چڑی مار

 راوی نے بتایا کہ یہ ایک صدی پہلے کی بات ہے شہر کے مضافات میں گندے پانی کے جوہڑ کے کنارے چڑی مار وں کی جھگیاں تھیں۔ تاریخ کے اس لرزہ خیز،اعصاب شکن دور میں برطانوی استعمار اور استبداد کے نتیجے میں مغربی تہذیب کی عقوبت کے باعث عریانی اور فحاشی کی یلغار تھی اور اخلاقی اقدار پر جان کنی کا عالم تھا۔ پتھر کے زمانے کا ماحول پیش کرنے والی ان جھگیوں میں چڑی ماروں کے کئی خاندان رہتے تھے جن کا سو پُشت سے ذریعہ معاش دریائے چناب اور جہلم کے سنگم پر واقع دیہات ،قصبات اوران کے ارد گرد ساجھووال کے جنگلات ،ماڑی ،کوٹ شاکر اور بلو کے صحراؤں اور دوآبہ کے میدانوں سے پکڑے ہوئے طیورِآوارہ اور عجیب الخلقت جانوروں کی فروخت تھا۔یہ صبح خیزیے اور عادی کذاب بڑے بڑے جال لیے منھ اندھیرے صبح کاذب کے وقت اپنی جھونپڑیوں سے نکلتے اور گھنے جنگل میں کسی مناسب جگہ پر دانہ دنکا پھیلا کر بڑے عیاری سے جال لگا دیتے۔جب صبح صادق کا وقت قریب آتا تو طائرانِ خوش نوا چہچہاتے ہوئے اپنیـ آشیانوں سے رز ق کی تلاش میں باہر نکلتے ۔خزاں کے سیکڑوں مناظر سے نا آ شنا یہ طیور صبح بہار کی نمود کی آس لیے چاروں جانب بکھرے ہوئے دانے ،دالیں ،اناج اور انواع و اقسام کے کھانے دیکھ کر اس بکھرے ہوئے اناج پر ٹُوٹ پڑتے اورپلک جھپکتے میں صیاد کے صیدِ زبوں بن جاتے۔محنت، مشقت اور لمبی اُڑان کے بغیر دانہ چگنے کی خواہش کا نتیجہ اسیری کی اذیت کے سوا کیا ہو سکتاہے ۔ناصف دجال ،زادو لدھیک،رنگو ویرانی اورگھونسہ ریگستانی اس علاقے کے بدنام جواری، منشیات فروش،رسہ گیر،جنسی جنونی اور بے رحم چڑی مار تھے ۔ ان چڑی ماروں کے آبا سو پشت سے علاقے کے جاگیرداروں اور منصب داروں کے کتے گھسیٹا کرتے تھے ۔ان ظالم و سفاک چڑی ماروں کو چڑیاں ،فاختائیں ،عنادل،قمریاں،مور ،پپیہااور متعدداقسام کے طیور اپنے جال میں پھانسنے کا بہت تجربہ تھا۔نسل در نسل یہی ان کا پیشہ تھا اور اسی کے وسیلے سے وہ پیٹ کا دوزخ بھرتے تھے۔ناصف دجال کی بیوی ثباتی کھسیانی،زادو لدھیک کی داشتہ ظلی بیابانی،رنگو ویرانی کی چوتھی بیوی فوزی ،گھونسہ ریگستانی کی بیوی شعاع اور نائکہ پُونم اور روبی بھی ان کے ساتھ شکار پر روانہ ہوتی تھیں ۔سب شکاری اپنے اپنے شکار تلاش کرنے نکلتے فرق صر ف یہ تھا کہ مر د اپنے ساتھ ترکش میں تیر ،کمان، جال اور شمشیر لے کر نکلتے مگر بھڑووں کی شریک جُرم طوائفیں نگاہوں کے تیر نیم کش ،عشوہ ،غمزہ اور اداؤں سے اپنے شکار کو نیم بسمل کر نے کی تیاری کرتی تھیں۔اس پُر اسرار جنگل میں نت نئے صید پھنستے طیور تو جال میں پھنس جاتے مگر حسن و ادا کی چالوں کو دیکھ کر دل کے ہاتھوں مجبور،نشے میں چُورعشاق نشے میں زلف گرہ گیر کے اس طرح اسیر ہوتے کہ سب مال و اسباب لٹا کر دامن جھاڑ کر وہاں سے جاتے۔
صدیوں سے اس جنگل میں گھسیارے ،بھٹیارے، مسخرے ،شہدے ،موہانے،قزاق،چڑی مار ،تلنگے ،بھگتے ،رجلے ،خجلے ،لُچے اور اُچکے جنگل کے قانون کے مطابق اپنی من مانی کرتے چلے آ رہے تھے۔ رسوائے زمانہ بھڑواکرموں بھٹیارا جوانڈر ورلڈ کا آلۂ کار تھا جرائم پیشہ افراد کے اس گروہ کا مخبر تھا اور انھیں ہر قسم کی مشکلات سے بچانے کی کوششوں میں لگا رہتا۔اس متفنی نے مقتدر حلقوں اور جاگیرداروں کے جنسی جنون اور عیاشی کے لیے رسد کی ذمہ داری سنبھال رکھی تھی۔اس روسیاہی میں اسے ثباتی،ظلی،فوزی،شعاع اپنی اہلیہ پُونم اور سالی روبی کا تعاون حاصل تھا۔مشکو ک نسب کے ان درندوں کے دُور و نزدیک کے رشتہ دار جو سب ان کی طرح شکی مزاج اور شقی القلب تھے اپنی بد اعمالیوں کے باعث اکثر ایڈز، جذام اورکوڑھ کے مرض میں مبتلا ہو گئے تھے۔پُورے علاقے میں یہ بات زبان زدِ عام تھی کہ ننگِ انسانیت مسخروں کایہ اخلاق سے عاری ٹولہ نسل در نسل کوڑی کوڑی کا محتاج چلا آ رہا ہے ۔ اکثر لوگ یہ کہتے تھے کہ ماضی بعید کے وہ مجرم جنھیں مرے عرصہ گزر چکا ہے وہ بھی ان درندوں کے پاس چلے آتے ۔بد روحیں ،چڑیلیں،پچھل پیریاں ،ڈائنیں ،آدم خور،دیو ،بھوت اور مافوق الفطرت عناصرا ن کے محرم راز تھے ۔یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ اپنے ذہنی افلاس کے باوجود یہ بے پر کی اُڑانے میں اپنی مثال آپ تھے۔اگر ان کے پاس پُھوٹی کوڑی بھی نہ ہو تب بھی یہ دُور کی کوڑی لانے میں خجل ہونے میں انہماک کا مظاہرہ کرتے اور ہلدی کی گانٹھ چُرا کر پنساری بن جانے کا دعویٰ کر دیتے۔تعلیم کی کمی اور توہم پرستی کے باعث لوگ ان پینترے باز چڑی ماروں سے بہت متاثر تھے ۔ان سے ٹونے ٹوٹکے ،سفلی علوم ،کالا جادو،قسمت کا حال اور ستاروں کی چال کے بارے میں رابطہ کرتے اور بے دریغ ان کو نذرانے دیتے۔

