ٹریفک حادثات ۔قیمتی جانوں کا ضیاع
(Muhammad Riaz Prince, Depalpur)
پاکستان کے مختلف مقامات پر ٹریفک حادثات
دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں ۔ سڑکوں پر ٹریفک کا بڑھتا ہوا رش جس سے سڑکیں بھی
کم ہو نا شروع ہو گئی ہیں ۔ہر روز ہماری قیمتی جانیں روڈ ایکسیڈنٹ کی مد
میں ضائع ہو رہی ہیں ۔پاکستان میں بڑے بڑے شہروں میں سڑکیں ہر روز نئی بن
رہی ہیں جس کی صورت میں ہمارا نیا خون بہت ہی تیز رفتاری سے گاڑی ،موٹر
سائیکل وغیرہ چلاتے ہیں جس کی صورت میں ہم اپنے آپ کو کنٹرول کرنے میں
ناکام ہو جاتے ہیں اور موت سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں ۔ہماری حکومت اور اداروں
کے پاس اس کو کنٹرول کرنے کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہیں ۔ہر روزہزاروں کی
تعدا د میں لوگ روڈ ایکسیڈنٹ کا شکار ہو رہے ۔عوام کے لئے کوئی روڈ سیفٹی
میسر نہیں جس سے قیمتی جانوں کو بچایا جا سکے ۔ وہ ا س لئے کہ ہمارے ملک کا
ٹریفک نظام بلکل فلاپ ہو چکا ہے۔ٹریفک پولیس صرف وقت ضائع کر رہی ۔جس سے
عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا الٹا ان کا نقصان ہی ہو رہا کہ یہ ٹریفک
والے ان کی جیبیں بھی خالی کروا لیتے ہیں ۔
ہمارے ملک کے اندر بہت سے مقامات پر آپ ہرروز ایسے حادثات دیکھتے ہوں گے ۔
کہ وہ لوگ جان دے بیٹھتے ہیں جن کا قصور بھی نہیں ہوتا اور جس کا قصور ہوتا
ہے وہ ٹکر مار کر بھاگ جاتا ہے۔ یہ حادثات اس لئے بڑھ رہے ہیں کہ ہماری
کوئی منصوبہ بندی ہی نہیں۔ہم نے بڑی بڑی سڑکیں تو بنا دیں مگر ان پر چلنے
والوں کے لئے کوئی تجاویز یا منصوبہ بندی تیار نہیں کی اگر کوئی منصوبہ
بندی کی بھی ہے تو ا س پر عمل نہیں ہو رہا پیسے لے کر قصور وار کو چھوڑدیا
جاتاہے۔کیا ہمارے اداروں کی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی کہ ان کو کنٹرول کر
سکیں ۔
ہمارا بچہ ابھی دودھ ہی پئی رہا ہوتا ہے اور ہم اس کو موٹر سائیکل چلانے کے
لئے اپنے آگے بٹھا لیتے ہیں کہ یہ جلد ی جلدی سیکھ کر کوئی کارنامہ سرانجام
دے سکے۔ مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ابھی تو یہ دن اس کے پڑھنے اور کھیلنے
کودنے کے ہیں اور ہم اس کو جان پر کھیلنے کے لئے خود موت کے حوالے کر رہے
ہیں۔ پھر ہم کو افسوس اس وقت ہوتا ہے جب اس کے ساتھ کوئی واقع رونما ہو
جاتا ہے۔دراصل ہم خود قصور وار ہیں کیونکہ ہم خود ایسا کرواتے ہیں اور بعد
میں پچھتاتے ہیں ۔ یہ سب کچھ ہونے کے بعد ہم کیوں سوچتے ہیں ۔کیا ہم اتنے
ہی کم ظرف ہو گے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو غلط کاموں سے روک نہیں سکتے ۔ یا
پھر ہم ان سے جان چھوڑانا چاہتے ہیں ۔ اور ہم کو اپنے بچوں کی جانوں کی
کوئی فکر نہیں ۔
زیادہ تر ایسے واقعات اس وقت رونما ہوتے ہیں جب ہم اپنے بچوں کو ان کی ابھی
عمر ہی نہیں ہوتی کہ وہ موٹر سائیکل یا گاڑی چلا سکیں ۔ ہم خود ان کو ایسا
کرنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ہوناتو یہ چایئے کہ جب تک ان کی عمر اٹھارہ سال سے
اوپر نہ ہو ان کو ہم ڈرائیونگ کرنے سے روکیں ۔ اور جب تک ان کا ڈروئیونگ
