بچی کو پٹخا
کلائی چکنا چور ہوگئی۔حادثاتی رنگ دے کر چھپایا گیا ورنہ تو پولیس اور بچوں
کی حفاظت کرنیوالا ادارہ بچی کو لے جانے والا تھا کاش کہ ایسا ہو جاتا جس
حال میں وہ بچی رہتی ہے اللہ کی پناہ ۔ ماں باپ اسکی ریں ریں سے بیزار اور
ہر ایک کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہ یہ دنیا میں کیسے أئی؟۔ ٹینا کو اپنے نئے
تعلقات اور بوائے فرینڈوں سے فرصت کہاں ۔
اور یہ اس معاشرے میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں ۔
پاکستانی معاشرے میں وہ بھی تو ماں ہوتی ہےجسکا گناہ کو چھپانے کے لئے اور
بدنامی کے خوف سے کوڑے کے ڈھیر پر کبھی زندہ اور کبھی مردہ ڈال آتے تھے
۔۔اللہ غریق رحمت کرے ایدھی صاحب اور بلقیس ایدھی کو انہوں نے جھولے لٹکا
لئے تھے اور بلا مبالغہ اس میں سال میں سینکڑوں بچے آجاتے تھے ۔۔فرق وہی
جائز و ناجائز ، حرام اور حلال کا ہے ۔۔وہی جائز بچہ جو اللہ کی رضا، اسکے
بتائے ہوئے حدود کے مطابق اس دنیا میں آتا ہے والدین کے علاوہ تمام خاندان
کے لئے فخر و انبساط کا ذریعہ بن جاتا ہے ۔ اسکے آنےکی خوشی کو مقدور بھر
منایا جاتاہے۔اورچاروں دانگ اسکے آنے کی خبر کو پھیلا دیا جاتا ہے۔
مغرب کا بے لگام معاشرہ ایسے بچوں کوقبول تو کر لیتا ہے لیکن تمام آزادی کے
ساتھ اب بھی کسی حد تک شرمندہ ہی ہوتا ہے۔
جینی خودمختار عورت ۴سالہ للی کی ماں ہے ۔ جینی سے میری کچھ دوستی ہو چلی
تھی ۔ایک مرد اسکے پاس اکثر آتا تھا اسنے بتایا کہ یہ للی کا باپ ہے ۔یہ
بھی غنیمت تھا کہ اسنے اپنے پدرانہ حقوق مانے ہوئے تھے ۔ میں نے اسے مشورہ
دیا ، للی باپ کے ساتھ اسقدر خوش ہوتی ہے تم لوگ شادی کیوں نہیں کر لیتے؟"
میں اس آدمی کو ایک لمحہ برداشت نہیں کرسکتی " اسنے مجھے کورا سا جواب دیا
اور میں بھونچکا رہ گئی۔ مذید سوال کرنا فضول تھا ایک روز میں باہر نکلی تو
ایک معمر خاتون ساتھ کھڑی تھی ۔۔” یہ للی کے باپ کی ماں ہے “ اسنے مجھے بتا
یا ..” تو للی کی دادی ہوئی “
خاتون کا چہرہ فق ہوگیا اسے یہ ناجائز رشتہ ایک أنکھ نہ بھایا ۔
قدم قدم پر بکھری ہوئی کہانیاں اور داستانیں ہیں ، جو ہمیں تو عجیب و غریب
اور افسوسناک لگتی ہیں لیکن یہاں کے معاشرے کا حصہ ہیں۔
اس معاشرے کی ترقی، اخلاقیات اور خوبیا ں اپنی جگہ لیکن اللہ کے حدود اور
احکامات کی یہ پامالی اسقدر دکھ اور صدمے کا باعث ہے کہ ہمہ وقت اللہ تعالی
سے اپنی نسلوں اور اپنے ہم مذہبوں کی بقاء اور بچاؤ کی دعا کرتی ہوں۔ان
لوگوں کے لئے بھی دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی انہیں ہدایت اور رہنمائی عطا
فرمائے کیونکہ ہم بہت سی بھلائیوں میں انکے مر ہون منت ہیں ۔ |