8 اکتوبر آفات سے آگاہی
(Shahzad Saleem Abbasi, )
حالیہ دو عشروں کی تاریخ میں زمینی آفتوں
کی لمبی سیریزنے ہمیں خوب جھنجوڑ کے رکھ دیا ہے۔فروری2004 ، آٹھ اکتوبر2005
، اٹھائیس اکتوبر 2008،2010، 2011،2012سے اب تک لگ بھگ درجن زلزلے آئے
جنہوں نے ہمیں گاہے بگاہے ہلا ہلاکر سمجھانے کی بے سود کوشش کی ہے۔8 بجکر
پچا س منٹ اور 39 سیکنڈز پر 2005 میں آزاد کشمیر میں 7.6 ریکٹر اسکیل کے
کربناک زلزلے نے سر کاری اعداد شمار اور ویکی پیڈیا کیمطابق نوے ہزار سے
زائد لوگوں کی جان لے لی۔ محتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ سے زائد لوگ آزاد
کشمیر ، جموں کشمیر ، خیبر پی کے اور اسلام آباد میں موت کی آغوش میں چلے
گئے۔ مظفرآباد کی کل آبادی کا70 فیصد ملیہ میٹ جبکہ باغ دوسرا سب سے
زیادتباہ شدہ علاقہ تھا۔ سوا لاکھ کے قریب زخمی ہوئے، تین اعشاریہ پانچ
ملین لوگ بے گھراور پانچ لاکھ سے زائد خاندان متاثر ہوئے۔ اڑھائی لاکھ
جانور مٹی میں دفن ہو گئے ۔ سینکڑوں سکولز کالجز منہدم ہو گئے اور تقریباََ
5.2 یو ایس ڈالرز( پانچ کھرب 27 ارب کا نقصان ہوا۔ 26 اکتوبر2015 کا
عبرتناک زلزلہ 340 کے قریب اموات اور2,900 زخمیوں کی بد بختی سامنے لے کے
آیا۔ 1,99,305آبادی متاثر ،25,094 تباہ کل وجزوقتی نقصان ہوا۔
ہمارے ارباب اختیار بد قسمتی سے ترقی و خوشحالی کیلئے فلپائن اور نیپال
جیسے ترقی پذیر ممالک کو مشعلِ راہ سمجھتے ہیں۔ مضبوط ریاست بننے ،واقعی
معنوں میں خوشحالی کے خواب دیکھنے اور ناگہانی آفات سے بچنے کے لیے ہمیں
جاپان سے سبق سیکھنا ہے ۔جاپان دنیا کا پہلا ویل اسٹیبلشڈ ملک ہے جسے
باؤنڈری آن فالٹ لائن یعنی" زلزلے کا شکار" کہا جاتا ہے۔ یہاں کم و بیش 7
درجن زلزلوں سے صرف ہزاروں لوگ لقمہِ اجل بنے اور یہ جان کر آپکو مزید حیرت
ہو گی کہ کبھی کبھی تو وہاں8.1 ریکٹراسکیل کا زلزلہ آتا تو خبر آتی کہ دو
تین لوگ جان کی بازی ہار گئے۔ کم سے کم جانی و مال نقصان کی وجہ یہ ہے کہ
جاپانی حکومت کھوکھلے نعروں ، زبانی جمع خرچ اوربے بنیاد عقلی دلائل کے
بجائے مستقل ،پائیدار، دیر پااور مخلصانہ کوششوں سے عوام کو بنیادی سہولیات
سے لیکر ہنگامی حالات تک میں فعال کردار ادا کرتی ہے۔جاپانی حکومت اوران
جیسے ممالک جو زلزلوں اور سیلابوں کی زد میں ہوتے ہیں وہ پورا سال ہر شعبہ
ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے کو ناگہانی آفات سے بچاؤ کی مشقیں کراتے ہیں
اور ضروری حکمت عملی کے تحت مکانات،تعلیمی و صحت کے اداروں کی عمارات اور
باقی دفاتر کو تربیت یافتہ ٹھیکداروں سے بنواتے ہیں جبکہ ہمارا سب سے بڑا
مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں فیڈرل حکومت تعلیم، صحت اور ناگہانی آفات جیسے
بنیادی مسائل کو صوبائی حکومتوں کے حوالے کر کے مسلسل پہلو تہی کر رہی
ہے۔ہمارے ضلعی، میونسپل اور صوبائی ڈھانچے غیر فعال ہیں ۔ہمارے ہاں صوبائی
ڈیزاسٹر اٹھارٹیاں، نیشنل ڈیزاسٹر اتھارٹی اور انکے سربراہان منظر عام سے
