حبیب تنویر کا رنگ منچ: ایک جائزہ
(Safdar Imam Qadri, India)
جدید ہندستانی ڈرامے کی تاریخ میں حبیب
تنویر کے امتیازات تسلیم شدہ ہیں۔ ترقی پسند تحریک کی پہلی اور دوسری نسل
سے ان کا براہِ راست تعلق تھا۔ انھوں نے اردو زبان وادب کی باضابطہ اعلا
تعلیم (ادھوری) حاصل کی تھی۔ نظیر اکبر آبادی کی حیات و شخصیت کو بنیاد بنا
کر انھوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 1954 ء میں جو ڈراما پیش کیا، وہیں سے
ایک نئے ڈراما نگار کا آغاز ہوتاہے جس کی ایک اضافی خصوصیت اس کی شاعری اور
موسیقی سے گہرا لگاو رہی ہے۔ اہلِ اردو کی ڈراموں سے بے رغبتی مشہور ہے جس
کی وجہ سے کسی نازک لمحے میں حبیب تنویر چھتیس گڑھی اسلوب کی طرف مُڑ گئے۔
حالاں کہ وہ سو فی صدی اردو کے ادیب تھے اور ہر آدمی کو معلوم ہے کہ وہ
اپنے ڈراموں کے تمام کام اردو ہی میں کرتے رہے۔ انھوں نے اردو میں شعر کہنا
کبھی نہیں چھوڑا ۔ آخر وقت تک اردو شاعری ان کے اظہار کا ذریعہ رہی لیکن
اردو والوں نے انھیں اپنی مادری زبان کی طرف لَوٹنے کی کبھی پُر زور دعوت
نہیں دی۔ اس طرح وہ چھتیس گڑھی ہی کے ہورہے۔
یہ کم تعجب کا مقام نہیں کہ حبیب تنویر کی خدمات پر اردو زبان میں کوئی
بھرپور کتاب نہیں لکھی گئی۔ ہندی اور انگریزی زبانوں میں حبیب تنویر کے
بارے میں متعدد مختصر اور طویل تصانیف موجود ہیں لیکن ان کی مادری زبان کی
گود ان کے اوصاف کے بیان سے خالی ہے۔ چند یونی ورسٹیوں میں اردو والوں نے
ان پر تحقیق بھی کی تو محققین کے مکمل نتائج چھَپ کر سامنے نہیں آئے۔ پچھلے
دنوں جب دلّی کتاب گھر نے تقریباً پونے تین سو صفحات پر مشتمل ایک کتاب
’حبیب تنویر کا رنگ منچ‘ عنوان سے پیش کی تو خوشی کے ساتھ تعجب کا احساس
ہوا۔ اس کتاب کے مرتّب مشہور مترجم جناب مسعودالحق صاحب ہیں جو 2012 میں
کتاب کی اشاعت کے چھے مہینوں کے اندر راہیِ ملکِ عدم ہوئے۔ حبیب تنویر کے
سلسلے سے اردو میں وہ کئی اور کتابیں تیار کر رہے تھے لیکن موت نے انھیں
مہلت نہیں دی۔
اس کتاب میں مرتب کے پیشِ لفظ کے علاوہ 31مضامین شامل ہیں۔ انگریزی کے
پندرہ مضامین تو خود مرتّب کے اردو میں ترجمہ کیے ہوئے ہیں ؛صرف دو مضامین
عبدالرّشید اور اظہار احمد ندیم نے ہندی سے اردو میں ترجمہ کیے ہیں۔ مرتّبِ
کتاب نے آٹھ صفحات کا ایک مختصر سا پیشِ لفظ کتاب میں شامل کیا ہے جس سے
معلوم ہوتا ہے کہ حبیب تنویر سے ان کی محبت اور دوستی کی میعاد کوئی چھے
دہائیوں پر محیط تھی۔ مرتب نے کتاب میں اپنا جلوہ پیش کرنے کے بجاے موضوعِ
کتاب کو ابھارنے میں دلچسپی لی ہے۔ یوں تو یہ کتاب ڈھائی درجن مضامین کا
ایسا مجموعہ ہے جن کے لکھنے والے الگ الگ لوگ ہیں لیکن ان افراد کی خصوصیت
یہ ہے کہ وہ حبیب تنویر کے کارناموں سے پورے طور پر واقف ہیں۔ کتاب کو
ترتیب دینے میں مسعودالحق صاحب نے ایسی محبت اور اپنائیت پیوست کی ہے جس سے
ہر صفحہ اور ہر سطر سے حبیب تنویر کی شخصیت کا کوئی بھرپور گوشہ منور
ہوجاتا ہے۔ لمبی چوڑی تحقیقی کتابوں میں جتنا کام کا علمی مواد شامل ہوتا
ہے، اس سے کئی گنا زیادہ اور معتبر معلومات بہ ظاہر ان بکھرے مضامین میں
سلسلے کے ساتھ سجا دی گئی ہیں۔
یہ کتاب ایک بھرپور دانش ورانہ نقطۂ نظر کے ساتھ ترتیب دی گئی ہے۔ جنھوں نے
بھی قلم اٹھایا ہے، وہ سب اس موضوع کے ماہرین میں شمار ہوتے ہیں۔ ترجمہ اور
ایڈیٹنگ میں مرتب نے اپنی ماہرانہ استعداد کا بھرپور استعمال کرکے اس کتاب
کومزید قابلِ مطالعہ بنادیا ہے۔ اس کے اکثر لکھنے والے اپنی ادبی، سیاسی
