اایم کیو ایم لندن نے آخر کار اپنے پر
پھیلانے شروع کر دیئے اور نہ صرف یہ کہ پاکستان میں اپنی رابطہ کمیٹی کا
اعلان کر دیا بلکہ کراچی میں اپنی رابطہ کمیٹی کو متحرک بھی کر دیا۔ ہفتہ
کو کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم لندن کی
رابطہ کمیٹی کے رکن پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر عارف نے کہا کہ ایم کیو ایم
پاکستان کی تیسری بڑی جماعت ہے لیکن اس کے خلاف مسلسل سازشیں کی جارہی ہیں
اور اسے تقسیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ ایم کیو
ایم کے خلاف ریاستی آپریشن بند کیا جائے اور اسے ملک بھر میں کام کرنے کی
اجازت دی جائے۔ڈاکٹر حسن ظفر عارف نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ نائن زیرو سمیت
ایم کیو ایم کے سیل کئے گئے دفاتر کھولے جائیں اور اسے سیاسی سرگرمیوں کی
اجازت دی جائے۔انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر فاروق ستار کو ایم کیو ایم کے بانی نے
تمام تر اختیارات سونپ دئیے تھے لیکن اس کے جواب میں ڈاکٹر فاروق ستار نے
ایم کیو ایم کے بانی ہی کو پارٹی سے نکال دیا اور ان کے خلاف آرٹیکل 6کے
تحت مقدمہ چلانے کی بات کی گئی۔ایم کیو ایم لندن کی پہلی پریس کانفرنس کے
موقع پر کنور خالد یونس، مومن خان مومن اور ایم کیو ایم لندن کی رابطہ
کمیٹی ارکان سمیت دیگر رہنماؤں اور کارکنوں کی بھی قابل ذکر تعداد موجودتھی۔
اس موقع کراچی پریس کلب کے باہر ایم کیو ایم لندن کے ورکرز نے بانی ایم
کیوا یم کے حق میں نعرے بھی لگائے جبکہ دوسری طرف اس دوران کراچی پریس کلب
کے باہر رینجرز کی بھی بھاری نفری موجود تھی تاہم کوئی گرفتاری عمل میں
نہیں آئی۔ کراچی کی سیاست کے تناظر میں یہ بہت اہم ڈیولپمنٹ ہے۔ایم کیوایم
لندن کی رابطہ کمیٹی اپنے کارکنان سمیت ایک ایسے وقت پر منظر عام پر آئی ہے
کہ جب ایم کیو ایم پاکستان ، پاک سرزمین پارٹی اور مہاجر قومی موومنٹ کی
قیادت یہ سمجھنے لگی تھی کہ اب شاید ایم کیو ایم لندن کا پاکستان کی سیاست
میں کوئی عمل دخل نہیں رہے گا اور مستقبل میں ہونے والے انتخابات میں کراچی
کا مینڈیٹ ان ہی تین جماعتوں کے درمیان تقسیم ہو گا۔ لیکن دو روز قبل اسکاٹ
لینڈ یارڈ کی طر ف سے بانی ایم کیو ایم اور دیگر کے خلاف مقدمہ واپس لینے
کی وجہ سے صورت پوری طرح سے تبدیل ہو گئی اور ایم کیو ایم کے کارکنوں سمیت
ووٹر اور سپورٹرز کی بڑی تعداد ایک مرتبہ پھر ایم کیو ایم لندن کے کیمپ میں
واپس چلی گئی ۔ اس صورت حال نے نہ صرف ایم کیو ایم لندن کو کراچی سمیت سندھ
کے شہری علاقوں میں مضبوط کیا بلکہ ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی اور
اس کی قیادت کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ یہاں ایک اور اہم بات بھی یہ ہے
کہ پاکستان کی حکومت اور اسٹبلشمنٹ بھی اسکاٹ لینڈ یارڈ کے فیصلے سے بڑی حد
تک متاثر ہوئی اور اپنے ایجنڈے میں نام ہوئی ہیں۔ ایم کیو ایم لندن کی
رابطہ کمیٹی کے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس اور کلب کے اندر اور باہر
کارکنوں کی متاثر کن تعداد کی طرف سے بانی ایم کیو ایم کے حق میں گونجنے
والے نعرے اور رینجرز سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے
کوئی کارروائی نہ ہونا، مستقبل کے کراچی اور اندرون سندھ کے شہری علاقوں کی
سیاست کا پتہ دے رہی ہے۔اس موقع مقتدر حلقوں کی طرف سے ایم کیو ایم لندن کو
پریس کانفرنس کی اجازت دینا اور کارکنوں کی طر ف سے پریس کانفرنس کے دوران
اور بعد میں الطاف حسین کے حق میں نعرے لگانا اور کوئی گرفتاری نہ ہونا یہ
بتاتا ہے کہ کسی نہ کسی سطح پر ایم کیو ایم لندن اور پاکستان کی اسٹبلشمنٹ
کے درمیان کوئی نہ کوئی معاملات طے ضرور ہوئے ہیں۔ اب یہ کس دباؤ کے تحت
کیا گیا ہے اس بارے میں تو حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم اس میں
برطانیہ سمیت دیگر اہم ملکوں کے دباؤ کو کلی طور پر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
اسی غیر مرعی دباؤ کے تحت قومی امکان اس بات کا ہے کہ معافی تلافی کے بعد
ایم کیوایم لندن کو کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں میں سیاست کرنے اور
محدود پیمانے پر اپنی سرگرمیاں شروع کرنے کا موقع بھی مل جائے گا تاہم اس
پورے منظر نامے میں اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اب کراچی اور اندرون سندھ کے
شہری علاقوں میں ڈاکٹر فاروق ستار ، مصطفی کمال اور آفاق احمد کی سیاست کا
کیا مستقبل ہے؟ |