لازوال قسط نمبر 2

’’زوال ان لوگوں کا مقدر بنتا ہے جو زندگی میں آگے بڑھنا نہیں چاہتے کیونکہ ایسے لوگ اپنا ہر فیصلہ قسمت پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اور جو کچھ ان کے ساتھ ہوتا ہے ، اس کا ذمہ دار وہ قسمت کو ٹھہراتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو اپنے فیصلے خود کرتے ہیں ۔ حالات کو اپنے مطابق ڈھالنا جانتے ہیں ۔ وہ لوگ کبھی زوال پذیر نہیں ہوتے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو آتے ہوئے طوفانوں کا رخ تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان طوفانوں کے بیچ سے فتح و کامرانی کے دروازے تلاش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ کبھی اپنی زندگی میں پیچھے نہیں رہتے۔ ان لوگوں کو کبھی مات نہیں ہوتی کیونکہ ان کی نظریں آنے والے وقت پر ہوتی ہیں ۔ وہ کبھی پیچھے نہیں دیکھتے کیونکہ پیچھے دیکھنا زوال ہے اور آگے بڑھنا عروج ۔ اگر انسان پیچھے کی طرف دیکھے تو احساس کم تری اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی ، ندامت شرمندگی اور مجبوری اس کے پاؤں کی زنجیریں بن جاتی ہیں اور پھر یہی زنجیریں اسکے مستقبل کی راہوں میں سیسہ پلائی دیوار بن جاتی ہیں اور اگر ایک بار انسان زنجیروں میں جکڑا جائے تو ان کو توڑنا ناممکن ہو جاتا ہے ۔ میرے نزدیک عقلمند وہی ہے جو ان زنجیروں کو اپنے پاؤں میں باندھنے کی بجائے ، دوسروں کے پاؤں میں باندھ دے۔ کیونکہ حالات اور وقت کا تقاضا بھی یہی ہے۔ آج انسان صرف اپنے بارے میں سوچتا ہے ۔ اپنے فائدے کے لئے دوسروں کو قربان کردیتا ہے۔ بس اسی لئے اگر کوئی چاہتا ہے کہ وہ آگے بڑھے ، کامیابی اس کے قدم چومے تو اسے صرف اپنے مقصد پر دھیان دینا چاہئے اور اس مقصد کی راہ میں جو بھی رکاوٹ حائل ہو ، اس کو ختم کر دے۔ جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دے۔ اگر انسان رشتوں کی زنجیروں سے باہر نکل آئے تو وہ کافی آگے جا سکتا ہے مگر یہ جو رشتے ہوتے ہیں ، یہ انسان کو آگے بڑھنے سے روکتے ہیں کبھی ماں بن کر ، کبھی بہن کی صورت میں تو کبھی بیوی بچوں کے روپ میں۔۔ رشتوں کی زنجیروں میں جکڑا ہواآدمی کبھی کھل کر سانس بھی نہیں لے سکتا ۔ قدم قدم پر یہ رشتے اس کو کسی نہ کسی چیز سے محروم کر ہی دیا کرتے ہیں اور پھر وہ وقت آتا ہے کہ جب اس کے اپنے، جن کی خاطر اس نے سب کچھ داؤ پر لگا دیا تھا، وہ بھی اس کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ اور اس وقت اس کی مثال دھوبی کے اس کتے کی سی ہوتی ہے جو نہ گھر کا رہتا ہے اور نہ ہی گھاٹ کا۔۔اسی لئے میں کہتا ہوں زندگی جیو۔۔ آگے بڑھو۔۔اور جو راستے میں آئے اس کو چور چور کر دو۔ تاکہ لوگ اس چیز سے عبرت حاصل کریں اور آئندہ آپ کے راستے میں آنے کی کوشش بھی نہ کریں ۔ خواب دیکھنا ہے تو اس کی تعبیر بھی حاصل کرنا سیکھو ورنہ خواب نامی لفظ کو ہی اپنی زندگی سے مٹا دو۔ کچھ پانا ہے تو اسے حاصل کرنے کے لئے اگر دنیا کو ادھر سے ادھر کرنا پڑے تو بھی گریز نہیں کرنا ، فوراً سے پہلے پہلے کرو یا پھر اس چیز کو ہی بھول جاؤ۔ آگے بڑھنا ہے تو آنکھیں کھول کر آگے بڑھو ۔ کوئی آپ کا کتنا ہی عزیز ہو ۔۔ کبھی اس پر اندھا اعتماد نہ کرو کیونکہ یہی عزیز وقت آنے پر ایسی ٹھوکر مارتے ہیں کہ انسان سنبھلنے کے بھی قابل نہیں رہتا اور سب کچھ لاحاصل ہوجاتا ہے۔ اب فیصلہ آپ کا ہے ۔ تقدیر آپ کی ہے۔ زندگی آپ کی ہے۔ آپ کو کیا چاہئے؟ زندگی کا روگ یا زندگی کا سکون۔ پل دو پل کی خوشی یا عمر بھر کی؟ رشتوں کا ساتھ یا اپنے مقدر کا؟ حالات کی زنجیریں یا وقت کی چابیاں ۔ یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے کیونکہ آپ کا ایک فیصلہ آپ کی زندگی کو بدل سکتا ہے۔اندھیرے سے نکال کر روشنی میں لا سکتا ہے۔‘‘
کافی کا خالی کپ ہاتھ میں اس طرح پکڑے ہوئے تھا کہ ہلکی سی جنبش سے نیچے گر جاتا مگر وہ اس سے بے خبر صوفے کی ٹیک کے ساتھ پشت لگائے آنکھیں بند کئے ہوئے تھا۔ ٹی وی پر ریکارڈنگ بار بار ری وائن ہو رہی تھی۔ وہ اپنی ہی ریکارڈنگ کو سنتے سنتے سو گیا تھا۔ کمرے کی ہر شے بکھری پڑی تھی۔ دروازے سے شگفتہ بی بی کمرے میں آئیں تو کمرے کی یہ حالت دیکھ کر ہمیشہ کی طرح ان کے ماتھے پر شکن آگئے
’’کتنی بار کہا ہے جس چیز کو جہاں سے اٹھاؤ، وہیں رکھا کرو مگر نواب ذادے تو ایک کان سے سنتے ہیں اور دوسرے سے نکال دیتے ہیں۔‘‘ وہ ابھی ابھی تلاوت مکمل کرکے کمرے میں آئی تھی۔کمرے میں آتے ہی انہوں نے بکھری چیزوں کو سمیٹنا شروع کیا۔
’’ یہ ٹی وی بھی چل رہا ہے۔۔‘‘اس کے بائیں ہاتھ کے پاس رکھا ہوا ہو ریمورٹ اٹھا یا اور ٹی وی بند کیا۔ وہ ابھی بھی ویسے ہی سویا ہوا تھا۔ انہوں نے بیڈسے ایک چادر اٹھائی، اس کو اوڑھائی تو ہاتھ کے مس ہونے پر اس کی فوراً آنکھیں کھل گئی۔
’’امی۔۔۔آپ۔۔کب آئیں؟؟‘‘ آنکھوں کو مسلتے ہوئے اس نے لحاف کو پیچھے پھینکا
’’ اٹھ گئے جناب صاحب۔۔ کبھی بیڈ پر بھی سو جایا کرو۔۔ یہ دیکھنے لے لئے نہیں ہے۔‘‘جھک کر لحاف اٹھایااور تہہ بنا کر وارڈ روب میں رکھا۔
’’ میں سویا کب تھا؟ بس ویسے ہی سستا رہا تھا ۔۔۔‘‘جھٹکے کے ساتھ اٹھا اور آئینے میں دیکھتے ہوئے اپنے بکھرے بالوں کو ہاتھوں سے کنگی کی۔
’’ ہر وقت لڑکیوں کی طرح آئینے سے نہ چمٹے رہا کرو۔‘‘وارڈ روب سے ایک ہینگر نکالتے ہوئے گویا ہوئیں
’’امی ۔۔۔ !!‘‘ اس نے ہلکی سی گردن کو جنبش دی۔اور ان کے ہاتھوں سے ہینگر لیا
’’کتنی بار کہا ہے کہ صبح جلدی اٹھ کر نماز پڑھ لیا کرو مگر نواب ذادے ۔۔۔‘‘
’’ امی پلز ۔۔۔اب آپ صبح صبح اپنی نصیحتیں نہ شروع کردینا۔۔ میں بڑا ہوگیا ہوں۔ میں جانتا ہوں میرے لئے کیا صحیح ہے کیا غلط ۔۔۔‘‘ ٹیبل کی طرف بڑھتے ہوئے اس نے تلخ لہجے میں جواب دیا تھا۔ اس کے ماتھے کے شکن اس کے دل کی کیفیت کو ظاہر کر رہے تھے۔
’’امی۔۔ میں نے آپ کو کتنی بار کہا ہے کہ جگ میں پانی رکھا کریں۔۔ دیکھیں خالی ہے۔ آپ کو معلوم بھی ہے کہ ۔۔‘‘ اس نے نچلے ہونٹ کو اوپرے ہونٹ سے دباتے ہوئے کہا تھا۔
’’اس میں اتنے غصے کی کیا بات ہے ؟ ابھی لا کر دیتی ہوں۔۔۔ تم اتنے واش روم میں جاکر فریش تو ہوجاؤ۔۔‘‘ اس کے چہرے کو پیار سے تھپتھپاتے ہوئے گویا ہوئیں
’’اب پانی رہنے دیں اس طرح کریں ایک کپ کافی بنا کر لے آئیں ۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ واش روم میں چلا گیا
ٍٍ * * *