اور ڈرامائی وابستگی کی وجہ سے نمایاں شخصیات میں شامل ہیں۔ حقائق کا دہراو
کم سے کم ہے۔ کسی لکھنے والے نے اپنی شخصیت نہیں ابھاری ہے اور مقدور بھر
کوشش کی ہے کہ حبیب تنویر کے کارناموں پر ہی گفتگو مرکوز ہو۔ اس کتاب کی یہ
خاص خوبی ہے کہ اس میں حبیب تنویر ایک ساتھ مُفکّر، ڈرامانگار، اداکار،
ادیب، شاعر، مصلح، عاشق، دوستوں کے دوست، سیاست داں اور عالمی امن کے
پیغامبر کے طور پر نظر آتے ہیں۔ ہر پڑھنے والے کو حبیب تنویر کی شخصیت کا
کوئی نیا پہلو لازماً اس کتاب میں مل جائے گا۔
فی زمانہ شخصیات پر ضخیم دستاویزی کتابیں تیار کرنے کا ایک عام چلن قائم
ہوگیا ہے۔ پانچ سو اور ہزار صفحات کی کتابیں ایسے لوگوں کے سلسلے سے بھی
سامنے آجاتی ہیں جن کی اس قدر اہمیت نہ تھی۔ کبھی کبھی افسوس ہوتا ہے کہ
اتنی ضخیم کتابیں تیار کرنے کے باوجود کام کی چیزیں کم شامل ہوئیں اور بہت
سارے امور تشنہ رہ گئے۔ اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ مختلف لوگوں نے ایک ہی طرح
کی باتیں پیش کیں۔ کچھ رٹی رٹائی باتیں تو شامل ہوجاتی ہیں لیکن اصل موضوع
یا شخصیت کے سلسلے سے گہری باتیں اور کارآمد نکتے آسانی سے ہاتھ نہیں آتے۔
مسعودالحق نے ’’حبیب تنویر کا رنگ منچ‘‘ ترتیب دیتے ہوئے ایک ذیلی عنوان
قائم کیا ---- ’معاصرین اور دوستوں کے تاثرات‘۔ یہ مرتّب کا انکسار ہے ورنہ
سب ڈرامہ اور ادب کے ماہرین کی تحریریں یہاں شامل کی گئی ہیں۔ پرانے اور
لائق لکھنے والے خود کو مصنّف کی جگہ مولف کہتے تھے۔ اسی طرح مسعودالحق نے
عہدِ حاضر کے بازاری انداز سے گریز کیا اور اپنی کتاب کے مضامین کو معاصرین
اور دوستوں کے ’’تاثرات‘‘ کہہ کر بہ ظاہر یہ بتانا چاہا کہ یہ کوئی گہری
اور تنقیدی وتحقیقی کتاب نہیں ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ حبیب تنویر کے
سلسلے سے ایک مکمل دستاویز ہے۔ ان کی شخصیت اور کارناموں کے ہر پہلو کو
مرتب نے اپنے زمانے کے ماہرین کے مضامین سے اس طرح نکال کر رکھ دیا ہے جیسے
یہ کوئی تحقیقی اور علمی مطالعہ ہی ہو۔
اس کتاب کے مطالعے سے حبیب تنویر کی شخصیت اور کارناموں کی جو دنیا روشن
ہوتی ہے، اس میں سب سے اہم وہ اطّلاعات ہیں جن سے ہمیں حبیب تنویر کی مکمل
ڈرامائی شخصیت کے عناصر معلوم ہوجاتے ہیں۔ یہاں آغاز، تشکیلی دور، عروج،
فکری بنیادیں اور کام کا مجموعی احتساب---- سب باتیں مرحلہ وار طریقے سے
ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں۔ اس کی وجہ سے کسی بھی قاری کو حبیب تنویر کے
تدریجی ارتقا کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔ سب سے پہلے تین مضامین
سے ایک ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے جس سے معلوم ہوسکے کہ حبیب تنویر کا
ڈرامائی ذہن کس طرح مرتّب ہوا:
< ’’میں نے سوچا کہ آدمی کوئی قابلِ قدر کام اس وقت تک کر ہی نہیں سکتا جب
تک کہ وہ اپنی جڑوں تک نہیں جاتا ہے اور اپنی روایات کی تاویل نہیں کرتا ہے
اور انھیں جدید ترین اور معاصر پیغامات کی ترسیل وابلاغ کا ذریعہ نہیں
بناتا ہے۔ اس کا مطلب ہوا روایات میں تخلیقی مداخلت۔‘‘ ] جاوید مَلِک:
جدیدیت کی تشکیل نو؛ص۲۶[
< ’’یورپ میں گزارے ہوئے دنوں نے انھیں خود اپنے ثقافتی اور سماجی خلقیے کے
حوالے سے کام کرنے کی اہمیت اور ضرورت کا یقین دلا دیا اور ان کے دل میں
رائج شہری تھیٹر کی طرف سے کسی قدر تنفّر پیدا کردیا۔ یہ تھیئٹر انہیں محض
نقل لگتا تھا جس پر کلونیل نقطۂ نظر اور کلونیل سوچ کا بھاری بوجھ تھا۔
