ملک میں منشیات کا آزادانہ استعمال…… روک تھام کی سخت ضرورت

نشہ ایک ایسی لعنت ہے جو انسان کو دین و دنیا سے بے خبر اور حواسِ خمسہ سے بے پروا کر دیتا ہے۔ انسانی صحت پر جان لیوا اثرات چھوڑتا ہے اور رفتہ رفتہ انسان موت کی طرف سرکتا چلا جاتا ہے۔ منشیات کے سدِباب کے لیے مختلف ممالک میں سخت قوانین اور سزائیں موجود ہیں۔ سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں منشیات سمگل کرنے کی سزا موت ہے۔ منشیات پاکستان اور اس جیسے دیگر ممالک کے نوجوانوں کی زندگی اور قوم کے مستقبل کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں، کیونکہ اس لت میں مبتلا ہونے والے افراد میں نوجوانوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ اس رجحان سے جہاں نوجوانوں کی صحت پر انتہائی مہک اثرات پڑھ رہے ہیں، وہیں ان کی پڑھنے لکھنے اور کام کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کے باعث طلبہ کی ذہنی صلاحتیں بالخصوص یادداشت بہت زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔ بد ھ کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں خصوصی مہمان ڈاکٹر ماریہ سلطانہ نے کمیٹی کو بتایا کہ گزشتہ سال اسلام آباد کے44 نجی اور سرکاری اسکولوں کا سروے کیا، اسکولوں میں 44 سے53 فیصد بچے کسی نہ کسی منشیات کے عادی ہیں۔ اسلام آباد میں بڑے نجی تعلیمی اداروں کے نصف سے زیادہ بچے اسکولوں میں ہی سرعام استعمال منشیات استعمال کرتے ہیں۔ 8 سال تک کے بھی اکثر بچے منشیات کے عادی بن چکے ہیں۔ منشیات کے عادی بچوں کو اساتذہ یا ان کے ساتھی بچے منشیات فراہم کر رہے ہیں، منشیات اسکولوں کی کینٹین اور ٹھیلوں سے بھی ملتی ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی داخلہ میں معاملہ زیر غور آیا تو سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ کمیٹی کو پرائیویٹ این جی او سا سی کی سربراہ ماریہ سلطان نے بتایا کہ امیر لوگوں کے زیادہ تر بچے منشیات کے عادی ہو چکے ہیں۔ چیئرمین کمیٹی رحمان ملک کہتے ہیں کہ پاکستان میں ایک کروڑ افراد منشیات کے عادی ہیں، اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں بھی یہ لعنت پہنچ چکی ہے۔ ہر اسکول کو ڈرگ فری سرٹیفکیٹ جمع کرانا ہو گا۔ یہ دہشت گردی سے بڑا مسئلہ ہے۔ سینیٹ کمیٹی کے اجلاس میں چشم کشا انکشافات نے ارکان کے رونگٹے کھڑے کر دیے۔ کمیٹی نے تمام متعلقہ اداروں سے پندرہ دن میں مکمل رپورٹ کے ساتھ تمام آئی جی، چیف سیکرٹری اور ہوم سیکرٹری کو طلب کرلیا۔ دوسری جانب پاکستان میں شیشہ کیفوں کی تعدادمیں دن بدن ہوشربااضافہ ہورہاہے جس میں نوجوان لڑکے اورلڑکیاں دیدہ دلیری کے ساتھ شیشے کااستعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ ملک میں شیشے کی روک تھام کے لیے عدالت کی جانب سے حکم دیا جاتا رہا ہے،لیکن تاحال ان احکامات پر عمل نہیں ہوسکا ہے۔ان شیشہ کیفوں کے خلاف جب بھی پولیس کارروائی کرتی ہے تو بااثر شخصیات کے کیفوں پر روٹین کا دورہ کر کے واپس آ جاتی ہے، لیکن نہ تو وہاں سے کسی کو گرفتار کیا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی مقدمہ درج کیا جاتا ہے، بلکہ کیفے کی انتظامیہ کو ہوشیار رہنے کا کہہ دیا جاتا ہے، جس پر شیشہ کیفوں کے مالکان وقتی طور پر کیفے کے عقب میں واقع کھلی جگہوں، خفیہ کمروں یا چھتوں پر شیشے کو منتقل کر دیتے ہیں۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے شیشہ نوشی کے خلاف از خود نوٹس کیس نمٹاتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو شیشہ نوشی کلچر کی حوصلہ شکنی کے لیے مربوط مانیٹرنگ نظام قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔

