محرم الحرام: قیام امن کے لیے ملک بھر میں سیکورٹی سخت کردی گئی

محرم الحرام کو اسلامی و انسانی تاریخ میں نمایاں حیثیت و مقام حاصل ہے۔ اسلامی سال کا یہ پہلا اور محترم اور مقدس مہینہ محبت و امن کا درس دیتا ہے۔ اس اعتبار سے اس بابرکت مہینے کو انتہائی عافیت و سکون کے ساتھ گزرنا چاہیے، لیکن اس کے برعکس ہر سال اس مہینے کی آمد کے ساتھ ہی ملک بھر میں خوف و ہراس کی فضا قائم ہو جاتی ہے اور تخریب کاری کے ذریعے ملک کا امن برباد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سیکورٹی ادارے امن و امان قائم کرنے کی بھرپور منصوبہ بندی اور کوشش کرتے ہیں۔ وطن عزیز پاکستان میں نئے اسلامی سال محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی امن وامان کے حوالے سے حالات پریشان کن ہو جاتے ہیں۔ حکومتیں، مذہبی و سیاسی جماعتیں اور پاکستان کا ہر فرد ایک انجانے خوف کے احساس سے دو چار ہو جاتا ہے اور ہر زبان پر یہ دعا ہوتی ہے کہ اﷲ خیر کرے۔ حکومت نے ملک بھر میں محرم الحرام کو پرامن بنانے کے لیے اپنی سی کوشش کی ہے۔ ملک بھر میں محرم الحرام کے لیے سیکورٹی انتظامات سخت کیے جارہے ہیں۔ ملک بھر میں حکومت نے سیکورٹی کے انتظامات سخت کردیے ہیں۔ حکومت نے سیکورٹی کے فول پروف انتظامات کو یقینی بنانے کے لیے سیکورٹی کا پلان ترتیب دینا شروع کردیا۔ ملک بھر میں مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام کی ایک بڑی تعداد کے محرم الحرام میں اپنے شہروں سے نکلنے پر پابندی عاید کردی گئی ہے۔ بعض انتہائی حساس قرار دیے گئے شہروں میں 8 سے 10محرم تک موبائل فون کے استعمال اور ڈبل سواری پر پابندی ہوگی۔ علاوہ ازیں بعض علاقوں میں دفعہ 144 نافذ ہوگی، جس کے تحت 5 یا 5 سے زاید افراد کے جمع ہونے، نفرت انگیز مواد کی تشہیر جس میں کسی بھی فرقے، مذہب یا فرد کی دل آزاری ہو، جذبات مجروح ہوں، ان پر مکمل پابندی ہوگی۔ اسلحہ کی نمائش، آتشیں ہتھیار، لاٹھیوں، ڈنڈوں، چاقو، خنجر، نیزوں، برچھی لانے یا لہرنے کی بھی اجازت نہیں ہو گی۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ محرم الحرام کے تقدس کے مدنظر ہر مکتبہ فکر کے افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ امن و امان کے قیام میں اپنا مثبت کردار ادا کریں اور انتظامیہ اور پولیس کے ساتھ اپنا تعاون یقینی بنائیں۔

محرم الحرام کے دوران قیام امن کے لیے اسلام آباد پولیس نے بڑے پیمانے پر حفاظتی اقدامات کیے ہیں۔ تمام مکاتب فکر کے علماء و مشائخ اور دانشوروں سے بھی ملاقاتیں کی گئی ہیں، تاکہ محرم الحرام کے ان مقدس ایام میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے اور اتفاق رائے سے امن و ہم آہنگی کی فضاء قائم کی جائے۔ مجالس اور جلوسوں کی فول پروف سیکورٹی کے لیے اسلام آباد پولیس کے 10000 پاکستان رینجرز کے 1500 اور ایف سی کے 500 افسران و ملازمین ڈیوٹی سرانجام دیں گے۔ آپریشنز ڈویژن کے علاوہ سپیشل برانچ پولیس، لاجسٹک ڈویژن، اے ٹی ایس، لیڈی پولیس، ٹریفک اور رینجرز بھی ڈیوٹی سرانجام دیں گے۔ شہر بھر کے داخلی اور خارجی راستوں پر باریک بینی سے تلاشی لی جائے گی۔ اس طرح جلوسوں کی سیف سٹی کیمروں کے ذریعے بھی نگرانی کی جائے گی۔ کسی بھی شخص کو چھت پر جانے کی اجازت نہ ہوگی۔ چھتوں پر مسلح پولیس اہلکار ڈیوٹی سرانجام دیں گے۔ پولیس کی بکتر بند گاڑیاں خصوصی طور پر کسی بھی ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے موجود رہیں گی۔ تمام افسران کو ہدایات جاری کی گئیں ہیں کہ اسلام آباد پولیس کے تمام ونگز آپس میں مکمل رابطہ رکھیں اور معلومات کا آپس میں تبادلہ کریں۔ اسلام آباد شہر کو بالخصوص جلوس ہائے کے مقرر روٹس مکمل سیل کر دیے جائیں گے۔ جلوس میں گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کے داخلے پر مکمل پابندی ہوگی۔ جلوس کے راستے میں زیر تعمیر عمارتوں پر خصوصی نظر رکھی جائیگی اور چھتوں پر سپیشل کمانڈوز تعینات کی گئی ہے۔