اپنے چند معاصرین کے برعکس، بریختن ہونے کا مطلب ان کے نزدیک اور زیادہ
ہندستانی ہونا تھا۔‘‘ ]سلیم عارف: کرٹن کال؛ص۷۰ [
< ’’بریخت کے اثر نے حبیب کو وہ سب بھلانے پر مجبور کردیا جو انھوں نے
انگلستان میں سیکھا تھا۔ بریخت کا یہ قول کہ تھیئٹر کو تفریح ہونا چاہیے،
بالکل ویسے جس طرح میوزک ہال یا فٹ بال کا کھیل دلچسپ ہوتا ہے، حبیب کے جی
سے لگ گیا۔‘‘ ]شمع زیدی: چوتھی دیوار سے پَرے؛ص۷۸[
ان اقتباسات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حبیب تنویر نے لندن کے رائل
اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹس(RADA) میں ڈرامے کی اشرافیت کی جو تعلیم حاصل کی
تھی، اسے یورپ میں رہتے ہوئے بریخت کے حلقے میں انھوں نے مٹا دیا اور اپنے
ملک ہندستان میں نئے ثقافتی خواب کے ساتھ آئے اور اسی سے ایک نیا ڈرامائی
تصور قائم کیا۔ اس نئے ڈرامے میں سیاست، ارضیت اور زبان کا اَن گڑھ پن سب
کچھ ہے۔ یہی رفتہ رفتہ حبیب تنویر کے آرٹ کے عناصرِ ترکیبی بن گئے۔ چند
مقالہ نگاروں کے اس سلسلے سے مختصر تاثرات ملاحظہ کیجیے:
< ’’اس کے بعد انھوں نے بائیں بازو کے تھیئٹر میں سیکھے ہوئے فنون میں
ناصحانہ اور معلّمانہ طریقے کے استعمال کو چھوڑا اور اس کے بجاے استعاروں،
کنایوں اور بالواسطہ طریقوں سے کام کرنا شروع کیا اور دیکھنے والوں کو لطف
اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ انھیں خود اپنے سیاسی نتائج اخذ کرنے کا موقع
فراہم کیا۔‘‘ ]سدانند مینن: تھیئٹر میں’سیاسی‘کی تجدید؛ص۶۶[
< ’’تنویر ایک عالمی شہری تھے اور دنیا سے وہ چیزیں مستعار بھی لیتے تھے،
پڑھتے تھے اور بلا تکلف اثرات قبول کرتے تھے مگروہ ایک طویل اور سخت تخلیقی
جدوجہد کے بعد چھتیس گڑھ کے ہو گئے۔‘‘ [سدھنوا دیش پانڈے:حبیب تنویر اور
چھتیس گڑھ؛ص۵۰]
< ’’حبیب تنویر کہا کرتے تھے کہ آرٹ کو اگر زندہ رہنا ہے تو اسے روایت شکن
اور انقلابی ہونا ہوگا۔‘‘ [مسعودالحق:پیشِ لفظ؛ص۱۳]
< ’’وہ ایک نارض آدمی تھے مگر ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہمیشہ کھیلتی رہتی
تھی۔‘‘ [نندِتاداس: حبیب تنویر اور ان کے اداکاروں کے ساتھ رہرسل؛ص۱۲۶]
یہ ڈرامائی تصوّرات آج زیادہ انوکھے نہیں معلوم ہوں گے لیکن ساٹھ سال قبل
کے ہندستانی تھیئٹر کی فکری بے سمتی کو نگاہ میں رکھا جائے تو پتا چل جائے
گا کہ حبیب تنویر کس طرح ہمارے ملک میں تھیئٹر کی ایک انقلابی دنیا خلق
کررہے تھے۔ صرف سماجی انقلاب پر قناعت کرنے والے افراد کے لیے بھی اکثر
حبیب تنویراس لیے ناپسندیدہ ہوجاتے تھے کیوں کہ وہ تہذیب وثقافت کے ہر منچ
پر اس آزادی اور انقلاب کی دستک سننا چاہتے تھے۔ اسی لیے ان کے ہاں ڈرامائی
آرٹ میں ایک سُلجھا ہوا ارتقا نظر آتا ہے۔ حبیب تنویر نے مستقبل کا تھیئٹر
تلاش کیا اور اس کے نقش ونگار متعیّن کیے۔ مسعودالحق نے اپنی کتاب میں حبیب
تنویر کے کارناموں کا مجموعی احتساب بھی شامل کیا ہے۔ پیش ہیں چند
اقتباسات:
< ’’انھیں بالآخر اپنے کام کو دو مخصوص علاقوں میں قائم کرنا تھا۔ ایک
علاقہ تھا جس میں انھیں ایک نئے ایمائی اور علامتی مواد کے لیے جگہ نکالنی
تھی جو لوک گیتوں اور علاقائی ذہانت اور علاقائی حسِ مزاح میں احتجاج کی
روح کی شکل میں پنہاں تھا اور مزاحیہ اور شوخ وگستاخ پرفارمنسز میں بڑے
واضح طور پر دکھائی دیتا تھا۔ دوسرا علاقہ اسٹیج پر پردے کے سامنے کی جگہ
کو رد کرکے ایک زیادہ بہتی ہوئی، زیادہ الھڑ تھیئٹریکل جگہ بنانے کا تھا۔‘‘
