لازوال قسط نمبر 1

السلام علیکم!
ہر انسان کی خواہش ہے کہ وہ عروج کا حقدار ٹھہرے۔ ایسی منزل پر اپنے پائوں جمائے جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔جس کے آگے کوئی منزل نہ ہو۔ "لازوال" ایک ایسی ہی داستان ہے۔ خاک سے عروج کے آسمان پر پہنچے کی داستان، خواہشوں کے ہجوم میں پھنس کر اپنی انا کو قربان کرنے کی داستان، دین پر چلنے والوں کے لئے صبرو حوصلے کے بے مثال قربانیاں دینے والوں کی داستان،اپنے حسن پر غرورکرنے والوں کے انجام کی ان کہی داستان، اپنی خوشی کی خاطر کسی کی زندگی برباد کرنے والوں کے الم ناک انجام کی داستان، غرض ایک ایک کردار اپنے اندر نہ ٹوٹنے والا تسلسل سموئے ہوئے ہے۔یہ سب اس ناول میں اکٹھا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ میرا پہلا ناول ہے جس کا تھیم "اسلام" ہے۔ میری کوشش آپ کو کیسی لگی، یہ آپ پڑھ کر بتائیے گا۔ یہ ناول ہماری ویب پر پبلش ہونے سے پہلے داستانِ دل آن لائن ڈائجسٹ میں پبلش ہو رہا ہے مگر فقط ہماری ویب کے قارئین کے لئے میں یہاں بھی پبلش کر رہا ہوں۔ امید ہے آپ کو پسند آئے گا۔ اپنی قیمتی رائے سے آگاہ ضرور کیجیے گا۔
والسلام
محمد شعیب

قسط نمبر ١
’’ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا ہے :
کل نفس ذائقتہ الموت ( ہر ذی نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے)
انسان چاہے کامیابیوں کی بلندی کو چھو لے۔ شہرت کے آسمانوں کو فتح کر لے، حسن کی دنیا میں راج کرے ، ساری دنیا میں اپنا نام پیدا کر لے مگر موت وہ واحد شے ہے جو ان سب کو خاک میں ملا دیتی ہے۔ موت نہ تو دولت سے ٹلتی ہے اور نہ ہی حسن پر ترس کھاتی ہے ۔ اس کے آنے سے ہر شے زوال کا شکا ر ہو کر رہتی ہے۔۔‘‘ہمیشہ کی طرح اس نے آج بھی قرآن پاک کی اسی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے اسے سمجھانے کی ناکام کوشش کی تھی مگر کوئی نصیحت اس پر اپنا تاثر چھوڑ جائے ایسا تو شائد خوابوں میں بھی ممکن نہیں تھا
’’جس قرآن پاک کا تم حوالہ دے رہی ہو اسی میں ایک جگہ یہ بھی لکھا ہوا ہے:
لا کرہ فی الدین ( دین میں کوئی جبر نہیں )
کوئی کسی کو مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ فلاں کام کرے یا فلاں سے اجتناب کرے ۔ ہر ایک کو اختیار ہے ، ہر شخص آزاد ہے، ہر کوئی اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔ کوئی کسی پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا گیا۔۔ آئی بات سمجھ میں ۔۔‘‘وہ پچھلے دس منٹ سے آئینے کے سامنے کھڑا اپنا ہئیر سٹائل بنانے میں مصروف تھا۔ کبھی ایک سٹائل بناتا تو کبھی دوسرا۔ لیکن ساتھ ساتھ اس کی ہر دلیل کو رد بھی کرتا جا رہا تھا۔
’’ ٹھیک کہا تم نے کوئی کسی پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا گیا مگر اگر ایک انسان کسی دوسرے کا دل دکھائے تو کیا اس کو اپنی غلطی کا احساس دلانا بھی ضروری نہیں کیا ؟؟‘‘وہ پہلے بیڈ پر بیٹھی اس کو ہئیر سٹائل بناتا دیکھ رہی تھی مگر اب اٹھ کر اس کے پاس آگئی اور اس کے شانوں کو چھونا چاہا
