ایک کپ کافی دیوار پر
(Imran Shahzad Tarar, mandi bhauddin)
ہم دونوں دوست ، پانیوں اور روشنیوں کے شہر
وینس کےایک نواحی قصبے کی مشہور کافی شاپ پر بیٹھے ہوئے کافی سے لظف اندوز
ہو رہے تھے کہ اس کافی شاپ میں ایک گاہک داخل ہوا جو ہمارے ساتھ والی میز
کو خالی پا کر یہاں آ کر بیٹھ گیا۔ اس نے بیٹھتے ہی بیرے کو آواز دیکر
بلایا اور اپنا آرڈر یوں دیا؛ دو کپ کافی لاؤ، اور اس میں سے ایک وہاں
دیوار پر۔ ہم نے اس شخص کےاس انوکھے آرڈر کو دلچپسی سے سنا۔ بیرے نے آرڈر
کی تعمیل کرتے ہوئے محض ایک کافی کا کپ اس کے سامنے لا کر رکھ دیا۔ اس صاحب
نے کافی کا وہ ایک کپ نوش کیا مگر پیسے دو کے ادا کئے۔ اس گاہک کے جاتے ہی
بیرے(ویٹر) نے دیوار پر جا کر ایک کاغذ چسپاں کر دیا جس پر لکھا تھا؛ ایک
کپ کافی۔ ہمارے وہاں بیٹھے بیٹھے دو اور گاہک آئے جنہوں نے تین کپ کافی کا
آرڈر دیا، دو ان کی میز پر اور ایک دیوار پر، پیئے تو انہوں نے دو ہی کپ،
مگر ادائیگی تین کپ کی اور چلتے بنے۔ ان کے جانے کے بعد بھی بیرے نے ویسا
ہی کیا، جا کر دیوار پر ایک اور ورقہ چسپاں کردیا جس پر لکھا تھا؛ ایک کپ
کافی۔ایسا لگتا تھا یہاں ایسا ہونا معمول کی بات ہے مگر ہمارے لئے انوکھا
اور ناقابل فہم تھا۔ خیر، ہمیں کونسا اس معاملے سے کچھ لینا دیا تھا، ہم نے
اپنی کافی ختم کی، پیسے ادا کیئے اور چلتے بنے۔چند دنوں کے بعد ہمیں ایک
بار پھر اس کافی شاپ پر جانے کا اتفاق ہوا۔ ہم بیٹھے کافی سے لطف اندوز ہو
رہے تھے کہ یہاں ایک ایسا شخص داخل ہوا جس کے کپڑے اس کافی شاپ کی حیثیت
اور یہاں کے ماحول سے قطعی میل نہیں کھا رہے تھے۔ غربت اس شخص کے چہرے سے
عیاں تھی۔ اس شخص نے بیٹھتے ہی پہلے دیوار کی طرف دیکھا اور پھر بیرے کو
بلایا اور کہا؛ ایک کپ کافی دیوار سے لاؤ۔ بیرے نے اپنے روایتی احترام اور
عزت کے ساتھ اس شخص کو کافی پیش کی جسے پی کر یہ شخص بغیر پیسے دیئے چلتا
بنا۔ ہم یہ سب کچھ حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ بیرے نے دیوار پر لگے ہوئے
ورقوں میں سے ایک ورقہ اتار کر کوڑے دان میں پھینک دیا۔ اب ہمارے لئے اس
بات میں کچھ چھپا نہیں رہ گیا تھا، ہمیں سارے معاملے کا پتہ چل گیا تھا۔اس
قصبے کے باسیوں کی اس عظیم الشان اور اعلیٰ انسانی قدر نے ہمیں حیران کر
دیا اور اس عمل سے ہم کافی متاثر ہوئے ۔کافی نا تو ہمارے معاشرے کی ضرورت
ہے اور نا ہی ہمارے لئے واجبات زندگی کی طرح کوئی اہم چیز۔ بات تو صرف اس
سوچ کی ہے کہ کسی بھی نعمت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے آپ ان لوگوں کا تصور ہی
کرلیں جو اس نعمت کو اتنا ہی پسند کرتے ہیں جتنا کہ آپ مگر وہ اس کے حصول
سے محروم ہیں۔اس بیرے کے کردار کو دیکھیئے جو صاحب حیثیت لوگوں اور ضرورت
مندوں کے درمیان رابطے کا کردار نہایت خندہ پیشانی اور کھلے دل کے ساتھ
لبوں پر مسکراہٹ سجائے کر رہا ہے۔اس ضرورت مند کو دیکھیئے جو اس کافی شاپ
میں اپنی عزت نفس کو مجروح کیئے بغیر ہی داخل ہوتا ہے، اور اسے یہ پوچھنے
کی قطعی ضرورت پیش نہیں آئی کہ آیا اس کو ایک کپ کافی مفت میں مل سکتا ہے
یا نہیں۔ اس نے دیوار پر دیکھا، کافی کا آرڈر موجود پا کر، یہ پوچھے اور
جانے بغیر ہی، کہ یہ کپ کس کی طرف سے اس کو دیئے جانے کیلئے موجود ہے، اپنے
لئے ایک کپ کا آرڈر دیا، کافی کو مزے کے ساتھ پیا اورخاموشی سے چلتا بنا۔جب
ہم اس مذکورہ بالا کہانی کی جزئیات کو جانیں گے تو ہمیں اس کہانی کے
کرداروں کے ساتھ ساتھ اس دیوار کے کردار کو بھی یاد رکھنا پڑے گا جو اس
قصبے کے درد دل رکھنے والے باسیوں کی عکاس بنی ہوئی ہے۔
اس مضمون کے توسط سے ہماری مراد ان غریبوں کی طرف توجہ دلانا ہے جو غربت و
افلاس کی وجہ سے ایک وقت کا پیٹ بهر کهانا کهانے سے بهی محروم ہیں-
ارشاد باری تعالٰی ہے: اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَالْمُصَّدِّقَاتِ
وَاَقْرَضُوا اللّٰہَ قَرْضاً حَسَناً یُضَاعَفُ لَہُمْ وَلَہُمْ اَجْرٌ
کَرِیْمٌ (الحدید ۱۸)مردوں اور عورتوں میں سے جو لوگ صدقات دینے والے ہیں،
اور جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو قرضِ حسن دیاہے،ان کو یقیناکئی گنابڑھاکر دیا
جائے گا، اور ان کے لیے بہترین اجر ہے۔
قرآنِ کریم میں استعمال ہوئی اس اصطلاح (قرضِ حسن) سے اللہ تعالیٰ کے راستے
