دنیا میں ہمارے علاوہ شاید ہی کوئی اور قوم
ہو جسے اپنی زبان اور ثقافت کے حوالے سے احساس کمتری ہو ۔ اپنا لباس پہننے
میں ہچکچاہٹ اور اپنی زبان بولنے میں شرمندگی کااحساس صرف ہمیں ہی ہوتا ہے۔
ہمارے بالا دست طبقے اور بیوروکریسی کو نجی محافل میں بھی شلوار قمیض پہننے
میں شرم محسوس ہوتی ہے۔ ہم اردو اور اپنی مادری زبان سے نفرت بھرا سلوک روا
رکھتے ہیں۔ اس سے زیادہ شرمناک قدم اور کیا ہوسکتا ہے کہ بیکن ہاؤ س سکول
سسٹم جس کے سکول پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے ہیں، اس نے پنجابی کو ایک گندی
زبان قرار دیتے ہوئے اپنے سکولوں میں اس کے بولنے پر پابندی عائد کردی ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ پنجابی پاکستان کے پچاس فی صد لوگوں کی مادری زبان ہے
جس میں اس ادارے کے مالکان، منتظمین اور اساتذہ بھی شامل ہیں۔ کیا وہ اور
ان کے والدین یہ گندی زبان بولتے ہیں۔ کوئی بھی زبان گندی یا اچھی نہیں
ہوتی بلکہ اس کا ستعمال اسے اچھا یا برا بناتا ہے اور یہ ہرزبان کے ساتھ
ایسا ہی ہے۔پنجابی تو ایک طرف رہی پاکستان میں کئی ایک سکول ایسے بھی ہیں
جہاں قومی زبان اردو بولنے پر بچوں کو جرمانہ کیا جاتا ہے۔بد قسمتی سے
غلامانہ ذہنیت ہمارے لوگوں کی رگ رگ میں سرایت کرچکی ہے اور وہ یہ سمجھتے
ہیں کہ انگریزی زبان ہی ترقی و خوش حالی کی ضامن ہے۔ دنیا کا کون سا ملک ہے
جس نے اپنی زبان چھوڑ کر کسی دوسری زبان کو ذریعہ تعلم بنا کر ترقی کی۔
کوریا، جاپان، چین اور یورپی ممالک نے انگریزی ذریعہ تعلیم کے بغیر ہی ترقی
کی ہے۔ایک کروڑ سے کم آبادی کے ملک سویڈن نے اپنی زبان کودفتری اور ذریعہ
تعلیم بنایا ہوا ہے یہی وجہ ہے سائنس، ٹیکنالوجی اور معاشی میدان میں عالمی
سطح پر صف اول میں کھڑا ہے۔ کسی بھی حکومتی ادارے ، سرکاری اہل کار یا کہیں
بھی خط و کتابت کریں تو جواب ہمیشہ سویڈش زبان میں ملے گا۔ناروے، ڈنمارک،
فن لینڈ، آئس لینڈ، ہالینڈاور بیلجیئم چھوٹے چھوٹے ممالک ہیں لیکن اپنی
زبان کو انہوں نے اپنایا ہوا ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہیں۔ ہمارے
پڑوس میں ایران ہے جس نے اپنی قومی زبان کو تعلیمی اور دفتری سطح پر رائج
کیا ہے بلکہ وہ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی زبان میں بات کرنے میں فخر
محسوس کرتے ہیں۔آئین پاکستان کی دفعات کے باوجود اردو کے نفاذ کی تمام تر
کوششیں لاحاصل ہیں اور سپریم کورٹ کا اس بارے میں فیصلہ بھی فائلوں میں دب
چکا ہے۔ مقتدرہ قومی زبان، اکادمی ادبیات اور دوسرے ادارے فعال کردار ادا
نہیں کرسکے۔ انگریزی سے مرعوبیت کا یہ عالم ہے کہ ہمارے بہت سے سفیر اپنے
ہم وطنوں سے اظہار خیال اور خطاب انگریزی زبان میں کرتے ہیں جسے سب سمجھ
نہیں پاتے۔ اعلیٰ سرکاری عہدیداران عام گفتگو کرتے ہوئے بھی انگریزی کے
الفا ظ اور جملے بے تکے انداز میں ادا کرتے ہوئے اپنی علمیت اور ماڈرن ہونے
کا رعب دیکھاتے ہیں۔ احساس کمتری کے اس رویہ نے صورت حال یہ پیدا کی ہے جس
کی روش میں سب بہے جارہے ہیں۔ اردو کی تدریس کا یہ عالم ہے کہ وفاقی وزارت
