قلم کی بغاوت
(Munir Bin Bashir, Karachi)
پھر ایک روز قلم چلتے چلتے رک گیا -
میں نے پوری کوشش صرف کردی کہ یہ دوبارہ لکھنے لگے لیکن ناکام رہا - میں
بڑا پریشان ہوا کیوں کہ کہانی بڑی طویل تھی اور میں ابھی چند صفحات ہی
اونچی پگ والے چوہدری رب نواز کی بیٹی کی رسم مہندی کے بارے میں لکھ سکا
تھا -
میں نے قلم دوبارہ زور سے جھٹکا اور لکھنے کی سعی کی لیکن بے سود - میں قلم
پھینک بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ یہ مجھے بہت پیارا تھا - میں اس سے سولہ کے
قریب ناول لکھ چکا تھا اور یہ سب ہی خوب مقبول ہوئے تھے - میرے ناولوں کا
موضوع عموماً نوابوں کے بیٹوں کی رسم عقیقہ ' اونچے خاندانوں میں شادی بیاہ
کی رسومات اور انکے ثروت و حشمت کے واقعات ہی ہوا کرتے تھے - میرے قلم نے
آج تک بے وفائی نہیں کی تھی لیکن آج نہ جانے کیوں اس نے میرا ساتھ چھوڑ دیا
تھا - میں نے قلم ایک جانب رکھ دیا اور چوھدری رب نواز کے گھر میں منعقد
ہونے والی رسم مہندی کا حال پڑھنے لگا -
مہندی کے موقع پر زمیندار نے اپنے دل کے سارے ارمان نکالے تھے - اپنی اونچی
حویلی کو نئے سرے سے رنگ و روغن کروایا تھا - خوبصورتی بڑھانے کے لئے شہر
کی اعلیٰ درجے کی نرسری سے تیار درخت منگوا کر لگائے تھے - ایسا لگتا تھا
کہ یہ درخت عشروں سے یہاں پر لگے ہوئے ہیں - باغ میں درآمد شدہ گھاس قطعوں
کی صورت میں لگوائی جسکا سبز رنگ لہلہاتے پھولوں کے پس منظر کے ساتھ ایک
عجب بہار دے رہا تھا - کچھ مقامات پر مصنوعی پہاڑیاں بھی تخلیق کی گئیں
تھیں جس میں اس کی کوٹھی ایک نہایت ہی خوبصورت دل کو موہ لینے والا سماں
پیش کر رہی تھی - جیسے جنت کا ایک ٹکڑا یہاں لا کر رکھ دیا گیا ہو - حویلی
کو شاندار طریقے سے سجایا گیاتھا - اونچی اونچی ہلکے رنگ والی قناعتیں -ہوا
میں پھڑ پھڑاتی ہوئی نیلی پیلی جھنڈیاں - فضا کی بلندیوں میں اونچے اڑتے
ہوئے غبارے ' بس یوں محسوس ہوتا تھا کہ رنگ و خوشبو کا ایک سیلاب امڈ ایا
ہے - بچے خوشی سے بھاگے بھاگے پھر رہے تھے - "کمی" لڑکیاں سرجھکائے تیزی سے
دوپٹہ سنبھالتے ہوئے گزر جاتی تھیں
اتنا بڑا انتظام سنبھالنے کے لئے کمیوں کو خصوصی طور پر بلایا گیا تھا -
شرفو کی بیٹی کا انتقال اسی روز ہوا تھا لیکن وہ بھی وہاں موجود تھا کیونکہ
اسے علم تھا کہ چوھدری اگر خوش ہو جائے تو اسے زیادہ دانے مل جائیں گے
-دادو بھی بھا گا بھا گا دیگیں اٹھانے میں مدد دے رہا تھا - اس کی بیوی کی
زچگی ہونے والی تھی لیکن وہ سب کچھ چھوڑ چھا ڑ کے چوھدری کے گھر پہنچا تھا
کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ اس گاؤں میں اس کی خوشی چوھدری کی خوشی میں مضمر
ہے - بوڑھا کریمو بھی اپنی کم سن بیٹی کو لئے آیا ہوا تھا -
اندر حویلی میں ایک نہایت ہی وسیع و عریض کمرے میں فرش پر نہایت نفیس و
قیمتی قالین بچھا ہوا تھا جس میں پیر دھنس دھنس جاتے تھے - قالین کی چاروں
طرف بارڈر پر مہندی کے پتّے نہایت ہی نفاست سے کاڑھے گئے تھے - کئی بار تو
