ہندستان کی چند نمائندہ دینی شخصیات
(Ata Ur Rehman Noori, India)
تذکرہ ایک مرکب صنف ادب ہے۔ اصطلاحاً اس
لفظ کا اطلاق اس کتاب پر ہوتا ہے جس میں شعرا کے مختصر احوال اوران کا
منتخب کلام درج کیا گیا ہو علاوہ ازیں شعرا کے کلام پر مختصر الفاظ میں
تنقیدی رائے بھی دی گئی ہو ۔ سب سے پہلے شعراکے حالات میں جو تذکرہ لکھا
گیا وہ سر زمین ملتان میں ’’لباب الالباب‘‘ کے نام سے عوفیؔ نے لکھا ۔ یہ
روایت آئندہ زمانے میں بھی ایران سے زیادہ ہندستان میں برقرار رہی اور عہد
مغلیہ میں زبان فارسی میں کچھ اہم تذکرے لکھے گئے ۔ ’’طبقات اکبری‘‘ اور
’’منتخب التواریخ‘‘ وغیرہ میں معاصرین شعرا کے مستند ترین حالات ملتے ہیں ۔
تاریخوں کے علاوہ دوسرے فنون میں کتابیں بھی بحیثیت تذکرہ اہمیت رکھتی ہیں
اور ان میں ’’ ہفت اقلیم‘‘ کا نام سر فہرست ہے ۔ آخری مغل دور میں آرزوؔ
اور خوشگو ؔکے مستند تذکرے ملتے ہیں۔ اُردو ادب کی ابتداء فارسی کے علما
اور شعرا نے کی اور اُردو تذکرہ نگاری بھی فارسی تذکرہ نویسوں نے شروع کی
یا ان کے پیرو کاروں نے اس فن کو فروغ دیا ۔ چنانچہ عہد مغلیہ کے آخری
زمانے میں ہمیں ایسے تذکرے ملتے ہیں جن میں اُردو اور فارسی زبانوں کے
شاعروں کے حالات موجود ہیں اور اس کے بعد ایک ایسا عہد بھی آیا جب ایک ہی
تذکرہ نگار نے فارسی اور اُردو شعرا کے الگ الگ تذکرے لکھے اور یہی وہ
زمانہ بھی تھا جب مختلف مصنفین نے صرف اُردو شعرا کے تذکرے لکھے جن میں سر
فہرست اردوزبان کا پہلاتذکرہ ’’تذکرۂ گلشن ہند ‘‘ (مرزاعلی لطفؔ)،تذکرہ
شعرائے اردو(میرحسنؔ)،تذکرۂ گلشن بے خار(مصطفی خاں شیفتہؔ)،انتخاب
یادگار(امیر مینائی)،انتخاب دواوین (امام بخش صہبائیؔ ) ، آب حیات وسخن دان
فارس(محمدحسین آزادؔ)،تذکرۃ المعاصرین وسخن الشعراء (عبدالغفورنساخؔ)،تذکرہ
ماہ وسال وتذکرۂ معاصرین (مالک رام ) ، مجموعۂ نغز(قدرت اﷲ قاسم)،گل
رعنا(مولوی عبدالحئی) اور فارسی میں میرتقی میرؔ کا’’ نکات الشعراء‘‘ ،فتح
گردیزی کا ’’تذکرۂ ریختہ گویاں‘‘اور قیام الدین قائمؔ کا ’’ مخزن
نکات‘‘،محمد ابراہیم خلیل،لچھمی نرائن شفیق،قدرت اﷲ شوق اور غلام ہمدانی
مصحفیؔ وغیرہ کے تذکرے بھی کافی مقبول ہیں۔
اصولی طور پر تذکرہ ذکر کے معنی سے مربوط ہے ، عربی سے اُردو میں مروج ہونے
والا یہ لفظ مجرد حیثیت سے اُردو میں رواج پایا اور فارسی کے زیر اثر اُردو
ادب میں اس لفظ کو صنف کی حیثیت حاصل ہوئی۔ عام انداز میں تذکرہ بہ معنی
ذکر کے مروج ہے لیکن اصطلاحی اعتبار سے تذکرہ متعدد اشخاص کے حالات اور
کارناموں کو ایک کتاب میں جمع کرنے کی شہادت دیتا ہے۔ یعنی تذکرہ ایک ایسی
صنف ہے جس میں فن کے جلیل القدر اصحاب کی سوانح اور انفرادی خصوصیات کو
