نریندرمودی
پاکستان دشمنی کی بنیاد پربھارت کا وزیراعظم بنا لہٰذاء اس کا مسلسل
پاکستان کیخلاف زہراگلنا اس کی فطرت اور سیاسی ضرورت ہے ،اس کے پاکستان
دشمن بیانات کو یاد جبکہ میاں نوازشریف نے پچھلے دنوں ایک بیان دیاتھا جس
میں انہوں نے کہا ''ہم پاکستان کی سرزمین کسی ملک کیخلاف استعمال نہیں ہونے
دیں گے ''اورامریکہ کاF-16طیاروں کے حوالے سے امدادروکنے کے بعدالٹاپاکستان
کو ''ڈومور' ' کے ساتھ ساتھ ''پاکستان ہمسایہ ممالک میں حملے کرنیوالے
گروپوں کیخلاف کاروائی کرے'' جیسے آمرانہ پیغام پرغورکریں تو حقیقت اوران
کرداروں کی نیت بخوبی سمجھ آجائے گی ۔کردارتین ہیں مگر سوچ اورنیت ایک جیسی
ہے۔ ماضی میں بلیک لسٹ کرکے پاکستان بدرکئے جانیوالے امریکہ کے جاسوس
میتھیوکی دوبارہ پاکستان آمدمعنی خیز تھی مگر اِس بار اُس کیخلاف کوئی
کاروائی نہیں کی گئی ۔حکومت نے دو بیگناہ پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈڈیوس
کوتوچھوڑدیاتھا مگر ناموس رسالت صلی اﷲ وعلیہ وسلم کے پروانے غازی ملک
ممتازحسین قادری کوتختہ دارپرلٹکادیااوراس ''حسن کارکردگی''کے باوجودحکمران
جماعت نے آزادکشمیر کاالیکشن جیت لیا ۔ماضی میں بھی میاں نوازشریف نے کہا
تھا ''میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا''اوریہ بھی کہا تھا''میں کشکول توڑدوں
گا''،مگرحقیقت میں کشکول کاحجم کئی گنابڑاہوگیاہے جبکہ موصوف دھڑلے سے
ڈکٹیشن بھی لے رہے ہیں۔ امریکہ کس بنیادپر پاکستان جوایک
آزاداورخودمختارریاست ہے کوڈکٹیشن دے اورحکومت سے ڈومورکامطالبہ کررہا ہے۔
بھارت میں ہو نیوالے ایک متنازعہ اورمشکوک حملے کی ایف آئی آرکاپاکستان میں
اندارج ہونااورمیاں نوازشریف کاحالیہ بیان ''پاکستان کی سرزمین کسی ملک
کیخلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے ''ایک بہت بڑاسوالیہ نشان ہے۔ جہاں
پاکستان کے حکمران پاکستان کوچارج شیٹ کر تے ہوں وہاں ملک دشمن قوتوں سے
کیا بعید ہوسکتا ہے ۔پاکستان ایک مظلوم اورمقروض ریاست ہے جہاں بیسیوں
بیرونی ایجنسیاں ہمارے ملک کوکمزور کرنے کیلئے سرگرم ہیں جبکہ اس کے اپنے
حکمران کسی سلطانی گواہ کی طرح ہماری مظلوم ریاست کومدعی کی بجائے ملز م
بناکرپیش کررہے ہیں۔میاں نوازشریف کے بیان کامعنی ومفہوم تو یہی بنتا ہے کہ
کچھ نقاب پوش یعنی نامعلوم عناصر پاکستان کی سرزمین ''کسی''ملک کیخلاف
استعمال کررہے تھے جوآئندہ نہیں کرنے دی جائے گی جبکہ حقیقت میں بلوچستان
اورکراچی سمیت پاکستان کے اندر بھارت کی مداخلت اورجارحیت کسی سے پوشیدہ
نہیں ہے جبکہ بھارت کی بدنام زمانہ ایجنسی'' را''کے ایجنٹ بھوشن یادیوکی
گرفتاری اورسنسنی خیز انکشافات پر بھی میاں نوازشریف کا ابھی تک کوئی دوٹوک
