کافی عر صہ کے بعد آج ایک شادی میں جانے کا اتفاق ہوا.
اتفاق اس لیے کہ میں ایسی تقریبات میں جانے سے ذیادہ تر گریز کرتی ہوں جہاں
مرد و زن میں اختلاط کے بسبب پے پردگی کا احتمال ہو.
لیکن یہ شادی قریب میں ہی تھی کہ جب چاہوں گهر واپس آ جاتی اور جس لڑکی کی
شادی ہو رہی تھی اسی کے اصرار پہ حامی بھرنا پڑی کیونکہ اس نے یقین دلایا
تھا کہ آپ کے لیے پردے کا احتمال ہو گا.
جب وہاں پہنچی تو کافی گہما گہمی تهی.
سب گھر کی میزبان خواتین سے ملنے کے بعد میں نے دلہن کے بارے میں دریافت
کیا ربیعہ کہاں ہے؟
تو بلا توقف مجھے اس کے پاس پہنچا دیا گیا.
جہاں ایک آرائش گر (بیو ٹیشن)خاصی جانفشانی سے اسے سجانے سنوارنے میں مصروف
عمل تهی.
ارے اپیا آآآپ...؟
ربیعہ نے مجھے دیکھتے ہی والہانہ انداز میں کہا اور اٹھ کر گلے ملی.
کیسی ہو؟میں نے پوچھا.
میں ٹھیک ہوں بس آپ کو دیکھ کر یقین نہیں آرہا کہ آپ آئی ہیں ربیعہ
نےخوشگوار حیرت سے کہا.
تمہاری شادی پہ کیسے نہ آتی میں نے اس کے جواب میں کہا. اچھا آپ بیٹهیے
یہاں پہ . اس کہ کہنے پہ میں ایک طرف پڑے صوفے پہ براجمان ہو گئی.
اسی دوران کمرے میں ایک ادهیڑ عمر خاتون داخل ہوئی جو دیکھنے سے کافی مہذب
اور سلجهی ہوئی لگتی تھی.
ان کے ہاتھ میں ذیورات کے ڈبے تھے جو دلہن کو پہنانے کے لیے لے کر آئی تھی.
وہ وہی ڈریسنگ ٹیبل پہ رکھ کر میرے قریب آ کر بیٹھ گئیں تو میں نے سلام کیا
جس کا انہوں نے خوشدلی سے جواب دیتے ہوئے ربیعہ کی سمت استفہامیہ نظروں سے
دیکھا
ربیعہ نے ان کی نظروں کا تآثر سمجھتے ہوئے میرا تعارف کروایا کہ یہ میری
ٹیچر ہیں ان کے پاس میں نے قرآن پاک بمع ترجمہ و تفسیر پڑها ہے.
اچھا اچها انہوں نے سر کو اوپر سے نیچے کی جانب خم دیتے ہوئے کہا.
پھر ربیعہ نے میری طرف متوجہ ہوتے ہوئے بتایا کہ یہ میری خالہ لگتی ہیں
رشتے میں لاہور سے شادی میں شرکت کے لئے آئی ہیں اور ایک کالج میں پرنسپل
ہیں..
اچھا جی بہت خوشی ہوئی آپ سے مل کر میں نے رسما اپنے تاثرات کا اظہار کیا.
اتنے میں ایک نو عمر لڑکی کمرے میں آئی جو اپنی ڈریسنگ اور ہیئر سٹائل سے
کافی ماڈرن لگتی تھی اور اس پر متضاد کہ وہ کافی خوبصورت بھی تهی. اس نے
آتے ہی میرے ساتھ بیٹھی خاتون کو مخاطب کیا،آپ یہاں ہیں اور میں آپ کو تلاش
کرتی پھر رہی ہوں.
ذرا مجھے جیولری تو نکال دیں جو آپ کے ہینڈبیگ میں تهی
تو وہ اپنی گود میں رکهے بیگ میں سے نکالنے لگی.
