5 اکتوبر کو اساتذہ کاعالمی دن کے طور پر منایا
جاتا ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اس کا علم پاکستان میں بسنے والوں کے لئے
اہمیت کا حامل نہیں ہے ۔کیونکہ یہاں ہر معاملے کو کنفیوژن کے حوالے کر دیا
گیا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ اساتذہ کے عالمی دن کی پاکستان میں وہ قدر ومنزلت
نہیں جو دیگر ممالک میں ہے۔کسی بھی مہذب معاشرے میں استاد کی اہمیت سے
انکار نہیں کیا جاسکتا اُسی مہذب معاشرے میں اساتذہ جیون کے سدھار کاباعث
سمجھے جاتے ہیں۔یوں تو استاد ہر شعبے میں پائے جاتے ہیں مثال کے طور پہ ،موٹر
مکینک کا اُستاد،صنعتی اداروں میں اُستاد،کھیلوں کے شعبے کے اُستاد ،فنون
لطیفہ کے اُستاد، دینی مدارس کے اُستاد اور دیگر شعبوں کے استادوں کا بھی
اپنے شاگردوں سے رشتہ روحانی باپ کا ہی ہوتا ہے تمام شعبوں کے استاد ،ہمارے
اور شاگردوں کی نظر میں انتہائی قابلِ احترام اور قابل قدر ہی ہوا کرتے ہیں
۔زیر بحث موضوع عالمی دن کے اعتبار سے تدریسی استاد کے لئے مختص ہے ۔لیکن
ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ 5،اکتوبر کو تدریسی اساتذہ سمیت اُن تمام استادوں
کا عالمی دن تصور کیا جانا چاہیئے جن کو روحانی والدین کی حیثیت حاصل ہے ۔
خوبصورت گیٹ کے سامنے اپنی اپنی ریاستوں کے شہزادے اور شہزادیاں اپنے برق
رفتار اُڑن کھٹولے سے اُترتے ہیں ان کے خادم اور کنیزیں ان کے کاندھے پہ
خوبصورت اُجلے بیگز لٹکاتے ہیں اور منرل واٹر کی بوتلیں ان کے ہاتھوں میں
تھماتے او ر مودب انداز سے سر خم تسلیم کرتے ہیں پھر یہ شہزادے اور
شہزادیاں بڑے سے تدریسی محل میں داخل ہو کر اپنا تعلیمی عمل شروع کرتے ہیں
دلچسپ بات اور لحمہ فکریہ ہے کہ انھیں تعلیم سے آراستہ کرنے ، انھیں انسان
بنانے اور قدم بہ قدم ترقی کیجانب گامزن کرنے والا استاد یا استانی ان
شہزادے اور شہزادیوں کے زر خرید غلام نظر آ رہے ہوتے ہے استادجب خود شاگرد
سے خائف ہوگا تو وہ شاگرد کوکیا تعلیم سے آراستہ کرے گا۔ مشاہدے میں ہے کہ
کانسہ لیس طالب علموں نے استادوں کو اپنے انگشت پہ رکھا ،استاد جس کا رُتبہ
روحانی باپ کا سا ہوتا ہے اُسے زود وکوب کیا ، استادوں نے بھی حکومتی سر
پرستی نہ ہوتے ہوئے اور زمانے کی تبدیلی کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے آپ کو
اور تعلیم کو کاروبار میں ڈھال لیا اور یہیں سے اساتذہ کی قدر اور تعلیمی
معیار کا زوال شروع ہوا۔
ایک زمانہ تھا جب طالب علموں اور ان کے والدین کا مقصد با شعور انسان بننا
یا بنانا تھا۔ "ہڈیاں ہماری کھال آپ کی" یہ ضرب المثل اس وقت کے زیادہ تر
والدین اپنے بچوں کو اسکول میں داخل کراتے ہوئے علاقے کے مشہور و معروف ،تجربہ
کار،با صلاحیت استادوں کے سامنے دُھرایا کرتے تھے جس کامقصد قطعاً یہ نہیں
ہوتا تھا کہ اُس وقت کے والدین یا اساتذہ ظالم ہوا کرتے تھے ،بلکہ اس ضرب
المثل کا مقصداساتذہ کو یہ حق دینا ہوتا تھا کہ وہ بچہ اب ان کی ذمہ داری
ہے۔ اساتذہ بھی اپنے پیشے کو عبادت سمجھتے ہوئے بھر پور صلاحیتوں کو بروئے
کار لاکر بچوں کو اس قابل بناتے تھے کہ وہ آگے چل کر معاشرے کے مفید شہری
بنیں اور ساتھ میں ہی ان میں یہ جوہر بھی پیدا کرتے تھے کہ بطور انسان اُن
کو معاشرے میں کس طرح مہذب انداز سے اپنی زندگی کو بسر کرنا ہے اور پھر
انہی استادوں کی تعلیم و تربیت کے بطن نے با شعور،قانون پسند،اعلیٰ تعلیم
یافتہ انسانوں کو جنم دیا۔ موجودہ یا گزشتہ حکومتوں اور اپوزیشن کے کابینہ
کے زیادہ تر اکابرین ،سول و ملٹری بیورو کریسی کی غالب اکثریت ،حال کے تمام
دانش ور،ادیب،شاعر،سائینس داں،نامی گرامی اعلیٰ ڈاکٹرز ،تعلیمی ماہرین،جج
صاحبان غرض یہ کہ فی زمانہ وہ سب ان ہی با صلاحیت اساتذہ کی پیداوار ہیں (ماسوائے
چند گنے چنے افراد کے جنھوں نے ابتدائی تعلیم ملک سے باہرحاصل کی ہے)
دور حاضر کا معاشرہ ایسے اساتذہ سے محروم معاشرہ نظر آتا ہے ۔اس کے ذمہ دار
خود اساتذہ ہیں کیونکہ ان میں اُن اخلاص کی بُو باس نہیں پائی جاتی جو
تدریسی عمل کو انسان سازی کا عمل سمجھتی تھی،تربیت،تہذیب و تمدن کو اپنا
شعار سمجھتی تھی ۔ مادیت پرستی کے اس دور میں دولت کے حصول نے استاد سے
روحانی والدین کا درجہ چھین لیا ہے۔میرے نزدیک تدریسی استاد سمیت تمام وہ
استاد خواہ وہ کسی بھی شعبے کے استاد ہوں جو انسان سازی کے عمل کو عبادت
سمجھتے ہیں وہ قابل احترام ،قابل قدر اور قابل ستائش ہیں۔5،اکتوبر ـ"اساتذہ
کا عالمی دن" کی مناسبت سے یہ ضروری ہے کہ والدین بچوں میں استاد کی عزت و
احترام کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا فریضہ پورا کریں ۔اور استاد علم کی ترویج
جیسے مقدس فریضہ کو پورا کرتے ہوئے مالی منفعت پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے
معاشرے کے معماروں کی تعلیم و تربیت کو اولین ترجیح بنائیں ۔حکومت کو چاہیے
کہ تعلیم کے انتظام و انصرام کے ساتھ ہر جگہ اور ہر لحاظ سے استاد کی قدرو
منزلت کو یقینی بنانے کو اپنی ترجیح بنائے۔ |