یہ آرٹیکل میرے بلاگ کے اس ربط پر موجود ہے
https://kashifnaseer.co.cc
عروس البلاد کی فضاؤں میں جب بھی سانولی گھٹائیں چھاتی ہیں اور رم جھم کے
آثار نمودار ہوتے ہیں ہم جہاں کہیں بھی ہوں کسی بے خود پروانے کی مانند
مادر علمی کی جانب دوڑ پڑتے ہیں. صاحب پڑھنے کیلئے نہیں بھیگے موسم کے رنگ
میں رنگنے اور ٹپ ٹپ گرتی ایک ایک پھوار میں چھپی رومانیت کا مزا دوبالا
کرنے کیلئے. ارے خبردار جو آپ نے ہم پر شک کیا، ہمارا کہیں کوئی ایسا ویسا
چکر وکر نہیں ہے وہ تو بس جامعہ کراچی کی بات ہی ایسی ہے کہ برسات میں کھل
اٹھتی ہے اور بارش کے دن پورے کراچی میں اس سے خوبصورت جگہ کم از کم ہمیں
تو کوئی اور معلوم نہیں ہوتی. دھلی ہوئی بل کھاتی سڑکیں اور ان پر چلتے ایک
دوسرے پر پانی اڑاتے من موجی لڑکے اور لڑکیاں، بھیگے ہوئے سر سبز درخت اور
ان پر بیٹھے سہمے ہوئے پرندے، اجٹ جھاڑیوں میں اچانک نمودار ہو جانے والی
جھومتی گاتی رقص کرتی ہریالی اور ان پر گرتی رم جھم پھوار، پریم گلی اور
فارمیسی کی کنٹین جہاں پورا جامعہ امڈ پڑتا ہے اور گرم گرم سموسے ٹائپ ٹکیہ
اور کھٹی میٹی چاٹ اور آوارگی میں مست مخلوق ٹولیاں اور الگ الگ گھومتی بے
خوف جوڑے. اوف مت پوچھئے جامعہ کراچی کے سنگ بھیگے موسم کا جو رنگ وہ کہیں
اور نہیں.
ہمیں جامعہ کراچی میں پڑھتے ہوئے یہ دوسرا سال ہے. پچھلے برس جب ہمیں جامعہ
کے شعبہ ابلاغ عامہ میں داخلہ ملا تو ہماری کیفیت دیدنی تھی. کئی دن تک تو
ہم مارے خوشی کے پھولے نہیں سمارہے تھے. صاحب بات ہی ایسی تھی کہ ہمارے
مادر علمی میں پڑھنے کا ایک پرانا خواب تھا جو بس پورا ہوا چاہتا تھا. پھر
کیا تھا جامعہ کی اندھیری اور تاریک کلاسیں، سلور جوبلی سے شعبہ تک روزانہ
کی پیدل واک، لفٹ کے لئے ہر ایلے میلے کو ہاتھ دینا، پریم گلی کی چٹ پٹی
چاٹ، سائے دار درخت، کتابی اور جھگڑالو حسینائیں، سیمنار لائبریری میں
اشاروں کناؤں میں گپ شپ، آرٹس لابی کی رنگینیاں، پوانٹ پر سیٹ کے لئے
جھگڑے، اساتذہ سے بحث و مباحثے اور آئے دن کی ورکشاپ ہمارے روزانہ کا معمول
بن گئے.
ابتداء میں نئی نویلی دلہن کے مصداق ہمیں جامعہ کی ہر ادائیں بہت سہانی
معلوم ہوتی تھیں. پہلا مہینہ دوستیاں اور شناسائیاں بنانے میں گزر گیا اور
اگلے دو مہینے میں ہم نے جامعہ کا کونا کونا چھان مارا، کبھی اس شعبہ کبھی
اس شعبہ، کبھی یہاں کی چاٹ تو کبھی وہاں کے سموسے. پھر کچھ ٹھراؤ آیا اور
سب یار دوست سمسٹر کی تیاریوں میں ادھر ادھر گروپ کی صورت میں بٹ گئے.
پڑھنا پڑھانا تو ہمارا کبھی معمول نہیں رہا اس لئے ہم نے کسی گروپ کو جوائن
نہیں کیا. پہلا سمسٹر جیسے تیسے اور ہسنتے کھیلتے گزر گیا لیکن دوسرا سمسٹر
دہلی کی کسی کٹنی کی طرف ہمارے سر پر نازل ہوا. کلاس کے اندر اور باہر
کہانی گھر گھر کی ایسی سریل شروع ہوئی کہ مت پوچھیں. دو دو چار چار کی
ٹولیاں اور اِسکو کاٹ ’اسکو کاٹ. ہم جو ہمیشہ سے ہر کسی سے بنا کر رکھنے کی
پالیسی پر عمل پیرا تھے ایسے کہیں بھی فٹ نہ ہوئے اور اپنے میجر صاحب کے
ساتھ غیر جانب دار تحریک میں شامل ہوگئے.