’’ دیکھو علی عظمت ۔۔۔اپنی بیٹی کو سمجھا لو ۔آج پھر وہ انمول کو نصیحتیں کرنے بیٹھ گئی ۔۔‘‘گھر کے کام سے فارغ ہونے کے بعد رضیہ بیگم کمرے میں آئیں تو علی عظمت کو صوفے پر اخبار پڑھتے ہوئے پایا
’’میں نے کتنی بار کہا ہے کہ وہ میرے اکیلے کی بیٹی نہیں ہے ۔۔ تمہاری بھی ہے۔جب وہ اپنی ماں کی نہیں سنتی تو میری کیا سنے گی۔‘‘اخبار کا ورق پلٹتے ہوئے انہوں نے ایک سرسری نگاہ رضیہ بیگم پر ڈالی تھی۔ جو کمرے میں ان کے سامنے بیڈ پر بیٹھی ان کے چہرے کی طرف دیکھ رہی تھیں۔
’’ یہ سب تمہاری ماں کا کیا دھڑا ہے۔خود تو قبر میں پہنچ گئی مگر اپنی روح ہماری بیٹی میں ڈال گئی۔۔ ‘‘ جھلاتے ہوئے گویا ہوئیں اور پھر اٹھ کر وارڈ روب سے کچھ نکالنے کے لئے اٹھیں
’’جوہونا تھا سو ہوگیا ۔۔ تم کتنی بار مجھے اپنی غلطی کا احساس دلاؤگی۔۔ ایک بار کہا ناں کہ ہوگئی غلطی وجیہہ کو ان کے ساتھ بھیج کر ۔۔‘‘ایک جھٹکے کے ساتھ انہوں نے اخبار کو تہہ لگائی اور قدرے غصے میں ٹیبل پر رکھ دیا
’’کم نہ زیادہ پورے دس سال ہماری بیٹی کو اپنے قبضے میں رکھا ہے۔ پتا نہیں کیا کیا کچھ پانی میں گھول کر پلاتی رہی ہوگی۔ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں یہ سب کچھ انہوں نے جان بوجھ کر کیا۔۔‘‘ وہ بس اپنی ہی ہانکتی جا رہی تھیں
’’بیگم۔۔ بیگم۔۔۔جو ہوگیا سو ہوگیا۔ تمہارے یا میرے تذکرہ کرنے سے گزرہ وقت لوٹ تو نہیں سکتا۔۔!! اب آگے کی سوچو ۔۔ کہ کیا کرنا ہے ؟‘‘انہوں نے اپنا غصہ پیتے ہوئے کہا تھا۔ وہ بخوبی جانتے تھے رضیہ بیگم اب کسی بھی قیمت پر پیچھے نہیں ہٹنے والی۔
’’کرنا کیا ہے؟ اس کو سیدھی راہ دیکھاؤاور بتاؤ کہ جو اس نے لبادہ اوڑھ رکھا ہے ، وہ آج کل کی دنیا میں کسی کام کا نہیں۔۔ ایسے لوگوں کو سب بے وقوف کہتے ہیں‘‘
’’وجیہہ کسی کام سے ان کے کمرے کے پاس سے گزر رہی تھی مگر رضیہ بیگم کی اونچی آواز نے اس کے قدم اسی جگہ پر جما دیئے۔
’’ کتنی بار اس کو کہا ہے کہ باہر نکلا کرے۔ گھوما پھرا کرے۔ دوستوں کے ساتھ پارٹی وغیرہ کر لیا کرے مگر نہیں ۔۔ وہ توٹس سے مس ہونے کو بھی تیار نہیں۔۔ اب تم ہی سمجھاؤ علی عظمت شائد تمہاری بات مان لے۔۔‘‘رضیہ بیگم وارڈ روب میں جو ڈھونڈ رہی تھی ، اسے چھوڑ کر علی عظمت کے پاس آکر منتوں بھرے لہجے میں کہا تھا
’’تم کیا سمجھتی ہومیں نے اسے کچھ نہیں کہا۔۔۔؟ کیا میں نہیں سمجھاتا اسے۔۔!!‘‘ انہوں نے ایک نظر وال کلاک پر ڈالی جو دوپہر کے بارہ بجا رہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک خوبصورت ڈیکوریشن پیس لٹکا ہوا تھا۔ جو بھی اس دیوار کو دیکھتا، اس ڈیکوریشن پیس کو دیکھے بغیر نہ رہ سکتا۔ کچھ دیر علی عظمت بھی اسے ہی دیکھتے رہے۔
’’ویسے تم اسے ایک کیس ہی دلا دو۔۔ اس کے وکیل بننے کا کچھ تو فائدہ ہو۔ اس بہانے باہر کی دنیا بھی دیکھ لے گی۔ شائد اسی بہانے سے کچھ بدل جائے اور جو لبادہ اوڑھا ہوا ہے، اتر جائے ۔۔‘‘انہوں نے خود ہی گمان کر لیا۔
’’ کہتی تو تم ٹھیک ہو۔کوشش کرکے دیکھتا ہوں ، آگے دیکھو کیا ہوتا ہے۔۔‘‘ انہوں نے رضیہ بیگم کی بات سے اتفاق کیا
