عہدِ حاضر کا استاد ایک جائزہ
(Ghulam Nabi Madni, Madina)
استاد،معلم اور(teacher) معاشرے میں اس
عظیم شخصیت کو کہا جاتا ہے ،جو معاشرے کی بنیادوں ،قوموں کی جڑوں،ملکوں اور
ریاستوں کی سرحدوں اور نظام ِ عالم کی بقاء میں بنیادی اور مرکزی کردار اد
ا کرتا ہے اور انہیں گھن لگنے سے بچاتا ہے ۔ ایک استاد محض ایک شخص یا ذات
کا نام نہیں ہوتا ،بلکہ پورا ایک جہان ہوتا ہے ،جس سے لاکھوں کروڑوں لوگ
متعلق(connect)ہوتے ہیں۔استاد کی محنت،لگن ،شوق،امانت،دیانت،راست بازی،نیک
نیتی کا اثرصرف اس کی ذات تک ہی محدود نہیں ہوتا ،بلکہ ان صفاتِ حسنہ کا
دائرہ کار کروڑوں لوگوں تک وسیع ہوتا ہے۔دنیا میں آنکھ کھولنے والا ہر
انسان استاد کے بغیر کامل انسان بن سکتا ہے ،نہ دنیا کی رنگینیوں میں بے
مثال اور بہترین زندگی گزار سکتا ہے ۔اگر یوں کہا جائے تو ہرگز مبالغہ
آرائی نہ ہوگی کہ استاد ہی دنیا میں وہ عظیم ہستی ہے جس کی بقاء اس کے علم
کی بدولت تاقیامت رہتی ہے۔
استاد اور معلم کی ہستی کس قدر عظیم خصوصیات کی حامل ہے ،اس کااندزاہ ان
ارشادات سے لگایا جاسکتا ہے۔ارشا د ِباری ہے کہ"حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے
مومنین پربڑا احسان فرمایا کہ ان کے درمیان انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو
ان کے سامنے اللہ کی آیتیں پڑھ کر سنائے اور انہیں پاک صاف کرے اور انہیں
کتاب وحکمت کی تعلیم دے۔(اٰل عمران:164)یقینادنیا کے عظیم معلم حضورصلی
اللہ علیہ تھے۔چنانچہ حضوراکرم صلی اللہ نے خود اپنے بارے میں
ارشافرمایاکہمجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے (بخاری ومسلم)۔آپ ﷺ کے منصب
رسالت کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری تعلیم وتعلم کی بھی تھی۔آپ ﷺ
نے دیگر ذمہ داریوں کی طرح تعلیم وتعلم والی اس اہم ذمہ داری کو بھی بخوبی
نبھایا۔کسی بھی معلم کی کارکردگی کو پرکھنے کے لیے اس کے شاگردوں کو جانچا
جاتا ہے۔اگرآپﷺ کی بحثیت معلم ہونے کی حسن کارکردگی کو جانچنا ہو تو آپ کے
عظیم شاگردوں کو دیکھ لیا جائے۔کس طرح آپ ﷺ نے جہالت وظلمت میں ڈوبے ہوئے
صحرا نشینوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر کے قیامت تک آنے والی انسانیت
کے لیےآئیڈیل اور ہدایت کا ذریعہ بنایا۔
منصب ِاستاد کی عظمت اوراہمیت جس قدر بلند ہے ،اسی قد ر اس منصب پر فائز
ہونے والے شخص کے کندھوں پر بھاری ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔جس طرح ایک
استاد اور معلم کے لیےحضور ﷺ کی ذات گرامی آئیڈیل ہے اسی طرح ہر شاگر د کے
لیے اپنا استاد آئیڈیل ہوتا ہے ۔اور جو شخصیت جس قدر مثالی یاآئیڈیل ہوگی
اس پر ذمہ داریاں بھی اتنی ہی سخت عائدہوں گی۔ چنانچہ ایک استاد کو کم ازکم
