بہروپیے

جہاں اﷲ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار خوبیوں سے آراستہ کیا وہاں اس خاکی پتلے میں بے شمار خامیاں بھی پائی جاتی ہیں انسان کا وجود ایک کشمکش پر محیط ہے جسے ایک اندونی جنگ کا نام بھی دیا جا سکتا ہے یہ جنگ انسان کے اندر پائی جانے والی خوبیوں اور خامیوں کے درمیان جاری رہتی ہے خود نمائی کے خوگر انسان کو اس خواہشتات برائی کی طرف لے جاتی ہیں جبکہ اس کے اندر موجود فطرتی خوبیاں اسے اچھائی پر کاربند رکھنے کیلئے اسے ملامت کرتی رہتی ہیں اب یہ اﷲ کے فضل پر منحصر ہے کہ وہ کسی انسان کو اس کے باطن کی آواز اوراچھائی کی پہچان کروا دیتا ہے جس سے انسان اپنے ظاہرکو خوب سے خوب تر بنا کر اس کا قرب حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور پھر وہ انسان حکم ربی کے تابع فرمان رہتا ہے اور اپنی خواہشتات اور نفس کی پیروی سے باز رہتا ہے جیسا کہ قرآن مجید کے پارہ 13 سورہ یوسف میں ارشاد ہے " اورمیں اپنے نفس سے بری (بے خبر ) نہیں ہوں بے شک میرانفس مجھے برائی کی طرف لے جاتا ہے مگر وہ نہیں جس پر میرا رب رحم کرے بے شک میرا رب بخشنے والا رحم کرنے والا ہے " اگر تاریخ انسانیت کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم پڑتا کہ خواہشتات کی غلامی انسان سے فساد برپاکرواتی ہے اورانسان انسانیت کی عظیم مرتبے سے گر کر درندوں سے بد تر ہو جاتا ہے جیساکے قابیل خواہشتات کا غلام بنا جس نے اسے حسد جیسی آگ میں مبتلا کر دیا اور اس کی عقل پر پردہ پڑ گیا اس نے اپنے ہی بھائی حضرت ہابیل ؑ کاقتل کر دیا جہاں سے انسانی معاشرے میں امن و امان اور حقوق کے تحفظ کیلئے قانون کی ضرورت کو محسوس کیا گیا تاکہ سرکشوں کو سزا دے کر معاشرے میں توازن برقرار رکھا جا سکے بات کر رہا تھا انسان کی سرکشی کی تو انسان کی خواہشتات ہی اس کو سر کشی کے راستے پر لے جاتی ہیں اور انہی خواہشتات اور نفس کی تشفی و آسودگی کیلئے ایک بہروپیا بن جاتا ہے یعنی باطن او ر ظاہر کے تضاد کا بہروپ اندر سے نیتاً انسان سرکش ہوتاہے جبکہ باہر سے اس کا اظہارسعادت مند اور تابعدار کا سا ہوتا ہے لیکن بعض اوقات انسان با دل ِ نخواستہ ایسا روپ دھار لیتا ہے جس سے بعد میں اسے شرمندگی و پشیمانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اہل حق ،سعاد ت مندوں کو اﷲ تعالیٰ ان کی فرنبرداری اور اطاعت کے باعث مقام و مرتبہ عطاء کردیتا ہے اور ان کیلئے اپنی مخلوقات کو مسخر کر دیتا ہے اور دنیا میں انہیں حقیقی بادشاہت کے منصب پر مامور کر دیتا ہے جہاں اہل زر اور تاج پوش بھی ان کی چوکھٹ پر دعاؤں کی آس لئے حاضر ہوتے ہیں یہ سعادت نمود و نمائش کے خواہاں نہیں ہوتے بلکہ ان کو مقصد صرف اور صرف اپنے خالق کے احکامات پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے زندگی بسر کرنا ہوتا ہے جس سے انہیں رب کی رضا و خوشنودی حاصل ہو سکے بس ایسے ہی روشن ضمیر لوگ ہوتے جن سے اﷲ نے بنی نو ع انسان کیلئے سر چشمہ ء ہدایت بنا دیا ہوتا ہے اب عام