اور ساتھ ہی مجھے بتایا کہ یہ میری بیٹی ہے سارہ ایف ایس سی کر رہی ہے.
اور پھر اس لڑکی سے میرا وہی تعارف دوہرایا جو ابهی چند لمحے پہلے ربیعہ نے
کروایا تھا.
اچھا اچھا تو آپ ربیعہ کی ٹیچر ہیں جن کے بارے میں ہر وقت یہ بات کرتی رہتی
ہے.
آپ تو کافی ینگ ہیں مجھے لگتا تھا کوئی ایجڈ سی آنٹی ہونگی..
اس نے بلا توقف کہا جبکہ جوابا میں صرف مسکراہٹ پہ اکتفا کر سکی.
سنا ہے آپ پردہ کرتی ہیں ربیعہ بتا رہی تھی کہ اسی لیے آپ کہیں آتی جاتی
نہیں..
اگلا سوال آیا.
.لگ رہا تها ربیعہ کے توسط سے خاصی معلومات تھی سب کو میرے متعلق.
جی ہاں.
میں بس اتنا ہی کہہ سکی.
ربیعہ بہت تعریفیں کرتی ہے آپ کی ہمارے تو کان پک گئے ہیں. ہر بات میں آپ
کا ہی حوالہ دیتی رہتی ہے.
یہ اس کی محبت ہے تبھی تو آج اس کے کہنے پر آئی ہوں یہاں. میں نے جواب دیا.
اچھا تو آپ پردہ کیوں کرتی ہیں اتنی اچھی شکل تو ہے آپکی پھر بھی پردہ.. اس
کے اس سوال نے چند لمحوں کے لیے مجھے گنگ کیا تھا اور اس سے ذیادہ حیران..
آخر میں نے کہا کہ پردے کا مقصد اپنی بد صورتی چھپانا ہے یہ آپ سے کس نے
کہا؟
کسی نے کہا تو نہیں بس یونہی آپ کو دیکھ کر کہا ہے.
ہمارے رب کا حکم ہے اس لئے پردہ ضروری ہے. تب میں نے جواب دیا.
اتنے میں ساتھ بیٹھی آنٹی بولی کہ پردہ اتنا بهی ضروری نہیں جتنا یہ عالم
لوگ کہتے ہیں.
میں نے بھی قرآن پاک کا ترجمہ پڑھا ہے وہاں تو ایسا کچھ نہیں لکھا. لگتا ہے
پھر آپ نے سورہ احزاب اور سورہ نور نہیں پڑهیں .میں نے حیران ہوتے ہوئے ان
سے کہا. تب انہوں نے جواب دیا وہ بھی پڑهیں ہیں لیکن سورہ احزاب میں تو
اللہ نے امہات المومنین سے خطاب فرمایا ہے کہ وہ پردہ کریں جبکہ سورہ نور
میں بھی ایسا نہیں لکھا کہ عورتیں مکمل حجاب کریں.
چہرے پہ نقاب کرنے کی تخصیص نہیں کی گئی وہاں پہ. تب میں نے ان کے جواب میں
کہا کہ مسلمان عورتوں کو پردے کا حکم اس لیے دیا گیا کہ منافقین اور یہہود
و نصاریٰ عورتوں کو تنگ کیا کرتے تھے جب وہ باہر نکلتی اور جب ان سے باز
پرس کی جاتی تو یہ کہ کر ٹال دیا کرتے کہ ہم سمجھے باندی تھی.
جبکہ وہ جان بوجھ کر آزاد اور مسلمان عورتوں کو تنگ کرتے تھے. تب یہ آیات
نازل ہوئیں کہ مسلمان آزاد عورتیں باہر نکلنے سے پہلے اپنے آپ کو اس طرح
ڈهانپا کریں تا کہ پہچانی نہ جائیں نیز آزاد اور اور غلام عورتوں کی تخصیص
بھی ہو جائے تا کہ منافقین اور غیر مسلموں کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے عزت
دار عورتوں کو تنگ کرنے کا.
