اﷲ رب العزت احکم الحاکمین ہے ، سارے جہاں
کا رب ہے ۔ اس نے انسانوں کو پیدا فرمایا اور ان کو اچھے برے کی پہچان
بتائی اور زندگی گزارنے کے اصول و ضوابط بھی بتائے ۔ الحمد ﷲ !ہم اﷲ اور اس
کے رسول پر ایمان لائے ،دین اسلام کے ماننے والے مسلمان ہیں، اہلِ اسلام کے
عقائد ، اعمال و ایمان کی بنیاد وحدت الٰہی اور نبوت محمد رسول اﷲ ہے۔اور
کلامِ الٰہی و فرموداتِ مصطفوی ہی مسلمانوں کے لئے دینی و دنیاوی اساس
(بنیاد) ہیں اور یہی مسلمانوں کے لئے Lawقانون کی حیثیت رکھتے ہیں۔چونکہ رب
العالمین کا بنایا ہوا قانون کبھی بدل نہیں سکتا کیونکہ اس نے سارے جہانوں
کو پیدا فرمایا ۔ وہ انسانی فطرت (Nature) و سارے معاملات کا جاننے والا ہے
اسی اعتبار سے اس نے بندوں کے لئے قوانین بنائے اور اس پر عمل کرنے کی
تاکید بھی فرمائی ۔(۱) اَطِیْعُوْ اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوْ الرَّسُوْل
(القرآن) اطاعت کرو اﷲ کی اور اطاعت کرو رسول کی ۔ اور یہ بھی اعلان فرمایا
کہ رب کا قانون بدلتا نہیں۔(۲)لاَ تَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہ ط ذَلِکَ
ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمْ۔(القرآن، سورہ یونس، آیت ۶۴) ترجمہ: اﷲ کی
باتیں بدل نہیں سکتیں یہی بڑی کامیابی ہے۔ (کنزا لایمان) خیال رہے کہ رب کے
قانون میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا، یعنی رب کے کام ہمیشہ حکمت سے بھرپور
ہوتے ہیں یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کا حکم حکمت سے خالی ہو۔ (تفسیر روح البیان
، تفسیر نور العرفان، صفحہ ۴۶۲،۶۸۰) رب تعالیٰ نے سارے انسانوں و مسلمانوں
کے لئے زندگی کے ہر شعبے میں طریقہ بتایا۔ الحمد ﷲ ہم مسلمان ہیں اس پر عمل
پیرا ہیں۔ جو لوگ نکاح و طلاق کے قوانین میں تبدیلی چاہ رہے ہیں ان میں
شیعہ حضرات اور اہلِ حدیث آگے آگے ہیں اور ہر روز نئی نئی سہولیات مذہبی
امور میں چاہتے ہیں۔ شریعت اسلامیہ پر عمل نہیں کرتے ۔ اپنی طبیعت پر عمل
کرتے ہیں ۔روزروز نئے نئے فتنے پیدا کرتے ہیں۔ ایسے ہی منافق اسلام ، میر
جعفر لوگوں کو لے کرموجودہ حکومت جو آر ایس ایس کی نظریات کی حامل ہے،اس کی
نگاہیں کہیں اورہیں۔ اورکندھا قانون کو بناکرنشانہ اسلام اور مسلمانوں کو
بنارہے ہیں جو کبھی بھی کامیاب نہیں ہوگا انشاء اﷲ!یکساں سول کوڈ اور دوسری
چاہتیں کبھی بھی اس ملک میں پوری ہونے والی نہیں۔ آئین نے ہندوستان میں ہر
مذہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی کی ضمانت دی ہے۔ ملک کو
چلانے کے لئے قانون ہوتا ہے۔ یوں تو ہمارا ملک ہندوستا ن15اگست 1947کو آزاد
ہوا لیکن ہمارے ملک ہندوستان کا اپنا قانون 26جنوری 1950کے دن سے لاگو ہوا۔
جب ہمارا ملک آزاد ہوا تو ڈاکٹر امبیڈکر کی رہنمائی میں دستور ساز کمیٹی