میں خرچ کرنا ، غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرنا، یتیموں اور بیواوٴں کی
کفالت کرنا، مقروضین کے قرضوں کی ادائیگی کرنا ، غرضیکہ انسانیت کے کام آنے
والی تمام شکلیں اس میں داخل ہیں، جیسا کہ مفسرین نے اپنی تفسیروں میں
تحریر فرمایا ہے۔ اسی طرح قرضِ حسن میں یہ شکل بھی داخل ہے کہ کسی پریشان
حال شخص کو اس نیت کے ساتھ قرض دیا جائے کہ اگر وہ اپنی پریشانیوں کی وجہ
سے واپس نہ کرسکا تو اس سے مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ قرضِ حسن سے مراد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے
لیے بندوں کی مدد کرنا یعنی اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا ہے، ارشاد
باری تعالٰی ہے:
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ
کَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِی کُلِّ سُنْبُلَةٍ
مِّائَةُ حَبَّةٍ وَاللّٰہُ یُضَاعِفُ لِمَن یَّشَاءُ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ
عَلِیْمٌ (سورہٴ البقرہ ۲۶۱)
جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے
جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ
تعالیٰ جس کو چاہے بڑھاکردے اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
تین شخصوں سے اللہ تعالیٰ بہت محبت کرتا ہے․․․․ ان میں سے ایک شخص وہ بھی
ہے جو کسی شخص کی اس طرح مدد کرے کہ اللہ تعالیٰ اور سائل کے علاوہ کسی کو
خبر تک نہ ہو۔ (ترمذی ، نسائی)
نیز رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن سات لوگ اللہ کے عرش کے سائے
میں ہوں گے، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو اس طرح صدقہ کرے کہ اس کے بائیں
ہاتھ کو معلوم نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔ (بخاری، مسلم)
وَاَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاہُمْ سِرًّا وَّعَلانِیَةً یَرْجُوْنَ
تِجَارَةً لَّنْ تَبُورَ (الفاطر ۲۹)
جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے چھپ کر اور اعلانیہ خرچ کرتے
ہیں،وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں؛ جو کبھی خسارہ میں نہیں ہوگی۔
اعلانیہ اور چهپ کر دونوں صورتوں میں خرچ کیا جا سکتا ہے لیکن چهپ کر خرچ
کر زیادہ بہتر اور افضل ہے- قرض حسن یا صدقات کے لیے ضروری نہیں ہے کہ ہم
بڑی رقم ہی خرچ کریں یا اسی وقت لوگوں کی مدد کریں جب ہمارے پاس دنیاوی
مسائل بالکل ہی نہ ہوں بلکہ تنگ دستی کے ایام میں بھی حسب استطاعت لوگوں کی
مدد کرنے میں ہمیں کوشاں رہنا چاہیے، جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ..... (آل
عمران۱۳۴)
جو لوگ آسانی میں اور سختی کے موقع پر بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں-
مفہوم: محض خوشحالی میں ہی نہیں بلکہ تنگ دستی کے موقع پر بھی خرچ کرتے ہیں
ان کے رب کی طرف سے اس کے بدلہ میں گناہوں کی معافی ہے اورجنتیں ہیں-
نبی اکرم ﷺ سے سب سے بہتر صدقہ کے متعلق سوال کیا گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اس
حال میں بھی خرچ کرو کہ تم صحیح سالم ہو اور زندگی کی توقع بھی ہو، اپنے
غریب ہوجانے کا ڈر اور اپنے مالدار ہونے کی تمنا بھی ہو۔ یعنی تم اپنی
ضرورتوں کے ساتھ دوسروں کی ضرورتوں کوپورا کرنے کی فکریں کرو۔ (بخاری،
مسلم)
اللہ تعالیٰ نے محتاج بندوں کی ضرورتوں میں خرچ کرنے کو اللہ تعالیٰ کو قرض
دینا قرار دیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے ، وہ نہ صرف مال ودولت اور
ساری ضرورتوں کا پیدا کرنے والا ہے ، بلکہ وہ تو پوری کائنات کا خالق، مالک
اور رازق ہے،ہم سب اسی کے خزانے سے کھا پی رہے رہیں، تاکہ ہم بڑھ چڑھ کر
انسانوں کے کام آئیں ، یتیم بچوں اور بیوہ عورتوں کی کفالت کریں، غریب
محتاجوں کے لیے روٹی کپڑا اور مکان کے انتظام کے ساتھ ان کی دینی وعصری
تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرنے میں ایک دوسرے سے مسابقت کریں، تاکہ اللہ
تعالیٰ ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے ، دونوں جہاں میں اس کا بہترین بدلہ
عطا فرمائے اور اپنے مہمان خانہ جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائے۔ آمین۔
(کافی والا واقعہ عربی سے مترجم و منقول اور اسلامی مواد ماخوز از ویب سائٹ
دارالعلوم ) |
|