اور یہ بات صاف ظاہر ہے کہ انسان کا چہرہ ہی اس کی اصل پہچان کا سبب ہے
ہاتھ پاؤں اور بقیہ جسم دیکھ کر انسان کو پہچان پانا خاصا مشکل امر ہے جبکہ
چہرہ دیکھتے ہی ہم پہچان جاتے ہیں کہ یہ کون ہے.
تو اگر پہچان چھپانا مقصد ہے تو چہرے کا پردہ بدرجہ اولیٰ اس میں شامل ہے.
لیکن یہ پردہ کرنے کی رائے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تھی نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو حکم نہیں دیا تھا..
ایک اورغیر متوقع سوال کر کہ مجھے مزید حیران کیا گیا.. جی ہاں یہ بات درست
ہے کہ سب سے پہلے یہ رائے حضرت عمر نے ہی دی تھی کیونکہ حدیث شریف میں ہے
جس کا مفہوم ہے کہ اللہ رب العزت بہت غیور ہے نیز غیرت کو پسند فرماتا ہے
اور عمر سب سے زیادہ غیرت مند ہے..
تو اس وقت حضرت عمر کی غیرت کا تقاضا یہی تھا جو انہوں نے بارگاہ نبوی میں
عرض کر دیا کہ آزاد مسلمان عورتوں کو پردہ کرنا چاہیے.
یہ محض حضرت عمر فاروق کی رائے نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کی طرف سے جو حکم آنے
والا تھا وہ پہلے ہی ان کے دل میں القاء کر دیا گیا.
کیونکہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر کی زبان اور دل پہ
حق کو جاری فرما دیا ہے. خود حضرت عمر فاروق فرماتے ہیں کی ایسی کم و بیش
27باتیں ہیں جن میں میری زبان اور دل نے اللہ کریم کے احکامات کی موافقت
فرمائی اور بعد ازاں وہ شریعت اسلام کا حصہ بنی.. انہیں میں سے ایک یہ
عورتوں کا پردہ کر نا بھی ہے.. ہممم.. اچھا. ویسے دل اور آنکھوں میں حیا نہ
ہو تو محض چہرہ چهپا لینے سے کیا ہوتا ہے. بس دل اور آنکھ کا پردہ ہونا
چاہئے..
ایک اور تاویل میری سماعتوں سے ٹکرا کر مجھے مزید حیرت میں مبتلا کر گئی
تھی..
تب میں نے پوچھا کہ کیا ہم زمانہ نبوت کی عورتوں سے ذیادہ حیا دار ہیں؟
یا ہمارے آج کے معاشرے کے مرد صحابہ کرام سے ذیادہ پاکباز اور نظر کی حفاظت
کرنے والے.؟
. اس دفعہ گنگ ہونے کی باری ان آنٹی جی کی تھی.. نہیں نہیں نعوذبااللہ یہ
کیسے ممکن ہیں ہم لوگ تو ان کی گرد راہ کو بھی نہیں چهو سکتے..
تو پھر آپ نے یہ کیوں کہا کہ آنکھ اور دل کا پردہ ہونا چاہیے. کیا امہات
المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ بنت صدیق اکبر جناب فاطمہ الزہراء جنہوں نے
فرمایا تھا میرا جنازہ بھی رات کے وقت لیکر نکلنا تا کہ کسی غیر محرم کی
میرے کفن پہ بھی نظر نہ پڑے.