گرمیوں کی ایک شام سبز قدم زادو لُدھیک رنگ پور نہر کے کنارے وارد ہوا۔زادو لُدھیک کا تعلق بنارس کے رسوائے زمانہ دہشت گردوں اور ٹھگوں سے تھا۔اس نے کئی اُجرتی بد معاش،کرائے کے ڈاکو،پیشہ ور اُٹھائی گیرے،رہزن اور آدم خور درندے پال رکھے تھے۔ جوانی میں اس نے شہر میں قحبہ خانے ،چنڈو خانے اور عقوبت خانے بنا رکھے تھے۔ لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کے اس لُٹیرے کی شقاوت آمیز نا انصافیوں اور مظالم کے باعث مجبوروں کی زندگی کی رُتیں بے ثمر او ر آہیں بے اثر ہو کر رہ گئیں۔جب ضعیفی میں اس کے اعضا مضمحل ہو گئے ،عناصر میں اعتدال عنقا ہو گیا تو اس نے عامل اور جادو گر کا سوانگ رچایا۔یہ ابلہ جو ٹوٹکے استعمال کرتا ان میں اُلّو کی آنکھ کا سُرمہ ،سانڈے کا تیل،شیر کی چربی،گیدڑ کا فضلہ ،مگر مچھ کے آنسو،خار پشت کے کانٹے،بِجُو کے دانت ،زاغ ،زغن اور گدھ کی چربی اور پر شامل تھے ۔اس روز اس نا ہنجار نے اپنی گنجی کھوپڑی پر لُنڈا بازار سے خریدا ہوا کسی مرے ہوئے گورے کا کرم خوردہ کالا کمبل لپیٹ رکھا تھا۔اس کمبل کے سینو کو اپنے سر پر رکھ کر اس کے اوپر اس نے دہکتے ہوئے انگاروں سے بھری ایک انگیٹھی رکھی ہوئی تھی۔انگیٹھی کے اوپر لوہے کی سلاخوں کا ایک جنگلا تھاجس پر ایک گیلی لکڑی کا ایک بڑا تختہ تھا ۔اس تختے پر ایک چوہے دان رکھا تھا جس میں ایک بد وضع ، فربہ ،غلیظ اور عفونت زدہ چُوہاگلے سڑے پیاز ، باسی لہسن اور حشرات سے لتھڑے امرود نوچ رہا تھا ۔حیران کُن بات یہ تھی کہ یہ چُوہا مسلسل اس تیزی سے رنگ بدل رہا تھاکہ گرگٹ بھی اس کے رنگ بدلنے کی پھرتی میں اس کے سامنے ہیچ تھا۔ یہ مسخرا جس طرف سے بھی گزرتا دریا کے کنارے پکنک منانے کے لیے آنے والے نوجوان لڑکوں ،حسین و جمیل دوشیزاؤں اور کھلنڈرے بچوں کی لعنت، ملامت اور دھتکار اس کے ہم رکاب رہتی۔ذلت ،تخریب اور خست و خجالت کا یہ پیکر طہارت اور آداب معاشرت سے قطعی نا آشنا تھا ۔اس کے فربہ جسم سے عفونت اور سڑاند کے اس قدر بھبھوکے اُ ٹھ رہے تھے کہ راہ گیر اپنی ناک پر کپڑا لپیٹ لیتے۔ انگاروں کی تپش سے بے حال چُوہے دان میں نو گرفتارچُوہا تڑپتے ہوئے چیخ چیخ کر زبانِ حال سے اپنی اسیری کے رنج و کرب اور صیاد کی خباثت پر مبنی ایذا رسانی کی روداد بیان کر رہا تھا ۔اس مسخرے کی یہ ہئیتِ کذائی دیکھ کر نتھو تیلی نے تیل اور تیل کی دھار دیکھے بغیر کہا:
’’آج تو تم نے ایک عجیب الخلقت چُوہا نما جانور چُوہے دان میں بند کر رکھا ہے ۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتاکہ تم نے دہکتے ہوئے انگاروں سے بھری ہوئی انگیٹھی کے کُنڈوں اور جنگلے پر چُوہے دان کیوں رکھا ہوا ؟ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تم نے حسن پرستی ترک کر کے آتش پرستی کو اپنا مسلک بنا لیا ہے ۔یہ متعفن دھواں سا جوفضا میں بلند ہو رہا ہے یہ تمھارے دِل،جگریا مردہ ضمیر کے جلنے سے اُٹھ رہا ہے یا اس آتش دان میں چوہے کی مینگنیاں جل رہی ہیں۔‘‘

