پوری دنیامیں ہرسال 15اکتوبرکو دیہی خواتین
کاعالمی دن منایاجاتاہے۔دیہی خواتین کاعالمی دن 18دسمبر 2007کو جنرل اسمبلی
نے مشترکہ طورپر منظورکرکے ، پہلی دفعہ 15اکتوبر1980کومنایاگیا ۔اس دن
کامقصددیہی خواتین کی خدمات اورمعاشرے کی تعمیر وتشکیل اورملک کی
تعمیروترقی میں میں انکے مثبت کردارکااعتراف کرناہے۔کسی بھی ملک کی
تعمیروترقی میں خواتین کابہت اہم کردارہوتاہے۔ خصوصاً زرعی شعبے میں دیہی
خواتین کاکردارکبھی نظراندازنہیں کیاجاسکتا۔پوری دنیامیں زراعت کے شعبے میں
43فیصد افرادی قوت خواتین ہی فراہم کرتی ہیں۔اسی طرح بعض ممالک میں یہ
تناسب 70فیصدتک پہنچتی ہے جبکہ افریقہ کے بعض ممالک میں 80فیصد تک خواتین
ہی زراعت ک شعبے سے وابستہ ہیں۔پاکستان چونکہ ایک زرعی ملک ہے ۔پاکستان کی
زراعت میں پاکستان کی دیہی خواتین کابہت بڑاکردارہے۔ ایک اندازے کے مطابق
تقریباً 60سے 70فیصد تک افرادی قوت خواتین ہی فراہم کرتی ہیں۔زراعت کے
علاوہ دیہی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ گھرکے باہردیگرکاموں میں بھی شریک
رہتی ہیں جبکہ گھرکے اندرامورخانہ داری ، بچوں کی کفالت اورتربیت کے ساتھ
ساتھ انکی صفائی کاخیال رکھنابھی خواتین کی ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔لیکن
یہ تمام کام ان سے بغیرمعاوضے کے لئے جاتے ہیں اورانہیں کسی قسم کی سہولت
اورآرام میسرنہیں ہوتا۔
ہم ایک طرف کہتے ہیں کہ ع وجودزن سے ہے تصویرکائنات میں رنگ ۔۔۔۔۔ جبکہ
دوسری طرف ہم نے عورت کی حیثیت اورمقام کو کس قدرالجھادیاہے۔بحیثیت مجموعی
ہمارے ملک میں خواتین کے ساتھ غیرمنصفانہ سلوک روارکھاجاتاہے۔ اس ضمن میں
اسلامی تعلیمات، مروجہ قوانین اورمعاشرتی اقدارسے بڑی حد قدرانحراف
کیاجاتاہے۔شہروں میں جہاں لوگ خودکو زیادہ تعلیم یافتہ اورمہذب سمجھتے ہیں
، وہاں خواتین کے حقوق سے کسی حد تک تو آگہی موجودہے اورانکے حقوق کے لئے
ہرمحاذپرآوازبلندہوتی ہے،لیکن وہاں کافی حد تک اسلامی تعلیمات سے روگردانی
کی جاتی ہے۔عورت کو گھرکی چاردیواری سے نکال کر بازاروں کی رونق کاذریعہ
بنایاجاتاہے۔انکی حیااورپاکدامنی کاجنازہ نکالاجاتاہے۔ایسے ماحول میں
اسلامی تعلیمات اورمعاشرتی اقداربری طرح پامال ہوتے جارہے ہیں۔ عورت کی ذات
کو صرف جنسی تسکین کاذریعہ سمجھاجاتاہے اوربحیثیت ماں ، بہن، بیوی
اوردیگررشتوں کے ، اسلام نے انہیں جومقام اورقدرومنزلت دی ہے ، ہم نے ان سے
اپنے ہی ہاتھوں سے چھین لیاہے۔خواتین اپنے فرائض اورذمہ داریاں تونبھاتی
ہیں لیکن انکے حقوق انہیں مل نہیں رہے ہیں۔
دیہی خواتین کے مسائل شہروں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ تعلیم اورصحت
جیسی بنیادی سہولیات تک انکی رسائی ممکن نہ ہے۔ستم بالائے ستم یہ کہ انکے
ان پڑھ ہونے سے بھی وہاں کے مردناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔دیہی خواتین کو
قانونی ، معاشی اورمعاشرتی سہولیات میسرنہیں ہیں اوراکثرخواتین کے ساتھ
زمانہ جاہلیت کے رسم ورواج کے مطابق معاملات کئے جاتے ہیں۔شادی بیاہ کے
معاملے میں ان کی مرضی تسلیم نہیں کی جاتی۔انکو معمولی معمولی باتوں پہ
مارپیٹ اورظلم زیادتی کانشانہ بنایاجاتاہے۔ایسی خواتین گھروں میں لونڈیوں
اورکنیزوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبورہوتی ہیں جبکہ مرد حاکم کی طرح زندگی
گزارتاہے۔گذشتہ کچھ عرصہ سے خواتین کے ساتھ غیرمنصفانہ رویہ پروان چڑھ
رہاہے۔اکثرمردبیرون ملک کئی کئی سال پیسے کمانے کے لئے مزدوری کرتے ہیں
جبکہ انکی بیویاں انکے انتظارمیں گھرمیں بیٹھی رہتی ہیں۔ ایسے حالات میں
خواتین کے شرعی حقوق بری طرح پامال ہورہے ہیں۔دیہی خواتین کے لئے تعلیم
کاحصول ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ اکثردیہاتوں میں آج بھی خواتین کی
تعلیم قبیح تصورکی جاتی ہے ۔ قانون سے عدم واقفیت کی وجہ سے انہیں اپنے
شرعی حقوق سے بھی محروم کیاجاتاہے اورمیراث میں انہیں کسی قسم کاحصہ نہیں
دیاجاتا۔ دیہی خواتین کے حقوق،کفالت اورسہولیات کی فراوانی حکومت کااولین
فریضہ ہے۔حکومت کو ایسی تمام خواتین کے حقوق کے لئے عملی اقدامات کرنے
ہونگے۔انہیں صحت، تعلیم اوردیگرسہولیات فراہم کرکے، ملک کی تعمیروترقی میں
انکے کردارکومزیدموثربنایاجاسکتاہے۔
دیہی خواتین کے عالمی دن کامقصد بھی ایسی ہی خواتین کے حقوق کاتعین کرناہے
، جودیہات میں رہتی ہیں اورتمام ترمشکلات اورمسائل کے باوجودمختلف شعبوں
میں محنت شاقہ کے ذریعے ملک کی تعمیر وترقی میں اپناکرداراداکرتی ہیں۔اسی
دن کی مناسبت سے پوری دنیامیں تقریبات اورکانفرنسیں منعقدکی جاتی ہیں ،
تاکہ دیہی خواتین کوانکے حقوق ملے اورانکے کردارکو خراج تحسین پیش
کیاجاسکے۔ |