آپ کیوں لکھتے ہیں؟
(عابد محمود عزام, Lahore)
کوئی بھی لکھاری دیگر فنکاروں اور ہنرمندوں
کی طرح ایک تخلیق کار، فنکاراور ہنرمند ہی ہوتا ہے، جو معاشرے کی تصویرکو
اپنے خیالات، نظریات اور فکر کے ذریعے قلم کی زبان عطا کر کے الفاظ کے روپ
میں ڈھالتا ہے۔ وہ جو دیکھتا اور سوچتا ہے، اسے الفاظ کے ذریعے دوسروں کے
ذہن پر ثبت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اسے ایسا کرنے پر اس کا احساس
مجبورکرتا ہے۔ لکھنے کا تعلق جبر سے نہیں، بلکہ تخلیق کار کی تمنا، آرزو،
خواہش، مرضی و منشا، شوق اور اس کے جذبات و احساسات سے ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ
ممالک میں لکھاری شوق کے باعث بھی لکھتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ان کو اچھا
خاصا معاشی فائدہ بھی حاصل ہو جاتا ہے، جو انھیں لکھنے پر اکساتا ہے۔ یہی
وجہ ہے ترقی یافتہ ممالک میں پیشہ ور لکھاری اپنا تمام وقت تصنیف و تالیف
کے لیے وقف کر دیتے ہیں اور اس سے بہت کچھ کماتے ہیں۔ یورپ میں کتابوں کی
اشاعت کے ابتدائی دور میں پیشہ ور لکھاریوں کی آمدنی کا دارومدار لکھنے پر
ہوتا تھا۔ یورپ اور امریکا میں پیشہ وارانہ تحریروں کی روایت بہت پہلے قائم
ہو چکی تھی۔
آج بھی مغربی ممالک میں کوئی لکھاری خود کو بے آسرا محسوس نہیں کرتا، لکھنے
کا فن ہی اس کی روزی روٹی کا سامان کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے، کیونکہ وہاں
پیشہ ور لکھاری اپنی تحریروں کے ذریعے اتنی آمدنی پا لیتا ہے جس سے وہ اپنا
گھر چلا سکے۔ جب ول ڈیورانٹ کی کتاب ’’داستان فلسفہ‘‘ کو مقبولیت ملی تو
مصنف نے تدریس کا شعبہ چھوڑ کر کل وقتی لکھاری بننے کا فیصلہ کر لیا۔
چنانچہ ڈیورانٹ اور اس کی اہلیہ اپنا تمام وقت لکھنے میں صرف کرنے لگے اور
انھوں نے اپنی کتابوں سے حاصل ہونے والی رائلٹی کی بدولت آرام دہ زندگی
گزاری۔ مشہور مغربی مصنف رابرٹ شیلر نے مغربی ادب و شعور کی منظرکشی کچھ
یوں کی کہ یہاں سب سے باعزت پیشہ قلمکاری سمجھا جاتا ہے۔ حکومت مصنفین کو
کبھی معاشی دباؤ کا شکار نہیں ہونے دیتی۔ عوام کا ادبی ذوق بھی ہمارے شوق
کو پروان چڑھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنا تحقیقی و تخلیقی کام مطمئن
طریقے سے کر پاتے ہیں۔ بلاشبہ مغرب کی ترقی کے پیچھے اہل قلم کا بڑا ہاتھ
ہے۔ پاکستان کا معاملہ ترقی یافتہ ممالک سے یکسر مختلف ہے۔ یہاں دولت مند
اور بااثر انسان کے سوا کم ہی لوگوں کو علم، فن اور ان کی صلاحیتوں کے
مطابق اہمیت دی جاتی ہے۔ عزت و مرتبے کا معیار وہ نہیں جو ایک باشعور قوم
میں ہوتا ہے، بلکہ یہاں انسان کو اس کی دولت اور طاقت کے ترازو میں تولا
جاتا ہے۔ ایک لکھاری کسی بھی معاشرے کا چہرہ ہوتا ہے، جو مشاہدے کی طاقت سے
معاشرے اور اس میں ہونے والے تمام افعال کو الفاظ کی تصویر پہناتا ہے۔
لکھاریوں کی اکثریت خود کو بے لوث معاشرے کے لیے وقف کیے رکھتی ہے، جس بنا
پر یقینا ان کو بہت ہی معزز اور قوم کا فخر ٹھہرنا چاہیے، لیکن یہاں معاملہ
جدا ہے۔ ایک ادیب، لکھاری اور دانشور سے زیادہ اہمیت دھاندلی اور طاقت کے
زور پر برسراقتدار آنے والے سیاست دان کو دی جاتی ہے، جب کہ یورپ و امریکا
میں سیاست دان کو صرف خادم ہی سمجھا جاتا ہے اور ایک دانشور اور رائٹرکو ان
سے زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ یہی سوچ بحیثیت مجموعی ہماری پوری قوم کی علم
و فن اور مطالعے سے دوری کا پتہ دیتی ہے اور یورپ کی ترقی اور ہماری تنزلی
کے اسباب کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہاں ایک لکھاری کو وہ کچھ حاصل
نہیں ہوتا جو کچھ حاصل ہونا چاہیے۔ پاکستان میں اگر کوئی شخص پیشہ ور
لکھاری بننے کی جرات کر ہی لے تو اسے ناصرف مالی مشکلات کا سامنا رہتا ہے،