’’میں نے کسی کا دل نہیں دکھایا ۔۔‘‘اس سے پہلے کے وہ اس کے شانوں پر اپنا ہاتھ رکھ پاتی وہ پلٹا تھا۔اپنی گھنی بھنوؤں کو اچکاتا ہوا،اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے وہ اس کی طرف گھور رہا تھا، گلابی ہونٹوں کی اوٹ سے اس کے چمکتے ہوئے موتی جیسے دانت واضح طور پر دیکھے جا سکتے تھے۔ دیکھنے میں دراز قد کا مالک تھا۔
’’ میں نے صرف یہ کہا تھا کہ میں کسی ایسی لڑکی کے ساتھ شادی نہیں کرسکتا تو جو حسن میں کسی بھی طرح مجھ سے کم ہو۔۔‘‘اس کا کہنا بجا تھا۔ جب انسان خود حسین ہو تو بھلا کسی ایسی شے کو وہ کیسے پسند کر سکتا ہے جو حسن میں کسی بھی زاویے سے کم تر ہو۔ انسان ہمیشہ اپنے سے بہتر کی خواہش کرتا ہے۔ وہ یک ٹک اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں بیزاریت واضح طور پر دیکھی جا سکتی تھی۔
’’تو تمہیں اپنی غلطی کا ذرا بھی احساس نہیں۔۔‘‘اپنے نچلے ہونٹ کو اوپر ی ہونٹ سے بھینچتے ہوئے اس نے عجلت سے کہاتو اس نے نفی میں سر ہلا دیا
’’جس طرح کی بات تم نے حجاب سے کی تھی ناں وہ کسی بھی عقلمند آدمی کو زیب نہیں دیتی ۔۔‘‘اس کی آواز میں سختی آگئی تھی۔
’’ ڈانٹ ڈپٹ کے علاوہ تمہیں کوئی اور کام نہیں ہے کیا؟؟ جب دیکھو میرے بیٹے کو ڈانٹتی رہو گی۔۔‘‘یہ رضیہ بیگم کی آواز تھی۔ جو جوس کا گلاس ہاتھ میں لئے کمرے کی چوکھٹ پر تھیں۔ کمرے میں داخل ہونے سے پہلے ہی انہوں نے بنا کچھ جانے انمول کی حمایت میں بولنا شروع کر دیا۔
’’ امی! میں صرف اسے سمجھا رہی ہوں ۔۔‘‘ اس کے لہجے میں قدرے نرمی آگئی تھی
’’تمہارا اور کام ہی کیا ہے؟ جب دیکھو نصیحتوں کا انبار لے کر بیٹھ جاؤ گی اور اس کا نشانہ میرا معصوم سا بیٹا بن جاتا ہے۔۔ ہنہ ۔‘‘ گردن جھٹکاتے ہوئے وہ اس کے پاس سے گزری تھیں اور اپنا ممتا والا ہاتھ انمول کے چہرے پر پھیرا اور جوس کا گلاس اسے پکڑایا
’’آپ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں امی۔۔‘‘جوس کا ایک لمبا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا
’’جب دیکھو اپنے بڑے ہونے کا رعب ڈالتی رہے گی۔ چھوٹے ہونے کا یہ مطلب تو نہیں کہ میں اس کی ہر بات مان لوں۔۔‘‘ وہ جوس کے لمبے لمبے گھونٹ بھر رہا تھا
’’ کم سے کم جوس تو بیٹھ کر پی لو۔۔ کوئی تم سے چھین نہیں رہا۔۔‘‘ ایک بار پھر نصیحت کی تھی
’’ امی ۔۔۔‘‘ اس نے ماتھے پر شکن لاتے ہوئے رضیہ بیگم کو کہا تھا
’’ وجیہہ ۔۔۔‘‘ رضیہ بیگم نے گھور کر اس کی طرف دیکھا تھا
’’امی۔۔ ، آپ کے اور ابو کے زیادہ لاڈ پیار نے ہی اسے بگاڑا ہے، اس کو تو اتنی بھی تمیز نہیں رہی کہ کب ، کس سے، کیسے اور کس طرح بات کرنی چاہئے۔۔‘‘ وہ بے بسی کے ساتھ پلنگ پر بیٹھ گئی