تعلیم کے تحت او لیول پر سکولوں میں اردو کی نصابی کتاب پڑھانے پر توجہ ہیں
نہیں دی جاتی جس سے بچے زبان کیا سیکھیں گے۔نصابی کتابیں بھی غیر ملکی
اداروں کی پڑھائی جارہی ہیں۔ کیا ہمارے اہل علم اپنے بچوں کے لئے نصابی
کتابیں بھی نہیں لکھ سکتے ۔ پاکستان رائج تعلیم نظام سے جو نسل تیار ہورہی
ہے اس کی زبان نہ اردو ہوگی اور نہ ہی انگریزی بلکہ کوئی عجیب سا ملغوبہ
ہوگی۔
کوئی بھی زبان علمیت کی نشانی نہیں ہوتی بلکہ یہ علم حاصل کرنے کا ایک
ذریعہ ہے۔دنیا بھر کے ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ بچوں کو تعلیم ان
کی مادری زبان میں ہی دی جائے لیکن کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ دوسری زبانوں
سے نابلد رکھا جائے۔ بچوں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ بیک وقت ایک سے
زیادہ زبانیں سیکھ سکتے ہیں۔ سویڈن میں اس حوالے سے تحقیق ہوئی ہے کہ جن
بچوں کی مادری زبان اچھی ہوتی ہے وہ دیگر زبانیں بہت بہتر سیکھتے ہیں اسی
لئے سویڈن میں بچوں کی مادری زبان پر بہت توجہ دی جاتی ہے اور والدین سے
کہا جاتا ہے کہ گھروں میں بچوں کے ساتھ اپنی مادری زبان میں ہی بات کریں۔
حکومت نے مادری زبانوں کو اپنے تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا ہوا ہے اور اس
مقصد کے لئے اساتذہ بھرتی کئے گئے ہیں جو سکولوں اور کالجوں میں بچوں کو ان
کی مادری زبان پڑھاتے ہیں۔ سویڈن میں پاکستانی بچے سکولوں اور کالجوں میں
اردو زبان پڑھتے ہیں۔ میٹرک کے امتحان میں اردو زبان کے نمبر دیگر مضامین
جیسے سویڈش زبان، انگریزی، سائنس اور ریاضی کے برابر ہیں اس لئے بچے اس پر
پوری توجہ دیتے ہیں۔ سکولوں سے لیکر جامعات تک ذریعہ تعلیم سویڈش زبان ہے
اور ساتھ انگریزی کو ایک زبان کے طور پر پڑھایا جاتا ہے بلکہ ایک اور یورپی
زبان بھی بچوں کو سیکھائی جاتی ہے۔مادری زبان پر توجہ اور ذریعہ تعلیم اپنی
قومی زبان یعنی سویڈش یہاں کے تعلیم نظام کی بنیاد ہے اور جہاں تک انگریزی
زبان کا تعلق ہے پورے یورپ میں برطانیہ اور آئرلینڈ کے بعد سویڈش بچوں کی
انگریزی سب سے بہتر ہے۔سویڈن میں پورے ملک میں ایک ہی نصاب تعلیم ہے جسے
تعلیمی اتھارٹی تیار کرتی اور نافذ کرتی ہے۔ سرکاری اور نجی شعبہ کو ایک ہی
نصاب تعلیم پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں ارباب اختیار اور ماہرین
تعلیم کو سوچنا چاہیے اور دنیا کے ترقی یافتہ اقوام سے سبق سیکھتے ہوئے ایک
قومی تعلیمی پالیسی بنائی جائے۔ مادری زبانوں کی اہمیت کے ساتھ اردو ذریعہ
تعلیم وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انگریزی زبان کی تدریس بھی توجہ مرکوز رہنی
چاہیے اور اسے ایک مضمون کے طور پر لازمی پڑھانا چاہیے۔ سب سے ضروری یہ ہے
کہ پورے ملک میں ایک تعلیمی نصاب ہونا چاہیے اور اس کا نفاذ یقینی بنانے کی
ضرورت ہے۔ حکومت پنجاب کو اس توہین آمیز حرکت کا نوٹس لینا چاہیے اور پنجاب
بھر میں بیکن ہاؤ س کے سکولوں میں زیر تعلیم طلباء کے والدین کو شدید
احتجاج کرنا چاہیے جب تک کہ بیکن ہاؤ س کا دارہ اس پر معافی نہ مانگے۔
|