’’اور جب تک وہ باہر کی دنیا میں نہیں رنگے گی، رشتوں کے لئے بھی اسی طرح ناں ہوتی رہے گی۔۔‘‘ وہ اب جانے ہی لگی تھی جب ان الفاظ نے اس کے سر پر ایک بم پھوڑ دیا۔ اس کے اپنے ہی ماں باپ اس کو بوجھ سمجھ رہے تھے۔ اس کے چہرے پر کسی قدر مایوسی کے بادل چھاگئے۔ وہ اب مزید نہیں سن سکتی تھی۔ڈھیلے قدموں کے ساتھ اپنے کمرے کی طرف بڑھنے لگی۔ کانوں میں ابھی بھی اس کے رضیہ بیگم کی آواز گونج رہی تھی۔جب اس نے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا تو اس کا ذہن سوجھ بوجھ کی صلاحیت کھو چکا تھا۔ یوں تو وہ جب بھی اپنے کمرے میں داخل ہوتی تو ایک ذہنی سکون پاتی تھی مگر آج نا جانے کیا تھا، وہ سکون اس سے خفا تھا۔وہ دروازے کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی تھی۔ آنکھوں میں ایک عجیب سی بے چینی تھی۔ اس کی نظر اپنے بیڈ کے اوپر لگی سینری پر گئی۔ چہرے پر موجود مایوسی کے بادل قدرے چھٹنے لگے۔سینری میں سونے کے پانی سے سورہ اخلاص لکھی ہوئی تھا۔ ساتھ ہی کعبہ کا نقش بھی تھا۔ وہ آگے بڑھ کر اس کو چھونا چاہتی تھی مگر اس وقت وہ بے وضو تھی لہٰذا اپنے خیال کو پایہ تکیمل تک نہ پہنچایا ۔ بس آنکھوں کے ذریعے ہی پوری سورہ اخلاص پڑھ لی۔ اس کے دل کو قدرے سکون ملا مگر وہ مکمل طور سکون چاہتی تھی۔
’’جس درخت پرپھل لگتے ہیں ، لوگ انہی درختوں کو پتھر مارتے ہیں بالکل اسی طرح جو انسان دین کے راستے پر چلتا ہے تو مشکلات و مصائب اس کا سائے کی طرح پیچھا کرتے ہیں۔ لوگ ایسے لوگوں کو قدم قدم پر پچھاڑنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کو کوستے ہیں ، مگر جن کے دل مضبوط ہوتے ہیں ، ان کے قدم نہیں ڈگمگاتے۔‘‘ایک سرگوشی اس کے کانوں میں ہوئی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا وہاں کوئی نہ تھا۔ اس نے تکیہ کے نیچے سے اپنی دادی کی تصویر نکالی۔ اور پیار سے ہاتھ ہاتھ پھیرنے لگی۔
’’دادی آپ بالکل ٹھیک کہتی تھیں مگر شائد آپ ایک بات مجھ سے کہنا بھول گئیں کہ سب سے پہلے گھر کے لوگ ہی آپ کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔‘‘ وہ تصویر سے دھول کو اپنے ہاتھوں سے صا ف کر رہی تھی
’’جب تک وہ باہر کی دنیا میں نہیں رنگے گی، رشتوں کے لئے بھی اسی طرح ناں ہوتی رہے گی۔۔‘‘ایک جھٹکے سے وہ اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر آئی اور خود کو آئینے میں دیکھنے لگی۔ سامنے ایک لڑکی کھڑی تھی۔سرتا پا اپنے آپ کو ڈھانپے ہوئے تھی۔رنگ قدرے سانولا تھا لیکن تھوڑا سا میک کرنے سے نکھر سکتا تھا۔ بھنویں بھی گھنی تھیں جن کو باریک کر کے چہرے کو چار چاند لگایا جا سکتا تھا۔ آنکھیں تو پہلے ہی حیا کے پانی سے دھلی ہوئی تھی۔ کوئی غبار اس کی آنکھوں میں تھا۔ لب بھی گلاب کی پنکھڑی کی طرح نازک،جو ہاتھ لگانے سے ہی مرجھا جائیں۔
’’ابھی تو دو لوگوں نے مجھے ریجیکٹ کیا ہے لیکن مجھے کوئی پچھتاوا نہیں۔ اگر کسی کو میر ا روپ نہیں پسند تو اس میں میرا کیا قصور؟ اگر کوئی اپنے بیٹے کے لئے ایک ایسی لڑکی کی تلاش میں ہے جو اپنا حسن لوگوں پر وا کرے تو مجھے بھی ایسے گھر میں جانے کی کوئی تمنا نہیں۔ لڑکی کا حسن تو صرف اپنے شوہر کے لئے ہوتا ہے ، دنیا والوں کے لئے نہیں۔۔‘‘وہ خود سے کہہ ہی تھی مگر آنکھیں پر نم تھیں۔ آج پہلی بار وہ اپنے لئے آنسو بہا رہی تھی۔