ٹیسٹ اور ان کا ڈرئیونگ لائسنس نہ بن جائے ہم ان کو ڈرائیونگ نہ کرنے دیں
۔تاکہ ان کی قیمتی جان کو بچایا جا سکے ۔ اور اگر ہم ان کو کم عمری میں
ڈرائیونگ کرنے سے نہیں نہیں روکیں گے تو پھر اس کے نتائج سے ہم سب واقف ہیں
خداراہم خود اور ہم اپنے آس پاس کے لوگوں کو اس سے بچائیں ۔ اور ان کو
ڈرائیونگ سیکھنے کے لئے آمادہ کریں تاکہ وہ ہم سے جلد بچھٹر نہ سکیں اور ان
کی جانیں محفوظ رہ سکیں۔
ہمارے ملک کے ڈرائیور حضرات بھی ایسے ہیں کہ ان کے اندر بھی پتہ نہیں کس
قسم کا کیٹرا ہوتا ہے ۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کوکو ئی پیچھے سے کراس نہ
کرے اور نہ ان سے کوئی آگے نکل سکے۔ ان کی ان حرکات کی وجہ سے بہت سے
ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں ۔ ان کو بھی چاہئے کہ سڑکوں پر لوگوں کی جانوں کا خیال
رکھیں اور تیز رفتاری سے بچنے کی کوشش کریں ۔ تاکہ خود بھی محفوظ رہیں اور
مسافر بھی محفوظ رہیں ۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ اس وقت تک ہم روڈ ہر موٹر
سائیکل یاگاڑی نہیں چلے سکتے جب تک ہمارے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہ ہو ۔ مگر
ہم اس کو فلوہی نہیں کرتے ۔اور ہم ڈرائیور بنے پھرتے ہیں ۔
ہمارے ملک کے اندر 60فیصد لوگ موٹر سائیکل اور گاڑیاں چلاتے ہیں ۔اور
تقریباً 50%لوگوں کے پاس گاڑی چلانے کا ڈرائیونگ لائسنس ہی نہیں ۔ ان کو
کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ ایسے لوگوں سے سڑکیں بھری پڑی ہیں ۔ اور ہر روز ہم
اپنے پیاروں سے جدا ہو رہے ہیں ۔ وہ صرف ان لوگوں کی وجہ سے جو سڑکوں پر
ہمارے لئے بوجھ بنتے جا رہے ہیں۔اگر ان لوگوں نے اپنے اور اپنے بچوں کے
بارے میں نہیں سوچا تو ہم اپنے قیمتی جانوں سے ہاتھ دھوتے رہیں گے اور
ہماری وجہ سے بے قصور لوگ بھی مرتے رہیں گے ۔
میرا سوال موجودہ حکومت سے یہ ہے کہ ہمارے ملک کا ٹریفک نظام فلاپ کیوں ہو
چکا ہے ۔ یہ لوگ اپنی ڈیوٹی کو ڈیوٹی کیوں نہیں سمجھتے ۔کیا ان کوتنخواہیں
نہیں دی جاتیں یا پھر حکومت بھی اس میں ملوث ہے۔ کیوں لوگوں کو مرنے کے لئے
مجبور کر رہے ہیں ۔شہروں کے اندر مین شعاروں پر ٹریفک جام ہوتی ہے اور یہ
لوگ شہر سے دور اپنی جیبیں بھرنے کے لئے لوگوں کو لوٹ رہے ہوتے ہیں۔ کیا ان
کا کام ٹریفک کنٹرول کرنا ہے یا پھر عوام کو لوٹنا ، ان کو کوئی پوچھنے
والا نہیں ۔ ہمارے ملک کے اندر ڈرائیونگ لائسنس 5000ہزار میں باآسانی بن
جاتا ہے۔ بغیر کسی ٹریننگ اور ٹیسٹ کے ۔ کیا یہ قانون ہے ہمارے ملک کا ۔
اگر ایسا ہوتا رہے گا تو پھر ہمارے بچوں اور ہمارے لوگوں کا اﷲ ہی مالک ہے
۔اداروں میں چھپے ایسے لوگ عوام کو کوئی ریلیف نہیں بلکہ ان کے ساتھ زیادتی
کر رہے ہیں صرف پیسوں کے لالچ میں ۔ ان پیسوں سے ہم کب تک اپنا پیٹ بھریں
گے ۔ رشوت لینے اور اپنی ڈیوٹی سے ناانصافی کر کے ہم کون سے محل بنا لیں
گے۔ مگر ان کے بارے میں کوئی سوچتا ہی نہیں ۔ جس کی وجہ سے آج ہمارے روڑ
لہولہان ہو چکے ہیں۔ گھروں کے گھر اجڑ چکے ہیں ۔اور ہم کوکوئی پرواہ ہی
نہیں۔ یہ میری ایک تجویز تھی شاید کہ آپ سب پاکستانیوں کے کام آ سکے ۔ اﷲ
پاک ہم سب کو محفوظ رکھے ۔ آمین ۔ |
|