میاں گھماں جو زادو لُدھیک جیسے ابلہ کی جہالت سے اچھی طرح آگاہ تھا مسکراتے ہوئے بولا ’’ مجھے شبہ ہے کہ آج یہ چڑی ماراس زخمی چوہے کو بھون کر اس کے کباب بنا کر کھانے کا ارادہ رکھتا ہے ۔پچھلے ہفتے اس نے ایک مُردہ گدھ کی سجی بنائی تھی جسے اس کے ہم نوالہ و ہم پیالہ ساتھی اور رذیل جسم فروش طوائفیں بڑے شوق سے ڈکا ر گئی تھیں۔کئی با ران آدم خوروں نے مُردہ اسپ ، چغد،خچر ، خر،جنگلی سور ،گیدڑ اور زاغ و زغن کھائے ہیں۔‘‘

’’یہاں تو روز ایک نیا لطیفہ سامنے آتا ہے ۔‘‘دِتو لُدھڑ کھانستے ہوئے بولا ’’زادو لُدھیک جیسے مُردے ہمیشہ کفن پھاڑ کر ہی ہرزہ سرائی کرتے ہیں۔اس عادی دروغ گونے اپنے چوہے دان میں جو چوہا اُٹھا رکھا ہے اس کے زخموں سے پِیپ رِس رہی ہے اور بے شمار حشرات اس کے زخموں میں گُھسے ہیں۔ فصلِ گُل تو کب کی ختم ہو چکی اب دیکھنا یہ ہے کہ خزاں کے سمے کے سم میں یہ کرگس زادہ اس چُوہے کے بارے میں کیا گُل کھلائے گا۔ زادو لدھیک !اب تم ہی کہو یہ چُوہا کیوں اُٹھائے پھرتے ہو؟میرا جی چاہتا ہے کہ تمھیں اور اس طاعون پھیلانے والے چوہے کو کسی گہرے غار میں پھینک کر اس غار کے منھ پر بھاری پتھر رکھ دوں ۔‘‘

’’آہ !اندر کی بات اور سمندر کی ذات کے بارے میں یہاں کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ یہ ضعفِ بصارت ،قحط الرجال اور ناقدروں کا زمانہ ہے اور کسی کو یہ معلوم نہیں کہ کیسے کیسے جان دار ایسے ویسے حالات سے بیزار ہو کر ہمیشہ کے لیے زینۂ ہستی سے اُترتے چلے جا رہے ہیں۔‘‘زادو لُدھیک نے مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے کہا’’جس نادر و نایاب اور عجیب الخلقت جانور کو تم چوہا کہہ رہے ہو اس جانور کا نام سمندر ہے ۔یہ ایک نایاب آتشی چوہا ہے جو دہکتی ہوئی آگ میں جنم لیتا ہے ۔جس طرح مچھلی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح سمندر بھی آگ کی حدت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔رنگ بدلنے میں گرگٹ کو بھی مات دینے والے اس آتشی چُوہے کی نسل اب معدوم ہو رہی ہے۔آگ ہی اس آتشی چُوہے کا اوڑھنا بچھونا ہے ۔تم لوگوں نے وہ شعر تو سُنا ہو گا :
رِز ق دونوں کو ہی پہنچاتا ہے وہ روزی رساں
آب میں رہتی ہے ماہی اور سمند رآگ میں

