بچوں اور خواتین پر ظلم وتشدد آخر کب تک چلتا رہیگا ؟

یوں تو پوری دنیا میں بچوں کے خلاف تشدد رویے ، ان کے قتل اور انہیں زیادتی کا نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے تا ہم ہمارے ملک میں بھی اس طرح کے بڑھتے واقعات قابل تشویش ہیں ۔پنجاب اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں بھی کم سن معصوم بچوں پر ظلم وتشدد جیسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جن کا سن کر انسانیت کی روح کانپ اٹھتی ہے ۔ان واقعات میں کہیں بچوں کو اغواء کرکے ان کے ساتھ جنسی ذیادتی کی جاتی ہے تو کہیں ان کو بے دردی سے قتل کیا جارہا ہے ۔اور خاص کر صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں بچوں کے خلاف جرائم میں اضافہ ہورہا ہے ،جہاں سال میں کہیں نہ کہیں بچوں کے حوالے سے مختلف واقعات سامنے آتے ہیں ۔ تازہ ترین واقعے میں 26ستمبر 2016 کو سوات کے تحصیل بریکوٹ کے علاقہ پارڑئی میں درندہ صفت کے ہاتھوں بہیمانہ طریقے سے سات بہنوں کے بھائی 3سال کے پھول جیسا بچہ حسنین کو قتل کیا گیا اور یہ واقعہ سوات کے تاریخ میں بدترین واقعہ سامنے اگیا اور تصویر میں ان کو شیونگ بلیڈز کے ذریعے سے تشدد کا نشانہ بنایا ، ان کے چہرے پر واضح طور پر بلیڈز سے تشدد کے نشانات نظر آرہے ہیں ۔بچے کے قتل کے بعد علاقے کے عوام کافی افسردہ تھے اور ان کے خاندان پر کیسا غم گزر گیا ہے یہ ان کے بچے کے ماں اور باپ کو زیادہ پتہ ہوگا ۔مگر ان واقعے کے بعد وہ نام نہاد انسانیت کے نام پر اور انسانیت کے حقوق کے باتیں کرنے والے ادارے کہاں گئے ؟جو انسانوں کے حقوق کیلئے لاکھوں روپے کے اخراجات پر چند افراد کیلئے ایک سیمینار منعقد کرتے ہیں ؟ افسوس کہ ہم میں انسانیت کہاں گئے -

حسنین کا یہ واقعہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ 2013 میں تحصیل کبل کے علاقہ کوزہ بانڈی میں 9 سالہ بچے کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا ،اس طر ح 2015میں تیرہ سالہ بچی کے ساتھ ذیادتی کی گئی ،جبکہ رواں سال میں سب سے افسوس ناک واقعہ مئی کے مہینے میں پیش اگیا جس میں ایک گروپ کم سن بچوں کو اغواء کیا کرتے اور پھر ان کو جنسی ذیادتی اور تشدد کا نشانہ بناتے ، اس واقعے میں بہت سارے بچے تشدد کا شکار رہے جبکہ ضلع سوات میں بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی سوشل ایکٹویسٹ نیلم ابرارچٹان جو کہ ضلع سوات کا واحد خاتون ہے جس نے اغواء اور جنسی ذیادتی کا نشانہ بننے والے بچوں کے حقوق کیلئے اکیلی آواز اٹھائی ہے ،سوشل ایکٹویسٹ کے مطابق ان واقعات میں بچے ذہنی طور مفلوج ہوچکے ہیں اور ان میں بعض اسکولوں کو بھی نہیں جاسکتے بلکہ گھر سے خوف اور گھبرانے کے وجہ سے بھی نہیں نکل سکتے ۔

بچوں کے ساتھ ظلم وزیادتی کے ساتھ اگر ہم خواتین وحضرات پر ظلم وزیاتی کا ذکر کریں تو ایک کرائم رپورٹ کے مطابق امسال جنوری سے لے کر اگست تک صرف سوات میں 39واقعات سامنے آئے ہیں جن میں 36خواتین جبکہ تین مردوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تو اس حساب سے ہر ہفتے ایک خاتون کو قتل کیا جاتا ہے ۔ان واقعات میں چند کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ سوات کے علاقہ شین کے جنگل میں ایک خاتون کو ذبح کیا گیا تھا ،اور خوازہ خیلہ میں ایک خاتون کو ذبح کیا تھا جبکہ اس طرح کے اور بھی بہت سارے واقعات ہوچکے ہیں ان واقعات کے تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے جو کہ انتہائی تشویشناک امر ہے مگر افسوس کے ساتھ کہ اس طرح کے واقعات کے روک تھام کیلئے علاقے کے سیاسی لوگوں اور پولیس نے ملزمان کو گرفتار کرنے اور قرار واقع سزا دینے کیلئے متفق نہیں ہوئے جو کہ ایسے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔مگر حکمرانوں کیلئے یہ ایک المیہ ہے کہ کب تک پیارے ملک میں کم سن ، معصوم اور ننھے مننھے بچوں اور خواتین پر ظلم وتشدد چلتا رہیگا ؟؟؟
Waqar Ahmad
About the Author: Waqar Ahmad Read More Articles by Waqar Ahmad: 2 Articles with 1479 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.