ری ایکشن نہیں آیا۔ افغانستان اوربھارت کاپاکستان کیخلاف جوائنٹ ایڈونچر
ایکسپوزہوئے بھی ایک مدت ہوگئی مگراس کے باوجود امریکہ کی ہٹ دھرمی یاروش
نہیں بدلی ۔پاکستان کے وزیراعظم اوروفاقی وزیرداخلہ کی پڑوسی ملک بھارت
بارے سوچ انتہائی مختلف بلکہ متضاد ہے ۔چودھری نثارعلی خاں نے ہردورمیں
پاکستان اور بھارت کے درمیان دیرینہ تنازعات بارے آبرومندانہ اورجرأ
تمندانہ موقف اختیار کیا جبکہ حکمران جماعت کی کچھ اہم شخصیات نے ہربار
بھارت کوکلین چٹ دی ۔اس دورحکومت میں چودھری نثارعلی خاں کادم غنیمت ہے۔
قومی حمیت پر ہونیوالے ہربیرونی حملے کاچودھری نثارعلی خاں کی طرف سے
کراراجواب آتا ہے ۔پاکستان کے اندرہونیوالی حالیہ سارک کانفرنس میں وفاقی
وزیرداخلہ چودھری نثارعلی خاں کا'' سچائی تک رسائی'' کاسفر ان کے بھارتی ہم
منصب راجناتھ سنگھ کوانتہائی ناگوارگزرااوروہ خفت مٹانے کیلئے انتہائی اہم
کانفرنس ادھوری چھوڑکرواپس بھاگ گیا کیونکہ سچائی کے مقابل جھوٹ کی رسوائی
اور پسپائی اٹل ہے ۔چودھری نثارمادروطن پاکستان کے جانثار ہیں اوران کے
کردار نے انہیں قومی ہیروبنادیا ہے جبکہ اہل قلم چودھری نثار پر ا پنے کالم
نثارکررہے ہیں۔جولوگ اپنی زندگی اپنے وطن پرنثارکرتے ہیں وہ سرمایہ
افتخاربن جاتے ہیں۔ پاکستان میں کئی سرمایہ دارپیداہوئے اورزمین کارزق بن
گئے ،کئی مسنداقتدارپربراجمان اورسبکدوش ہوئے مگر آج کروڑوں پاکستانیوں
کوان کانام اورکام تک یاد نہیں مگر سرزمین پاک اورقومی حمیت کی حفاطت کیلئے
جام شہادت نوش کرنیوالے شہیدوں کے نام اورکام سے ہمارے ہاں ہرعمر کے لوگ
اور بچے بھی آگاہ ہیں۔ چودھری نثارعلی خاں جس طرح پاکستان کی سا لمیت ،حاکمیت
اعلیٰ اورقومی حمیت کی خاطر آبرومندانہ اورجرأتمندانہ کردار اداکررہے ہیں ،ایک
شعران کی نذرکرتاہوں۔
برہم ہوں بجلیاں کہ ہوائیں خلاف ہوں
کچھ بھی ہواہتمام گلستاں کریں گے ہم
پاکستان کے غیورسپوت چودھری نثارعلی خا ں کی بھارت کوللکارنے اوراپنے
بھارتی ہم منصب کوپچھاڑنے کی ادا یقینا دشمنوں کے ساتھ ساتھ ان کے کچھ
اپنوں کوبھی پسند نہیں آئی ہوگی۔چودھری نثارعلی خاں وہ واحدوفاقی وزیر ہیں
جووزارت بچانے کیلئے ''خوشامد اورچاپلوسی''نہیں کرتے،دوسرے وفاقی وصوبائی
وزراء کی زبانیں قینچی کی طرح چلتی ہیں جبکہ چودھری نثارعلی خاں کاکام
بولتا ہے۔بھارت کے وفاقی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ کی سارک کانفرنس سے شرمناک
واپسی پربھارت میں صف ماتم بچھ گئی مگر اسلام آبادمیں بھی ایک مخصوص مقام
پراس کاسوگ منایا گیا ۔جولوگ نریندرمودی کے ساتھ دوستی کادم بھرتے ہیں
انہیں پاکستان کادوست نہیں ماناجاسکتا ۔
اگربھارت کافطری دوست اورسرپرست امریکہ پاکستان سے ''ڈورمور ''کہتا یااس کی