[سدانند مینن:حوالۂ سابق؛ص۶۱]
< ’’حبیب تنویر کا کمال اور کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اردو ڈرامے کی تاریخ
کو لسانی سخت گیری ، تعصب اور تنگ نظری کے دائرے سے باہر نکالا۔ زبان کے
ساتھ بولیوں کی اہمیت کا احساس عام کیا اور معاشرتی نیز فکری سطح پر بھی
اردو کلچر اور اس کلچر کو اساس مہیّا کرنے والی مقامی، مادّی اور زمینی
سچائیوں میں تال میل پیدا کرنے کی کوشش کی۔‘‘ [شمیم حنفی: حبیب تنویر……ایک
متمدن آدی باسی کا ادھورا خاکہ؛ص۱۶۳]
< ’’ہم نے ٹیم ورک یا جماعتی کام میں کیا لطف ہے، حبیب سے سیکھا۔ یہ بھی
جانا کہ وہ ایک خوش طبع، چنچل، شائستہ، مہذّب اور باذوق آدمی ہیں۔ بالکل
ہماری طرح جو اُن کی طرح ہونے کی آرزو رکھتے ہیں۔‘‘ [راجیو سیٹھی:ایک
لِجنڈ؛۹۵]
< ’’حبیب تنویر نے تھیئٹر کے اپنے شوق اوراپنے جنون کو سیکولر اور روشن
خیال انداز پر اپنے ناقابلِ مصالحت عقیدوں اور سماجی تشویشات سے اپنے زندگی
بھر کے عہدِوفا کے ساتھ وابستہ کررکھا تھا۔‘‘ [شانتا گوکھلے:حبیب
تنویر……سرتاپا تھیئٹر؛ص۵۷]
< ’’انھوں نے مذہب، سیاست اور تاریخ کو سمجھا اور سنجیدگی کے ساتھ ان میں
ملوث رہے۔ان موضوعات پر جب انھوں نے اپنے ناٹکوں کی تخلیق کی تو اُن کی
چھتیس گڑھی میں ایک ہمہ گیر کُل ہند لہر کا احساس ہوا۔ وہ چاہے کوئی قدیم
سنسکرت کلاسک ہو، چاہے یوروپین لوک ہو، چاہے آج کا ماڈرن۔ حبیب کے ناٹکوں
کی تخلیق ہمیشہ حال کے حوالے سے ہوئی۔ ان کے ڈراموں میں ہمیشہ ایک مخصوص
روشن خیال اور انسان دوست فضا ہوتی ہے۔‘‘ [ایم۔کے۔رینا:نشاۃالثانیہ کی
بصیرت رکھنے والا ایک فن کار؛ص۱۵]
حبیب تنویر کا ذکر ہو اور ان کے ڈراموں ’آگرہ بازار‘ اور ’چرن داس چور‘ کی
بات پہلی سانس میں ہی نہ آجائے،یہ ممکن نہیں۔ یہ کتاب یوں تو شخصیات کے
تاثرات پر مبنی ہے لیکن اس میں بھی ان دونوں ڈراموں کے حوالے سے حبیب تنویر
کے ڈرامائی ذہن میں مقالہ نگاروں نے جھانکنے کی کوشش کی ہے۔ ذیل میں تین
مختصر اقتباسات ملاحظہ کیجیے:
< ’’میں نہیں سمجھتا کہ معاصر تھیئٹر میں کسی ڈائرکٹر نے وہ مقبولیت حاصل
کی جو مثال کے طور پر حبیب تنویر کے ناٹک ’’چرن داس چور‘‘ کے حصے میں لکھی
تھی۔‘‘ [پرسنّا: حبیب تنویر کی حقیقی اہمیت؛ص۳۸]
< ’’اور پھر یوں ہوا کہ میں نے ’’چرن داس چور‘‘ دیکھا۔ میری سمجھ میں آج تک
نہیں آیا کہ اس ناٹک میں وہ کون سی چیز تھی جس نے میرے حواس پر جادو کردیا
تھا؟ کیا وہ اسکرپٹ تھا؟ کیا وہ چھتیس گڑھی ایکٹروں کا پرفارمنس تھاـ؟ کیا
وہ ڈائریکشن تھی؟ کیا وہ میوزک تھا؟ پتا نہیں کیا تھا۔ مگر آج تک ’’چرن داس
چور‘‘ کے طلسم سے باہر نہیں آسکا ہوں۔ اس دن میں نے حبیب صاحب کو ایک نئی
روشنی میں دیکھا۔ ناٹک تو میں نے بہت سے دیکھے تھے۔ پڑھے بھی تھے مگر تب تک
یہ راز معلوم نہیں ہوا تھا کہ اچھا ناٹک صرف ایک ناٹک نہیں ہوتا، وہ ایک
احساس ہوتا ہے جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ [جاوید صدیقی:اپنے
کامریڈ حبیب؛ص۱۹۲]
< ’’آگرہ بازار‘‘ نے بنیادی طور پر ایک بالکل مختلف تجربہ کرایا۔ ہئیت کے
اعتبار سے بھی اور مواد کے لحاظ سے بھی، بلکہ یہ ہر اس چیز سے مختلف تھا جو
شہر کے باسیوں نے ابھی تک دیکھی تھی․․․․․ ناٹک کے دو خصوصی پہلو تھے جو
تھیئٹر میں تنویر کے کاموں کی شناخت تھے۔ ایک اَن گڑھ عوامی کلچر سے تنویر
کی فن کارانہ اور نظریاتی رغبت اور دوسرا پہلو سنگیت اور شاعری کو ڈراموں
میں شامل کرنے کا شوق۔ غیر ضروری تزئین وآرائش کی خاطر نہیں بلکہ بریخت کی