تعلیمی اداروں میں بڑی تعداد میں بچوں کا منشیات کا استعمال کرنا انتہائی خطرناک ہے، جو نہ صرف خود بچوں کے لیے نقصان دہ ہے، بلکہ ان کے والدین اور پورے ملک کے لیے بھی بہت خطرناک امر ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے سخت نوٹس لینا چاہیے۔ شیشہ اور دیگر منشیات پر مشتمل مصنوعات بنانے والی کمپنیاں لاکھوں ڈالر ایسے پرکشش اشتہارات پر خرچ کرتی ہیں جن میں نشے کو ایک فیشن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ کمپنیاں نوجوان صارفین کو خاص طور پر ہدف بناتی ہیں۔اگر کوئی نوجوان برے دوستوں کی صحبت سے بچ جائے تو اس کے سامنے ان پرکشش مگر مہلک نتائج کے حامل اشتہارات کا جال ہوتا ہے جس سے بچنا مشکل ہوتا ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کسی بھی صورت اپنی منشیات کی صنعت کو زوال پذیر نہیں دیکھنا چاہتا۔ اس بے رحم مارکیٹ کواس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ان کا یہ کاروبار انسانیت کو تباہی کے دہانے کی جانب دھکیل رہا ہے۔حکومت کو منشیات کے پھیلاؤ کے اسباب کا سد باب ضرور کرنا ہوگا، بصورت دیگر اس کے بھیانک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، کیونکہ منشیات کا استعمال انتہائی خطرناک ہے، جس سے ہر سال ایک بڑی تعداد جان کی بازی ہار جاتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد سات ملین ہے۔ مشہور امریکی جریدے ’فارن پالیسی‘ کی دنیا بھر میں منشیات کے استعمال سے متعلق ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال ڈھائی لاکھ افراد منشیات کے استعمال کے نتیجے میں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان کی مجموعی آبادی اور اس میں منشیات کے عادی افراد کے تناسب کے لحاظ سے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت منشیات کی روک تھام کے لیے جتنی بھی کوششیں کر رہی ہے، وہ ابھی تک کافی ثابت نہیں ہوئیں اور ان میں مزید اضافے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں منشیات استعمال کرنے والے شہریوں کی تعداد کتنی ہے، اس بارے میں وفاقی یا صوبائی حکومتیں کوئی سالانہ اعداد و شمار جمع کرنے کے لیے کوئی ریسرچ نہیں کرواتیں۔ UNODC کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں منشیات اور نشہ آور ادویات کا غیر قانونی استعمال کرنے والے افراد کی تعداد سڑسٹھ لاکھ ہے اور ان میں بھی سب سے بڑی تعداد پچیس سے لے کر انتالیس برس تک کی عمر کے افراد کی ہے۔ دوسرا سب سے بڑا گروپ پندرہ سال سے لے کر چوبیس سال تک کی عمر کے نوجوانوں کا ہے۔ ان قریب سات ملین افراد میں سے بیالیس لاکھ ایسے ہیں، جو مکمل طور پر نشے کے عادی ہیں۔

پاکستان میں منشیات کا استعمال کتنا بڑا مسئلہ ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں پچھلے دس سال میں دہشت گردی کے نتیجے میں قریب ساٹھ ہزار افراد مارے گئے، لیکن اس سے چار گنا زیادہ تعداد میں پاکستان ہی میں ہر سال منشیات کی وجہ سے انسانی ہلاکتیں دیکھنے میں آتی ہیں۔ پاکستان میں منشیات کی روک تھام کے ادارے اینٹی نارکوٹکس فورس کے ترجمان سمیع خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں منشیات کے عادی افراد ہیروئن کا استعمال اور شراب نوشی کثرت سے کرتے ہیں۔ منشیات کے استعمال سے مریضوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ زیادہ تر افراد اٹھارہ سے پچیس سال تک کی عمر کے نوجوان ہوتے ہیں، جن کا تعلق امیر گھرانوں سے ہوتا ہے۔ والدین بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے وقت دینے کی بجائے انہیں بے تحاشا پیسے تھما دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ غربت، دہشت گردی، ناانصافی اور ملکی حالات بھی منشیات کے استعمال میں اضافے کے رجحان کے بڑے اسباب ہیں۔ نوعمر افراد متجسس ہوتے ہیں اور اسی تجسس میں وہ نشہ آور اشیا استعمال کرتے ہیں، جن کے وہ بعد میں عادی ہو جاتے ہیں۔شیشہ، منشیات،تمباکو نوشی ،شراب نوشی وغیرہ یہ سب چیزیں انسان کیلئے جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔ یہ سب چیزیں پھیپھڑوں کی مستقل بیماری اور دل کے امراض کا بھی سبب بنتی ہیں۔منشیات کے استعمال سے کئی نئے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں جیسے کہ جلد کی خرابی، سانس کی بیماریاں، کپڑوں اور بالوں میں بدبو، کھیلنے کی صلاحیت میں کمی اور زخمی ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ منشیات کا استعمال جوڑوں کو آپس میں باندھنے والے ریشوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ شراب نوشی سے جسم کی اعضاء کی ہم آہنگی ختم ہونے لگتی ہے، اندازہ کرنے کی صلاحیت میں کمی آجاتی ہے، جسم میں سستی آجاتی ہے، نگاہ اور یاداشت میں کمی آجاتی ہے اور کچھ نہ یاد رہنے جیسے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ اخبارات اور دیگر ابلاغی ذرائع کو اس حوالے سے انسانیت دوستی اور ماحول دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے منشیات کی حوصلہ شکنی پر مبنی تحریریں اور ڈاکیومنٹریز چلانی چاہئیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور اگر اچانک ان کی صحت میں منفی تبدیلی یا تعلیمی کارکردگی میں کمی محسوس کریں تو فوراً اس کی وجہ جان کر مسئلہ کو شروع ہی میں حل کر دیں۔