’’بس کرو ۔۔۔ بڑی بی ۔۔۔ بخش دو مجھے، غلطی ہوگئی جو تمہارے سامنے میں نے اپنی زبان کھول لی۔۔‘معاف کر دو مجھے ۔۔‘‘جوس کا گلاس ڈریسنگ پر رکھنے کے بعد اس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے طنز کیا ،اور اسے سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتی وہاں سے چلا گیا
’’امی دیکھ لیں آپ ا س کی حرکتیں ۔۔۔!!‘‘ جاتے ہوئے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رضیہ بیگم سے گویا ہوئی
’’ٹھیک تو کہہ کر گیا ہے وہ۔۔ بخش دو اس کی جان ۔ جب دیکھو ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑی رہتی ہو۔۔۔ کبھی چھوڑ بھی دیا کر و۔۔‘‘‘ تکیہ کے کور اتارتے ہوئے وہ مسلسل وجیہہ کو سنائی جا رہی تھیں۔
’’ میں صرف اس کے بھلے کے لئے کہتی ہوں ورنہ مجھے کوئی شوق نہیں ہے۔۔‘‘ ان کے ہاتھوں سے اتارے ہوئے کور لے کر صوفے پر رکھے اور بیڈشیٹ کو جھاڑنے کے لئے اٹھایا۔ رضیہ بیگم نے اس کی باتوں کو سنا ان سنا کر دیا
’’ ویسے نوبت یہاں تک نہ آتی اگر آپ اس کی تربیت اچھے طریقے سے کرتے ۔۔‘‘ بیڈ شیٹ کو جھاڑا ،اور پھر ایک جھٹکے سے پورے بیڈ پر پھیلا دیا۔
’’ اور تمہیں جو تمہاری دادی کے حوالے کر کے جو غلطی کی تھی ہم نے۔۔۔ اس کی سزا ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔۔‘‘ تلخ لہجے میں اسے سنایا
’’ امی ۔۔ پلز ۔۔۔ آپ ان سب باتوں میں کم سے کم دادی کو تو نہ لائیں۔۔یہ مت بھولیں آپ کہ آج جتنا بھی میرے پاس دین کا علم ہے، ان ہی کی بدولت ہے۔ آج ان کی بدولت ہی میں اچھے برے ، صحیح غلط میں فرق محسوس کر سکتی ہوں۔اگر دادی مجھے یہ سب کچھ نہ سکھلاتیں تو شائد میں بھی آج انمول کی طرح ہی ہوتی۔ دین سے دور۔۔‘‘
’’ تمہارا کیا مطلب ہے ہم نے انمول کو کچھ نہیں سکھایا؟‘‘ انہوں نے کام چھوڑ کر اس کی طرف شکیہ نظروں سے دیکھا
’’ نہیں۔۔ امی میر ا وہ مطلب نہیں ہے۔۔‘‘ اس نے ایک بار پھر سمجھانے کی کوشش کی
’’نہیں۔۔ نہیں۔۔ بس رہنے دو ، میں اچھی طرح جانتی ہوں یہ تم نہیں بول رہی بلکہ تمہارے اندر موجود تمہاری دادی کی روح بول رہی ہے۔ خود تو چلی گئی مگر اپنی ایک کاپی ہمارے پاس چھوڑ گئی۔۔ ہنہ۔ْ۔‘‘ گردن جھٹکا کر وہ باہر چلی گئیں اور وجیہہ ایک بارپھر صرف افسوس کرتی رہ گئی۔ اس نے مایوس چہرے کے ساتھ اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا تو واقعی اسے اپنے عکس میں دادی کا چہرہ نظر آیا تھا مگر اسے کوئی ملال نہیں تھا وہ تو اس بات پر خوش تھی۔
* * * * *
شادی کے پانچ سال بعد ان کے گھر میں ایک بیٹی نے جنم لیا تھا اور یہ بات سب کے لئے خوشی کی تھی کیونکہ آج برسوں بعد ان کے گھر میں کسی بیٹی نے آنکھ کھولی تھی۔ پورا خاندان مبارک باد دینے علی عظمت کے گھر امڈ آیا اور علی عظمت کی ماں ۔۔ ان کے لئے تو سب سے زیادہ خوشی کی بات تھی۔ ان کی ہمیشہ سے چاہ تھی کہ ان کی کوئی بیٹی ہو مگر خدا نے قسمت میں صرف بیٹے لکھے ہوئے تھے اور پھر ہر بیٹے کے گھر بھی صرف بیٹوں نے ہی جنم لیا۔ اور اب جب پانچ پوتوں کے بعد پوتی کا کا چہرہ دیکھنا نصیب ہوا تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہے بغیر نہ رکے۔وہ اپنی ہر چاہ اپنی پوتی سے پورا کرنا چاہتی تھیں۔ اس کا نام وجیہہ عظمت بھی انہیں نے خود تجویز کیا تھا۔ پہلے دن سے ہی اس کے بارے میں سپنے دیکھنا شروع کر دیئے۔اس کے نازک سے بدن کو ہاتھوں میں لیتیں۔ اس سے باتیں کرتیں۔اپنے پا س سلاتیں۔ ان کی بس آخری خواہش یہی تھی کہ وہ اپنا ہرپواوقت وجیہہ کے ساتھ گزاریں۔ وہ کسی بھی قیمت پر وجیہہ سے دوری برداشت نہیں کر سکتی تھیں۔ جس دل میں بیٹی کی خواہش ہو، بیٹی کی عظمت ہو ، اس کے دل میں ایسے جذبات کا ابھرنا کوئی نئی بات نہیں۔ لیکن ان کی اس خواہش کو شائد ابھی ایک امتحان سے گزرنا تھا۔ دل میں موجود ہر خواہش کو سچ ہونے کا موقع ملے ایسا بہت کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ ان کے سب سے بڑے بیٹے کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔ جس کی وجہ سے انہیں اُس کے پاس جا نا پڑا لیکن وہاں جانے کے بعد بھی وہ وجیہہ کو نہ بھول پائیں۔ اس کا معصوم سا چہرہ ہمیشہ ان کی کمزورآنکھوں کے سامنے رہتا۔ دل ہر وقت اس کے لئے بے قرار رہتا۔ آنکھیں اس کو دیکھنے کے لئے ترستی رہتیں۔ کانوں کی پیاس تو دن میں فون پر بات کرنے سے بجھ جاتی مگر باقی کسی عضو کو قرار نہ آتا۔ ان کی اس بے قراری کو چھوڑ کر علی عظمت نے کئی بار رضیہ بیگم سے کہا کہ وہ وجیہہ کو کچھ عرصہ کے لئے اس کی دادی کے پاس چھوڑ آتے ہیں مگر ماں تو آخر ماں ہوتی ہے۔ اور پہلی اولاد تو ویسے ہی آنکھوں کا تارا ہوتی ہے بھلا وہ کیسے ہامی بھر سکتی تھیں۔ لیکن علی عظمت اصرار کرتے رہتے تو پھر ایک جواب ان کو خاموش کروا دیتا
’’تمہاری صرف ایک بیٹی ہے ، تم سے وہی سنبھالی نہیں جاتی۔۔ کیسے باپ ہو تم؟ وہ تمہاری ماں ہے تو کیا ہوا؟ میں بھی تو اس کی ماں ہوں میرے بھی تو ارمان ہیں۔ ساری خواہشیں اور سارے ارمان کیا صرف تمہاری ماں کے ہی ہیں؟ اگر ان کے ہاں بیٹی پیدا نہیں ہوئی تو اس میں میرا کیا قصور ؟ ان کی اس بیٹی کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے میں اپنی بیٹی کی قربانی کیوں دوں؟ اپنی اکلوتی بیٹی کو ان کے حوالے کیوں کروں ؟ بیٹی کا اگر زیادہ ہی شوق چڑھا ہوا ہے تو دوسری پوتیاں بھی تو ہیں ، ندیم بھائی کے ہاں تو پچھلے ماہ ہی بیٹی ہوئی ہے۔ جا کر ان سے کیوں نہیں مانگ لیتی ، ان کی بیٹی؟ ان سے کیوں نہیں اپنی چاہ پوری کر لیتیں؟ مگر نہیں انہیں تو صرف میری بیٹی ہی چاہئے۔ وجہیہ ہی چاہئے لیکن نہیں۔۔۔ کان کھول کر سن لیں آپ۔۔ میرے جیتے جی ایسا نہیں ہوسکتا۔۔ میری صرف ایک بیٹی ہے۔ چار پانچ بچے نہیں ہیں اگر ہوتے تو کچھ سوچتی ۔۔‘‘
