ہمارا جواب
(Ch Jahangir Zafar Bhatti, Gujrat)
الفاظ و احساسِِ جہانگیر ظفر بھٹی |
|
چاہے ہماری اراضی سینکڑوں ایکڑ پر مشتمل نہ
ہو، ہماری سرداری کئی دیہاتوں تک نہ ہو، ہمارے پاس دولت کے انبار نہ لگے
ہوں۔ مگر ہمارے پاس الله کی عنایت فطرتی طور پر ایک اچھا دل اور جسے ہم
اپنی مرضی سے اچھا یا برا استعمال کر سکتے ہیں ایسی زبان تو ضرور ہوتی ہے
جسے اچھا استعمال کرنے کیلئے ہمیں کوئی معاشی مظبوط ہونا ضروری نہیں ہے اگر
ہمارا دل اور ہماری زبان ہمارے قابو میں ہو جائے ہمیں انکو استعمال کرنا
آجائے تو ہمارے پاس کسی غرض سے آئے کی مدد نہ کرنے کا ہمارا یہ بہانہ ختم
ہو جائے کہ اگر میں قابلِ اسطاعت ہوتا تو آپکی مدد ضرور کرتا۔ انسان ایسا
دلچشپ و ڈھیٹ ہے کہ ضدی بچے کی طرح اگر کچھ حاصل کرنے پر آجائے تو وہ حاصل
کرکے ہی رہتا ہے اگر ہم اپنی کسی خواہش کو حاصل کرنے کیلئے کسی بھی حد تک
چلے جاتے ہیں تو کسی کو کسی کچھ تھوڑا سا دیتے وقت ہمیں پتا نہیں کچھ ہونے
کیوں لگ جاتا ہے۔ ہم چاہیں تو ضرور کچھ گنجائش نکال سکتے ہیں مگر شرط یہ ہے
کہ ہمارا دل ایک بار ہمارا ساتھ دینے کو تیار ہو جائے۔ مگر کبھی ایسا ہو کہ
حقیقتاً ہمارے پاس دینے کو کچھ بھی نہ ہو تو بھی ہم اپنے اچھے رویے سے،
ہمارے خوش اخلاقی سے بولے ہوئے چند الفاظ سے اس کی ہمت تو بندھا سکتے ہیں
حوصلہ تو دے سکتے ہیں اس سے ہمدردی تو کر سکتے ہیں۔ خدارہ خلقِ خدا کیلیے
سوچیے کسی کو بھی انکار کرنے سے پہلیں ہزار بار سوچیں کہ ہمارے پاس اس کا
کام کر دینے کیلئے کتنی وجوہات ہیں اور کس چیز کا لالچ انکار کا موجد بن
رہا ہے۔ماں باپ اور خون کے رشتوں کے بعد انسانیت کا رشتہ اس دُنیا میں سب
سے بڑا اور قریبی رشتہ ہے۔ اگر ہم انسانوں خود میں انسانیت پیدا کر لیں تو
ہمارے لیے ہمارے رب کو راضی کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں رہ جائے۔ انسانیت
ہمارے محلے، ہماری گلی سے ہی شروع ہوجاتی ہے ہماری زندگی میں بہت سے ایسے
مواقع آتے ہیں جب ہماری زرہ بھر حرکت، ہمارے چند الفاظ کسی کو اس کے بہت
بڑے نقصان سے بچا لیتے ہیں مگر ہم اپنے منہ سے چند الفاظ بولنے کو بھی
دُنیا کا بہت کٹھن کام سمجھ کر ایک ہی جواب میں بات ختم کر دیتے ہیں کہ
ممکن ہی نہیں ہے۔ اگر کوئی ہمارے در پر آتا ہے تو کسی غرض سے مجبور ہو کر
آتا ہے اور ہمیں الله پاک اس کے کام مکمل ہونے کا وسیلہ بناتا ہے۔اس لیے
وجہ جانے بغیر ہمیں نس یہ سروکار ہونا چاہیے کہ ہمیں اس الله کی طرف سے
بھیجے گئے مہمان کو کیسے راضی کر کے بھیجنا ہے۔ اگر ہر انسان ایک دوسرے
کیلئے انسانیت و ہمدردی کا جذبہ اپنا لے تو ہم نہ صرف اپنا محلہ، اپنی گلی،
اپنا ملک بلکہ تمام خلقِ خدا کو بچا سکتے ہیں اور خدا کے خضور ایک خاص مقام
بنا سکتے ہیں۔ آئیں عزم کرتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو ہمیں اپنے بہانوں اور
انکار کو جڑ سے ختم کر کے خود میں سب کی مدد و خدمت کا جذبہ پیدا کرنا ہے۔
اپنے اس ملکِ خداداد کو ایک مقام دلانا ہے۔ خود کو ایک اچھا اور کامیاب
انسان بنا کر نیک صفت شہری ہونے کا ثبوت دینا ہے۔
الله پاک ہم سب کا خامی و ناصر ہو۔ |
|