تشکیل دی گئی۔ اس کمیٹی نے قانون کو بنایا ۔ یادرہے انگریزی حکومت میں
مسلمانوں نے اپنے مسائل اسلامی طریقے پر حل کرنے کی درخواست دی تو انگریزی
حکومت نے مسلمانوں کی درخواست منظور کر لی اور شریعت ایکٹ 1937پاس کیا اور
اس کو لاگو کردیا۔ ڈاکٹر امبیڈکر کی دستور ساز کمیٹی نے شریعت ایکٹ1937کو
جوں کا توں برقرار رکھا ۔ اسی کو مسلم پرسنل لا (Muslim Personal Law) کہتے
ہیں جو آج بھی ہمارے عدالتی نظام میں موجود اور رائج ہے ۔ بھارت کا دستور
جب مرتب کیا گیا تو بنیادی حقوق(Fundamental Rights) کی دفعات
25-26-27-28-29-30میں ہر شہری کو مذہبی اور تہذیبی خصوصیات کے ساتھ رہنے کی
آزادی ہے۔ اپنے مذہب کی تبلیغ و ترویج کی آزادی ، مذہبی تقریبات کی آزادی،
اپنے مذہب، زبان اور اپنی تہذیب کے تحفظ اور فروغ کے لئے ادارے قائم کرنے
کی آزادی دی گئی ہے۔
26جنوری یومِ جمہوریہ قومی یادگار کے اظہار کا دن ہے ۔ ہر سال منایاجاتاہے۔
قانونی دن کومنانے کا مطلب ہے کہ لوگ قانون کے مطابق اپنے کو ڈھالیں اور
قانون پر چلیں نہ کہ لوگوں کی طبیعت کے مطابق قانون بدلا جائے تو قانون کا
مذاق بن کر رہ جائے گا ۔ حکومتیں بدلیں گی تو قانون بدلا جائے گا۔ الحمد ﷲ
مسلمانوں کا پرسنل لا قانون ِ الٰہی ہے جس کو بدلنے کی کسی کو ضرورت نہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(۳)سُنَّۃَ اللّٰہِ فِی الَّذِیْنَ خُلُوْ مِنْ
قَبْلْ ج وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلا۔ (القرآن سورہ احزاب
،آیت ۶۲) ترجمہ: اور اﷲ کا دستور چلا آتا ہے ان لوگوں میں جو پہلے گزر گئے
اور تم اﷲ کا دستو ہرگز بدلتانہ پاؤگے۔ (کنزالایمان)۔تین طلاق کو ختم کرنے
کی نیت ٹھیک نہیں کیونکہ اگر کوئی شخص غصے میں کسی کو قتل کردے تو حکومت
آئین کی دفعہ 302کو بدل دے گی تو آپ کہیں گے نہیں قانون توہر حال میں رہے
گا۔ قانون کی خلاف ورزی یا اس کا غلط استعمال روکنے کے لئے بیداری لانے کی
ضرورت ہے اور اس پر تمام لوگوں کو اپنا اپنا کردار ذمہ داری سے نبھانا
چاہئے۔ جو لوگ تین طلاق کے خاتمے اور یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا مطالبہ
کررہے ہیں ان کا تعلق شیعہ حضرات اور اہلِ حدیث حضرات سے ہے اور یہ لوگ
چاروں ائمہ میں سے کسی مسلک کو نہیں مانتے۔ چاروں ائمہ نے تین طلاق کے
معاملہ کی اجازت دی ہے۔ اسلام کے چاروں مسالک( حنفی، شافعی، مالکی اور
حنبلی) کے یہاں متفق علیہ مسئلہ ہے کہ تین طلاق ہی ہوتی ہے۔ بلکہ امام
بخاری کے نزدیک بھی یہی ہے۔ چھٹی صدی ہجری تک اہل تشیع کو چھوڑکر تمام
محدثین و فقہا کا یہی مسلک رہا ہے۔ چھٹی صدی ہجری کے بعد ابن تیمیہ نے یہ
نظریہ پیش کیا کہ تین طلاق ایک ہی طلاق ہوگی ۔ اسی وقت سے ان پر اور ابن
قیم پر اہلِ تشیع کے ساتھ تلبیس کا الزام لگاہے جو سچ بھی ہے ۔ آج بھی یہ