طرح ایکشن کے ایک جزو لاینفک کی حیثیت سے۔‘‘ [جاوید ملک:حوالۂ سابق؛ص۲۴-۲۵]
حبیب تنویرنے بریخت اور جرمن تھیئٹر سے جو کچھ سیکھا، اسے انھوں نے تھیئٹر
کی ایک نئی زبان تشکیل کرنے میں بہ خوبی استعمال کیا۔ حبیب تنویر ڈرامے کی
سطح پر آزمائی جانے والی عرفِ عام میں ہماری زبانوں کی کارگردگی سے مطمئن
نہیں تھے۔ وہ ڈرامے کی ایک ایسی زبان کی تلاش میں تھے جو ہمارے روایتی
لسانی ڈھانچے کو تہس نہس کردے۔ ایک ترسیلی زبان کا یہ سودا لیے لندن، برلن
سب جگہ گئے۔ لیکن زبان انھوں نے سیکھی عام لوگوں کے بیچ۔ اسے اردو، ہندی
اور چھتیس گڑھی سب ناموں سے پہچانا گیا۔ یہی حبیب تنویر کا مخصوص اسلوب
قرار پایا۔بہ بقولِ حبیب تنویر:
< ’’میں بولیوں کی طرف کھنچا‘‘ انھوں نے کہا تھا ’’ان کے متمول کی وجہ
سے……ائرکنڈیشنڈ کمپارٹمنٹ……میں اس کا ہندی متبادل دہرا بھی نہیں سکتا ہوں۔
یہ ایک بہت طویل لفظ ہے۔ کچھ یہ صورتِ حال اردو میں بھی ہے۔ مگر بمبئی کے
قلی نے اسے صرف ’’ٹھنڈی گاڑی‘‘ کہا……زبان ہمہ وقت بنتی رہتی ہے۔ اسے وہ لوگ
جانتے ہیں جو اسے استعمال کرتے ہیں ۔ جنھیں اس کی ضرورت ہوتی ہے، جو اس سے
اپنی روزی کماتے ہیں……۔‘‘[انجم کٹیال: چرن داس چور اور ’ہرما‘ کا ترجمہ؛ص
۱۰۴]
اس کتاب کے مطالعے سے حبیب تنویر کی ایک عالمی شخصیت ابھرتی ہے۔ وہ اپنے
تصورات میں بین الاقوامی ذہن کے یوں ہی دکھائی نہیں دیتے۔ انھوں نے یورپ
اور امریکا میں وہاں کے لوگوں کے ساتھ مل کر جو تھیئٹر کیے اور سیکھنے
سکھانے کے عمل میں شامل رہے، اس سے دنیا کے مختلف ملکوں کے ڈرامے سے متعلق
شخصیات کا ان سے گہرا ربط پیدا ہوا۔ مسعودالحق نے اس کتاب میں روزی اور نین
سی وینڈر ہولڈ جیسی دو خواتین کے مختصر مضامین اور تاثرات شامل کرکے حبیب
شناسی کا ایک نیا زاویہ قائم کردیاہے۔ اس سے ان کی شخصیت ایک طلسم خانہ
معلوم ہوتی ہے۔ ان دونوں مضامین کے مطالعے سے حبیب تنویر کی شخصیت کی
محبوبیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ ان کے مضامین سے دو مختصر اقتباسات ملاحظہ
ہوں:
< ’’آپ کو جن لوگوں سے محبت ہوتی ہے، وہ ہمیشہ نہیں رہتے۔ جیسا کہ البرٹ
کامیو نے کہا تھا:’’کوئی موت خوش گوار نہیں ہوتی‘‘مگر آدمی جس راہ پر چلتا
ہے، ا س کے بارے میں وہ سوچ تو سکتا ہے۔ ایک اچھی اور خوش گوار موت کے لیے
آدمی کو کس طرح زندگی گزارنی ہوگی۔ حبیب نے ایک پُرشکوہ اور اچھی زندگی
پائی۔ا س کی زیادہ وجہ یہ تھی کہ انھوں نے اسے اپنی شرطوں پر گزارا۔ اور
اسی سبب سے انھوں نے اپنے وجود سے ہمیں زیادہ متمول چھوڑا۔ کاش میں انھیں
بچا سکتی۔ انھیں ان کے آخری تین دنوں اور گھنٹوں میں ہونے والی تمام
تکلیفوں اور ان کے تخلیے میں ہونے والی مداخلتوں سے انھیں محفوظ رکھ سکتی۔
میں ایسا نہیں کرسکی۔ کاش ہم میں سے وہ لوگ جو انھیں جانتے تھے اور ان سے
محبت کرتے تھے، وہ اس طرح بیچ میں آسکتے کہ وہ غیر ضروری اذیت جھیلے بغیر
اس کرہ ٔارض کو الوداع کہہ سکتے۔ہم یہ نہیں کرسکے۔‘‘[نینسی وینڈر ہولڈ:
حبیب تنویر سے میری دوستی؛ص:۱۱۸]
< ’’برلن میں انھیں ایسے لوگ ملے جو زندگی بھر اُن کے دوست رہیں گے،ہیننگ
اور کوراشیروڈر۔ خصوصاً ہیننگ۔ حبیب اور ہیننگ نے بے شمار شب وروز باتوں
میں بتا دیے۔کیسے؟ ہیننگ انگریزی نہیں جانتی تھی مگر ہیننگ ایک موسیقار
تھی، ایک کمپوزر تھی۔ میرا خیال ہے کہ دونوں بس ساتھ بیٹھتے، اپنے اپنے
پائپ پیتے، ریڈوائن پیتے، گاتے، ایک دوسرے کے لیے مختلف دھنیں گنگناتے۔