سالہا سال سے غائب ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ کئی عرصوں سے آفتیں ٹوٹنے کا سلسلہ جاری ہے اورہماری
حکومتیں ہمیشہ امر ربی کہہ کران نقصانات سے ہوے والی جانوں کے ضیاع پرگہرے
دکھ و افسو س او ر مالی اعلانات کرنے میں عافیت جانتے ہیں۔کیا نیشنل
ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی طرف سے آفات کے دنوں میں دو تین پریس ریلیز
جاری کرانا کافی ہے؟ ا ین ڈی ایم اے چیئرمین کاٹی وی پر بیٹھ کر سال میں
ایک بار رام منتر پڑھنا مکمل فرض شناسی ہے ؟کیا این ڈی ایم اے کا آفات سے
آگاہی کے دن کو ملک بھر میں منانے کے بجائے صر ف حکومتی سطح پر ایک تقریب
کا انعقاد کر دینا کافی ہے؟ ایرا پچھلے دس سال سے غیر فعال ہے جبکہ میٹر و
بایولاجیکل ڈیپارٹمنٹ کا کام خراب موسم میں خبریں پڑھنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ
کیا آفات سے آگاہی کے لیے" 8اکتوبرآفات سے آگاہی " کو صرف ایک دن منانا
ناگہانی آفات سے نمٹنے کے لیے کافی ہے ؟بہرحال سوسائٹی پر نظر دوڑاتے ہیں
تو ڈیزاسٹر میں کام کرنے والے چند ادارے نظر آتے ہیں جن میں پاک فوج، فلاح
انسانیت فاؤنڈیشن اورایدھی شامل ہیں۔ ایسے ہی الخدمت فاؤنڈیشن کا "ڈیزاسٹر
مینجمنٹ سیل"کافی فعال ہے۔ دیکھ کے تعجب ہواکہ کم وسائل والا ادارہ ریسکیو
،ریلیف اور بحالی کا کام مربوط انداز میں کرتا ہے۔ الخدمت کے ہزاروں کی
تعداد میں رضارکار ، کوارڈی نیشن سینٹرزاور رسپانس سینٹرز بھی ہیں جو ہر
ضلع سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں
حکومت کو فورا’’ آفات ایمرجنسی‘‘ کے نام سے ایک ونگ بنانا چاہیے جسکی اضافی
ذمہ داری چیئرمین این ڈی ایم اے کو دی جائے جو اپنی ٹیم سے ملکر پورے ملک
میں مختلف پبلک وپرائیویٹ پارٹنرز سے ملکر سال بھر عملی مشقیں کرائے ۔
حکومت مستقبل میں ملک بھرمیں زلزلہ زدہ علاقوں میں کنسٹریکشن کواین ڈی ایم
اے اور رسک ریڈکشن اتھارٹی کی اجازت سے مشروط کر دے جو چیک کرے کہ آیا
کنسٹریکشن زلزلہ پروف ہے؟ ۔رضاکاروں اور عوام الناس کو یکساں آفات سے آگاہی
کی تربیت کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ کم از کم آفات سے متعلقہ شعبہ جات میں
سے اقرباء پروری، سفارشی کلچر ختم کر کے صحیح لوگ صحیح جگہ پر بٹھائیں
جائیں۔اداروں کو ری آرگنائیز اور فعال کیا جائے۔فلاح وبہبود کے حساس اداروں
میں مانیٹرنگ اینڈ ایوالیو ایشن کا سسٹم اور کڑا کنٹرول سسٹم قائم کیا جائے۔
پبلک پرائیوٹ پارٹرشپ کے ذریعے این ڈے ایم اے کے کام کو مزید فعال اوربر
وقت بنانے کیساتھ ساتھ شعبہ ناگہانی آفات میں1122 اور الخدمت فاؤنڈیشن جیسے
اداروں سے ملکر بنیادی انفراسٹکچر،تربیت سازی ، رضارکار فورس ،ریسکیو،
ریلیف اور بحالی کے کاموں پر توجہ دی جائے۔ ریڈیو، اخبارات اور ٹی وی
پرمختلف اشتہارات اور ہفتہ وار پروگراموں کے ذریعے روزانہ کی بنیاد پر
زلزلے اور سیلاب سے بچاؤ کے طریقے اور عملی مشقوں کے ذریعے بڑے پیمانے پر
نقصان سے بچنے کی مہم چلائی جائے۔ |
|