واضح کیا جاتا ہے ۔ اس اعتبار سے تذکرہ کا فن ایک کتاب کا محتاج ہوتا ہے
یعنی جب تک کئی اہم شخصیتوں کو مربوط نہ کیا جائے اس کی حیثیت تذکرہ نہ
ہوگی۔عام طور پر ایسی تمام تحریریں تذکرہ کے ضمن میں آئیں گی جن میں ایک سے
زائد شخصیات کے حالات اور کارنامے اکٹھا کرکے کتابی شکل میں جمع کردیے گئے
ہوں۔ اس عمل کے لئے لازمی نہیں کہ وہ شخصیتیں صرف ادبی حیثیت کی حامل ہوں
بلکہ مذہبی ، سیاسی، سماجی ، ثقافتی، غرض کہ ہر شعبہ حیات سے تعلق رکھنے
والے متعدد افراد کے حالات اور کارنامے کسی ایک کتاب میں جمع کردینا تذکرہ
کہلاتا ہے۔مذہبی شعبے میں سب سے پہلے حضرت مولانا مفتی محمود احمدقادری
رفاقتی مظفرپوری نے ہندوستان کے علماومشائخ اہل سنّت کاایک مستند تذکرہ
بنام ’’تذکرۂ علمائے اہل سنت‘‘(مطبوعہ کانپور،۱۹۷۱ء)لکھ کر قوم وملت کے
سامنے پیش کیا،اسی طرح مظفرپور (موجودہ ضلع سیتامڑھی)کے ایک فاضل جلیل
مولانامحمد الیاس مصباحی نے اپنے ضلع کے معروف وجدید علما ومشائخ کے احوال
وآثار پر مشتمل تذکرہ بنام ’’تذکرۂ علمائے اہل سنّت سیتامڑھی
‘‘تحریرکیا۔خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ کا ترجمان سالنامہ ’’اہل سنّت کی
آواز‘‘کے خصوصی شمارے بھی تذکروں کے باب میں بہت اہمیت کے حامل ہیں۔
اﷲ پاک نے علمائے ہند کو اتنابلند وبالامقام عطافرمایاکہ عرب کے علماو شیوخ
علمائے ہند سے درس حدیث اور اجازتِ حدیث کے متمنی رہے ہیں۔راقم اس مضمون
میں ہند کی سات نمائندہ شخصیات کا تعارف وخدمات کا اجمالی جائزہ پیش کرنے
کی سعادت حاصل کررہاہے۔یوں تو ہند کے ممتاز علماکی فہرست کافی طویل ہے مگر
محترم جسیم الحق یوسفی صاحب نے محض دس دنوں میں مضمون مکمل کرنے کاحکم صادر
فرمایاہے ،علم کی کمی اور وقت کی قلت کے سبب محض سات شخصیات کے نامکمل
تذکرے پر اکتفا کیاجارہاہے۔جس میں ایک شخصیت ولی باکمال،ایک عالمی خطیب
لاثانی،ایک عالمی مبلغ،ایک مسائل جدیدہ کامحقق،ایک صدرالعلماء تو باقی دو
لوح وقلم کے وارث ہیں،گویاکہ ہر ایک گوہرنایاب ہے۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
تاج الشریعہ مفتی اختر رضاخاں قادری ازہری مدظلہ العالی
زینت مسند رشدوہدایت ،نبیرۂ اعلیٰ حضرت جانشین مفتی اعظم تاج الشریعہ حضرت
العلام شاہ مفتی محمد اختر رضا خاں قادری برکاتی صاحب کی شخصیت عالم اسلام
میں محتاج تعارف نہیں۔آپ خانوادۂ رضویہ میں علم وعرفان اور دین ودانش کا
سرچشمہ ہیں،ہزاروں اساتذہ کے استاذ اور بے شمار فرزندان توحید کے ماویٰ
وملجا اورمجدداعظم سیدنااعلیٰ حضرت امام احمد رضاؔ قدس سرہ کے علم وفضل،
زہد و تقویٰ ،اخلاص ووفا اورتحقیق وتنقیح کے حقیقی وارث ہیں۔احقاق حق