’’ ہم ایسی لڑکی کو اپنے گھر کی بہو نہیں بنا سکتے جو باہر کی دنیا سے بالکل انجان ہے۔‘‘ایک سرگوشی ہوئی تھی مگر اس نے کسی بھی قسم کا تاثر نہیں دیا
’’ہمارا بیٹا ایک ماڈل ہے اور ہم ایک ایسی لڑکی کو اس کے سر نہیں باندھ سکتے جس کو فیشن کی الف، ب بھی نہیں معلوم۔۔۔‘‘ دوبارہ سرگوشی ہوئی تو اس نے اپنے آپ کو سوچنے پر مجبور کیا
* * * * *
شگفتہ بی بی کچن میں آکر کافی بنانے میں مصروف ہوگئیں۔ ساتھ ساتھ انہوں نے چولہا آن کیا کیا اور اس کے لئے ناشتے کا بھی بندوبست کرنے لگیں۔بار بار ان کی نظریں ضرغام کے بیڈ روم کی طرف جا رہی تھیں جہاں سے موبائل کے رنگ ہونے کی آواز مسلسل آرہی تھی۔ انہوں نے پہلے تو اگنار کیا مگر رنگ مسلسل ہو رہی تھی تو وہ کام چھوڑ کر اس کے بیڈ روم میں گئیں۔اور ادھر ادھر دیکھا۔
’’ضرغام۔۔ ضرغام بیٹا۔۔!!‘‘وہ کمرے میں نہیں تھا، اچانک ان کی نظر واش روم کے دروازے پر پڑی
’’ابھی تک نہیں آیا ۔۔ کب سے رنگ ہورہی ہے۔۔‘‘انہوں نے موبائل کو سائیڈ ٹیبل سے اٹھایا جو ابھی تک رنگ کر رہا تھا ۔
’’ ڈول؟؟؟ یہ کیسا نام ہے؟‘‘ حیرت سے کندھے اچکاتے ہوئے انہوں نے فون ریسیو کیا مگر اس سے پہلے کہ وہ سلام سے گفتگو کا آغاز کرتیں دوسری طرف سے آواز آئی
’’ہیلو بے بی! دو گھنٹے سے تمہارے فون کا انتظار کر رہی تھی۔ مگر تم ۔۔ تم تو لگتا ہے آج پھر بھول گئے۔ میں تمہارے اس بھولنے کی عادت سے بہت تنگ ہوں۔ اب اگردو گھنٹے کے اندر اندر تم مجھے لینے نہ آئے تو مجھ سے برا کچھ نہیں ہوگا۔ اور ہاں آج اپنی امی سے کچھ ڈھنگ کا بہاناکر کے آنا ۔ پچھلی بار کی طرح نہیں ۔۔۔ورنہ آدھی پارٹی میں ہی بچوں کی طرح ضد کر نے لگ جاؤ گے۔ اس بار میں تمہاری ایک نہیں سننے والی۔ او کے بے بی۔۔!! سی ۔ یو ۔ ایٹ ہوم۔۔‘‘برق رفتاری سے یہ سب کچھ کہہ اس نے فون بند کردیا۔ شگفتہ بی بی کچھ کہہ نہ سکیں۔ انہوں نے کان سے فون ہٹایا تو ضرغام بھی اپنے بالوں کو ٹاول سے صاف کرتا ہوا واش وم سے باہر آگیا۔وہ صرف ڈارک بلیو جینز پہنے ہوئے تھا۔ ٹاول کندھوں سے لٹکتے ہوئے سینے کو ڈھانپے ہوئے تھا۔ پانی کی بوندیں ٹپ ٹپ سنگ مرمر کی طرح چمکتے ہوئے فرش پر گر رہی تھیں۔
’’ امی کس کا فون تھا۔۔؟‘‘وارڈ روب کو وا کیا ور ایک ٹی شرٹ ڈھونڈنے لگا
’’تمہاری ڈول کا فون تھا۔۔۔تمہیں ملنے کے لئے بلا رہی ہے۔۔‘‘بے نیازی کے ساتھ فون بیڈ پر پھینکا۔ اور اس کے شانوں نے ٹاول کو تھاما جو ہاتھوں کے محرک ہونے کے باعث کسی بھی لمحے گر سکتا تھا۔اس نے ایک ریڈ ٹی شرٹ سیلیکٹ کی اور پہنتے ہوئے آئینے کے پاس گیا۔ وہاں پر پہلے سے ہی لائیٹ بلیو شرٹ لٹکی ہوئی تھی۔
’’اوہ۔۔۔ آئی ۔۔ سی۔۔‘‘ہنستے ہوئے شرٹ پہنی اور بنا بٹن بند کئے فون اٹھا کر ایک میسج ٹائپ کر کے سینڈ کیا۔
’’ آپ اس کا نام نہیں پوچھیں گی؟ ویسے تو ہر بات پوچھتی ہیں۔۔‘‘ موبائل کو دوبارہ بیڈ پر پھینک کر بٹن بند کرنے لگا
’’جلدی سے باہر آجاؤ۔۔ میں نے ناشتہ تیار کر لیا ہے۔۔‘‘ اس کے سوال کا جواب دئیے بغیر بیڈ روم کے دروازے کی طرف بڑھنے لگیں