زادو لُدھیک کی بے سروپا باتیں سُن کر نتھوتیلی نے کہا’’ تم تو جنگلی حیات کے کولمبس بننے کے جتن کر رہے ہو، اب اس نام نہاد آتشی چوہے کی فرضی خوبیاں بھی ہمیں بتاؤ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تم نے چُوہا شناسی میں مہارت حاصل کرنے کے لیے در در کی خاک چھانی ہے ۔تم جیسے سادیت پسندی کے مر ض میں مبتلا مردم بیزار چوہا شناس کو تو دریا بُر د کر دینا چاہیے ۔شاید چوہا شناسی کے اسی خبط اور ہوسِ زر میں مبتلا ہونے کے باعث تم کاسۂ گدائی لیے در بہ در اور خاک بہ سر پھر رہے ہو۔‘‘

’’تم نے سچ کہا ہے ہم آشفتہ سروں نے آتشی چوہوں کی اُلفت میں بہت درد وغم سہے ہیں مگر ہمیشہ اپنے لبوں کو سی لیا ہے ۔‘‘ تھالی کے بینگن زادو لُدھیک نے کہا’’یہ آتشی چوہا جب بڑا ہو جاتا ہے تو خرگوش کی جسامت کا بن جاتا ہے۔ اس کی کھال سے جرابیں، ٹوپیاں اور دستانے تیار کیے جاتے ہیں۔ ہزاروں سال سے راجے اور مہاراجے سردی کے موسم میں ان آتشی چوہوں کی کھال سے تیار کی گئی یہ جرابیں، ٹوپیاں اور دستانے بڑے شوق سے پہنتے چلے آ رہے ہیں۔‘‘

’’ آتشی چوہوں کی کھال سے تیار کی گئی جرابوں، ٹوپیوں اوردستانوں کی خاص خوبی کیا تھی جس کی بنا پر متمول طبقہ اسے بہت پسند کرتا تھا ؟‘‘میا ں گھماں اس من گھڑت قصے کو سن کر بولا ’’آتشی چوہوں کی کھال سے جرابیں، ٹوپیاں اور دستانے کون تیار کرتا تھا ؟اور ایسی مصنوعات کس بازار میں فروخت کی جاتی تھیں؟ان مہنگی مصنوعات کے خریدار کہاں سے آتے تھے؟‘‘

زادو لُدھیک نے کہا’’ان آتشی چوہوں کی کھال کھینچنا اور ان کی کھال سے جرابیں، ٹوپیاں اور دستانے بنانا ہمار ا آبائی پیشہ ہے ۔صدیوں سے ہمارے اسلاف اسے چور محل میں جنم لینے والے ،کالا دھن کمانے والے اور نو دولتیوں کے ہاتھ چور بازار میں فروخت کرتے تھے۔میرے آبا و اجدا دہاتھ کی ایسی صفائی دکھاتے کہ مارِ آستین اور سانپ تلے کے بچھو ان مصنوعات کو ہاتھوں ہاتھ لیتے تھے۔ہر نائکہ ،طوائف،ڈُوم، ڈھاری ،مسخرا ،بھانڈ اور لُچا ان مصنوعات کو پسند کرتا تھا ۔خاص طور پر خرچی کی کمائی سے اپنی تجوری بھرنے والی طوائفیں،شہدے اور بھڑوے تو ان مصنوعات کے دلدادہ تھے۔اس قسم کے آتشی چوہوں کی کھال سے جو ٹوپیاں،جرابیں اور دستانے تیار کیے جاتے تھے ،ان پر بھڑکتی ہوئی آگ مطلق اثر نہیں کرتی تھی اور پانی بھی انھیں گیلا نہ کر سکتا تھا۔اس آتشی چوہے کی کھال کی مصنوعات کا کرشمہ دیکھ کر لوگ پانی پانی ہو جاتے ۔ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس چوہے کا کاٹا پانی بھی نہیں مانگتا۔‘‘
پھتو موہانہ بولا ’’جب یہ جرابیں، ٹوپیاں اور دستانے میل سے چیکٹ ہو جاتے تو ان کو صا ف کیسیکیا جاتا تھا ؟‘‘

زادو لدھیک نے جواب دیا ’’ان آتشی چوہوں کی کھال سے تیار کیے گئے دستانے ،جرابیں اور ٹوپیاں جب میلی ہو جاتیں تو انھیں بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلوں میں پھینک دیا جاتا ۔آگ کے دہکتے ہوئے انگارے ان پارچات پر جمی ہر قسم کی میل کچیل کو پلک جھپکتے میں بھسم کر دیتے مگر یہ پارچات آگ کی تپش سے بالکل محفوظ رہتے اور اُجلے اور نکھرے ہوئے پھر سے پہننے کے قابل ہو جاتے تھے۔‘‘

