"یکساں سول کوڈ"کا جواز

"یکساں سول کوڈ"کا مطلب یہ کہ جملہ مذاہب کے پیروکار اپنے جملہ رسوم رواج سے الگ ہو کر ہندوستانی آئین کی دفعہ 44 کے تحت ایک اصول اور ضابطے کے مطابق زندگی گزاریں گے۔

سوال یہ ہے کہ آزادی کی سات دہائی کے بعد جب کہ ہندوستانی باشندے مشترکہ تہذیب وثقافت کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں،باوجود اس کے"یکساں سول کوڈ" کی ضرورت کیوں محسوس کی جارہی ہے؟دوسری اہم بات یہ کہ اس یکساں سول کوڈ کی "زمینی حقیقت" کیا ہے؟ مطلب یہ کہ اس کی نوعیت کیا ہوگی؟ کس طور پر مختلف ادیان ومذاہب ،ان کے عقائدونظریات اور مذہبی اختلافات کو دفعہ 44 کی ایک آئینی چھت دی جائے گی؟کیا ایک سکھ یہ گوارا کرے گا کہ وہ"کرپال" نہ لٹکائے؟ کیا ہندؤوں کو یہ قبول ہے کہ وہ ٹیکہ نہ لگائے یا ان کے دیگر مذہبی رسوم کو چھوڑدے؟کیا جینی اس بات کے لیے تیار ہیں کہ ان کے مذہبی پیشوا مادرزاد ننگے دھرنگے نہیں گھومیں گے؟ اور بہت سوالات ہیں۔ یکساں سول کوڈ کا راگ الاپنے والے ذرا یہ تو بتادیں کہ ہندوستان میں مشترکہ تہذیب وثقافت کی بنیاد کیا ہے؟ کیا ماضی کے ہندوستان میں ایسی کوئی نظیر ملتی ہے؟ کیا صدیوں قدیم ہندوستانی سماج میں مختلف مذاہب وادیان کے ماننے والے رہتے نہیں آئے؟ لیکن اس عہد کے حکمرانوں میں اس یکسانیت کی بات نہیں آئی۔وجہ صاف ہے کہ اس کا کوئی جواز نہیں بنتا کہ ہم مسلم کسی ہندو بھائی پر یہ تھوپیں کہ تم اپنے مرنے والے کی آخری رسوم میرے اسلام مذہب کے مطابق ادا کرو۔اور اس بات کی اجازت نہ تو کسی حکمراں کو حاصل ہے اور نہ ہی کسی قانون کو کہ وہ کسی کے مذہبی امور میں اس کے عقائد ونظریات میں اپنی آمریت کا سکہ چلائے۔ ہو سکتا ہے میرے اس نظریہ سے کچھ لوگوں کو اختلاف ہو یا اسے وہ آئین کی توہین سمجھیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس آئین کی ضرورت ہی نہ تھی وہ بھی ایسے ملک میں جہاں گنگی جمنی تہذیب پروان چڑھی،اور وہاں کے مواطنین صدیوں سے ایک دوسرے کی تہذیب وثقافت اور ان کے مذہبی رسوم رواج کا احترام کرتے ہیں،کسی کو اس بات سے کوئی لینا نہیں ہوتا کہ ہم سبزی کھاتے آخر اس کی خوراک گوشت کیوں ہے۔ ہم کرتا پاجاما اور ٹوپی پہنتے ہیں وہ دھوتی کیوں زیب تن کرتا ہے۔ہم اپنے مرنے والوں کو آگ کی نذر کرتے ہیں فلاں کیوں مٹی کے حوالے کرتا ہے،ہم میں چار شادیاں ہیں،لڑکیوں کی وراثت میں حصہ داری ہے،نکاح ہے،طلاق وخلع اور فسخ ہے،اور یہ سارے احکامات صدیوں سے اس ملک ہندوستان اور اس کے طول وعرض میں نافذ ہوتے آرہے ہیں اور ان امور پر جو کہ شرعی ہیں کسی کو چوں کی حاجت پیش نہ آئی،پھر آج اس کی ضرورت کیوں آن پڑی،یہ ایک نکتہ ہے جس میں مسلم مذہبی رہنماؤں کو دعوت فکر ہے کہ وہ مسالک کے فقہی اور فروعی اختلافات سے اٹھ کر مخالفین کے خلاف اور اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے "سد سکندری" بن جائیں۔آپ کی صفوں میں پیدا شگاف آپ کو ہندوستان میں ایسی محکوم زندگی کا خاکہ پیش کرنے والا ہے جس سے آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے،اور اس ناگہانی حادثے سے آپ کو آپ کا ملی اتحاد ہی بچا سکتا ہے۔

آخری میں مشورہ ہے حکومت وقت اور آئین سایہ کو کہُ"یکساں سول کوڈ"کا نفاذ ہندوستانی اقوام وملل اور ان کے مختلف عقائدو نظریات کے پس منظر میں کسی کام کا نہیں اور جس دفعہ سے کوئی کام ہی نہ لیا جاتا ہو اسے آئین سے حذف کردینا ہی مناسب ہے۔اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس جانب چھوڑے جانے والے روز-روز کے شوشے بند ہو جائیں گے،کسی کے نہ تو مذہبی جذبات مجروح ہوں گے اور نہ ہی عدلیہ کا قیمتی وقت اور اس پر آنے والے حکومتی خزانوں سے صرفے۔
md.shakir adil
About the Author: md.shakir adil Read More Articles by md.shakir adil: 38 Articles with 58052 views Mohammad shakir Adil Taimi
From India
.. View More