ان کی آنکھ اور دل کا پردہ نہیں تھا؟
وہ بھی صحابہ کرام جیسی ہستیوں سے. جبکہ ہمارے پر فتن دور میں تو ہر نگاہ
سم قاتل ہے.. ہمیں تو زیادہ اپنے آپ کو چھپانے کی ضرورت ہے ان ہوس زدہ
نظروں سے جو ہر سمت اپنے شکار کے تعاقب میں لگی ہیں.. کا ش کہ میری مائیں
بہنیں سمجھ پاتی کہ مرد نے کس طرح آزادی کے نام پہ انہیں رسوا اور بے وقعت
کر دیا ہے. وہ عورت جسے ہمارے مذہب نے پردے میں ڈهانپ کر باپ بهائی شوہر
اور بیٹے کو اس کا باڈی گارڈ بنایا اس نے خود اپنے آپ کو مغرب کے آزدی نما
ذلت آمیز جهانسے میں آکر خود کو یوں بے مول کیا کہ جگہ جگہ اپنی بولی لگوا
رہی ہے. کہیں ماڈل کے نام پہ شو پیس بن کر کہیں صابن اور کریمو ں کے لیبل
پر آویزاں ہو کر جگہ جگہ پاؤں کے نیچے روندی جا رہی ہے...
اب ادھر شادی بیاہ کی تقریبات میں ہی دیکھ لیجیے کہ کیسے کیسے بے پردگی ہو
رہی ہوتی ہے. اچهے خاصے دیندار گھرانوں میں بھی ایسے مواقع پر پردے کا خیال
نہیں رکھا جاتا.
نہ صرف شادی بیاہ میں بلکہ کوئی فوت ہوجائے تب بھی یہی ہوتا ہے.
شادی کے دن دلہن کو سجا سنوار کر سب مردوں کے سامنے بٹھا دیا جاتا ہے جیسے
وہ انسان نہیں دکھانے کی کوئی چیز ہو..
مجھے باہر لیجانے سے پہلے بڑی سی چادر اوڑھا دیجئے گا. ربیعہ کی آواز آئی.
اور ایک آخری بات وہ یہ کہ نماز نہ پڑھنا اتنا ذیادہ گناہ کا سبب نہیں جتنا
یہ کہنا گناہ ہے کہ نماز پڑھنا کوئی فرض نہیں ہے بلکہ یہ تو مطلق ایک دعا
کا نام ہے . کیونکہ کہ نماز نہ پڑھنے والے کی توبہ کا امکان موجود ہے جبکہ
نماز کا انکار کرنے والا توبہ کی نعمت سے بھی محروم ہو جائے گا..
اسی طرح پردہ نہ کرنا برا نہیں جتنا کہ سرے سے اس کی نفی کر دینا ہے..
اسی دوران مجھے پتہ ہی نہیں چل سکا کہ وہاں چند اور خواتین بھی آچکی تھی
اور غیر ارادی طور پہ سبھی اپنے اپنے سر ڈهانپ چکی تھی..
بہت شکریہ بیٹا اتنی خوبصورتی سے اتنی اہم بات سمجھانے کے لئے. ورنہ تو لوگ
ایسے سوالات پہ غصہ کرنے لگتے ہیں جواب دینے کی بجائے..
اس میں غصہ کرنے کی کیا بات ہے میں نے تو صرف آپ کے سوالات کے اپنے ناقص
علم کے مطابق جواب دیئے ہیں..
پردہ اتنا اہم ہے مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا اب انشاءاللہ میں بھی پردہ کروں
گی..سارہ نے کہا تھا. اور مجھے کافی عرصہ پہلے پڑھے ہوئے چند اشعار یاد
آگئے..
نہیں ان کو ادراک خو د بھی وہ کیا ہیں،
میری مائیں بہنیں سراپا حیا ہیں،
اگر ان کو نرمی سے سمجهائے کوئی،
گہر گر نصیحت کے بکهرائے کوئی،
مسائل شریعت کے سمجهائے کوئی،
اطاعت کا پیکر بحکم خدا ہیں،
میری مائیں بہنیں سراپا حیا ہیں،
تحریر
بنت عبدالقیوم |