رسوائے زمانہ پیٹواور مفت خور لیموں نچوڑ خسیس آسو بلا سب باتیں سن کر کچھ چباتا رہا اور ساتھ ہی ہنہناتا رہا ۔ یہ مسخرا جب کسی کی تائید کرتا تو اس کے تیور اور ہوتے جب کسی کی تردید کرتا تو اس کے چہرے کے تاثرات بدل جاتے ۔چڑھتے سورج کی پُوجا کرنا اور گِرتوں کو ٹھوکر مارنا اس کا وتیرہ تھا ۔اسی وجہ سے اس نا ہنجار کو سال 1890میں پروان چڑھائے گئے ایک جرمن شکاری کتے کے مشابہ ہونے کی بنا پر ڈوبر مین پنسچر کہا جاتا تھا۔اسے دیکھ کر زادو لُدھیک نے دُم ہلا کر کہا:
’’کافی دیر سے تم کچھ کھا رہے ہو ،ذرا ہمیں بھی تو بتاؤ تم جیسے سفاک بخیل کو یہ مالِ مفت کہاں سے مِل گیاجسے تم بلا تکان پیہم چبا کر کھا رہے ہو ؟‘‘

’’میں نے بزرگوں سے سنا تھا کہ جب کوئی نا پسندیدہ بات ہوتی ہے تو سمجھ دار آدمی پیچ و تاب کھانے لگتا ہے ۔‘‘ آسو بلا اپنی عادت کے مطابق ڈوبر مین پنسچر(Doberman Pinscher)کے مانند دُم ہلا کر بولا ’’میں تاب تو ڈھونڈ نہیں سکا البتہ مستری موہن کی سا ئیکلوں کی دکان سے کل میں نے بہت سے پیچ چُرائے تھے جو مجھے ایسے ماحول میں بے کل ہونے سے بچاتے ہیں ۔اس وقت میں وہی پیچ چبا کر کھانے کی کوشش کررہا ہوں اور اب تک تین پیچ چبا کر کھاچکا ہوں۔لوگ آدم خور ہوتے ہیں میں پیچ خور ہوں ۔ہا ہا ہا!‘‘

یہ سُن کر نائکہ لا جونتی نے اپنے تھیلے سے گڑ نکالا اور آسو بلا کو دے کر کہا ’’ ایسا لگتا ہے تمھارے دماغ کی کوئی کل ڈھیلی ہو گئی ہے ۔ ہوش کی دوا لو ،پیچ نہ کھاؤ اب مزے لے کر یہ گڑ کھاؤ۔یہ گڑ ہم نے کل شام کماد کے کھیت کے باہر لگے ایک بیلنے کے پاس رکھے گڑ سے بھرے کڑاہ سے چُرایا تھا ۔‘‘
آسو بلا مزے سے گڑ کھانے لگا ،اس دوران اس کے منھ سے متعفن لعاب خارج ہوتا رہا جسے وہ اپنے میلی قمیض کے دامن سے صاف کرتا رہا ۔ یہ حالت دیکھ کرشعاع نے اپنے ٹفن سے گلگلے نکالے اور آسو بلاکو کھانے کے لیے پیش کیے ۔ اس کے بعد نو سو چوہے کھا کر گنگا نہانے والی اس گُربہ نے کہا:
’’آہ! ہوس پرست جنسی جنونی،عیاش سرمایہ دار،کالا دھن کمانے والے ہمیں متصل نوچتے ، بھنبھو ڑتے اورچالیس برس مسلسل اپنا منھ کالا کرتے رہے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہمارے نسوانی حسن کی ظاہری علامتیں بھی ہمارے وجود سے عنقا ہو گئیں ۔ناچار میں نے اور میری ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم رازطوائفوں تحرو،روبی، ظلی،فوزی اور پُونم نے اشیرواد ہسپتال سے امپلانٹ (Implant) کرا کے حسن و شباب کی سیکڑوں مرتبہ لُوٹی گئی متاع کو پھر سے حاصل کر لیا۔ پلاسٹک سرجری کے اس انتہائی تکلیف دہ اور پیچیدہ جراحت کے عمل بعد زبان کا ذائقہ مثلِ حنظل کڑوا رہنے لگا۔ہم سب نے مے ارغوانی کے ساتھ جی بھر کے گلگلے کھانے شروع کر دئیے جس کا اثر بہت اچھا ہوا ۔اب زبان کا ذائقہ کڑوے سے بدل کر تُرشی اور شیرینی کی ملی جلی تاثیر کا حامل ہے۔ ‘‘
یہ باتیں سُن کر سب بھڑووں کی آنکھوں سے گدلی رطوبت خارج ہونے لگی اور ان کی بھویں تن گئیں ۔اس کے باوجود وہ بے غیرتی ،بے ضمیری اور بے حسی کا نمونہ بنے چپ چاپ بیٹھے رہے ۔باسی گلگلے دیکھ کر آسو بلا غرانے لگا :
’’جب سے مجھ پر دماغی فالج کا حملہ ہوا ہے میں صرف پر ہیزی غذا کھاتا ہوں۔میں یہ گلگلے ہر گز نہیں کھاؤں گا،مجھے اپنی صحت کا خیال رہتا ہے ۔‘‘
’’واہ یہ بھی خوب رہی !اب تک دو کلو کے قریب گڑ تو کھا چُکے ہو لیکن گلگلوں سے پر ہیز پر اصرار کرتے ہو۔پہلے تو تم صرف ذہنی قلاش تھے مگر دماغی فالج کے شدید حملے نے تمھیں مکمل طور پر ذہنی معذور بھی بنا دیا ہے ۔اب تم جیسے سانڈ کے آگے الغوزہ کون بجائے۔‘‘
چکنے گھڑے کرموں بھٹیارے نے جب گلگلے دیکھے تو اس کی رال ٹپکنے لگی، اس کی سرخ آنکھیں اور خون اُگلتے مسوڑھے دیکھ کر گمان گزرتا تھا کہ اس آدم خور نے ابھی ابھی کسی مظلوم اورقسمت سے محروم انسان کا خون پیا ہے ۔اس نے جھپٹ کر سارے گلگلے اُچک لیے اور دیکھتے ہی دیکھتے سب گلگلے چٹ کر گیا۔ اس کے بعدوہ اپنا بھاڑ جیسا منھ صاف کرتے ہوئے بولا:
’’چلغوزہ مجھے بہت پسند ہے ،یہ جسے ابھی تم نے الغوزہ کہا ہے یہ در اصل کچا چلغوزہ ہی ہوتا ہے ۔سردیوں میں الغوزہ اور چلغوزہ بہت مہنگا بکتا ہے ۔‘‘
گامن سچیار چپ نہ رہ سکا اور اس معمولی واقعہ کے بارے میں اپنی غیر معمولی رائے دیتے ہوئے اس نے کہا:
’’ یہ دنیاآتش ، آب اور مٹی کا کھیل ہی تو ہے۔ اس دنیا میں ہوس پرستوں ظالموں ، لٹیروں اور استحصالی عناصر کی غاصبانہ لوٹ مار اور جبر کے تازیانہ سہتے سہتے بے بس و لاچار،مفلس و قلاش اور غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی کے دن پورے کرنے والے انسان آتشی چوہے بن جاتے ہیں۔جامد وساکت پتھروں اور سنگلاخ چٹانوں کے اس بے حس معاشرے کی دہکائی ہوئی آگ میں یہی مجبور لوگ آتشی چوہوں کی طرح ہمہ وقت جلتے رہتے ہیں۔‘‘
جس وقت فصلی بٹیروں اور زاغ و زغن کی ہذیان گوئی اور خرافات کا طوفان بدتمیزی تھم گیاتو زادو لُدھیک اپنی لنڈے کی پتلون پیٹ پرکستے ہو ئے اور بُھس سے لبریز گنجی کھوپڑی کو کُھجاتے ہوئے دلِ شکستہ کا حال سنانے کے لیے پھر سے خم ٹھونک کر سامنے آ گیا اور یوں غرایا:
’’ تم سچ کہتے ہو، اس دنیا میں وفا کا بدلہ بے وفا ئی،جگ ہنسائی اور کج ادائی کی صورت میں ملتا ہے ۔ایک صدی قبل میرے والد خرشو لدھیک نے آتشی چوہوں کی کھال سے ایک اجرک تیا ر کی۔اس کام میں مرے والد کا شا گرد آمری بھی مدددیتا رہا ۔آتش پر ستوں کاخیال ہے کہ ان آتشی چوہوں کی اجرک پہن کر بھڑکتی آگ میں کُود نے والا شخص آگ میں جلنے سے محفو ظ رہتا ہے ۔‘‘