دونوں ساتھی ہیں۔ عہد ِ خلافت راشدہ اور اس کے بعد چھٹی صدی ہجری تک محدثین
کرام و فقہائے کرام کے نزدیک تین طلاق ہی ہوتی تھی۔ جس کے دلائل احادیث
رسول ﷺ میں بھی ہیں اور عہد ِ رسالت میں بھی تین طلاق نافذ ہوئی ہے۔ حضرت
عمر رضی اﷲ عنہ نے بھی تین طلاق کو تین مانتے ہوئے نافذ فرمایا ہے۔ البتہ
سزا بھی دی ہے۔ لہٰذا یہ نظریہ( Concept) کلیر ہوگیاکہ چاروں ائمہ (جو چھٹی
صدی ہجری سے بہت پہلے کے ہیں) کے نزدیک طلاق ِ ثلاثہ کا وقوع (سرزد ہونا)
ثابت ہے اور یہی نظریہ ان مسالک کا بھی ہے۔ غیر مقلد، شیعہ اس سے متفق نہیں
ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان کو یہ حق کہاں سے مل گیا کہ اس سے تعلق رکھنے والی
تمام عورتوں کے نمائندہ بن کر کھڑے ہوں۔ جب قانون نے اپنے مذہب پر چلنے کی
آزادی دی ہے تو ٹی وی اور میڈیا میں دین سے بیزار، آزاد خیال اوربے پردہ
باب کٹ بالوں والی اوراردو ترجمہ پڑھ کر دین سمجھنے والے لوگ بحث کرتے ہیں
اور لوگ انہیں بڑا دانش ور سمجھتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے دین اسلام شریعت
محمدی کی جانکاری ان کو ذرہ برابر نہیں ہے۔ دین کے بارے میں ایسے لوگ جاہل
بلکہ اجہل مطلق ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد باری
تعالیٰ ہے ۔ (۴)وَعِبَا دُ الرَّحْمِٰن الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی
الْاَرْضِ حَوْناً وَّ اِذَا خَاتَبُھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْ
سَلٰماً۔(القرآن سورہ فرقان، آیت ۶۳) ترجمہ: رحمان کے سچے بندے وہ ہیں جو
زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب بے علم جاہل لوگ ان سے باتیں
(ناپسندیدہ) کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے ہوئے الگ ہوجاتے ہیں۔ اس سے بڑی
جہالت اور دریدہ د ہنی (گستاخی، بدزبانی) کیا ہوگی جو خدا اور رسول کے حکم
کو بدلنے کی باتیں کر رہے ہیں ۔ الیعاذ باﷲ!
یہ میر جعفر اور دشمنِ اسلام لوگ مسلمان عورتوں کے بڑے بہی خواہ بن رہے ہیں
۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ جسٹس راجندر سچر کی قیادت میں بنائی گئی ۔ اسی کمیٹی
نے اپنی سفارش میں یہ بات کھل کرکہی ہے کہ مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی
بدتر ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ حکومت مسلمانوں کی حالت سماجی، تعلیمی اور
سیاسی طورپر بہتر بنانے کے اقدام کرتی لیکن اس کے بجائے تین طلاق اور یکساں
سول کوڈ کا معاملہ کھڑا کرکے خواہ مخواہ ہیجان پیدا کردیا اور اس میں نام
نہاد مسلمان منافقانہ اور غدارانہ کردار میر جعفر بن کر نبھارہے ہیں۔
26جنوری کا جشن مناکر ہندوستانی عوام کو یہ بتایا جاتاہے کہ وہ مکمل طور پر
آزاد ہیں اور ملکی قانون میں ان کو ہر طرح کا تحفظ حاصل ہے۔ لیکن حقیقت اس
کے بالکل بر عکس ہے نہ تو مکمل طور پر ملک ہی آزاد ہے نہ عوام ۔ بلکہ
انگریزی سامراج کی طرح آج بھی ذات پات، علاقہ اور مذہبی نفرت پھیلا کر اپنا
الو سیدھا کیا جارہا ہے ۔ اور اب تو حد ہوگئی کہ مذہبی معاملات میں بھی
ڈاکہ ڈالا جارہا ہے جو کہ انتہائی خوفناک اور تشویشناک بات ہے۔ مسلمانوں کو
چاہئے کہ تمام لوگ مل کر اس کی پر زور مخالفت قانونی دائرے میں کریں اور
قانونی لڑائی لڑیں اور گھبرائیں نہیں۔ اﷲ و رسول کے حکم کی خلاف ورزی نہ
کریں۔اﷲ حافظ وناصر ہے اس کے قانون کوکوئی بدلنے والاپیدا ہی نہیں ہوا ہے
نہ ہوگا۔ اس کا قانون دنیا جب سے قائم ہے چلا آرہا ہے اور آگے بھی چلے
گا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔(۵) سُنَّۃَ مَنْ قَدْ اَرْسَلْنَا قَبْلِکَ مِن
رُّسُلِنَا وَلاَ تَجِدَ لِسُنَّتِنَا تَحْوِیْلاً۔(القرآن سورہ بنی
اسرائیل، آیت۷۷)ترجمہ: ایسا ہی دستور ان کا تھا جو آپ سے پہلے رسول ہم نے
بھیجے اور آپ ہمارے دستور میں کبھی ردو بدل نہ پائیں گے۔ہم مسلمانوں کا جو
پرسنل لا ہے اسی پر قائم رہیں ،اﷲ سے ڈریں اﷲ سب راستہ آسان فرمائے گا اور
جو ضد پر رہے گا کہ ہم خدائی قانون کو نہیں مانیں گے تو ان کو دردناک عذاب
دے گا(۶)(القرآن سورہ بقرہ ،آیت ۲۰۶) ترجمہ: اور جب اس سے کہا جائے کہ اﷲ
سے ڈرو تو اسے اور ضد چڑھے گناہ کی ایسے کو دوزخ کافی ہے اور وہ ضرور بہت
برابچھونا ہے۔(کنزالایمان) دوسری جگہ ارشاد باری ہے۔(۷) القرآن سورہ آل
عمران، آیت ۱۷۵)ترجمہ: وہ تو شیطان ہی ہے جو تمہیں اپنے دوستوں سے ڈراتا
دھمکاتاہے۔ تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے (یعنی اﷲ) سے ڈرو اگر تم مومن ہو
،ایمان والے ہو۔ اس میں قیامت تک کے لئے مسلمانوں کو حکم دیاگیا اور قیامت
تک کے لئے مسلمانوں کی ہمت افزائی کی گئی ہے کہ تمام دشمنانِ اسلام ایمان
والوں کا کچھ بگاڑ نہیں سکیں گے ۔ مردانہ وار مقابلہ کریں،جذبات سے نہ
سوچیں نہ چلیں ، علم وعقل کو استعمال کریں انشاء اﷲ کامیابی ملے گی۔
اسے مل گئی جاوداں زندگی ٭ جو سعی مسلسل کا پابند ہے
ایمرجنسی کے دوران بریلی شریف میں شہزادہ اعلیٰ حضرت حضور مفتی اعظم مولانا
مصطفی رضا خاں علیہ الرحمہ نے نسبندی حرام کا فتویٰ صادر فرمایا اورکہا
حکومتیں بدل جاتی ہیں قانونِ الٰہی نہیں بدلتا اور وہی ہوا حکومت بدل گئی۔
ظالموں کا برا حال ہوا۔ اﷲ ہم سب کو عمل کرنے، سمجھنے کی توفیق دے ،بے حسی
سے دور ہوں ، جاگتے رہیں ، دشمنوں کی نیت اور نظر دونوں خراب ہیں۔
نہ یہ ظلم وستم ہوتا نہ یہ بے چارگی ہوتی ٭ حکومت کرنے والوں کی نیت نہ گر
بری ہوتی
پہنچنا چاند پر انسان کا ہے مسرور کن لیکن ٭ منور پہلے اپنے دل کی دور
تاریکی تو کی ہوتی
اﷲ ہم تمام مسلمانوں کو اسلام پر چلنے اور قائم رہنے کی توفیق رفیق عطا
فرمائے۔ آمین!( Yقانونِ الٰہی نہیں بدلتا حکومتیں بدل جاتی ہیں
|