محرم الحرام کے دوران دہشت گردی کے ممکنہ خدشات کے پیش نظر سیکورٹی کے غیر معمولی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ پنجاب کے دس اضلاع لاہور، راولپنڈی، ملتان، جھنگ، سرگودھا، گجرات، فیصل آباد، وہاڑی، بہاولپور اور لیہ کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے، جبکہ صوبہ بھر میں890 حساس مقامات کی نشاندہی کر کے انہیں کیٹیگری اے، بی اور سی میں تقسیم کر کے سیکورٹی انتظامات کیے گئے ہیں۔ محرم الحرام میں صوبہ بھر میں سیکورٹی کے لیے ایک لاکھ 40ہزار پولیس اہلکاروں کی ڈیوٹیاں لگا دی گئی ہیں۔ پولیس نے فیصلہ کیا ہے کہ پولیس و دیگر سرکاری اداروں کی گاڑیوں کی بھی چیکنگ کی جائے گی اور کسی کو بھی جلوس کے راستے یا مجلس میں شناخت کے بغیر داخلے کی اجازت نہیں ہو گی۔ جلوس کے تمام راستوں اور اس سے ملحقہ سڑکوں کو خاردار تاریں اور لوہے کے بیرئیر لگا کر بند کر دیا جائے گا اور جلوس میں داخل ہونے کے لیے ایک داخلی اور ایک خارجی راستہ رکھاجائے گا۔ مجالس اورمحرم کے جلوسوں کے داخلی وخارجی راستوں پر سی سی ٹی وی کیمرے، میٹل ڈیٹیکٹرزاور واک تھرو گیٹس لگائے جائیں گے۔ جدید آلات سے چیکنگ اور سکریننگ کے علاوہ سراغ رساں کتوں کی مدد لی جائے گی۔ جلوسوں کی خصوصی سیکورٹی کے لیے پولیس، موبائل سکواڈ، ایلیٹ فورس کی گاڑیاں بھی گشت کریں گی۔ جلوس کے روٹ اور وقت کی پابندی کو ہر صورت ممکن بنایا جائے گا۔ حکومت پنجاب نے بھی محرم الحرام کے انتظامات کے لیے پولیس کو خصوصی فنڈ بھی مہیا کر رہی ہے۔ محرم الحرام میں عاشورہ کے جلوسوں اور مجالس کے پرامن انعقاد، علمائے کرام کی سکیورٹی اور دہشت گردی سے بچنے کے لیے پولیس و رینجرز تعینات کرنے کے علاوہ فوج کی خدمات بھی لی جائیں گی اور ضرورت پڑنے پر فوج بلائی جا سکے گی۔

سندھ حکومت نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سفارشات کی روشنی میں محرم الحرام میں تین دنوں کے لیے ڈبل سواری پر پابندی اور دس محرم الحرام کو موبائل فون سروس معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرایع کے مطابق مجالس اور جلوسوں کے راستوں پر پولیس اور رینجرز کی تعیناتی کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور پاک فوج بھی ضرورت پڑنے پر دستیاب ہوگی۔ واک تھرو گیٹس کی تنصیب اور ملحقہ داخلی اور خارجی پوائنٹس کو سیل کرنے کے بھی انتظامات کیے جائیں گے۔ اسکاؤٹس اور رضاکاروں کو بھی چیکنگ کرنے کے حوالے سے خصوصی تربیت دی گئی ہے۔ شہر میں امن امان کے حوالے سے مقامی انتظامیہ، پولیس اور رینجرز کے ساتھ لوکل باڈیز کے نمائندوں سے باہمی رابطے میں ہوگی۔ وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ ان دنوں پاک بھارت کشیدگی عروج پر ہے، اس سال محرم الحرام بہت زیادہ حساس ہے، لہٰذا اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام تر ضروری اقدامات کیے جائیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر زور دیا کہ وہ ان علاقوں پر بھی کڑی نگاہ رکھیں، جنہیں محرم میں دس دنوں کے دوران نارملی کور نہیں کیا جاتا ہے۔ ذرایع کے مطابق محرم کے دوران صوبہ سندھ میں سیکورٹی کے لیے 65780 سے زاید پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں، جبکہ آئی جی سندھ نے پولیس کو ہدایات جاری کی ہیں کہ تمام اہم اور حساس علاقوں میں پیٹرولنگ پکٹنگ اور اسنیپ چیکنگ کو انتہائی ٹھوس اور مؤثر بنایا جائے۔ پاکستان رینجرزسندھ اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں وانٹیلی جنس ایجنسیوں سے بھی تمام تر روابط کو ہر سطح پر غیرمعمولی بنایا جائے تاکہ معلومات کی شیئرنگ کی بدولت ہرممکن انسدادی اقدامات بروقت کیے جاسکیں۔