بھوپال میں حبیب کے بیڈروم میں مونیکا اور حبیب کی شادی کی تصویر کے ساتھ
ہیننگ کا ایک پورٹریٹ ہمیشہ لٹکا رہتا ہے۔‘‘[روزی، ماریا میگ ڈگرا:حبیب کی
یاد آتی ہے؛ص:۸۶]
ایسی کتابوں میں اردو کے قارئین ضرور یہ توقع کرتے ہیں کہ حبیب تنویر کا کم
از کم ایک خاکہ ضرور شاملِ کتاب ہو۔ فرحت اﷲ بیگ نے نذیر احمد کا ایسا خاکہ
لکھا جس کے سبب ہر پڑھنے والا اس بات کی توقع رکھتا ہے کہ کسی شخصیت کا اسی
طرح چلتا پھرتا نقش کاغذ پر کھڑا کردیا جائے۔ مسعودالحق نے حبیب تنویر کا
اس انداز کا خاکہ تو شامل نہیں کیا لیکن اس کتاب میں حبیب تنویر کی جادوئی
شخصیت کی تہیں کھولنے کے لیے مختلف مضمون نگاروں نے الگ الگ موقعے سے ان کے
ایسے دل پذیر مرقعے پیش کردیے ہیں جس سے خاکے کا حسن اور بے تکلّف فضا پیدا
ہوجاتی ہے۔ا س خاکہ نگاری کا اولین نقش تو مرتّبِ کتاب سے حبیب تنویر کی
پہلی ملاقات میں ہی ظاہر ہوجاتا ہے۔ واقعہ جس قدر انوکھا اور دل پذیر ہے،
بیان اس سے کسی درجہ کم لبھاونا نہیں۔ ملاحظہ کیجیے ایک اقتباس اور اس بات
پر غور کیجیے کہ یہ خاکہ کیوں کر نہیں ہے:
’’1950 ء تھا اور مہینہ غالباً جون تھا۔۔۔اس زمانے میں میرے بڑے بھائی۔۔۔
مکتبہ جامعہ کی بمبئی شاخ کے مینیجر بن چکے تھے۔۔۔میں بمبئی پہنچ گیا۔۔۔ایک
دن بھائی جان نے بمبئی کے سمندر کی سیر کا پروگرام بنایا۔۔۔رات خوب صورت
تھی۔ چاندنی رات تھی۔ کشتی میں بیٹھنے کے بعد ہم سے دور ہوتی ہوئی شہر کی
زرق برق روشنیوں نے ماحول کو کچھ زیادہ ہی دل فریب بنا دیا تھا۔۔۔چہار طرف
چاندنی کی سفید چادر تھی اور ہم لوگ ایک سحر آگیں فضا میں، اور دھیرے دھیرے
بہتی ہوئی ہوا کی خوش گوار خنکی میں سرشار، ساحل سے دور، سمندر کی گہرائیوں
کی طرف بڑھتے جارہے تھے۔ اچانک سمندر کی پُرسکون سطح پر بہتی ہوئی ایک آواز
آئی۔۔۔کنارے سے دور، محیط خاموشی کو توڑتی ہوئی آواز سے ہمیں حیرت بھی ہوئی
اور مسرت بھی۔ حیرت اس پر کہ ہمارے جیسے دیوانے اور بھی ہیں مگر ہے یہ
کون؟۔۔آواز کسی کے گانے کی تھی۔۔۔قیاس آرائیاں ہورہی تھیں۔بھائی جان نے
کہا: ’’ہو نہ ہو، یہ حبیب تنویر ہیں۔ اس وقت اور اتنی رات گئے ان کے علاوہ
کوئی اور نہیں ہوسکتا۔‘‘
کشتی والے سے کہا گیا کہ وہ ہماری کشتی کو اُسی آواز کی طرف لے چلے۔ آواز
قریب ہوتی گئی۔۔۔اس کشتی میں واقعی حبیب تنویر ہی تھے۔ کشتیاں قریب لائی
گئیں، روکی گئیں اور پھر بات چیت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس اتفاقیہ ملاقات
کا لطف بیان نہیں کیا جاسکتا۔ بھائی جان نے حبیب سے میرا تعارف کرایا۔ پھر
دونوں کشتیاں ساتھ ساتھ چلتی رہیں ۔ گفتگو ہوتی رہی، گانے سنے اور سنائے
جاتے رہے۔ چاندنی رات، سمندر، خاموشی، شہر بمبئی کے قریب آتی ہوئی روشنیاں۔
رات کے تقریباً دو بجے ہم لوگ کنارے پر اترے۔ پُر لطف سیر ختم ہوئی۔ ہم نے
ایک دوسرے سے رخصت لی۔ حبیب تنویر سے یہ میرا پہلا تعارف تھا‘‘ [مسعودالحق:
حوالۂ سابق؛ص۸-۹]
اس پیش بندی پر ہی خاکہ نگاری کا سلسلہ تمام نہیں ہوتا۔ مختلف مضمون نگاروں
نے اپنے طور پر حبیب تنویر کوجیسے دیکھا، اسی طرح اور اسی انوکھے پن کے
ساتھ پیش کردیا ہے۔ اس سے اس کتاب کے مطالعے کے لیے مزید رغبت پیدا ہوتی
ہے۔ یہ تصویریں بلاشبہ حبیب تنویر سے محبت اور عقیدت کرنے والے لوگوں نے
سجائی ہیں۔ اسی وجہ سے یہ ایک مکمل خاکے کے بکھرے اوراق معلوم ہوتے ہیں۔
زندگی کے جانے اَن جانے چند پہلوؤں کو ذیل کے کچھ اقتباسات سے آپ بھی واقف
ہوں:
< ’’یہ ناقابلِ فراموش خوب صورت آدمی مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے۔"HIP" (اس