ان اوصاف کا ضرور حامل ہونا چاہئےکہ اس میں حرص کا مادہ ہونا چاہیے،یعنی
اپنے طلبہ کی بھلائی کے لیے خیرخواہی کے جذبے سے سرشار ہو ۔جوچیز طلبہ کے
لیے مفید ہو اس کو فوراً بتادے۔استاد کو شفیق مہربان اور نرم ہوناچاہیے۔آپﷺ
کا ارشاد ہے کہ "اللہ نرم ہیں اور اپنے تمام معاملے میں نرمی کو پسند
فرماتے ہیں"(بخاری)استاد کو عاجزی اور تواضع سے لیس ہونا چاہیے۔اس لیے کہ
عاجزی ہی وہ عظیم صفت ہے جو انسان کو کمال عطا کرتی ہے ۔ورنہ اس کے
بالمقابل تکبر انسان کو ذلیل ورسوا کرتاہے ۔چناچہ اسی تکبر کی وجہ سے شیطان
مردود ہوا۔استاد کے اندر وسعت ِقلبی اور کشادہ دلی کا مادہ ہونا چاہیے۔کیوں
کہ استاد جس قدر وسیع ظرف کاحامل ہو گا ،طلبہ کا میلان اسی قدر زیادہ
ہوگا۔یوں طلبہ اپنےمعاملات اپنے استاد سے شئیر(share) کرنے میں ہچکچاہٹ
محسوس نہیں کریں گے۔آپﷺ کی عادت مبارکہ بھی یہی تھی۔چنانچہ آپﷺ سے صحابہ
کرام ہر قسم کے سوالات بلاتامل کرسکتے تھے۔استاد کو طلبہ کے سوالات کا نرمی
سے جواب دینا چاہیے ۔اگر کسی بات کا علم نہ ہوتو محض اندازے سےبیان نہ کرے
،بلکہ یا تو معذرت کرلےیا آئندہ بتانے کا وعدہ کرلے۔امام مالک ؒ کے بارے
میں آتا ہے کہ جب ان سے کسی ایسے مسئلہ کے بارے میں پوچھاجاتا جن کا ان کو
علم نہ ہوتا تو وہ "لاادری"(مجھے معلوم نہیں ہے)فرمادیتے ۔استاد کو ہر اس
کام سے بچنا چاہیے جو اس کی شخصیت یا اس کے کر دار کو داغ دار کرے ۔کیوں کہ
طلبہ استاد کے ہر بات اورعمل سے اثر پکڑتے ہیں۔استاد کے قول وعمل میں ہم
آہنگی ہونی چاہیے ۔استاد کو تعصب،بد دیانتی ،شخصیت پرستی ،قوم پرستی ،سستی
،کام چوری ،لسانیت،خیانت،غفلت اور رشوت جیسی بری عادات سے مبرا
ہوناچاہیے۔استاد کو خلوص نیت ،ایمانداری، نیک نیتی سے اپنے فرض منصبی
نبھانا چاہیے۔اس سلسلے میں کسی قسم کے دباؤ،لالچ ،ڈر خوف سے متاثر ہوئے
بغیر استغنا ء کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔
اکیسویں صدی کے اس دور کو سائنسی اور تعلیمی دورکہاجاتا ہے ۔کیوں کہ تعلیم
نے جس سبک رفتاری سے ترقی بیسویں اور اکیسویں صدی میں کی اس کی نظیر ماضی
میں ملنا مشکل ہے ۔اسی ترقی کی بدولت آج انسانوں کو ایسی ایسی سہولیات
ملیں،جن کاتصور ماضی میں نہیں تھا۔تعلیمی وسائل کی بہتات کے باوجود آج
ہمارے ہاں ایسے کھیپ تیارنہیں ہورہی جس سے ملک وملت کوکوئی خاطر خواہ فائدہ
پہنچے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تعلیم کی نشرواشاعت کے ذرائع اور وسائل کی
کثرت سے معاشرے میں انقلاب برپا ہوجاتا۔اخلاقی ،تمدنی ،ثقافتی ،معاشی ،معاشرتی
اقدار کو چار چاند لگ جاتے ،امن وسکون ،امانت ،دیانت،محبت ،الفت اور بھائی
چارگی کی پر سکون فضاء اور ماحول بن جاتااور پوری قوم نہ صرف مہذب بن جاتی