’’امی۔۔ یہ بٹن بہت سخت ہے۔۔ بند ہی نہیں ہورہا۔۔‘‘وہ گریبان کا دوسرا بٹن بند کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ شگفتہ بی بی پلٹیں اور اس کا بٹن خاموشی کے ساتھ بند کرنے لگیں۔ ان کے چہرے پر کوئی تاثر نہ تھا یا پھر وہ اپنے تاثرات کو چھپا رہی تھیں
’’اس کا نام عنایہ ہے۔رِچ فیملی سے بیلونگ کرتی ہے۔ آپ نے کل جو ریکارڈنگ دیکھی تھی ناں ۔ وہ بھی اسی کی وجہ سے ہوئی تھی۔ کافی اچھی ہے۔ اسی کی وجہ سے مجھے ایک شو کی بھی آفر ہوئی ہے۔آئی لائک ہر۔۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے کہتا ہی چلا جا رہا تھا
’’اب وقت ضائع کئے بغیرباہر آجانا۔۔‘‘ بے نیازی سے باہر چلی گئیں
’’ امی بھی ناں۔۔‘‘ اس نے گردن کو ہلکا سا جھٹکا دیاتو اس کے چار انچ لمبے بال لہراتے ہوئے سیٹ ہوگئے۔
’’ واہ۔۔ ضرغام عباسی! کیا قسمت پائی ہے تو نے۔۔ ہر چیز تیرے تابع ہے اور تو آزاد۔۔‘‘نچلا ہونٹ دانتوں سے کاٹتے ہوئے وہ ہلکا سا مسکرایا تھا۔ اس کا یہ سوچنا بھی بجا تھا۔ آخر ہر خواہش کو بنا کہے پورا ہوتے تو پایا تھا۔ ناامیدی اور مایوسی کے الفاظ سے تو انتہا کی نفرت تھی۔ یہ اس کی ضد تھی، یا ہٹ دھرمی یا پھر قسمت کی مہربانیاں۔ بچپن سے لے کر آج تک وہ صرف اپنی بان منواتا چلا آیا تھا۔ کہتے ہیں ناں جو سوچا جائے کبھی پورا نہیں ہوتا ۔ بالکل صحیح کہتے ہیں سوچا کبھی پورا نہیں ہوتا بلکہ ان کو پورا کروانا ہوتا ہے۔ حالات کو اپنے مطابق ڈھالنا پڑتا ہے۔ جیسا کہ اس نے کیا تھا۔ والدین نے لاکھ کوششیں کی مگر آخر میں جیت اسی کی ہوئی۔ شہہ اسی کا مقدر بنی۔ انہوں نے لاکھ چاہا کہ کسی طرح اس کا بیٹا ان کے کہے کو مان لے۔ اپنے آپ کو اس سانچے میں ڈھال لے، جس میں وہ ڈھالنا چاہتے ہیں ۔ اپنی زندگی کو اس طرح بسر کرے جیسا اسلام چاہتا ہے۔ اپنا رہن سہن ، اپنی سوچ سب کچھ اسلا م کے راستے کی طرف موڑ لے اور صحیح معنوں میں مسلمان ہو جائے۔ لیکن یہ خواہش صرف خواہش رہی۔ پہلے تو کبھی کبھار،سال میں ایک آدھی بار نماز پڑھ لیتا تھا ، روزے بھی اکا دکا رکھ لیتا تھامگر جب سے اس کے باپ کی وفات ہوئی ، تب سے تو جیسے وہ آزاد ہوگیا۔ اپنے آپ کو اس پرندے کی طرح محسوس کرنے لگا جو سالوں بعد پنجرے سے رہا ہوا ہو۔ اس کی عیاشیاں پہلے سے زیادہ ہوگئیں۔ رات کو دیر سے گھر آنا اس کا معمول بن گیا۔ والدین نے جتنا دین کے قریب لانے کی کوشش کی وہ اتنا ہی دنیا کے قریب ہوتا چلا گیا۔ اس کے دل و دماغ میں دنیا نے بسیرا کر لیا۔ دنیاوی سٹیٹس، دنیاوی عزت و شہرت، دنیاوی حسن سب اس کا حاصل بن گیا ۔ وہ خود کو ایسی منزل پر فائز کرنے کی جستجو میں تھا، جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔ جس کے آگے کوئی رتبہ نہ ہو۔ جس کی آخری حد لامکاں ہو۔جس کے بعد زوال نہ ہو۔ صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک وہ کسی بھی لمحے اپنے ارادوں سے پیچھے ہٹنے کو تیار ہی نہ تھا۔ اگر اس منزل کو پانے کے لئے اسے آگ کا دریا بھی پار کرنا پڑتا تو شائد وہ اس سے بھی گریز نہ کرتا۔ جن لوگوں کے دلوں میں دنیا رچ بس جائے تو دنیا کو حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔ لیکن وہ ایسا نہ کرسکا۔ اس نے نہ ہی آگ کا دریا پار کیا اور نہ ہی ٹھنڈے طوفانوں کا۔