امید رکھتاہے تواسے دوٹوک اندازمیں جواب دیاجائے ۔جودشمنی پاکستان کے گلے
پڑی ہے وہ درحقیقت امریکہ کی تھی ۔ بدقسمتی سے ماضی میں پرویز مشرف نے اپنے
شخصی اقتدارکی مضبوطی کیلئے پاکستان کوخوامخواہ پرائی دشمنی کی آگ میں
جھونک دیا تھا جبکہ اِس وقت ان اتحادیوں میں سے کوئی ایک بھی پاکستان کے
ساتھ کھڑا ہے اورنہ ان کی ہمدردیاں پاکستانیوں کے ساتھ ہیں۔ پاکستان
کوامریکہ سے مناسب فاصلہ پیداکرکے اپنے روشن اورمحفوظ مستقبل کیلئے
نیااتحاد بناناہوگا ۔ امریکہ دوستی اوردشمنی کے اصولوں سے آگاہ نہیں،اس نے
ہردورمیں پاکستان کی پیٹھ پروارکیا اوروہ پاکستان کے دشمن ملکوں کی ہرطرح
سے سرپرستی کرتارہا ۔ پاکستان ،چین ،روس اورترکی کانیااتحاد دنیا کو محفوظ
اورپرسکون بنا سکتا ہے اوریقینااس فطری اتحاد کی بدولت دنیا میں طاقت
کاتوازن اوردیرپاامن قائم ہوگا۔پاکستان کسی ریاست کیلئے خطرہ نہیں بلکہ
امریکہ ،بھارت،اسرائیل اورافغانستان سمیت کچھ ملک خوامخواہ پاکستان کیلئے
خطرات پیداکررہے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے زیادہ تر سیاستدان بدعنوانی
میں ملوث ہیں اوریہ لوگ بدامنی کاسدباب نہیں کرسکتے ۔ پاکستان میں
پائیدارامن کی بحالی اوراس کی سا لمیت یقینی بنانے کیلئے پاک فوج کی مضبوطی
ناگزیر ہے۔اگرہمارے دوست ملک چین کوافواج پاکستان کے سپہ سالار جنرل راحیل
شریف کی ایکسٹینشن کی ضرورت واہمیت کاادراک ہے توپاکستان کی منتخب قیادت
کواس حقیقت کاشعور کیوں نہیں ہے۔اگرسی پیک منصوبہ بروقت پایہ تکمیل تک
پہنچانا ہے توجنرل راحیل شریف کی ایکسٹینشن ناگزیر ہے ۔آل انڈیامسلم لیگ کے
پلیٹ فارم سے کئی نامورمسلم لیڈرز قیام پاکستان کیلئے سرگرم تھے لیکن
اگرخدانخواستہ بابائے قوم محمدعلی جناح ؒ کی زندگی ان سے وفانہ کرتی
توشایدآج پاکستان کاوجود نہ ہوتا۔بلاشبہ افراد نہیں ادارے اہم ہیں مگر
خدادادصلاحیتوں کے حامل لوگ روزروزپیدانہیں ہوتے ۔آج جو بے پایاں عزت
اورشہرت جنرل راحیل شریف اورپاک فوج کونصیب ہوئی وہ اقتدارمیں ہونے کے
باوجود جنرل پرویز مشرف کونہیں ملی۔پرویز مشرف کے اقتدارمیں آنے پرمٹھائیاں
تقسیم ہوئیں مگرجس وقت وہ جارہے تھے توکسی نے انہیں روکابھی نہیں لیکن لوگ
جنون کی حدتک جنرل راحیل شریف کوجانے سے روک رہے ہیں۔میں سمجھتاہوں ''مووآن
پاکستان ''کے چیئرمین میاں محمدکامران کی گرفتاری کاکوئی جوازنہیں
تھا،انہیں رہاکیاجائے کیونکہ جنر ل راحیل شریف کی ایکسٹینشن کے حق میں
آوازاٹھاناماورائے آئین اقدام نہیں اورنہ یہ آمریت کودعوت ہے۔جنرل راحیل
شریف پاکستان کے نڈرمحافظ جبکہ پاکستانیوں کے محبوب اورمطلوب ہیں ، میں
انتہائی وثوق سے کہتاہوں ان کی ایکسٹینشن اٹل ہے ۔چینی قیادت کی بات مان