،بلکہ اقوام ِعالم کی قیادت وسیادت کے لیے فیورٹ بن جاتی ۔لیکن افسوس !یہ
سہانے خواب شرمندہ تعبیر ہونے کے بجائے محض خواب اور ماضی کی قصے کہانیاں
بنتے جارہےہیں۔اگر ہم اس خواب کی تعبیر میں رکاوٹ بننے والے اسباب تلاش
کریں تو بنیادی سبب قوم کے معماروں کی عدم توجہ اور غفلت کا ہونا ہے۔جہاں
تک عہدِحاضر کی استاد کی کوتاہیوں کا تعلق ہے تو ا س سلسلے میں صرف اتنا
کہاجاسکتا ہے کہ آج کا استاد مقام ِ استاد اورعظمت ِ استاد کو فراموش کرکے
مادیت اور دنیا کی چکا چوند کرنوں کا اسیر ہوتا جارہاہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج
کے استاد کی دوڑدھوپ پیسے کے حصول کے لیے بنتی جارہی ہے۔اس حقیقت سے انکار
نہیں کہ معاشرے میں آج بھی استاد کو عزت کی نگا ہ سے دیکھا جاتاہے۔لیکن غور
کیا جائے تو یہ عزت ذات ِ استاد کی نہیں بلکہ منصب استاد کی کی جاتی
ہے۔جہاں تک استاد کے احترام کا تعلق ہے وہ رفتہ رفتہ ناپید ہوتا جارہاہے ۔ہمارے
تعلیمی اداروں میں طلبہ کی طرف سے اساتذہ کے ساتھ بدسلوکی اور بدتمیزی کے
واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔پاکستان میں سرکاری اور پرائیوٹ طرز کے تعلیمی
ادارے سرگرم عمل ہیں۔ پرائیوٹ اداروں میں تعلیمی عمل کسی حدتک حوصلہ افزا
ہے ۔لیکن سرکاری اداروں میں تعلیم کا جنازہ نکلتا جارہاہے ۔حالاں کہ ملک کے
زیادہ تر بچے انہی اداروں میں پڑھتے ہیں۔سرکاری اداروںمیں منصبِ استاد
پرفائز اساتذہ کی تعلیمی صلاحیت کا اندازہ 2014 کی ایک رپورٹ سے
لگایاجاسکتا ہے۔جس کے مطابق سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی تعداد 6 لاکھ 78
ہزار سے زائد ہے ۔ان میں سےصرف 2.7 فیصد یعنی 18 ہزار 820اساتذہ کی تعلیمی
قابلیت مڈل ہے۔
سرکاری اداروں میں تعلیمی معیار بہتر بنانے اور عہدِ حاضر کے استاد کو
مثالی بنانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔جس کے لیےقابلیت
اور میرٹ کے پیمانے کا لحاظ کرناہوگا،اساتذہ کو اوصاف ِحمیدہ اور ذمہ
داریوں سےمکمل طورپر ہم آہنگ کرنے کے لیے خصوصی ٹریننگ دینی ہوگی۔حکومت
کوآئے روز ،گلی محلوں میں کھلنے والے اسکولوں اوراکیڈمیوں کے لیے ایک خاص (criteria)مقر
ر کرنا ہوگا،تاکہ تعلیم کے نام پر ہرشخص قوم کےسرمایے(نوجوانوں )کو لوٹنے
کی ہمت نہ کرسکے۔سرکاری اداروں کے اساتذہ کو پرائیوٹ اکیڈمیاں اور سکولز
کھولنے سے روکنا ہوگا تاکہ وہ سرکاری اداروں میں اپنی ذمہ داریوں میں غفلت
نہ برت سکیں۔موجودہ پرائیوٹ اور سرکاری اداروں کی مانیٹرنگ کے لیے حکومتی
سطح پر ایک فورس تشکیل دینی چاہیے،جو ماہواری یاسالانہ کی رپورٹ سے اساتذہ
کی کارکردگیوں کو جانچے اور غفلت کے مرتکب اساتذہ کی پڑتال کر کے قانونی
طور پر کاروائی کرے ۔ |
|