شائد اس لئے کہ ایسی کوئی منزل تھی ہی نہیں جو لازوال ہو۔ ہر شے کو زوال ہے۔ مگر تڑپ ہمیشہ بیدار رہتی ہے۔یہی تڑپ اس میں بھی تھی۔ اس کی یہ حالت شگفتہ بی بی کو ہمیشہ پریشان کئے رکھتی ۔ شوہر کا سایہ تو پہلے ہی سر پر نہ تھا۔ اپنے جوان بیٹے پر بھی ہاتھ نہیں اٹھا سکتی تھی۔ ایسا کرنا اسے باغی کر سکتا تھا اور نہ ہی اس کے ساتھ دین کے معاملے میں زور زبردستی کر سکتی تھیں۔صر ف ایک کام تھا جو وہ کر سکتی تھی۔ایک در تھا جہاں سے ان کی دلی مراد پوری ہوسکتی تھی۔ وہ در تھا دعا کا۔ صرف دعا ہی ان کا واحد سہارا تھی۔ ہر نماز کے بعد وہ اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہو کر اپنے بیٹے کے لئے دعائیں مانگتیں
’’اے خدا! اے میر ی جان کے مالک! اے زمین و آسمان کے پروردگار! اے کل کائنات کے خالق! اے زندگی بخشنے والے! اے ہدایت دینے والے ! میں تیری کمزور بندی تجھے تیرے حبیب کا واسطہ دیتی ہوں ، میرے بیٹے کو ہدایت دے دے۔وہ نہیں جانتا کس چیز میں اس کی بھلائی پوشیدہ ہے ، اور کس چیز میں شر ۔کس راستے پر چل کر اسے ابدی کامیابی ملے گی اور کس راستے پر چل کر ابدی ناکامی۔ اے خدایا!وہ جس راہ پر چل نکلا ہے ، وہاں صرف کانٹے ہیں ، ذلالت ہے، اے میرے رب! میرے بیٹے کو اس راستے کے شر سے بچا لے، اس کو اپنی امان میں لے لے۔ اس کے دل کی آنکھیں کھول دے۔ وہ اس راستے کی ہولناکیاں نہیں دیکھ سکتا۔ اے اللہ! اس راستے کی ہولناکیوں سے میرے بیٹے کو بچا لے۔اے خدایا! تُو تو اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے بڑھ کر محبت کرنے والا ہے،اپنے اس بندے کو دنیا کے کنویں میں گرنے سے بچا لے اس بے بس اور لاچار ماں کی دعا کو سن لے ۔ اے ہدایت دینے والے میرے بیٹے کوہدایت دے دے۔ اے دلوں کو پلٹنے والے ! میرے بیٹے کا دل پلٹ دے۔تُو تو دعاؤں کو سننے والا ہے ۔ اس بے بس و لاچار ماں کی دعا کو اپنی بارگاہ میں قبولیت کا شرف بخش دے۔ قبولیت کا شرف بخش دے۔۔!!‘‘
مگر یہ دعائیں زمین و آسمان میں کہیں اٹک کر رہ گئیں ۔ جو اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود قبولیت کی منزلیں ہی طے نہیں کر رہی تھیں یا شائد اس کے دعائیں مانگنے میں ہی کچھ کمی رہ گئی ہوگی جس کی وجہ سے وہ آسمان سے پلٹ کر آرہی تھیں
وہ سیٹی بجاتا ہوا، ڈائننگ ٹیبل کی جانب بڑھ رہا تھا۔ شرٹ کے بٹن کھلے ہوئے تھے۔ آتے ہی اس نے ٹرے میں رکھے ہوئے سیب کو اٹھایا اور ٹیبل کے کنارے پر بیٹھ کر شگفتہ بی بی کو کچن میں کام کرتا ہوا دیکھنے لگا
’’ کچھ کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھ لیتے ہیں۔۔‘‘اس کو سیب کھاتا دیکھ کر گویا ہوئیں
’’ اوہ بھول گیا۔چلو خیر ہے۔‘‘بے نیازی سے جواب دیا اور ٹانگ کو چئیر پر رکھ کر ادھر ادھر دیکھنے لگا
’’تم کوئی پہلی بار بھولے ہو ہر بار تو تمہیں یاد کروانا پڑتا ہے۔چلو اب یہ دعا پڑھ لو۔۔ بسم اللہ اولہ وآ خرہ ‘‘ناشتہ لگاتے ہوئے انہوں نے تاکید کی تو اس نے زیر لب پڑھ ہی لی کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا تھا اگر وہ نہیں پڑھے گا تو چار پانچ نصیحتیں سننے کو ملے گیں
’’ اور تم نے یہ شرٹ کے بٹن کیوں کھول لئے۔۔‘‘ وہ سیدھا ہو کر کرسی پر بیٹھا تو ان کی نظریں اس کی شرٹ پر گئیں