کرپاکستان کی منتخب قیادت کوبے چینی اورمایوسی نہیں ہوگی۔ جنرل راحیل شریف
کی ایکسٹینشن کے ایشوپر امریکی اور بھارتی قیادت کی ''ٹینشن '' سمجھ آتی
بلکہ ان کے''ڈپریشن'' کوبھی محسوس کیا جاسکتا ہے مگر پاکستان میں امن ا
ورچین کیلئے دوست ملک چین کے سنجیدہ کردارسے انکار جبکہ اصرار
کونظراندازنہیں کیا جاسکتا۔جنرل راحیل شریف ایکسٹینشن سے انکار کرچکے ہیں
مگرسی پیک کی بروقت تکمیل سمیت پاکستان کے قومی مفادات کی خاطر انہیں
اپنافیصلہ تبدیل کرنے پرمجبورکیاجاسکتا ہے۔
حکمران اپنے اوپرتنقیدکرنیوالے اپوزیشن سیاستدانوں کوتوخوب لتاڑتے ہیں مگر
پاکستان کے حق میں ان کے حلق سے آوازتک نہیں نکلتی ۔مادروطن پاکستان،بابائے
قوم محمدعلی جناح ؒ ،مصورپاکستان حضرت اقبال ؒ سمیت بانیان پاکستان کیخلاف
ہرزہ سرائی کرنیوالے عہدحاضر کے کسی دانشورنماابوجہل سے کوئی بازپرس نہیں
کرتا۔اگرسوشل میڈیا کیلئے ضابطہ اخلاق پرکام کیا جاسکتا ہے توپھران بے لگام
نام نہاد دانشوروں کی لگام کیوں نہیں کھینچی جاسکتی جو پاک سرزمین پربیٹھ
کردشمن اوردنیا کے بدترین متعصب ملک بھارت کی قصیدہ خوانی کرتے ہوئے نظریہ
پاکستان پرکاری ضرب جبکہ کروڑوں پاکستانیوں کے جذبات پرگہرے زخم لگاتے ہیں
۔اگرمیاں نوازشریف اپنے بھارتی ہم منصب نریندرمودی کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال
سکتے ہیں توپاکستان کی حقیقی اپوزیشن قیادت کے ساتھ ہاتھ کیوں نہیں ملاسکتے
۔نریندرمودی کی رائیونڈآمد پرمیاں نوازشریف کے چہرے پرجوراحت اور چمک دیکھی
گئی وہ پاکستان کی سیاسی ودفاعی قیادت کیلئے دیکھنے کونہیں ملتی ۔اقتدارمیاں
نوازشریف کے پاس ہے لہٰذاء وہ اپنے نادرنرمی پیداکریں ،اگروہ دوستی کیلئے
دشمن ملک بھارت جاسکتے ہیں تو انہیں ان کی اناپاکستان کی سیاسی قیادت کے
پاس جانے سے کیوں روکتی ہے۔بلاشبہ اس وقت پاکستان احتجاجی سیاست یاسیاسی
قوتوں کے درمیان تصادم کامتحمل نہیں ہوسکتا مگر اس کادارومدارمیاں نوازشریف
اوران کی ٹیم پر ہے ۔اگرعمران خان احتساب پرزوردے رہے ہیں تواس میں کیا
برائی ہے،اخباری اطلاعات کے مطابق توحکمران بھی احتساب کے حامی اورخواہاں
ہیں توپھر حکومت اوراپوزیشن کے درمیان پاناماپیپرز کیخلاف شفاف تحقیقات
پرڈیڈلاک کیوں ہے ۔میاں نوازشریف ایک ماہ اورکچھ دن بیرون ملک رہے مگرملک
کانظام چلتا رہا اوراگرآئندہ بھی انہیں بیرون ملک جاناپڑاتوانشاء اﷲ
پاکستان کانظام چلتا رہے گاکیونکہ ان سمیت کوئی سیاستدان بلکہ نام
نہادجمہوریت بھی پاکستان کیلئے ناگزیر نہیں ہے۔ بھارت کے پڑوس میں
اگرسراٹھاکرزندہ رہنا ہے توپاک فوج کی ضرورت اوراہمیت تسلیم کرنا ہوگی ،کوئی
مخصوص سیاسی طبقہ پاک فوج کوکمزورکرکے پاکستان کی مضبوطی کادعویٰ نہیں
کرسکتا۔
|