زمانے میں یہ لفظ……Cool کا مترادف سمجھا جاتا تھا) شائستہ، خوش وضع، سبز
قمیص اور آنکھوں کے رنگ کی تلافی کرتے ہوئے سرخی مائل بھورے رنگ کی کارڈ
رائے کی پتلون پہنے ہوئے، گھنگھریالے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے یا پھر
سرپر نرم نمدے کی ٹوپی۔ تمباکو کے پاؤچ میں کچھ ٹٹولتے ہوئے، اپنے پائپ کو
کنجی سے کھودتے ہوئے۔‘‘[راجیو سیٹھی:حوالۂ سابق؛ص:۹۴]
< ’’افسردہ اور سریلی چھتیس گڑھی بولی میں، وہاں کے خوبصورت لوک گیت اس سے
سُن کر آدمی کا دل جیسے پگھل جاتا تھا۔ روشنی کی موت (Dying of the light)
اور خود اپنی فنا کا انھیں دکھ تھا۔ ایک ایسے جسم پر، جو اب ان کا ہمیشہ
ساتھ نہیں دیتا، بڑھاپے کی ناانصافیوں پر وہ جھنجھلاتے تھے۔ ۔
․․․۱۵؍مئی ۲۰۰۹ء کو جب وہ اسپتال میں داخل کیے گئے، اس سے کئی دن پہلے ہم
نے باتیں کی تھیں۔ ان کی پہلے والی گمبھیر اور بلند آہنگ آواز کمھلائی ہوئی
اور مدھم تھی۔ انھیں سانس لینے میں بڑی دشواری تھی، اور جملوں کے بیچ میں
طویل وقفے تھے۔ میں بہت پریشان ہوگئی۔ میں نے کہا: اچھا حبیب،
خداحافظ۔‘‘[نینسی وینڈر ہولڈ:حوالۂ سابق؛ص:۱۱۷]
< ’’ذوالفقار بخاری صاحب نے اپنی آپ بیتی میں حافظ کی غزلوں سے حبیب صاحب
کے شغف کا تذکرہ بھی کیا ہے اور لکھا ہے کہ جب وہ اپنے مخصوص ترنم کے ساتھ
بڑے بخاری صاحب اور فیض صاحب کے سامنے حافظ کی غزلیں سناتے تھے تو ایک سماں
بندھ جاتا تھا اور پطرس کہا کرتے تھے کہ شعر حافظؔ کے ہوں اور ترنم حبیب
تنویر کا تو ایسا لگتا ہے کہ آسمان سے انوار کی بارش ہورہی ہے۔‘‘[شمیم
حنفی: حوالۂ سابق؛ ص:۱۶۶]
< ’’حبیب صاحب کی طبیعت میں تحمل اور اشتعال کے رنگ عجب طرح سے باہم مل گئے
تھے۔ اپنی تڑپ کو وہ جس صبر اور سلیقے کے ساتھ باندھے رکھتے تھے، وہ اپنی
جگہ؛ دوسری طرف معاملہ اپنے تعہد اور اپنے ضمیر کو بچائے رکھنے کا ہو، اور
آزمائش کی گھڑی آجائے، تو وہ آن کی آن میں شعلے کی طرح بھڑک اُٹھتے تھے۔ ان
کے بیشتر ڈرامے دراصل اسی اخلاقی آزادی کے احساس اور ضمیر کی طہارت کا
اظہار ہیں۔‘‘[شمیم حنفی:حوالۂ سابق؛ص:۱۶۵]
اہالیان اردو کے بیچ اس کتاب کی سب سے زیادہ اہمیت اس وجہ سے قائم ہوتی ہے
کیوں کہ اس میں کم از کم آدھا حصہ انگریزی اور ہندی زبانوں میں لکھے گئے
مضامین کے اردو ترجمے سے مکمل ہوا ہے۔ پندرہ مضامین مرتّب نے خود انگریزی
سے اردو میں ترجمہ کیے ہیں جو ایک سوبارہ صفحات پر مشتمل ہیں۔ مرتبِ کتاب
کی اپنی مادری زبان پر ایسی گرفت ہے کہ وہ انگریزی سے صرف ترجمہ نہیں کرتا
بلکہ ہماری زبان جدید علمی تقاضوں سے لیس ہوکر وہاں پہنچ جاتی ہے۔ ہمارے
معاشرے میں انگریزی دانی تو بڑھتی جارہی ہے لیکن ایسے نفیس ترجمہ کرنے والے
چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ ذیل کے جملے ملاحظہ کیجیے اور مسعود
الحق کے بہترین مترجم ہونے کی داد دیجیے:
< ’’مونیکا، نگین کی ماں، ایک طرف اپنی ذکاوت اور پیش بینی سے ہمہ وقت شکست
وریخت کی شکار دنیا میں چیزوں کو مجتمع اور حالات کو قابو میں رکھتی ہیں۔
دوسری طرف حبیب، تخلیقی افراتفری کے ماحول میں سکون اور عزم کے ساتھ کاموں
میں مگن رہتے ہیں۔‘‘راجیو سیٹھی : حوالۂ سابق؛ص:۹۰]
< ’’نیا تھیئٹر نے ڈرامے کی ایک بے ساختہ اور برجستہ شیلی کی تخلیق میں مدد
کرنے کے لیے مختلف زبان بولنے والے دیہی اور شہری فن کاروں کے ساتھ کام
کیا۔ کیا یہ ایک نئی ملواں ہندستانی ہانڈی تھی، کُل ہند کٹھالی میں پڑی