شک ہو تا تھا کہ شاید اصلی ہی پتے پڑے ہوئے ہیں -ایک دو بچوں نے تو اٹھانے
کی بھی کوشش کی تھی - چوہدری نے یہ قالین خاص طور پر آرڈر دیکر ایک شہرہ
آفاق ایرانی فرم سے بنوایا تھا -
قالین کے بیچوں بیچ ایک بڑا سا گلاب کا پھول بنا ہوا تھا - -اس پھول پر عطر
چھڑکا گیا تھا - یہ عطر بھی خصوصی طور پر کسی بیرون ملک سے منگوایا گیا تھا
- پھول پرپڑے ہوئے عطر کی خوشبو سے تمام کمرہ مہک رہا تھا - ایسی مہک جو
بوجھ معلوم نہ ہو بلکہ ایک سکون کا احساس دلائے - اسی پھول کے اوپر دلہن
جلوہ افراز تھی - دلہن کے ارد گرد اس کی سکھیوں نے ڈیرہ ڈال رکھا تھا - کچھ
کھڑکیوں پر پنکھے لگے ہوئے تھے جو اندر کی ہوا کو باہر پھینک رہے تھے
چنانچہ اندر ماحول نہایت ہی خوشگوار تھا - دو سہیلیاں جو دلہن کی بہت ہی
عزیز سہیلیاں لگ رہی تھیں ڈھولک بجا رہی تھیں اورباقی تالیاں بجا کر ساتھ
دے رہی تھیں - ڈھولک بجانے والی لڑکیوں نے نہایت بھاری سونے کی انگوٹھیاں
پہن رکھی تھیں - یہ انگوٹھیاں ہر چار تھاپوں کے بعد جب ڈھولک کی لکڑی سے
ٹکراتیں تو باقی سہیلیاں تالیاں بجانا روک لیتیں اس طرح ایک خوشگوار سی
موسیقی پیدا ہو رہی تھی - پھر ایک سہیلی نے جس کی آواز میں فردوس کے پرندوں
کی سی مٹھاس اور لوچ تھا گانا شروع کیا
ساڈی سکھی نے آج بابل دا وہیڑہ چھڈ دتا
اونّوں ویکھ کے ساڈا خیال دلوں کڈ دتا
'اچھا نی ی ی ' ایک طرف کی لڑکیوں لڑکیوں نے آواز بلند کی -
'ہاں نی ی ی ' دوسری طرف کی لڑکیوں نے گانے کے انداز میں ہی جواب دیا -
گانے کا ردھم برقرار رکھنے کے لئے دونوں گروپوں نے 'نی ' کو کافی طویل
کھینچا تھا - ان کی آنکھوں سے اور چہرے سے شوخی خوب ظاہر ہو رہی تھی- اس
طرح پورے ماحول میں خوشی و مسرت کی لہریں بکھری ہوئی تھیں - اس کے بعد سب
نے مل کر دوبارہ گانا شروع کر دیا
ساڈی سکھی نے آج بابل دا وہیڑہ چھڈ دتا
اونّوں ویکھ کے ساڈا خیال دلوں کڈ دتا
دلہن شرم سے مزید سرنگوں ہو گئی - اس کا دوپٹہ جس پر سونے کی تاروں سے
ستارے بنے ہوئے تھے اس کے سر پر سے کھسک گیا - چوھدرائن نے بڑے پیار سے اس
کا دوپٹہ درست کیا -
اچانک ایک بچی بھاگی بھاگی آئی - دس کے قریب اس کا سن ہو گا -ساٹن کے نیلے
کپڑے پہنے -سر پر سرخ ربن باندھے ہوئے وہ ایک گڑیا کی مانند لگ رہی تھی -
چوھدرائن نے اسے دیکھا تو ماتھے پر تیوریاں چڑھ گئیں - اس نے بچی کو ایک
تھپڑ رسید کیا
'نی توں کدھر مری چلی آرہی ہے - چل ہٹ پرے ہو - قالین خراب کر دے گی '
یہ کریمو کی بیٹی تھی -وہ سہم کر پیچھے ہٹ گئی - اس کی موٹی موٹی آنکھوں
میں آنسو آگئے - کاجل جو اس نے صبح بڑے چاؤ سے لگایا تھا چہرے پر پھیل گیا
اور وہ اداس چہرہ لئے واپس مڑ گئی -
اچانک شور مچ گیا -دلہن کا ہاتھ مہندی لگانے کے لئے باہر نکالا گیا - اس کی
نازک نازک گوری کلائیوں پر سونے کی چوڑیاں چمک رہی تھیں اور ایک نفیس جڑاؤ
دار انگوٹھی اس کی انگلی میں جگ مگ جگ مگ کر رہی تھی - - - - "
اور اس کے بعد نہ جانے کیا ہوا قلم ایک دم چلتے چلتے رک گیا -
میں نے دوبارہ قلم اٹھایا اوراسے آنکھوں کے سامنے لا کر دیکھنے لگا - مجھے