’’کیا تمھارے موذی و مکار اور فاتر العقل باپ نے وہ اجرک پہن کر بے خطر ہاویہ میں چھلانگ لگادی؟‘‘پھتو موہانہ اپنی پھٹی ہوئی قمیص اپنے بڑے پیٹ پر سمیٹتے ہوئے کہنے لگا’’اس دنیا میں احمقوں کی کمی نہیں ایک کی تلاش میں نکلو تو راستے میں ایک سو ایک احمق منھ چڑاتے ،دندناتے مل جائیں گے۔تمھارے باپ خُرشو لُدھیک نے اپنی زندگی کا زیادہ عرصہ پاگل خانے میں گزارا۔ آہ !شیزو فرینیا کے مرض نے اسے خبطی بنا دیا تھا ۔‘‘

نتھو تیلی نے ایام گزشتہ کی کتاب کے اوراق پارینہ کی ورق گردانی کرتے ہوئے کہا’’ خُرشو لُدھیک کو میں اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ ضعیفی کے عالم میں کرناٹک میں سٹیج ناٹک میں مسخرے کا کردار ادا کرتا تھا ۔خُرشو لُدھیک کا شمار ممبئی کے سفاک قزاقوں میں ہوتا تھا ۔وہ فرانسیسی قزاق جیکوئس ڈی سورز(Jacques de Sores)کا پیرو کار تھا۔اپنے شباب کے زمانے میں اس نے دہشت گردی کی انتہا کر دی اور سیکڑوں گھر بے چراغ کر دئیے۔‘‘