’’یہ شرٹ بٹن بند کر کے اچھی نہیں لگ رہی تھی ناں۔۔ اور ویسے بھی میں نے سوچا اگر میں نے یہ بٹن بند کر لئے تو ٹی شرٹ پہننے کا فائدہ؟ یہ تو نظر ہی نہ آتی۔۔ بس اس لئے ۔۔‘ آدھا سیب کھا کر پلیٹ میں رکھ دیا اور جوس کا گلاس اٹھاتے ہوئے اس نے بھویں اچکائیں
’’ اپنے آپ کو اس زندگی میں مت الجھاؤ۔۔۔‘‘ سادہ طریقے سے سمجھایا
’’اس کو الجھانا نہیں کہتے پیاری امی۔۔۔اسے وقت کے مطابق چلنا کہتے ہیں۔۔‘‘اس نے بات ہوا میں اڑا دی
’’وقت کے ساتھ چلنے کا مطلب یہ تو نہیں کہ انسان اپنے رب کو ہی بھول جائے۔ اسے یاد ہی نہ کرے۔ جیسے حالات آرہے ہیں۔۔‘‘
’’ امی۔۔ آپ پھر شروع ہوگئیں۔۔‘‘ منہ بگاڑ کر بات کاٹی
’’اچھا۔۔۔ زیادہ منہ بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔صحیح طریقے سے کھانا کھالو۔۔‘‘ وہ اس کے چہرے کے تاثر کو اچھی طرح سمجھ چکی تھیں
’’مجھے یہی تو آپ کی بات اچھی لگتی ہے کہ آپ مجھے فوراً سمجھ جاتی ہیں۔میں کیا کہنا چاہتا ہوں؟ میرا موڈ کیسا ہے؟ آپ کو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔۔‘‘اس کے چہرے پر بہار امڈ آئی۔ وہ ناشتہ کرنے میں مصروف ہوگیا۔شگفتہ بی بی ناشتہ کرتے ہوئے کچھ سوچ رہی تھیں۔ ایک بات تھی جو وہ کہنا چاہتی تھیں مگر کہہ نہیں پا رہی تھیں ۔
’’ برا نہ مانو تو ایک بات کہوں۔۔۔اس کے تاثرات کو بھانپتے ہوئے پوچھا تھا
’’اب اس میں برا ماننے کی کیا با ہے۔۔ آپ پوچھیں۔۔‘‘ اس کا موڈ بحال ہوچکا تھا
’’تمہیں شادی کر لینی چاہئے۔ یہی وقت ہوتا ہے جب انسان کو ایک اچھے ہمسفر کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ انہوں نے ناشتے کے برتن کو سمیٹتے ہوئے کہا تھا۔
’’ شادی۔۔۔۔۔‘‘وہ ہنس پڑا۔ ’’ مجھے شادی کرنی چاہئے؟‘‘ وہ بات کو مزاح کی طرف لے گیا
’’اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟ کیا تم نے شادی نہیں کرنی ؟‘‘
’’ میں نے ایسا تو نہیں کہا ۔۔۔ لیکن ابھی وہ وقت نہیں آیا۔۔‘‘ اس نے مسکراہٹ کے ساتھ شگفتہ بی بی کی طرف دیکھا
’’ابھی وقت نہیں آیا؟؟؟ کیا مطلب ہے تمہارا؟ جب عمر گزر جائے گی تب کرو گے شادی۔؟‘‘
’’ امی آپ کو اتنی ٹینشن کیوں ہو رہی ہے؟ ابھی میری عمر ہی کیا ہے ؟‘‘
’’پچیس سال۔۔‘‘ فوراً سے پہلے جواب دیا
’’پچیس سال ہی تو ہے۔ اس عمر میں تو لوگ انجوائے کرتے ہیں اور آپ ابھی سے میرے پاؤں میں زنجیریں باندھنے کا سوچ رہی ہیں۔۔‘‘ اس نے گردن جھٹکائی
’’شادی تمہیں زنجیرلگتی ہے؟ اورجس انجوائنمنٹ کی تم بات کر رہے ہو اسے بے حیائی کہتے ہیں۔‘‘
’’ امی پلز۔۔ میں اس ٹوپک پر مزید بحث نہیں چاہتا۔۔‘‘ بے رخی دیکھاتے ہوئے کھڑا ہوا
’’ مگر میری بات تو سنو۔۔‘‘ اس سے پہلے وہ کچھ کہہ پاتیں وہ وہاں سے چلاگیا۔ اور وہ ہاتھ بڑھا کر رہ گئیں
* * * *
مزید واقعات اگلی قسط میں ملاحظہ کی
Muhammad Shoaib
About the Author: Muhammad Shoaib Read More Articles by Muhammad Shoaib: 64 Articles with 106980 views I'm a student of Software Engineering but i also like to write something new. You can give me your precious feedback at my fb page www.facebook.com/Mu.. View More