یہ تمام باتیں ان کر وہ خاموش ہوجاتا اور دل ہی دل میں رضیہ بیگم کی باتو ں کی حمایت کرتا کیونکہ وہ بھی وجیہہ کو اپنی نظروں سے دور نہیں رکھ سکتا تھالیکن ماں کو صاف انکار بھی نہیں کر سکتا تھا۔ ہمیشہ درمیان کی راہ اختیار کرنے کی سوچتا۔ ہر ہفتے کچھ وقت کے لئے وہ کچھ دیر کے لئے وجیہہ کو اس کی دادی کے پاس لے جاتا اور وہ کچھ دیر میں ہی اپنے پورے ہفتے کے ارمان پورے کر لیتیں۔ وقت گزرتا چلاگیا۔ دن بدلتے گئے۔ اور پھر وہ وقت آیا جب انمول نے آنکھیں کھولی۔ انمول کے جنم لینے کے بعد رضیہ بیگم کی تمام تر توجہ وجیہہ کی طرف سے ہٹ گئی ۔ ان کا لاڈ پیار صرف انمول تک محدود ہوگیا۔ وہ اپنی ممتا پر صرف انمول کا حق سمجھنے لگیں۔ تین سالہ وجیہہ اس بات کو محسوس کر سکتی تھی۔ اور ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں اپنی دادی کو سب کچھ بتا دیتی
’’دادی۔۔ آپ کو معلوم ہے کہ امی اب مجھ سے تھوڑا سا بھی پیار نہیں کرتی۔ بھائی کو ہی پیار کرتی ہیں۔ میں جب کہتی ہوں مجھے آپ کے پاس سونا ہے تو کہتی ہیں جا کر دوسرے کمرے میں سو جاؤ۔۔ اب تم بڑی ہوگئی ہو۔ دادی کیا میں واقعی بڑی ہو گئی ہوں۔ اب امی مجھے پہلے کی طرح پیار نہیں کریں گی؟‘‘
پچھلے تین سالوں میں وہ جتنی مانوس اپنی دادی سے ہوگئی تھی اتنا تو شائد وہ اپنی سگی ماں سے بھی نہ ہو پائی تھی۔ اس کی وجہ شائد وہ محبت، شفقت تھی جو بے لوث اور بنا غرض کے تھی۔ یہ سن کر انہیں بہت دکھ ہوا تھا اور انہوں نے وجیہہ کو اپنے ساتھ رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس بار ان کے اس فیصلے پر نہ ہی علی عظمت نے کچھ کہا اور نہ ہی رضیہ بیگم نے مزاحمت کی۔ ننھی وجیہہ نے بھی ان کی پرواہ نہ کی اور دادی جان کے ساتھ چل دی۔ وجیہہ کی دادی ایک نہایت پارسا خاتون تھیں ۔ روزہ نماز کی پابندی باقاعدگی سے کرتی تھیں۔ ہر وقت دین کی باتیں ان کے لبوں سے جار ی رہتی، یہی رنگ کچھ ہی عرصہ میں وجیہہ پر بھی چڑھ گیا۔ بچپن سے ہی انہوں نے اسے حجاب کی اہمیت، اور لڑکیوں کے لباس کے بارے میں بتانا شروع کر دیا
’’بیٹی ! لڑکیاں ہمیشہ حجاب میں اچھی لگتی ہیں؟‘‘
’’ دادی یہ حجاب کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’ بیٹی ! جو کپڑا لڑکی کو نامحرم کی آنکھوں سے چھپا لے اسے حجاب کہتے ہیں۔‘‘
’’ دادی! یہ نامحرم کون ہوتا ہے؟‘‘
’’بیٹی! ایک لڑکی کے لئے ہر وہ شخص نا محرم ہوتا ہے جو اسے گناہ پر ابھارتا ہے ‘‘
’’ دادی یہ گناہ کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’ پیاری بیٹی! گناہ دل کے میل کو کہتے ہیں۔‘‘
’’ دادی! دل کو کیسے میل لگتا ہے؟ ‘‘
’’میری بیٹی! جب ایک لڑکی کسی بھی نامحرم کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتی ہے اور پھر اپنی نظریں نہیں جھکاتی تو اس کے دل کو میل لگنا شروع کر ہوجاتا ہے۔‘‘
’’ دادی! پھر یہ میل دور کیسے ہوتا ہے؟‘‘
’’ بیٹی! یہ میل صرف اور صرف توبہ و استغفار کے پانی سے دور ہوتا ہے‘‘
’’ دادی! توبہ کا پانی کہاں سے ملتا ہے؟ میں نے تو نہیں دیکھا آج تک ؟‘‘