وابطال باطل کا تحقیقی اندازآپ کوورثہ میں ملاہے۔عرب وعجم کے عوام وخواص آپ
سے حصول وفیض اور اکتساب برکت کے لیے مشتاق رہتے ہیں اور آپ کے چہرۂ تاباں
کی زیارت کوایمان کی تازگی کاذریعہ جانتے ہیں۔آپ اخلاق حسنہ اور صفات عالیہ
کا مرقع ہیں۔ حکمت و دانائی ، طہارت و پاکیزگی ،بلندیِ کردار،خوش مزاجی و
ملنساری ،حلم و بردباری ، خلوص و للّٰہیت،شرم و حیا،صبر و قناعت ،صداقت و
استقامت بے شمار خوبیاں آپ کی شخصیت میں جمع ہیں ،وہیں آپ زہد و تقویٰ کا
بھی مجسم پیکر ہیں۔آپ جہاں ایک عاشق صادق، باعمل عالم ،لاثانی فقیہ ،
باکمال محدث ،لاجواب خطیب ،بے مثال ادیب ، کہنہ مشق شاعرہیں وہیں آپ
باکرامت ولی بھی ہیں۔ کہا جاتا ہے استقامت سب سے بڑی کرامت ہے اور حضورتاج
الشریعہ دام ظلہ علینا کی یہی کرامت سب سے بڑھ کر ہے۔
٭نام ونسب :آپ کی ولادت باسعادت ۲۴؍ذی قعدہ ۱۳۶۲ھ مطابق ۲۳؍نومبر۱۹۴۳ء بروز
سہ شنبہ مبارکہ محلہ سوداگران رضانگر بریلی شریف میں ہوئی۔آپ کا سلسلۂ نسب
اس طرح ہے:’’محمداختر رضاخاں بن ابراہیم رضاخاں عرف جیلانی میاں بن حامد
رضا خاں بن امام احمدرضاخاں بن علامہ مفتی نقی علی خاں۔‘‘آپ حجۃ الاسلام کے
پوتے اور مفتی اعظم قدس سرہماکے نواسے ہیں۔
٭تعلیم وتربیت:چار سال چار ماہ چار دن کی عمر میں آپ کے والد ماجد مفسراعظم
ہند نے رسم ’’بسم اﷲ خوانی‘‘کی عظیم الشان تقریب منعقد فرمائی ۔تاجدارِ
اہلسنّت مفتی اعظم قدس سرہ نے رسم بسم اﷲ خوانی ادافرمائی۔قرآن پاک ناظرہ
والدہ مشفقہ سے پڑھا،اردوکی ابتدائی کتابیں والد ماجد سے پڑھیں ، اس کے بعد
دارالعلوم منظراسلام میں داخل ہوئے اور قابل فخر اساتذۂ کرام سے اعلیٰ
تعلیم کی تحصیل کی۔منظراسلام سے فراغت کے بعد مزیداعلیٰ تعلیم کے لیے
’’جامعہ ازہرمصر‘‘تشریف لے گئے اور وہاں ’’کلیۃ اصول الدین‘‘میں داخلہ لے
کر تفسیرواصول تفسیر،حدیث واصول حدیث،فقہ واصول فقہ اور عربی زبان وادب میں
کمال حاصل کیااور ۱۳۸۶ھ مطابق ۱۹۶۹ء میں سند سے نوازے گئے۔کرنل جمال
عبدالناصر (سابق صدرمصر)نے جامعہ ازہرایوارڈ اور سند امتیاز پیش کیا۔
٭بیعت وخلافت :آپ حضرت مفتی اعظم قدس سرہ سے بیعت وارادت کاشرف رکھتے
ہیں۔۲۰؍سال کی عمرمیں حضرت مفتی اعظم ہند نے ۱۵؍جنوری ۱۹۶۲ء مطابق ۱۳۸۱ھ کو
تمام سلاسل کی اجازت وخلافت سے سرفرازفرمایااور والد ماجد نے فراغت سے قبل
ہی اپنا جانشین بنادیاتھا۔حضرت برہان ملت قدس سرہ نے بھی آپ کو تمام سلاسل
کی اجازت عطافرمائی تھے۔سیدنااعلیٰ حضرت قدس سرہ کے پیرخانہ مارہرہ مقدسہ
کی دوعظیم الشان شخصیتوں نے بھی آپ کو اجازت وخلافت سے
سرفرازفرمایا۔(۱)سیدالعلماء حضرت سیدشاہ آل مصطفی سیدمیاں قدس سرہ(۲)احسن
