حماقتیں

اگر ہم ایک ایک کر کے د نیا کے تمام عقلمند لوگوں کی زندگیوں پر ریسرچ کر یں کہ آیا اُن کے اندر عقل و دانش کہاں سے آئی ؟ تو یہ جان کر ہمیں حیران نہیں ہو نا چا ہیے کہ یہ عقل ودانش در حقیقت حما قت کے بیج سے پُھو ٹی ہے۔ عقلمندی کے صرف دو ذرائع ہیں ایک یہ کہ آپ حماقت کر یں (بویں ) اور پھر اس پر لگنے والا عقلمندی کا میوہ کھا ئیں ،دوسرا آپ احمق کو دیکھیں اور اُس کی حماقت کے بیج سے عقل کا پھل کھا ئیں ۔ اس بحث سے با لا تر کہ ہم یہ ثابت کر نے کی کوشش کر یں کہ اچھی حماقت کیا ہے؟ اور بُری حماقت کیا ہے ؟ اصل میں حماقت حما قت ہی ہو تی ہے۔ بس اتنا سمجھ لینا کا فی ہے کہ اگر یہ حماقت آدم سے ہو جا ئے تووہ معا فی مانگ لیتا ہے ،اور یہ جنت سے جنت تک کا سفر ہے اور اگر یہ حماقت شیطان سے ہو جا ئے تو وہ ابلیس بن جا تا ہے جہاں وہ محرم سے محروم اور مجرم بن جا تا ہے ۔ اس کے علاوہ ایک اور بھی صورت حال ہے جہاں ہم حماقت کو ظا ہر ی اور حقیقی معنی بھی دے سکتے ہیں بس اس سے زیادہ نہیں سوچنا۔ورنہ یہ بھی ایک حماقت ہوگی ۔

دنیا میں جتنے بھی عظیم لوگ گزر ے ہیں وہ اُس دور کے لحاظ سے حماقت کر رہے تھے ۔ پھر بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ دراصل یہ اُن کی حماقت ہی تھی جس نے اُن کو دوسروں سے مختلف اور معزز بنا یا ۔یہ حما قتیں ہی تھیں جنہوں نے ایڈیسن کو ایجادات کا باپ بنا یا اور صدی کا سب سے عظیم سا ئنسدان کا لقب ملا۔ سقراط کا زہر کا پیالا پینا بھی حماقت تھی ۔اگر سقراط یہ حماقت نہ کر تا تو ہمارا خدا کون ہو گا ؟ اس کا فیصلہ بھی ریاست کر تی ۔اگر مجنوں لیلہ سے محبت کر نے کی حماقت نہ کر تا تو پھر دنیا میں صرف چند چہرے ہی چا ہے جا سکتے ۔اور اگر شہزادہ گوتم تاج و تخت چھوڑنے کی حماقت نہ کر تا تو اُس سچ تک نہ پہنچ سکتا کہ د نیا کا امن ‘‘سب برابر ہیں ’’۔ کے فلسفے میں ہے۔اور آج 360 ملین لوگ اُس کے نام کی اگر بتیاں نہ جلاتے۔بل گیٹس کا آئیڈیا حماقت کے سوا کچھ نہ تھا پھر یہ حماقت کھربوں ڈالر کی ذہانت میں تبدیل ہو گئی۔ آدم نے حماقت کی پھر ابن آدم نے پھر ابن آدم بن ابن آدم نے یوں آج اولاد آدم اس قابل ہو ئی کہ وہ سمندر کے پیٹ میں پکنک منا ئے ،وہ اس قابل ہو ئی کہ فضاؤں پہ پر واز کر ے ۔ہمارے پیارے نبی محمدﷺ نے جب اہل عرب کو کہا کہ اللہ تو صرف ایک ہی ہے نہ اُس کا کو ئی عکس ہے نہ بُت،وہ وہ ذات ہے جو انسان کے بیاں سے بالا ہے ،بشر میں وہ مادہ وفن ہی نہیں کہ اُس ذات کا ادراک کر سکے تم کہاں گارے اور پتھروں کے بے ہنگم بتوں کو سجدہ کر رہے ہو جو خُود تمہا ر ے وجود سے بھی کم تر ہیں ،بھلا یہ کیسے تم پر حاکمیت قائم کر سکتے ہیں ؟ اُس دور کے بڑے بڑے عقل ودانش میں مست دماغوں کا بھی اہل ایمان کے بارے میں یہی کہنا تھا‘‘کیا ہم ایمان لائیں جیسے احمق ایمان لائے’’ (البقرا ۱۳)

تو دوستو گھبراؤ نہیں ،پچھتاؤ نہیں اگر حماقت ہو گئی، تو وہ خدا بڑا رحیم و کر یم ہے اُس کے خزانوں میں کمی نہیں وہ معاف کر دے گا کو ئی بات نہیں اگر ایک حماقت سے کاروبار تباہ بھی ہو گیا ،اور ایک حماقت سے ایک رشتہ اور تعلق ٹوٹ بھی گیا ،اللہ کی زمیں اور اُس کی رحمت بہت کُشادہ ہے ۔اُٹھو اور اب اسی حماقت کے پھل سے ایک نئی دنیا بساؤ ،ایک نیا کاروبار جماؤ۔ناکامی کی حماقت ہی دراصل کا میا بی کی کُنجی ہے ۔حماقت کا رستہ ہی تجھے عقل کی منزل تک لے کر جا ئے گا۔جو خیال دل میں ہے اُسے زباں کا گیت بنا ؤ۔لوگ دیوانہ کہتے ہیں تو کہنے دو کچھ پر وا نہیں ۔ وہ جو خاص صرف تم ہی ہو ۔وہ راز اب اُچھال دو۔بے شمار لوگ ہیں اس دنیا میں اُن میں سے ایک تم بھی ہو ۔اس کے باوجود کے دنیا میں اتنے لوگ ہیں پھر بھی تم پیدا کیے گے ،کیوں؟ اس کیوں کا جواب تم دو؟ شجر و ہجر اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک پھول کا مقصد فضا کو معطر کر نا تھا سو اُس نے کیا اور چلا گیا ۔ایک پھول کا مقصد لحدپہ بکھرنا تھا سو اُس نے کیا۔ وہ اشرف نہیں تھے اُن کو بتانا پڑا ۔اے انساں تو اشرف ہے تجھے خود ہی اپنی خودی کو پانا ہے یہ تیرا شرف اور عزت ہے کہ تیرے رب نے تجھے کہہ دیا کہ جو تو چا ہے گا میں تجھے ویسا کر دوں گا۔ بقول واصف علی واصف کہ تُو جتنا خدا سے راضی ہے خدا بھی تم سے اُتنا ہی راضی ہے۔ اور اسی رضا کا صلہ دنیا و آخرت کی عزت ہے ۔
A.R Ikhlas
About the Author: A.R Ikhlas Read More Articles by A.R Ikhlas: 37 Articles with 31696 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.