’’ بیٹی ! توبہ کا پانی آنکھوں سے سے بہتاہے۔ ‘‘
’’ لیکن دادی آنکھوں سے پانی تو باہر کی طرف بہتا ہے اور دل تو انسان کے جسم میں ہوتا ہے پھر بھلا اس سے میل کیسے دور ہوتا ہے؟‘‘
’’بیٹی آنکھوں سے آنسو بہانے سے انسان کا دل نرم پر جاتا ہے اور جب انسان کا دل نرم پر جائے تو وہ اس میل کو آسانی سے دور کر سکتا ہے۔ اپنے رب کے آگے گناہوں کی معافی مانگ کر، اپنے آ پ کو اس کے سامنے عاجز کر کے۔‘‘
’’ لیکن دادی! ہمیں کیسے پتا چلتا ہے کہ ہمارے دل کا میل دور ہوگیا ہے ؟‘‘
’’بیٹی! جب انسان کا دل نیکیوں کی طرف خودبخود راغب ہو جائے تو سمجھ جانا چاہئے کہ اس کے دل کا میل ختم ہوتا جا رہا ہے۔‘‘
’’ دادی۔۔ اب یہ نیکی کیا ہوتی ہے؟‘‘
’’بیٹی! ایسا کام جس کا تذکرہ اگر لوگوں میں کیا جائے تو آپ کو شرمندگی محسوس نہ ہو ، نیکی کہلاتاہے۔‘‘
’’ دادی یعنی نیکی کر کے لوگوں میں تذکرہ کرنا ضروری ہوتا ہے کیا؟‘‘
’’ نہیں بیٹی!نیکی کا خود تذکرہ کرنا اسے ضائع کردیتا ہے ‘‘
’’ لیکن دادی ابھی تو آپ نے کہا کہ نیکی کرکے کوگوں میں تذکرہ کرنا چاہئے۔۔‘‘
’’ نہیں بیٹی! تم میری بات کا مطلب نہیں سمجھی ۔۔۔ انسان ایک کام چپکے سے کرتا اور خواہش کرتا ہے کہ اس کے کام کا لوگوں کو پتا نہ چلے پھر اچانک اس کے کام کی خبر لوگوں میں ہوجائے تو پھر اگر وہ اس کام کے ظاہر ہونے پر شرمندگی محسوس کرے تو وہ گناہ ہے اور اگر لوگ اس کی تعریف کریں اس کام کو اچھا کہیں اور وہ خود بھی دلی اطمینان محسوس کرے ، اسے نیکی کہتے ہیں‘‘
دادی کی پرورش کا نتیجہ یہ نکلا کہ تین سال کے مختصر سے عرصہ میں وجیہہ نے نہ صرف ناظرہ قرآن پاک مکمل کر لیا بلکہ نماز کی بھی پابند ہوگئی۔ لباس اسلام کے مطابق ڈھال لیا ۔ ہر وقت دوپٹہ اوڑھنا اس کی عبادت کا حصہ بن گیا ۔ تربیت ادھر ہی ختم نہیں ہوئی ، وجیہہ نے ترجمہ تفسیر کے لئے نزدیکی مدرسہ بھی جانا شروع کردیا ۔ صبح شام تلاوت اس کی زندگی کا حصہ بننے لگی۔ ان تمام عرصہ میں وہ اگرچہ اپنی دادی کے پاس رہی مگر اپنے والدین سے ملنے کا شوق اس کے دل میں ہمیشہ رہا۔ وہ بھی دوسرے بچوں کی طرح اپنے والدین کے ساتھ رہنے کی خواہش کا اظہار کرتی مگر دادی یہ کہہ کر ٹال دیتی کہ جب وہ بڑی ہوجائے گی تب ان کے ساتھ رہے گی۔ اِ س کے سوا کہہ بھی کیا سکتی تھیں یہ کہ اس کے والدین کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں۔ صرف ہفتے میں ایک آدھ بار فون کر کے خیریت دریافت کر لینے سے فرض ادا ہو جا تا ہے؟ لیکن وقت نے اس کی سن لی۔ ماں باپ کے ساتھ رہنے کے یہ خواہش اس کی تیرہ سال کی عمر میں پوری ہوگئی کیونکہ اب اس کی دادی وفات پا چکی تھیں۔ یہ وقت ننھی وجیہہ کے لئے کسی امتحان سے کم نہیں تھا۔ علی عظمت اس کو پانے گھر لے آئے لیکن گھر واپس آنے پر اس کو وہ قرار نہ ملا جو وہ اپنی دادی کے ساتھ محسوس کیا کرتی تھی۔ وہ اپنے آپ کو اس ماحول میں نہ ڈھال سکی۔ کہنے کو تو سب مسلمان تھے مگر دیکھنے میں کوئی کہہ نہیں سکتا تھا۔