ہوئی ایک کھچڑی؟ یا یہ ایک بالکل مختلف اور متنوع ہندستان تھا جو اپنے
ناگزیر اختلافات سے نبردآزما تھا اور اپنی خطرات میں گھری ہوئی تکثیریت
(Plurality) کی زندگی اور اس کے استحکام کی نوید دے رہا تھا؟‘‘[راجیوسیٹھی
:حوالۂ سابق؛ص:۹۷-۹۸]
< ’’یہ اکثر اسٹیج پر ہونے والی سرگرمیوں کی تاویلات میں مزید تہیں یا مزید
ابہام شامل کرتے ہیں۔ لہذا لَے اورسُر جیسی گیتوں کی خصوصیات سے محروم ہوئے
بغیر، میں نے کسی نہ کسی طرح ان میں پنہاں پیغامات کو گرفت میں لانے کی
کوشش کی۔ میں نے مقامی استعاروں کے متبادل کی تلاش وجستجو کی۔ گیتوں کے
چلبلے پن، اس کی مزیداریوں اور اس کی بھرپور توانائیوں کو باقی رکھنے کی
سعی کی۔‘‘[انجم کٹیال:حوالۂ سابق؛ص۱۰۶]
یہ کتاب مسعودالحق صاحب نے اپنی عمر کی آٹھویں دہائی میں ترتیب دی۔ کتاب کے
ایک ایک صفحے سے تجربہ اور پختہ کامی جھلک رہی ہے۔ پیش لفظ کے علاوہ
مسعودالحق نے کہیں اپنی دوستی کا دَم نہیں بھرا۔شمیم حنفی کے مضمون کے
علاوہ شاید ہی مرتب کے حبیب تنویر سے تعلقات کے بارے میں دوچار الفاظ رقم
ہوئے ہوں۔ خود کو پوشیدہ رکھ کر اپنے موضوع کو زیادہ روشن کرنے کا صوفیانہ
ہنر مسعودالحق کا وصفِ خاص ہے۔ بہت ایمانداری سے ہر مضمون کی اشاعتِ اوّل
کی تفصیل بتائی۔ رسالے یا کتاب کا فرداً فرداًذکر کرکے شکریہ ادا کیا۔ آج
کے مرتّبین اتنا علمی تکلّف اور تردّد کہاں پالتے ہیں؟ ان کا بس چلے تو
دوسروں کے مضامین سے اپنے نام کی ضخیم کتابیں تیار کرلیں۔ اپنا نام تو شاہ
سرخیوں میں ہولیکن اصل لکھنے والوں کے نام خفی قلم سے لکھے جائیں۔ وہ
مضامین کس کتاب سے لیے گئے، اس کی صراحت بھی ضروری نہیں سمجھی جاتی۔
مسعودالحق صاحب نے اس کے برخلاف ایک ایک مضمون نگار کا واضح انداز میں
تعارف کرایا ہے۔ تعارف میں بھی یہ اہتمام رکھا کہ مضمون کے آغاز میں زیادہ
روشن انداز میں تعارف لکھا جائے۔ اردو کے ماحول میں جو لوگ زیادہ جانے
پہچانے ہیں، صرف انھی لوگوں کا الگ سے تعارف نہیں کرایا گیا ہے۔ جیسے شمیم
حنفی، زبیر رضوی، جاوید صدیقی، انیس اعظمی، اقبال مجید، محمد کاظم وغیرہ۔
یہ کتاب ’مونتاج‘ اسلوب میں تیار ہوئی ہے۔ الگ الگ زاویے سے وقت کے مرکز پر
ٹھہری ہوئی زندگی کا مطالعہ۔ مصوّروں کو یہ فائدہ حاصل ہے کہ ایک بار آنکھ
کھلی اور تصویر کے سب رنگ اور زاویے نگاہوں میں قید ہوگئے۔ اسی لیے آنکھ
والے کو کبھی کبھی کوئی تصویر حیرت انگیز طور پر اپنے قابو میں کر لیتی ہے۔
لیکن مصوری کی تکنیک آزماتے ہوئے مسعود الحق نے اس کتاب میں ہر صفحے پر ایک
نئے حبیب تنویر کو پیش کیا ہے۔ سب تصویریں اسی طرح سجی دھجی نہیں ہیں جیسے
اکثر حبیب تنویر دکھائی دیتے تھے اور جیسے سگار سے دھواں اڑاتے حبیب تنویر
کی تصویر کتاب کے سرورق پر سجائی گئی ہے۔ کچھ کھُردری آوازیں اور کچھ کٹے
پھٹے اوراق بھی ہمارے سامنے آتے ہیں۔ کچھ سوال اور کچھ ادھورے جواب بھی جگہ
جگہ بکھرے ہوئے ہیں۔ سب کچھ پسندیدہ ہو، ایسا نہیں ہے، لیکن مرتب کو
’مونتاج‘ کا تخلیقی ہنر معلوم ہے۔ اس لیے حبیب تنویر کی خوشبو اور جادو ہر
آنکھ اور دل کے لیے یہاں حاضر ہے۔ اس کتاب سے اردو میں حبیب شناسی کا ایک
نیا سلسلہ شروع ہوگا، اس کا مجھے یقین ہے۔ خدا کرے، حبیب تنویر کے سلسلے سے
مسعودالحق صاحب کے باقی ماندہ کام ان کے اخلاف جلد از جلد منظرِ عام پر لے
آئیں۔
[حبیب تنویر کا رنگ منچ، مرتّبہ مسعود الحق، اشاعتِ اوّل: مارچ2012،
قیمت:۱۶۰روپے، صفحات:۲۶۹، ناشر:دلّی کتاب گھر، ۳۹۶۱، گلی خان خاناں، جامع
مسجد، دہلی۔۶] |
|