خواہشات کا غلام جب مخلوق کو ان چوکھٹوں پر حاضری دیتے اور ان کی عزت و تکریم کرتے دیکھتا ہے تواس میں خودنمائی کی آگ بھڑکتی ہے اس کا نفس اسے اکساتا ہے تو شہرت و عزت کو خوگر بجائے ذات حق کی تابعداری کے ان سعادت مند وں کا روپ دھار کر اپنی خواہشتات کی تکمیل کی سعی کرتا ہے بہروپیا ظاہر میں تو اپنا حلیہ ان سعادت مندوں ،گودڑی پوشوں جیسا بنا لیتا ہے مگر باطن میں اپنی خواہشتا ت کی غلاظت سے بھرپور ہوتا ہے جس سے وہ خو د کو مخلوق کو گمراہ کرتا ہے میں نے ایک بادشاہ کے بارے میں سنا ہے کہ وہ بڑا نیک صالح ،ایماندار،متقی اور پرہیز گار تھا اس کی بردباری اور عاجزی نے اسے سعادت مندوں کی صف میں شامل ہو نے شرف بخشا بلکہ اﷲ نے اسے کشف القلوب جیسی کرامت سے نوازا تھا ایک دفعہ یہ بادشاہ ایک سرکش قوم کے ساتھ حالت جنگ میں تھا کہ متعدد کوششوں کے باوجود اس قوم پر فتح حاصل کرنے ناکام رہا یہ اس کی زندگی کا پہلا واقعہ تھا جب اسے کسی قوم پر فتح حاصل نہ ہو رہی تھی بادشاہ جان گیا کہ ذات وحدت اس سے اس بھی بڑا کام لینا چاہ رہی ہے اسی دوران بادشاہ کے لشکر میں ایک شخص نے کہا کہ قریب ہی ایک بستی میں ایک اﷲ والا رہتا ہے جس کے بارے میں سنا ہے کہ وہ مستجاب الدعوت ہے کیوں نہ ہو کہ ہم اس اہل حق سے دعا کروا لیں کہ اﷲ ہم اس قوم پر فتح سے ہمکنار کرے چنانچہ بادشاہ اپنے احباب کے ساتھ اس بستی میں گیا جہاں اس نے دیکھا کہ اس شخص کے گھر پر لوگوں کا ہجوم ہے لوگ اس اپنی مرادوں کیلئے استدعا کررہے ہیں اور بدلے میں اس کو دولت و مال متاع دے رہے ہیں بادشاہ جب اس کی خانقاہ نما گھر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ یہ شخص گودڑی پوش تھا جو مثل تخت شاہی پر بیٹھا ہو ا تھا اور لوگ اس کے سامنے تعظیماً جھک رہے تھے بادشاہ سارا ماجرا دیکھ رہا تھااور چونکہ بادشاہ کو اﷲ نے کشف قلوب کی سعادت سے نوازا تھا اسلئے اسے سمجھ آگیا کہ اﷲ کی ذات اس سے کونسا کام لینا چاہ رہی ہے بادشاہ با آواز بلند اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ اپنی تلواریں نکالو اور یہاں موجود ہر شخص کو قتل کر ڈالو بادشاہ کا یہ کہنا تھا کہ وہاں شدید بھگدڑ مچ گئی لوگ ادھر ادھر دوڑنے لگے جبکہ بادشاہ اپنی تلوار لہراتا ہو ا اس گودڑی پوش کی طرف بڑھا ، جب بادشاہ غیظ و غضب کی حالت میں گودڑی پوش تک پہنچا تو گودڑی پوش نے کپکپاتے اور ڈرتے ہوئے بادشاہ سے کہا کہ مجھے کیوں مار نا چاہتے ہو میرا مال و دولت اور جو کچھ ہے یہاں سے لے لو میری جان بخش دو تو بادشاہ نے جواب دیا میری دعائیں قبول نہیں ہوتیں جس وجہ سے میں نہ نہیں چاہتا کہ یہاں کسی بھی دعا قبول ہو تمہاری وجہ سے لوگوں کی مرادیں بر آتی ہیں تم مستجاب الدعوت ہو لہذا میں تمہیں مار ڈالوں گا جب گودڑی پوش نے بادشاہ کا غضب دیکھا تو فوراً گڑگڑاکر کہنے لگا کہ میں اﷲ والا اور کوئی مستجاب الدعوت نہیں ہوں میں تو ایک بہروپیا ہوں جس کے پاس کو ئی کام نہ تھا میں دیکھا یہ لوگ فقیروں ،درویشوں کے ماننے والے ہیں کیوں نہ ان جیسا حلیہ بنا کر اپنے معاش و عیش کا بندوبست کر لیا جائے اب میرے پاس جب بیس لوگ مرادوں،صحت ،کامیابی جیسی خواہشات کی نیت سے آئیں گے تو ان میں دو یا تین کے مقدر میں اﷲ نے مراد بر آنا،صحت یاب ہونا ،کامیاب ہوتا لکھ رکھا ہو گا بس میرے پاس لوگ آتے مجھ سے نہیں اپنی تقدیر کا لکھا پا لیتے ہیں یوں میری شہرت عام ہو گئی اور میں انہی لوگوں کو گمراہ کر کے اپنی عیش کا سامان کرتا رہا آپ کو اﷲ کا واسطہ مجھ جیسے گنہگار اور غاصب کو قتل کر کے اپنے ہاتھ خون سے آلودہ نہ کریں مجھ بخش دیں بادشاہ اس بہروپیے کی بات سن کر رو دیا اور کہا ہائے قسمت کہ جس قوم کا یقین اﷲ سے اٹھ جاتا ہے اس قوم میں ایسے غاصب لوگوں کو لوٹتے ہیں اور سعادت مندوں کے بہروپ بنا کر خود کی اور دوسروں کی بربادی کا باعث بنتے ہیں ہائے سعادت مندوں کے مقدس لباس کو بھی لوگوں نے ذریعہ قماش بنا لیا جس کے بعد بادشاہ نے بہروپیے سے توبہ کروائی اور وعدہ لیا کہ پھر کبھی ایسا روپ دھار کر لوگوں کو دھوکہ نہ دینا تیرے جھوٹے ہونے کے باوجود اﷲ نے تیرے عیب چھپائے رکھے اور تجھے لوگو ں میں عزت دی صر ف اور صرف اپنے فرمانبرداروں اور دوستوں کے لباس کی بدولت دیکھ کہ اس رب کو اپنے پیاروں کے حلیے سے بھی کتنا پیار ہے اور پھر اسے اپنے لشکر کا سالار بنایا سرکش قوم پر حملہ کیا اﷲ نے بادشاہ کے لشکر کو فتح سے ہمکنار کیا بادشاہ بعد میں کافی عرصہ تک یہی کہتا رہا کہ اﷲ کا فضل کے اس نے ہمیں لوگوں کے ایمان بچانے کیلئے چُنا مگر آج بھی ہمارے معاشرے میں ان سعادت مندوں کے روپ دھار کر بہروپیے لوگوں سے یقین اور ایمان کی دولت لوٹ کر ان سے نذرانے وصول کر رہے ہیں بلکہ حالات اس سے بھی بد تر ہو چکے ہیں ہماری مائیں بہنیں کم علمی کے باعث ان بہروپیوں ، جعلی عاملوں ، پیروں کے نرغے میں آکر اپنی عزتیں تک گنوابیٹھی ہیں جبکہ آج بھی بہروپیے سعادت مندوں اور پاکیزہ لوگوں کا روپ دھار کر اپنی خواہشتات کی غلامی اور نفس کی تسکین کیلئے دنیا کے دھن کی خاطر آخرت کا عذاب اور ذلت سمیٹ رہے ہیں راقم کا شعر ہے کہ۔ لباس خضر میں راہزن ہزار ہیں یاں ۔۔۔۔ دھیان رکھنا کہیں لٹ نہ جائے تیرا ایماں ہمیں چاہیے کہ اﷲ پر یقین کامل رکھیں اور سعادت مندوں ،روشن ضمیر اﷲ کے دوستوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے ایمان کامل بنائیں اور اس ذات حق کا قرب حاصل کریں جب ہم اﷲ کی اطاعت و فرمانبرادری میں کامل ہو جائیں گے تو ہر لمحہ اس کا فضل ہمارا بھی منتظر رہے گا اہل حق کبھی دنیا و شہرت کے متقاضی نہیں ہوتے بلکہ بھٹکے ہوئے انسانوں کو راہ دکھانا ان کا کام ہے آزمائشیں ، سختیاں ہمار ے ایمان کو مضبوط بنانے اور اﷲ کے قریب کرنے کا ذریعہ ہیں جو ہم پر آزمائش کا امتحان دے کر ہمیں اپنے قریب کرنا چاہتا ہے اس دعا کے ساتھ کہ اﷲ ہمیں حق شناسائی کے شعور سے نوازے ۔
Fahim Afzal
About the Author: Fahim Afzal Read More Articles by Fahim Afzal: 5 Articles with 3239 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.