ہم شعبہ ابلاغ عامہ والے بھی کتنے مظلوم ہیں کہ اچھا خاصہ جامعہ کے قلب
آرٹس لابی کے سنگم پر آباد تھے کہ کسی نے اٹھا کر ایک کونے کدھرے میں پھینک
دیا. نئی، شاندار اور ذاتی عمارت کے سنہرا خواب دیکھا کر ظالموں نے ایسا
لوٹا کہ مت پوچھئے. وہ جو اپنی مشہور زمانہ فارمیسی ہے ارے وہی جہاں رونق
لگی رہتی ہے سے سیدھا چلتے جائیں، جب سناٹا اور ویرانہ خاموشی سے آپکا
استقبال کرے تو سمجھ لیں کہ آپ ہم اہلیاں ابلاغ عامہ کی دہلیز پر آن پہنچے
ہیں. سر اٹھا کر دیکھئے سامنے ڈاکٹر فیروز احمد کے نام سے منسوب ایک دیو
ہیکل عمارت آپکو کاٹ کھانے دوڑے گی. ارے زرا آرام سے، نظریں نیچے کر کے
گاڑیوں کی قطار کے بیچ سے ہوتے ہوئے مرکزی راہ داری سے اندر داخل ہوجائیں.
خبردار جو داخلی چبوترے پر بیٹھے کسی گم سم جوڑے کی طرف نظر کی. اگر گھڑی
صبح کے گیارہ یا شام کے پانچ بجارہی ہو تو آپکو کچھ نہ کچھ خلقت ضرور نظر
آئے گی اور ہاں ادھر ادھر گھومتی خاتون طالبات کو دیکھ کر یہ مت سمجھئے گا
یہاں کہیں پانی کھڑا ہے، طبیعت کو سکون نہ ملے تو فوراً یاد کیجئے گا کہ آپ
مستقبل کے میڈیا والوں کے مہمان ہیں.ایک بات جو سب سے اہم ہے کہ اگر آپ کا
شعبہ میں قیام کے دوران تازہ دم ہونے اور وضو کرنے کا کوئی ارادہ ہے تو
ازراہ احتیاط پانی کی ایک بوتل ساتھ رکھنا مت بھولئے گا کہ استنجاء میں
جاکر زحمت نہ اٹھانی پڑے. مرکزی حال کے ایک کونے پر عبدل میاں کی کینٹین ہے
اور دوسرے کونے پر فوٹو اسٹیٹ والے اور دونوں کے دائیں اور بائیں ہاتھ پر
بل کھاتی سیڑھیاں ہیں جس سے ہوتے آپ بالائی منزل پر پہنچ سکتے ہیں.
پچھلے برس جب ہم مادر علمی کا حصہ بنے تھے تو ان دنوں محمود غزنوی صاحب
ہمارے صدر شعبہ ہوتے تھے. صاحب وہی محمود غزنوی جو اسی کی دہائی کے پہلے یا
دوسرے سال میں جامعہ کی طلبہ یونین کے صدر منتخب ہوئے اور جن کے انداز
خطابات کا سکہ چلتا تھا. محمود غزنوی سے یاد آیا کہ انکے ایک دیرینہ دوست
اور سابق جماعتی حسین حقانی آج کل امریکہ میں پاکستان کے سفیر بنے بیٹھے
ہیں. ہمیں ٹھیک سے یاد نہیں آرہا کہ حسین حقانی پہلے صدر ہوئے تھے یا محمود
غزنوی البتہ دونوں سابق جماعتی آگے پیچھے صدر طلبہ یونین ہوئے. ہمارے والد
صاحب نے بھی ان ہی سنہری دنوں میں جامعہ سے ایم اے انگریزی ادب کیا تھا. وہ
جب موڈ میں ہوتے تھے تو جامعہ میں یونین انتخابات کا انتہائی دلفریب نقشہ
کھینچتے کہ پرامن ماحول میں اصل مقابلہ تو جمیعت اور لبرل کا ہوتا لیکن کئی
نت نئے مسخرے گروپ بھی ووٹ مانگتے نظر آتے تھے گو انیس سو انہتر میں الطاف
حسین صاحب اور انکا محرومی والا نظریہ بھی جامعہ میں وارد ہوچکا تھا لیکن
انیس سو چھیاسی تک پورے جامعہ میں کلیہ سائنس کے دو چار لوگوں کے علاوہ
کوئی انہیں پوچھتا بھی نہیں تھا. لیکن اب حالات بدل چکے ہیں کہ یہاں سالوں
سے گورنر سندھ کے منظور نظر ایک حق پرست وائس چانسلر بیٹھے ہیں اور مصیبت
یہ ہے کہ صرف بیٹھے ہی ہوئے ہیں.
آ ہا، بات برسات کے حسین رومانوی رنگ سے شروع ہوئی تھی اور چلتے چلتے شعبہ
ابلاغ عامہ کی بھبکیوں سے ہوتے ہوئے سیاست ’ویاست کی طرف جانکلی. ارے
چھوڑیں اس بھیگے موسم میں شعبہ ابلاغ عامہ اور بے کار سیاست کو اور تیار
ہوکر جامعہ کراچی طرف آجائیں. |