نماز روزے کا تو دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ کبھی دل چاہا تو جمعہ کی نماز پڑھ لی ورنہ عید کی نماز تو فرض تھی ہی۔ جب وہ اپنی ماں کی طرف دیکھتی تو دنیا کے رنگوں میں ڈوبی ہوئی پاتی۔ اپنے باپ کو دین سے دور معاش کی تلاش میں سرگرداں دیکھتی اور چھوٹے بھائی کہ منہ سے تو بڑی باجی یا آپی کا لفظ تو سنا ہی نہیں۔ عمر میں چھوٹا تھا مگر حکم ایسے دیتا تھا جیسے اس گھر کا بڑا ہو۔ امی ابو بھی اس کی ہر جائز نا جائز خواہش کو پورا کرتے جس سے اس کا حو صلہ مزید بڑھ جاتااور خود کو ایسے منصب پر فائز کرنے کی خواہش کرتا جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔ ایک ایسا مقام جہاں اسے عروج حاصل ہوا۔ کوئی اس سے برتر نہ ہو۔ الغرض ان سب باتوں نے اگرچہ اس کو تکلیف ضرور پہنچائی مگر اس کے حوصلے پست نہ ہوئے وہ دین کے بارے میں مزید جاننا چاہتی تھی۔ مگر اس کے والدین اس کو دنیا کی طرف لگانا چاہتے تھے۔ ان کے ہی اصرار پر دادی نے اس کو پانچ جماعتیں پڑھائی تھیں لیکن اب وہ یہ چاہتے تھے کہ وہ پڑھ لکھ کر ایک وکیل بنے۔ اگرچہ وہ دنیاوی تعلیم سے بے زار تھی۔ اس کے دل میں یہ تعلیم کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھی۔ مگر اپنے والدین کی اطاعت کی خاطر اس نے اپنے آپ کو یہ کام کرنے پر آمادہ کیا۔ بچپن میں بھی جب وہ اپنے والدین کے خلاف کچھ بولتی تھی تو اس کی دادی قرآن کی آیتوں کی تلاوت شروع کر دیتی
و با لوا لدین احساناً (اور والدین کے ساتھ احسان کر)
لیکن والدین کے ساتھ احسان کرتے ہوئے بھی اس نے اپنے رب کا حکم مانا۔ اپنی دادی کی پرورش کا پاس رکھا ۔
’’اے نبی ﷺ! اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مومن عورتوں سے فرما دیجیے کہ ( باہر نکلتے وقت ) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں۔ ‘‘
یعنی پردے کا حکم جو اس نے سورہ احزاب میں سیکھا تھا۔ وہ جب بھی اپنے گھر سے باہر قدم رکھتی ، اپنے پورے جسم کو اچھی طرح ڈھانپ لیتی اور ایک بڑی سی چادر سے اپنے جسم کی حفاظت کرتی۔
* * * * *
’’ زندگی کا دوسرا نام ہے انمول۔۔‘‘ اس کے دوست ہمیشہ اس کے لئے یہ جملہ استعمال کرتے اور کسی حد تک ان کا یہ کہنا بجا تھا کیونکہ جتنے قریب سے وہ زندگی کو جیتا ہے اتنے قریب سے شائد ہی کوئی دوسرا جیتا ہو۔بچپن سے والدین کی آنکھوں کا تارا بن کر رہا ۔ کبھی کسی نے اس سے اونچی آواز میں بات نہیں کی۔ خواہشیں تو ایسے پوری ہوتیں جیسے یہ دنیا بنی ہی اس کی خواہشوں کی تکمیل کے لئے ہے ۔ ہر شے اس کے ایک حکم کا انتظار کرتی رہتی۔ آج تک اس نے لفظ نہیں سنا تک نہیں۔بس جسے پسند کیا وہ میرا ہے کی رٹ تھی۔ لیکن خواہشوں کو جتنا پورا کیا جائے یہ اتنا ہی زور پکڑتی ہیں ۔ یہی انمول کے ساتھ ہورہا تھا بچپن کی خواہشیں جیسے ہی جوانی میں داخل ہوئیں تو انا کا مسئلہ بن گئیں۔ لیکن قسمت نے ہمیشہ اس کا ساتھ دیا۔ بچپن سے لڑکپن اور پھر لڑکپن سے جوانی تک زندگی کے ہر میدان میں اسے کامیابی ہوئی مگر یہ کامیابی صرف دنیاو ی حد تک تھی۔ دین سے تو اس کا دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ دوسرے امیر زودوں کی طرح صرف مسلمان کے گھر پیدا ہوجانا ، ایک بار کلمہ پڑھ لینا، گرین پاسپورٹ میں مسلمان کا لیبل لگ جانا ۔ بس یہی کافی تھا۔ نماز ، روزہ وغیرہ اس کے نزدیک صرف ان کے لئے ہے جو دنیا کا شوق نہیں رکھتے۔ جن کے جذبات دنیا کے لئے نہیں ہوتے۔ جیسا کہ وجیہہ عظمت ۔ اس کی بڑی بہن۔ صبح سے شام تک صرف دین کی چادر لپیٹے رہنا۔
ؔ ؔ ’’ تمہارے اندر ذرہ برابر بھی احساس نہیں ہے۔دنیا اتنی رنگین ہے ، ہر طرف رونق ہی رونق ہے اور تم ابھی تک پرانی سوچ کی مالک ہو ۔ دنیا بدل چکی ہے۔ تقاضے بدل چکے ہیں حالات بھی کروٹ لے چکے ہیں اور تم ابھی تک انہی باتوں پر قائم ہو۔۔۔ آج کل کی دنیا میں ایسے لوگوں کو احمق کہا جاتا ہے۔ زیادہ کچھ نہیں کر سکتی تو کم سے کم اپنی صورت ہی اچھی بنا لو ۔۔ لوگ خوبصورت ہونے کے لئے ہزاروں چیزیں استعمال کرتے ہیں اور تم ؟؟ تمہارے پاس تو ہر چیز ہے کم سے کم ان کی تو ناشکری نہ کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اسی سانولے رنگ کی وجہ سے تمہاری شادی نہ ہو اور پھر ساری عمر یہیں بیٹھی رہو۔۔‘‘وہ اپنی تنقید میں ہر رشتہ بھول جاتا لیکن وجیہہ نے کبھی اس کو اسی کے الفاظ میں جواب نہ دیا بلکہ ہر سوال کا جواب اسلام کی روشنی میں دیتی۔ پھر آہستہ آہستہ اس کی تنقید بھی کم ہونا شروع ہو گئی کیونکہ وہ جان گیا تھا اس کی باتوں کا اس پر کوئی اثر نہیں ہونے والا البتہ جواباً دو چار نصیحتیں ضرور سننے کو مل جاتی۔وہ ان نصیحتوں سے تنگ آچکا تھا۔ مگر اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا کہ اپنے آپ کو صحیح اور اسے غلط قرار دے سکے ۔ چلو غلط نہ سہی ، کم سے کم اس کی نصیحتوں سے چھٹکارا تو حاصل کر سکے۔ ایک دن وہ پورے ٹھاٹ کے ساتھ تیا ر ہو کر اپنے دوست کے گھر جا رہا تھا ۔ وجیہہ کے کمرے کے پاس سے گزرتے ہوئے اس نے قرآنی آیت کا ترجمہ سن لیا
’’ دین میں کوئی جبر نہیں ۔۔‘‘
بس پھر کیا تھا؟ جب بھی وہ اسے کوئی نصیحت کرنے لگتی ، اسی آیت کا حوالہ دے کر اس کو خاموش کروا دیتا لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ جس چیز کو وہ بوجھ سمجھ رہا ہے۔ اصل میں وہ بوجھ نہیں بلکہ بوجھ تو وہ ہے جس راستے کی طرف وہ گامزن ہے۔
* * * *
لازوال میں پیش آنے والے حالات اگلی قسط میں ملاحظہ کیجیے
Muhammad Shoaib
About the Author: Muhammad Shoaib Read More Articles by Muhammad Shoaib: 64 Articles with 106959 views I'm a student of Software Engineering but i also like to write something new. You can give me your precious feedback at my fb page www.facebook.com/Mu.. View More