’’تم ہمیشہ بے وقت کی راگنی الاپتے ہو۔‘‘زاد و لُدھیک نے کھسیانی بلی کے مانند کھمبا نوچتے ہوئے کہا’’آخری عمر میں میرے والد کی بینائی بہت کم رہ گئی تھی۔ ان دنوں ہمارے گھر کی منڈیر پر بڑے بڑے اُلّو بیٹھے رہتے تھے ۔میرے والد کہا کرتے تھے کہ مہا لکشمی دیوی کی سواری اُلّو ہی ہے ۔اپنے گھر کی دیواروں اور کوٹھے کی منڈیروں پر بڑی تعداد میں کرگس، زاغ و زغن اوراُلّو جمع ہونے کو وہ ایک اچھا شگون خیال کرتے تھے۔ اجرک کی تیاری کے بعد میرے والدکویقین تھا کہ اب لکشمی دیوی کی کِرپا سے اس کے مقدر سنور جائیں گے۔ آتشی چوہوں کی کھال سے اجرک کی تیاری اور اس کے کرشمے کے چرچے ہند ،سندھ میں ہونے لگے۔کرناٹک کا مرگِ نا گہانی سرکس اپنے شعبدوں میں زندگی اور موت کے کھیل جیسے مہماتی کرتب دکھانے کے لیے مشہور تھا۔اس سرکس نے میرے والد کودس ہزار روپے کے عوض اجرک پہن کر دہکتی آگ میں کودنے کا کرتب دکھانے پر آمادہ کر لیا۔میرے باپ نے یہ کرتب دکھانے پر آمادگی ظاہر کر دی۔‘‘

’’تمھارے باپ نے دولت کاآؤ تو یقیناً دیکھ لیا ہو گا لیکن آگ کے تاؤ کاشاید اندازہ نہیں لگایا ہو گا۔‘‘گامن سچیار نے اپنی پگڑی سے اپنی پیشانی پر بہنے والا پسینہ صاف کرتے ہوئے کہا’’ہوس کے مارے لوگ بھی عجیب ہوتے ہیں ۔وہ سرابوں کے عذاب بھی خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں۔مرگِ نا گہانی سرکس کے اس کرتب کا کیا نتیجہ نکلا؟‘‘

زادو لُدھیک نے آہ بھر کر کہا’’ آتشی چوہے کی کھال کی اجرک اوراس کرتب کی بہت تشہیر کی گئی ۔ مرگِ ناگہانی سرکس نے ایک شو کا ٹکٹ ایک سو روپے میں فروخت کیا۔پہلے شو کے لیے بیس ہزار ٹکٹ بِک گئے۔تماشائی جوق در جوق آ رہے تھے مگر ٹکٹ بند کر دئیے گئے۔ سرکس کے ہزاروں شائقین کے جمِ غفیر نے میدان کے گرد لگے بڑے خیمے کی طنابیں اُکھاڑ دیں اور خطرناک کرتب کے آغاز کا بے چینی سے انتظار کرنے لگے۔سامنے میدان میں ایک سو من خشک لکڑی کے ایندھن سے آگ بھڑکائی گئی جس کے شعلے بہت بلندی تک پہنچ رہے تھے۔کچھ دُور اونچے بانسوں سے ایک چبوترہ تیار کیا گیا ۔میرا باپ اس چبوترے پر چڑھا،اس کی ٹانگیں لرز رہی تھیں اور اس کے چہرے پر زردی چھا گئی تھی ۔یقینی موت کو سامنے دیکھنے کے باوجو داس نے آتشی چوہوں کی کھال سے بنائی گئی اجرک پہن کردہکتی آگ میں چھلانگ لگادی ۔ایک زور دار دھماکہ ہوا اور اس کے بعد میرے والد کا کوئی اتا پتا نہ ملا۔اسی وقت آگ کے شعلوں سے کتوں کے بھونکنے اور غرانے کی پُر اسرارآوازیں بلند ہونے لگیں۔خوف،اضطراب اور سراسیمگی کے عالم میں مرگِ نا گہانی سرکس والوں نے آگ بجھانے کے لیے فائر بریگیڈ کو طلب کیا ۔دو گھنٹے کی سخت جد و جہد کے بعد یہ خطرناک آگ بجھ گئی۔بڑی بڑی کرینوں سے راکھ کریدی گئی تا کہ میرے باپ کی جلی ہوئی لاش یا ہڈیوں کا ڈھانچہ بر آمد کیا جا سکے۔ کئی گھنٹے کی جد و جہد کے بعدفائر فائٹر ز اپنی جان پر کھیل کر ایک جلے ہوئے کتے کا ڈھانچہ راکھ کے ڈھیرسے نکال لائے ۔سب حیران تھے کہ خُرشو لُدھیک کے ڈھانچے کے بجائے ایک بڑے شکاری کتے ڈوبر مین پنسچرکاسوختہ ڈھانچہ کہاں سے آ گیا؟ خُرشو لدھیک کا جلا ہوا ڈھانچہ کہاں گیا۔ سرکس والے کرناٹک سے فرار ہو گئے اور سترہ سو کلو میٹر دور گوالیار میں روپوش ہو گئے۔ سرکس کے مزدوروں نے کتے کا یہ ڈھانچہ اُٹھایا اور گوالیار کے نواح میں تان سین کی آخری نشانی سے دس کلو میٹر کے فاصلے پر گہرے کھڈے میں پھینک کر اس پر مٹی ڈال دی ۔گوالیار شہر کی صفائی پر مامور عملہ روزانہ اسی کھڈے پر شہر بھر کا کچرا پھینکتا ہے ۔ ‘‘