یوں محسوس ہوا - ہاں یوں محسوس ہوا جیسے وہ مجھے اپنی سرخ آنکھوں سے گھور
رہا ہے - جیسے وہ کسی بات پر غصے ہو رہا ہو -
میں نے سہم کر قلم نیچے کر لیا اور جھٹکے دینے لگا - اچانک قلم میرے ہاتھ
سے چھوٹ گیا بلکہ اس نے خود ہی اپنے آپ کو چھڑایا تھا - نہ جانے اس میں
اتنی قوّت کہاں سے آگئی تھی - میں گھبرا کر کھڑا ہو گیا -
' ٹھہرو ' ایک تیز آواز میرے کانوں سے ٹکرائی اور خوف کی ایک لہر میرے رگ و
پے میں دوڑ گئی - میں نے ادھر ادھر دیکھا - کوئی نہ تھا -
'یہ میں تمہارا قلم بول رہا ہوں ' - میں نے چونک کرقلم کیطرف دیکھا - - اس
کی لال لال سرخ آنکھیں مجھ پر جمی ہوئی تھیں - میں جو کھڑا ہوا تھا اب خوف
کے عالم میں دوبارہ بیٹھ گیا
'تم ----تم سرمایہ داروں کے کی وجاہت و ثروت کے قصے بیان کرتے نہیں تھکتے '
قلم نے کہنا شروع کیا 'دولت مندوں کی جاہ و حشمت کا تذکرہ کرتے وقت زمین
آسمان سمان کے قلابے ملا دیتے ہو - غریبوں کا خون چوسنے والے نظام اور اس
کے پیروؤں کی تعریف میں ہمیشہ رطب اللساں رہتے ہو لیکن کیا تم نے کبھی سوچا
ہے کہ اس جہاں میں مزدور بھی رہتے ہیں جن کے ماتھے پر ابھرے پسینے کے قطروں
سے سرمایہ دار اور کارخانہ دار کے سونے کے موتی بنتے ہیں - اسی دنیا میں
درانتی لئے ہوئے کسان بھی نظر آتا ہے جس کی درانتی کا ہر ایک دانت زمیں دار
کے لئے سونا کاٹتا ہے - لیکن اس کی قیمت اس مزدور اور کسان کو کیاملتی ہے
---- صرف کمی ' کمتریں ' و ذلیل کے القاب --- کبھی سوچا ہے تم نے ' قلم نے
زور دار آواز میں کہا - میں تھوک نگل کے رہ گیا اور سر جھکا لیا - 'مجھے
بتاؤ اس اس غریب بچی کا کیا قصور تھا جسے چوہدرائن نے تھپڑ مارا تھا -تم نے
اس بچی کا قصہ درد کیوں نہیں بیان کیا کہ منگنی سے ایک روز پہلے اپلے
تھاپنے کے بعد وہ شام ڈھلنے تک نہر کے کنارے ' برگد کے پیڑ تلے ' ایک
کُھردرے پتھر کی مدد سے اپنے ہاتھوں کو رگڑتی رہی تھی - تھوڑے تھوڑے وقفے
کے بعد وہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ اٹھاتی اور ناک کے قریب لے جاکر زور سے
سونگھتی کہ کہ اس میں گو بر کی بدبو تو نہیں اور پھر دوبارہ پتھر اٹھا کر
رگڑنا شروع کر دیتی
اس کے بعد اس نے اپنے پیر رگڑنا شروع کئے اور جونہی اس کے سفید ملائم نازک
پیر نمودار ہونے شروع ہوئے اس کے چہرے پر شادمانی کی جھلک آگئی- ڈوبتے سورج
کی لال لال روشنی اس کے دمکتے ہوئے چہرے پر پڑ رہی تھی -وہ بڑی خوش تھی اور
جھوم جھوم کر اپنے پیر صاف کر رہی تھی - اس وقت وہ کنول کا ایک پھول لگ رہی
تھی جو صبح کے وقت نسیم سحر کے ہلکے ہلکے جھونکوں میں مسرت سے لہرا رہا ہو
- نسیم سحر میں اب ایک بھینی بھینی سی خوشبو بھی شامل ہو گئی تھی -
اور جب چوہدرائن نے اسے تھپڑ مار کر نکال دیا تو وہ بڑی دیر تک سوچتی رہی
کہ چوہدرائن نے اسے کیوں نکالا - اس نے تو پیر کے میل کی تہیں اچھی طرح صاف
کی تھیں - اس کے ہاتھوں میں بو بھی تو نہیں تھی -
کاش تم اسے بتاتے اے پیاری بچی تم نے پیر سے تو مٹی کی تہیں دور کر دی تھیں
