گرمی اور ہماری ذمہ داریاں!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
موسم گرمی کا طویل روزہ رکھ کر سوگیا
ہے، نہ پہلو بدل رہا ہے اور نہ ہی انگڑائی لے رہا ہے، ہر کسی کی نگاہیں
موسم کے مزاج اور موڈ پر مرکوز ہیں، مگر موسم ہے کہ کسی کی سننے کے موڈ میں
نہیں۔ کوئی وقت تھا جب اکتوبر کے آغاز میں موسم خوشگوار ہو جایا کرتا تھا
اور درمیان تک کم از کم رات کے وقت تو سردی کا احساس ہونے لگتاتھا، مگر اب
صورت یہ ہے کہ درجہ حرارت نیچے آنے کا نام نہیں لیتا۔ اس موسم میں گرمی کا
تصور نہیں تھا، اس لئے مئی جون کی گرمی لُو والی اور خشک ہوتی تھی، جولائی
اگست میں برسات اور حبس کا دور ہوتا تھا، مگر یہ ستمبر اور اب اکتوبر والی
گرمی میں حبس بھی ہے اور دن کو تپش بھی۔ ویسے تو ہر موسم اﷲ تعالیٰ کا
بنایا ہوا ہے، اس لئے اسے قبول اور برداشت کرنا ہی پڑتا ہے، کہ اس کے بغیر
چارہ کوئی نہیں۔ اسی طرح ہر کسی کی اپنی پسند ہے، کسی کو سردیاں اچھی لگتی
ہیں تو کوئی گرمیوں سے خوش ہے، کوئی معتدل موسم کو اپنا آئیڈیل قرار دیتاہے
تو کوئی بہار کو۔ خزاں کے چاہنے والے بھی معاشرے میں ضرور ہونگے کہ پت جھڑ
میں جب درختوں کی طویل قطار ہو اور راہیں گِرے ہوئے پیلے پتوں سے اٹی پڑی
ہوں ، ایسا موسم شاعرانہ قسم کا ہوتا ہے۔ اداسی کی منظر کشی اس ماحول سے
بہتر کسی اور جگہ نہیں ہوسکتی۔
گرمی کا زور کب ٹوٹے گا، کوئی نہیں جانتا، سائنس دان پریشان ہیں، دنیا میں
گرمی کی شدت بڑھ رہی ہے، جہاں ماحول برف سے ڈھکا رہتا تھا، وہاں بھی برف
پگھلنے لگ گئی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں سردیاں سمٹتی جارہی ہیں۔ دنیا کو
اس معاملے پر بہت سنجیدگی سے غور وفکرکرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں تو ایک
عام آدمی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ کون سے اقدامات ہیں جن پر عمل کرنے سے
موسم کی شدت میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ اپنے ہاں اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہر
موسم اور ہر قسم کی سطح زمین موجود ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں موسم بھی بہت
زیادہ ہیں۔ ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ موسم پر ہمیں اﷲ تعالیٰ کا شکر
بجالانے کی ضرورت ہے۔ اپنے ہاں کتنا پانی کروڑوں روپے کی فصلیں اور املاک
تباہ کرتا ہوا دریا میں جاگرتا ہے، بہت سی قیمتی انسانی جانیں بھی ضائع ہو
جاتی ہیں اور مویشی بھی سیلاب کی نذر ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات کچھ علاقو ں
میں خشک سالی کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔ جنگلات کی کٹائی ایک اہم ایشو ہے۔
مگر ان مسائل پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔
اپنے حکمرانوں، اپوزیشن اور دیگر سیاستدانوں کو دیکھیں تو اُن سب کا خیال
ہے کہ انہیں صرف سیاست ہی کرنا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب کبھی ڈیم بنانے کی بات
آتی ہے تو بھی درمیان میں سیاست آٹپکتی ہے، اور قوم جانتی ہے کہ کالاباغ
ڈیم پر اربو ں روپے ضائع ہو چکے ہیں، مگر اس ڈیم کو ہمیشہ لاشوں اور ووٹوں
کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ کالاباغ ڈیم کو ’متنازع‘ قرار دے کر ایک طرف
کردیا جاتا ہے، مگر اور بھی تو بہت سے ڈیم بن سکتے ہیں، ان کے لئے کوئی
خاطر خواہ تیاری دکھائی نہیں دیتی۔ اپنے ملک میں جنگلات کی پہلے ہی بہت
زیادہ کمی ہے، مگر جنگلات کو کاٹنے کی رفتار حد سے زیادہ ہے، ان میں بہت سے
درخت تو سڑکوں وغیرہ کی تعمیر میں کاٹنے پڑتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی ہاؤسنگ
کالونیوں کی تعمیر کے ضمن میں بھی باغات اور درختوں کا قتلِ عام ہورہا ہے۔
آبادی اس قدر بڑھ رہی ہے کہ اس کے سرچھپانے کے لئے جگہ چاہیے۔ ملک معاشی
عدم توازن کا شکار ہے، جن کے پاس پیسہ ہے، بے حد ہے، جو غریب ہے ، بہت
زیادہ ہے۔ شہروں سے باہر کالونیاں کھُمبیوں کی طرح اُگ رہی ہیں، سبزے کی
جگہ سنگ وخشت کی عمارتیں کھڑی ہیں۔ باوسیلہ لوگوں نے اپنی ضرورت کے لئے
ٹھنڈک حاصل کرنے کے لئے’ مشینیں ‘لگا رکھی ہیں، ان کے گھر، دفتر اور گاڑی
میں اے سی چلتے ہیں، جن سے ٹھنڈک اندر آتی اور گرمی باہر جاتی ہے۔سڑکوں کے
کناروں پر درخت نہیں رہے، گھروں میں درخت لگانے کی جگہ نہیں۔ مگر جس قدر ہو
سکے ہمیں سبزہ اگانے کی کوشش کرنی چاہیے، حکومتی سطح پر شجر کاری کا اہتمام
تو ہوتا ہے، مگر اس کو بہت کم ہی سنبھالا جاتا ہے، معاشرے کے تمام طبقات کا
فرض ہے کہ وہ سبزہ اگانے اور گرمی بھگانے کی مہم میں بھر پور حصہ لیں، نیکی
بھی حاصل کریں، اور گرمی کی شدت میں بھی کمی ہو، آموں کے آم ، گٹھلیوں کے
دام۔ |
|