بلکہ معاشرے کے دیگر طبقات اسے بے کار شعبے میں بھٹکتا غیر مفید شخص
گردانتے ہیں۔ لکھاری اور پبلشرکے تعلقات بھی خوشگوار نہیں رہتے۔ محنت اور
جدوجہد سے لکھتا تو لکھاری ہے، لیکن دولت پبلشر کماتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں تمام تر ناموافق حالات کے باوجود لکھاری ضرور لکھتا ہے۔
اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ ایک ایسا معاشرہ جہاں سیاسی و مذہبی جماعتیں
اپنے جلسے جلوسوں پر کروڑوں اربوں روپے تو اڑا دیتی ہیں، لیکن قوم کے
باصلاحیت، تخلیقی ذہن کے مالک اور تعلیم یافتہ افراد، لکھاریوں، ادیبوں اور
آرٹسٹوں کی زندگی میں کوئی آسانی لانے کی کوشش نہ کرتی ہوں۔ جس معاشرے میں
لاکھوں مداح رکھنے والے سرائیکی زبان کے ادیب شاکر شجاع آبادی کے پاس علاج
کروانے کے لیے پیسے نہ ہوں اور وہ بے بسی کی تصویر بنا چارپائی کے ساتھ لگا
ہو، لیکن نزلہ و زکام کی وجہ سے بھی بیرون ملک جا کر قوم کی دولت سے علاج
کروانے والے مکر و فریب کا عملی نمونہ حکمرانوں کو اس عظیم تخلیق کار کا
علاج کروانے تک کی توفیق نہ ہو، تو ایسے معاشرے میں ایک سوال ہر لکھاری کے
سامنے ہاتھ باندھے آ کھڑا ہوتا ہے کہ جناب معاشرہ آپ کا ساتھ دینے کو تیار
نہیں۔ حالات آپ کے موافق نہیں۔ سچ لکھنا اور بہت سے مکروہ چہرے بے نقاب
کرنا بھی آپ کے لیے آسان کام نہیں ہے، اس کے باوجود آپ کیوں قلم تھامے ہوئے
ہیں؟ کیوں چلتے پھرتے لکھنے کے لیے کچھ نئے کی تلاش میں ہوتے ہیں؟ آخر کیا
چیز آپ کو لکھنے کے لیے بے چین کیے رکھتی ہے؟ ہر لکھاری کو ان سوالات سے
ضرور واسطہ پڑتا ہو گا۔ ہر لکھاری کے ذہن میں اس کے جوابات بھی مختلف آتے
ہوں گے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایک جواب سب کے ذہن میں مشترک ہوتا ہے۔
آپ کیوں لکھتے ہیں؟ اس سوال کا شاید اس سے بہتر جواب کوئی نہ ہو کہ ایک
لکھاری کو لکھنے سے جو بے پناہ خوشی میسر آتی ہے، اس کو ایک لکھاری ہی
محسوس کر سکتا ہے اور یہی مسرت مسلسل قلم ہاتھ میں تھامے رکھنے پر مجبور
کیے رکھتی ہے۔ لکھنا احساسات کا نام ہے۔ اپنے ان احساسات کا اظہار کر کے
اسے ذہنی اور قلبی راحت میسر آتی ہے۔ جس طرح ایک مصور اپنا شاہکار تخلیق
کرنے کے بعد اطمینان اور خوشی محسوس کرتا ہے، اسی طرح ایک لکھاری اپنی
تخلیق کو کاغذ پر بکھرا دیکھ کر دلی خوشی محسوس کرتا ہے اور یہی وہ جذبہ
اور احساسات ہوتے ہیں جو ایک لکھنے والے کو آیندہ بھی لکھتے رہنے پر مجبور
کرتے ہیں۔
لکھنے کی یہی بے پناہ خوشی اسے مسلسل لکھنے پر اکساتی رہتی ہے۔ تحریر سے
حاصل ہونے والی راحت، مسرت اور تسکین ہی حالات موافق نہ ہونے کے باوجود بھی
مسلسل لکھنے پر مجبورکرتی رہتی ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ بہت سے
لکھاری دل کی آواز نہیں لکھتے، جس سے ان کو دلی خوشی میسر آئے، بلکہ لوگوں
کی واہ واہ سمیٹنے کے لیے وہی کچھ لکھتے ہیں، جو پڑھنا لوگ پسند کریں، چاہے
وہ لکھاری کی سوچ سے میل نہ کھاتا ہو۔ جو مذہب و سیاست کو بنیاد بنا کر
ایسی تحریریں لکھتے ہیں جن کو عوامی حلقوں میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہو،
تاکہ ان سے تنازعات جنم لیں اور لکھاری کو شہرت حاصل ہو۔
ایسے لکھاری یقینا قوم سے خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں، کیونکہ ایک رائٹر ایک
مصلح ہوتا ہے، جو عوام کی واہ واہ سمیٹنے کی خاطر ان کی غلط خواہشات پر
نہیں چلتا، بلکہ عوام کو درست راستے کی رہنمائی کرتا ہے، چاہے عوام کو
رائٹر کی بات کتنی ہی تلخ کیوں نہ لگے۔ اس قافلے میں چاہے کتنے ہی مفاد
پرست شامل ہو گئے ہوں، لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت برقرار ہے کہ اکثریت
ایسے لکھاریوں کی ہے جو صرف اس لیے لکھتے ہیں کہ ان کو لکھنے سے انمول خوشی
میسر آتی ہے، جس کو صرف ایک لکھاری ہی محسوس کر سکتا ہے۔
|
|