جمعہ کی شب کراچی میں دو معصوموں کو قتل کر
دیا گیا جبکہ متعدد کو فائرنگ کر کے زخمی کیا گیا۔ یہ شہر میں محرم الحرام
کے دوران فرقہ وارنہ دہشتگردی کے تازہ واقعات ہیں۔ اس سے قبل تین ہی روز
پہلے کوئٹہ میں ایک بس پر فائرنگ کر کے ہزارہ برادی کی چار خواتین کو قتل
کیا جا چکا ہے۔ جمعہ کی شب گلستان جوہر بلاک 8میں دہشتگردوں کی فائرنگ سے
جاں بحق ہونے والا منصور زیدی درس تدریس کے پیشے وابستہ تھے اور اپنے محلے
کی ایک امام بارگاہ کے منتظم اور ٹرسٹی بھی بتائے جاتے ہیں ۔ مصور زیدی
پرائیویٹ اسکول مینجمنٹ کے سیکریٹری اور نجی اسکول کے مالک بھی تھے۔ حملہ
آوروں نے جو موٹر سائیکل پر سوار تھے ، منصور زیدی اور ان کے بیٹے پر ان کے
گھر کے قریب اس وقت فائرنگ کی جب وہ مجلس میں شرکت کے بعد واپس گھر آ رہے
تھے۔ فائرنگ کے نتیجے میں 55سالہ منصور زیدی موقع پر ہی جان بحق ہو گئے
جبکہ ان کا جواں سال بیٹا عمار زیدی زخمی حالت میں اسپتال میں ہے۔
دہشتگردوں نے کئی دن کی ریکی کرنے کے بعد منصور زیدی کو قتل کیا جس کا مقصد
شہر میں ایام عزا کے دوران خوف ہراس پھیلانا اور عزاداروں کو غضبناک کرنا
معلوم ہوتا ہے۔ دوسری طرف گلشن اقبال کے علاقے میں ایک گھر میں خواتین کی
مجلس جاری تھی کہ وہاں موٹر سائیکل پر سوار دہشتگردوں نے فائرنگ کر دی جس
سے سید جواد رضا اور عدیل عباس زخمی ہو گئے تاہم ان کی حالت خطرے سے باہر
بتائی جاتی ہے۔ٹارگٹڈ فائرنگ کے ایک اور واقعہ میں علی احمد عطاری نامی شخص
کے جاں بحق ہونے کی بھی اطلاع ہے۔فرقہ وارانہ دہشتگردی کے یہ واقعات ایک
ایسے وقت میں ہوئے ہیں کہ جب دو روز قبل ہی فرقہ پرست تنظیموں اور کالعدم
جماعتوں کے خلاف آپریشن سخت کرنے اور انھیں غیر مسلح کرنے کا فیصلہ کیا گیا
ہے۔ اگلے ہی روز دہشتگردی گردوں نے قانون نافذ کرنے والے ادروں کی کارکردگی
پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ میں نے گزشتہ روز بھی اپنے کالم میں لکھا
تھا کہ پاکستان میں تمام فرقہ پرست تنظمیں اور جماعتیں ، جو اب کالعدم قرار
دی جا چکی ہیں، ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت بنائی گئیں اور ان کی ملکی اور
غیر ملکی فنڈنگ کے ذریعے پشت پناہی کی گئی۔ آج بھی کراچی جیسے شہر میں اکثر
کا لعدم جماعتیں جمعہ کے خطاب کے دوران مساجد میں چندے اکھٹے کرتی نظر آتی
ہیں۔ باوجود اس کے کہ ان چندہ کرنے والوں کی جماعتوں پر پابندی عائد کی جا
چکی ہے لیکن یہ مساجد میں کھلے عام چندہ جمع کرتی ہیں۔ بعض جماعتیں تو ایسی
بھی ہیں کہ وہ افغانستان کے طالبان کے لئے چندہ جمع کرتی ہیں ، پاکستانی
افواج اور آپریشن کے خلاف کھلے عام تقریریں کی جاتی ہیں لیکن انھیں کوئی
نہیں روکتا۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان جماعتوں کے کارکنوں کو مقتدر
اداروں نے کھلے عام افواج پاکستان اور آپریشن ضرب عضب کے خلاف بات کرنے اور
چندہ جمع کر کے طالبان تک پہنچانے کا لائسنس دے رکھا ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہے
کہ ان ہی کا لعدم جماعتوں، تحریک طالبان ، القاعدہ اور داعش وغیرہ کے
کارکنان اپنے اپنے مکاتب اور مقاصد پر مبنی اخبار بھی شائع کر کے مساجد میں
لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ممکن ہو پاتا ہے؟
ہم کہاں پر غلطی کررہے ہیں کہ جو آہستہ آہستہ ہمارے ملک کی یکجہتی اور
سالمیت کے لئے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ ا نسپکٹر جنرل سندھ اے ڈی خواجہ نے
ہفتہ کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں فرقہ پرست تنظیموں کے
آپریشن تیز کر دیا گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہفتہ کو داعش، القاعدہ سے مبینہ
طور پر تعلق رکھنے والے 9ملزمان کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا گیا اور
ان کا جسمانی ریمانڈ بھی لے لئے گیا لیکن جب تک جیلوں اور تھانوں میں اس
نیٹ ورک کے لئے کام کرنے والے لوگ موجود ہیں اس وقت تک کیا کسی تبدیلی اور
بہتری کی امید کی جا سکتی ہے؟ ابھی کراچی سمیت ملک بھر میں ایام عزا کی
ابتداء ہے۔ ابھی یہ سلسلہ سوا دو مہینے جاری رہنا ہے۔ اگر قانون نافذ کرنے
والے اداروں نے اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کا خاتمہ نہ کیا اور صرف
ڈبل سواری پر پابندی لگا کر یہ سمجھا کہ وہ محرم میں کراچی سمیت صوبے اور
ملک بھر میں امن و امان قائم رکھ پائیں گے تو یہ ان کی کھلی بھول ہو گی۔
ظاہر ہے کہ پھر ا یسی صورت میں آنے والے دنوں میں عزاداری کرنے والوں کے
لئے مشکل اور کھٹن وقت کے امکان کو کلی طور پر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
|