خیبر پختونخوا میں نویں اور دسویں محرم الحرام کے موقع پر پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان، ہنگو اور ٹانک کو انتہائی حساس قرار دیتے ہوئے موبائل فون سروس بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے وفاق کو مراسلہ بھی بھجوایا گیا ہے۔ ایبٹ آباد اور کوہاٹ میں بھی موبائل سروس بند رہے گی۔ گلگت، سکردو اور استور میں فوج طلب کر لی گئی ہے۔ موبائل فون سروس بھی بند رہے گی۔ راولپنڈی میں بھی موبائل سروس بند رہے گی۔ محرم الحرام میں امن و امان کے قیام کے لیے حفاظتی انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے حکومت خیبر پختونخوا کے ایک وفد نے صوبے کے حساس اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان اور کوہاٹ کا دورہ کیا اور دونوں اضلاع کے کمشنر آفسز کے جرگہ ہال میں شیعہ سنی اکابرین اورامن کمیٹی کے اراکین سے مشترکہ ملاقات کی۔ صوبائی وفد نے دونوں مکاتب فکر کے اراکین سے محرم میں امن و امان اور باہمی بھائی چارہ برقرار رکھنے سے متعلق تفصیلی تبادلہ خیال کیا اور مختلف تجاویز پر غور وخوض کیا۔ محکمہ داخلہ کے مطابق حکومت بلوچستان نے محرم الحرام میں امن وامان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے سیکورٹی کے سخت حفاظتی انتظامات کا پلان جاری کر دیا۔ کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں بھی محرم الحرام میں سیکورٹی کے حفاظتی انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔ اہم جگہوں پر ایف سی اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے۔ ساتویں اور یوم عاشورہ کے موقع پر محکمہ داخلہ نے کسی بھی نا خوشگوار واقعہ کے پیش نظر موبائل فون سروس بند کرنے کی احکامات جاری کر دیے ہیں۔ ساتویں اور یوم عاشورہ کے دن جلوس گزرنے والے روٹ پر سیکورٹی کے سخت حفاظتی انتظامات کر دیے گئے۔ شہر میں قائم تمام امام بارگاہوں پر بھی ایف سی اور پولیس اہلکاروں کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی۔ محکمہ داخلہ کے مطابق سولہ حساس ترین اضلاع سمیت صوبے بھر میں یکم محرم سے دس محرم تک دفعہ ایک سو چوالیس نافذ رہے گی۔ حساس مقامات پر خفیہ کیمرے نصب کر کے سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ حکومت نے پولیس ملازمین کی چھٹیاں بھی منسوخ کر دی ہیں۔ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کے لیے کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر پولیس نے ہنگامی سیل بھی قائم کر دیا گیا ہے۔

محرم الحرام میں امن کے قیام کے حوالے سے سب سے بڑی ذمہ داری تو حکومت کی ہے کہ وہ اہل سنت اور اہل تشیع کے جلسے جلوسوں کو نہ صرف مکمل تحفظ فراہم کرے، بلکہ ان میں شریک ہونے والے عوام اور واعظین، خطباء، مقررین اور ذاکرین کو بھی اس بات کا پابند بنائے کہ وہ کسی کے مسلک کو چھیڑے نہیں اور اپنے مسلک کو چھوڑے نہیں کے ضابطے کے تحت رہیں گے اور اگر کوئی اس ضابطے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور کسی کے مکتب یا مسلک یا مقدس شخصیات کی توہین کرتا ہے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق بلاتفریق کارروائی کی جائے گی پھر ذمہ داری عوام کی ہے کہ وہ ایسے مقررین اور واعظین کا مکمل بائیکاٹ کریں جو عوام کو فساد پر ابھارتے ہیں یا فرقہ وارانہ نفرت پھیلاتے ہیں اور آخری اور بڑی ذمہ داری مذہبی قائدین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اپنے مکتبہ فکر کے علماء، ذاکرین، واعظین اور خطباء کو اس بات کا پابند کریں کہ وہ کسی کے مسلک اور مقدس شخصیات کی ہر گز توہین نہ کریں، یہ وہ نکتہ ہے جس پر عمل کرنے سے بہت سارے مسائل پیدا ہی نہیں ہوتے۔ جو مسائل مقامی سطح پر مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کے درمیان پیدا ہوئے ہوں ان کو انتظامیہ حل کرنے کی کوشش کرے۔ اسلام بھائی چارے کا درس دیتا ہے۔ امن وامان کا قیام قانون نافذ کرنیوالے اداروں کا کام ہے مگرعوام کا اس میں تعاون ازحد ضروی ہے۔ امن وامان کوبرقراررکھنے کے لیے آپس میں بھائی چارہ انتہائی ضروری ہے۔ عوام اس مبارک مہینے میں مکمل بھائی چارے کا ثبوت دیں۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 630555 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.