’’آتشی چوہے کی کھال کی اجرک اور اس قدر بے اثر ؟یہ معما سمجھ سے بالا تر ہے ۔‘‘نتھو تیلی نے سر کھجاتے ہوئے کہا ’’جس پُر اسرار چُوہے کی کھال کے کرشموں کی تعریف میں تم زمین آسمان کے قلابے ملا رہے ہو ،تمھارے باپ کی ہلاکت کے بعد تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ آتشی چوہے کی کھال کے کرشمے کی ساری کہانی جھوٹ کا پلندہ ہے ۔یہ سب تم مکار لوگوں کا من گھڑت قصہ اور گورکھ دھندا ہے ۔‘‘
’’یہ بات نہیں بل کہ اس معاملے کے پس پردہ نمک حرامی اور مکاری کی ایک سازش چُھپی ہوئی ہے ۔‘‘زاد لُدھیک نے کھانستے ہوئے کہا’’ اجرک تیار ہو گئی تو جعل سازآمری نے آتشی چوہوں کی کھال کی اجرک غا ئب کردی اور اس کی جگہ نیولے ،چھپکلی ،گوہیرے ،سانڈے اور موری کے چوہے وغیرہ کی کھال سے بنا ئی گئی اجرک رکھ دی ۔ آمری نے یہ سارا کا م اس قدرمکاری ،عیاری اور راز داری سے کیا کہ میرا باپ انتہائے سادگی کے باعث اس مارِ آ ستین سے مار کھا گیا ۔‘‘

ابھی یہ گفتگو جاری تھی کہ دُور سے ایک ادھیڑ عمر کاشخص نمودار ہوا ۔اس کے منھ سے جھاگ بہہ رہا تھا اور وہ غصے سے آگ بگولا ہو رہا تھا ۔اس نے زادو لُدھیک کو دیکھ کر اس پر بندوق تان لی اور بولا:
’’تم چرب زبان،عادی دروغ گو ،ٹھگ اور اُچکے ہو۔تم نے کل شام میرے بیٹے کو جو دستانے ،جرابیں اور ٹوپی چھے ہزارروپے کے عوض بیچی تھی ۔وہ سب جعل سازی اور فراڈ تھا ،انھیں پہن کر میرے بیٹے نے آگ میں ہاتھ اور پاؤں رکھے تو وہ جل گئے۔اب میرا بیٹاشہر کے بڑے ہسپتال کے برن وارڈ میں زیر علاج ہے ۔جب ہم نے اُن جرابوں،دستانوں اور ٹوپی کو شعلوں میں پھینکا تو پلک جھپکتے میں سب کچھ جل کر راکھ ہو گیا۔تم مردہ کتوں کی کھال سے یہ سب چیزیں تیار کرتے ہو ۔اب تمھارے مکر کا پردہ فاش کرنے کا وقت آ گیا ہے ۔آج میں تمھیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘

اس اثنا میں لوگوں کا ایک ہجوم وہاں اکٹھا ہو گیا اور انھوں نے بیچ بچاؤ کر کے بزرگ آدمی کو وہاں سے رخصت کیا۔ زادو لُدھیک کے سب ہم نوا وہاں سے ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔وہاں موجودسب لوگوں نے زادو لُدھیک کی خوب دھنائی کی اور اس کا منھ کالا کردیا گیا ۔ مونج کی ایک رسی میں پرانے کفش پرو ئے گئے اور یہ ہار زادو لُدھیک کے گلے میں ڈالا گیا ۔ایک گدھے کی دم کی طرف منھ کر کے اسے ہر نزدیکی گوٹھ و گراں میں پھرایا گیا۔ نا معلوم کہاں سے مشتعل نو جوان لڑکے بہت بڑی تعداد میں نمودار ہوئے جو سنگ ملامت لیے اس درندے پر جھپٹے اور اسے پتھر مار مار کر لہو لہان کر دیا۔زادو لدھیک نے جان بچانے کے لیے گدھے سے چھلانگ لگا دی اور بگٹٹ بھاگتا ہوا ماڑی کیبے آب و گیاہ صحرا میں غائب ہو گیا۔ اس کے بعد زادو لُدھیک کا کوئی سراغ نہ ملا ۔چند روز بعد ماڑی کے ویرانے میں ایک بہت بڑے شکاری کتے کا ڈھانچہ پڑا ملا جسے گدھ اور زاغ و زغن نوچ رہے تھے۔صحرا سے ملنے والے کتے کے اس ڈھانچے کے بارے میں ماہرین علم حیوانات نے کہا کہ یہ ڈوبر مین پنسچر کا ڈھانچہ ہے ۔
Ghulam Ibn-e- Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e- Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e- Sultan: 277 Articles with 679901 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.