لیکن کیا تم نے اپنے چہرے پر جمی ہوئی کمیں ہونے کی تہیں بھی صاف کی ہیں -
جب تک تم یہ تہیں دور نہیں کرتیں اس وقت تک تمہیں اس قالین پر چلنے کا
اختیار نہیں ---- اس وقت تک یہ دنیا تمہاری نہیں اس چوہدرائن کی ہے -- جاؤ
--پہلے یہ تہیں دور کرو یا پھر کسی سے پوچھو کہ خدا نے تمہارے دل میں ارمان
کیوں پیدا کئے - اگر ارمان دئے تو کمیں کیوں بنایا
کیا تم نے اسے یہ بتایا -----------بولو ---جواب دو
'نہیں' میری آواز کسی گہرے کنوئیں سے نکلتی ہوئی سنائی دی
'تم بتاؤگے بھی کیوں - تم دانشور - ادیب - شاعر -- سب ہی اس استحصال میں
شریک ہو -تمہیں غریب کی کیا پرواہ ---- اسی لئے میں نے آج بغاوت کردی ہے
تاکہ تمہیں صحیح راہ دکھاؤں '
میں خاموش رہا -
'کیا تمہیں شرفو پر بھی رحم نہیں آیا - جو جوان بیٹی کا غم سینے سے لگائے
چودھری کی خوشی میں شریک ہونے آیا تھا - محض اس لئے کہ چند دانے بچ جائیں
اور اس کے باقی ماندہ بال بچوں کا پیٹ بھر سکے - اس کا سینہ غم سے پھٹا جا
رہا تھا- آنکھیں اشک بہانے کے لئے بے تاب تھیں - دل زار زار رو رہا تھا
لیکن وہ چوہدری کو دکھانے کے لئے ہنس رہا تھا کہ اس کی دکھ بھری ہنسی میں
اس کا سکھ پنہاں تھا - اور جانتے ہو اس کی بیٹی کیوں مری تھی - اس کے علاج
کرانے پیسے نہیں تھے - وہ ڈاکٹر کے قدموں پر گر پڑا تھا لیکن ڈاکٹر پر کوئی
اثر نہیں ہوا تھا - اس نے چوہدری کے آگے ہاتھ جوڑ دئے تھے 'چوہدری صاحب رحم
کرو - میں دانے نہیں لوں گا - مجھے اس وقت پیسے دے دو -میری بیٹی مر رہی ہے
' لیکن چوہدری غباروں میں پیسے اڑا سکتا تھا - آتش بازی میں پیسے جلا سکتا
تھا - لیکن کسی مجبور انسان کو نہیں دے سکتا تھا
اور تم نے اس دادو کا ذکر کیوں نہیں کیا جسکی بیوی موت اور زیست کی سرحد پر
کھڑی ہے لیکن دادو اسے چھوڑ کر دیگیں اٹھا رہا ہے - ڈھول کی آواز میں بھی
دادو کو اپنی بیوی کی چیخیں سنائی دے رہی ہیں لیکن وہ سب کچھ نظر انداز کر
کے اپنے ضمیر کو مار کر کام میں جتا ہوا ہے -
تم انہیں کیون نہیں بتاتے کہ تمہاری بیٹیاں یوں ہی مرتی رہیں گی -تمہاری
بیویاں ایسے ہی چلاتی رہیں گی - تمہاری بچیاں اسی طرح دھکے دے کر نکالی
جاتی رہیں گی جب تک یہ نظام تبدیل نہیں ہو جاتا
لیکن تم تو منگنی کی تعریف میں کھوئے ہوئے تھے - تمہیں اس کا خیال بھی کیوں
کر آتا -تم سب کچھ دیکھ رہے ہو لیکن خاموش ہو - تمہارے سامنے مزدور نان
شبینہ سے محروم کئے جا رہے ہیں ' دہقانوں سے دانے چھینے جا رہے ہیں - مریض
موت کے منہ میں دھکیلے جارہے ہیں - شیر خوار بچے دودھ کو ترسائے جارہے ہیں
- لیکن تم آنکھیں بند کئے بیٹھے ہو - کیا میں غلط کہہ رہا ہوں ؟ کیا یہ
جھوٹ ہے ؟ ---قلم کی آواز اونچی ہوتی چلی گئی -
'ہاں - ہاں -تم صحیح کہہ رہے ہو ' میں چیخ پڑا اور سامنے سے اوراق اٹھا کر
ٹکڑے ٹکڑے کر دئے اور دہقانوں کا افسانہ لکھنے لگا -قلم آسانی سے چلنے لگا
اوراق کے ٹکڑے ہوا میں اڑرہے تھے اور ان کے پیچھے مسکراتی ہوئی بچی نظر آئی
- - وہ گندم کی بالیاں اٹھائے چلی جا رہی تھی |
|