دوسری جانب سندھ ہائی کورٹ نے سندھ بھر میں شراب کی دکانوں کو بند کرنے کا حکم دے کر احسن اقدام کیا ہے۔پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سمیت سندھ بھر میں شراب کی دکانوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس سجاد علی شاہ نے ڈائریکٹر جنرل ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کو حکم دیا کہ وہ صوبے میں موجود تمام میخانوں کے اجازت ناموں کا ازسرنو جائزہ لیں اور ان میں سے جو بھی حدود آرڈینینس 1979 کی خلاف ورزی کے مرتکب ہیں انھیں دو روز کے اندر بند کیا جائے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ مصطفٰی مہیسر کے مطابق پاکستان میں میخانوں کے لائسنس حدود آرڈینینس کی دفعہ 17 کے تحت جاری کیے جاتے ہیں جس میں یہ صاف لکھا ہوا ہے کہ یہ اجازت نامے صرف غیرمسلموں کو ان کے مذہبی تہوارکے موقع پر شراب فراہم کرنے کے لیے ہیں۔ عدالت میں ڈی جی ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن شعیب احمد صدیقی کی جانب سے میخانوں کے لائسنس کے اعداد و شمار جمع کروائے گئے جس کے مطابق صرف کراچی میں 120 مے خانے موجود ہیں جس میں صرف ضلع جنوبی میں 24 مے خانے ہیں۔ ادھر کیس میں ہندہ اور مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی مقدمے میں فریق بننے کی درخواست دائر کی ہے۔ درخواست میں شراب کی تیاری پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا۔ آتم پرکاش وفاقِ ہائے ایوانِ صنعت و تجارت کی اقلیتی کمیٹی کے سربراہ ہیں اور ہندو ہیلپ لائن نامی تنظیم کے صدر بھی ہیں۔ انھوں نے کرسچین ہیلپ لائن کے سلیم مائیکل کے ساتھ مشترکہ طور پر درخواست کی ہے کہ مسیحی اور ہندو مذہب بھی نشہ کرنے اور شراب کے استعمال کی اجازت نہیں دیتا، اس لیے اقلیتوں کے نام پر شراب کی فراہمی بند کی جائے۔ انھوں نے کہا کہ اگر کچھ مسلمان شراب پینا چاہتے ہیں تو پئیں مگر ہمیں بدنام نہ کریں کیونکہ جب ملازمت کی بات آتی ہے تو اقلیتوں کا کوٹہ 5 فیصد مخصوص ہوتا ہے مگر شراب 100 ہمارے نام پر ملتی ہے۔ بااثر افراد اور سیاستدانوں نے اپنے غیر مسلم ملازمین کے ناموں پر شراب کے لائسنس حاصل کررکھے ہیں۔

پاکستانی قانون میں شراب پر پابندی بھی عائد ہے، لیکن اس کے باوجود روز بروز ملک بھر میں شراب کا کاروبار دن دگنی رات چگنی ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ آئے روز اخبارات کی زینت بننے والی خبروں میں پڑھتے ہیں کہ کچی شراب پینے سے اتنے افراد مر گئے۔ اسلامی و قانونی طور پر جرم ہے مگر پھر بھی اس طرح کی خبریں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی نہیں تو کیا ہے؟ اس ضمن میں سندھ ہائیکورٹ قابل ستائش ہے بلکہ مبارک کی مستحق ہے، جس نے فوری طور پر تمام شراب خانوں کو بند کرنے اور شراب خانوں کے لائسنسز کو قانون کے مطابق ری چیک کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سالہا سال سے اقلیتوں کے نام پر مسلم آبادی میں شراب کا کاروبار چمکتا اور پروان چڑھتا رہا لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، کسی نے سوچا نہ نوٹس لیا کہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس کو کیسے روکا جائے۔ اگر چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ حدود آرڈیننس اور شراب خانوں کے اجراء کے لیے سیکشن سترہ سامنے نہ لاتے تو شراب ہمارے معاشرے میں سرایت کرتی جاتی، جس کی اسلام میں سختی سے ممانعت ہے۔ شراب کاکاروبار صرف کراچی میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں آزادی کے ساتھ کیاجارہاہے جس پر سخت پابندی کی ضرورت ہے، حکومت کااس معاملے میں سختی اقدامات کرنا ہوں گے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700696 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.