العلما ء حضرت سید شاہ مصطفی حیدرحسن میاں قدس سرہ۔
٭اساتذہ کرام :آپ کے اساتذۂ کرام میں حضور مفتی اعظم الشاہ مصطفی
رضانوری،حضرت مفتی سیدمحم افضل حسین رضوی مونگیری،مفسر اعظم ہند حضرت مفتی
محمد ابراہیم رضا جیلانی،فضیلۃ الشیخ علامہ محمد سماحی(جامعۃ الازہر)علامہ
محمود عبدالغفار(جامعۃ الازہر)،ریحان ملت مولانامحمدریحان رضارحمانی رضوی
اور مولانامفتی محمد احمد عرف جہانگیرخاں رضوی جیسے جیدصاحبان کے نام شامل
ہیں۔
٭تدریسی خدمات:جامعہ ازہر سے فراغت کے بعد آپ دارالعلوم منظراسلام میں
تدریس کے فرائض انجام دینے کے لیے مامور ہوئے ۔ درس وتدریس کا یہ سلسلہ
مسلسل بارہ سال تک چلتا رہا۔تبلیغی اسفار اور بیعت وارشاد کی مصروفیات کے
باعث تدریس کایہ سلسلہ جاری نہ رہ سکامگرفتویٰ نویسی، تحقیق وتدقیق اور
تصنیف وتالیف کاجوسلسلہ بعد فراغت جاری فرمایاتھاوہ اب تک جاری وساری ہے۔
٭ممتازتلامذہ:جانشین مفتی اعظم کی تدریسی زندگی میں بے شمار طلبہ نے اکتساب
فیض کیا،تلامذہ کی تعداد خاصی زیادہ ہے ،دارالعلوم منظر اسلام بریلی کے
رجسٹر طلبہ سے حاصل کی جاسکتی ہے۔چند تلامذہ کے اسما یہ ہیں:مفتی سیدشاہد
علی رضوی،مولانامنان رضاخاں منانی میاں،مفتی ناظم علی بارہ
بنکوی،مولاناعسجد رضا خاں،مولانامظفرحسین کٹیہاری،مولاناوصی احمد
رضوی،مولاناشبیرالدین رضوی،مولاناایوب رضوی،مولاناشاہ الحمید الباقوی اور
مفتی عبیدالرحمن رضوی وغیرہ۔
٭حق گوئی وبے باکی :اﷲ رب العزت نے آپ کو جن گوناں گوں صفات سے متصف کیاہے
،ان میں ایک عظیم صفت حق گوئی اور بے باکی ہے۔آپ نے کبھی بھی صداقت وحقانیت
کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا،چاہے کتنے ہی مصافحت کے تقاضے کیوں نہ ہوں۔جب
کبھی بھی فتویٰ تحریر کیاتو اپنے اسلاف اور آباواجداد کے نقش قدم پر چلتے
ہوئے بلاخوف وخطر تحریر فرمایا۔حق گوئی کے شواہد آپ کے ہزاروں فتاویٰ ہیں
جو ملک اور بیرون ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔
٭تصنیف وتالیف:آپ اپنے جد امجد مجدد دین ملت سیدنا اعلی حضر ت رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ کے مظہر اتم اور پر تو کامل ہیں۔ حضور تاج الشریعہ میدان تحریر
میں بھی اعلیٰ حضرت کا عکس جمیل نظر آتے ہیں۔ آپ کی تصانیف و تحقیقات مختلف
علوم و فنون پر مشتمل ہیں۔تحقیقی انداز ،مضبوط طرزا ستدال ، کثرت حوالہ
جات، سلاست وروانی آپ کی تحریر کو شاہکار بنا دیتی ہے۔ آپ اپنی تصانیف کی
روشنی میں یگانۂ عصر اور فرید الدہر نظر آتے ہیں۔افتاء و قضا، کثیر تبلیغی
اسفار اوردیگر بے تحاشہ مصرفیات کے باوجود آپ تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری
رکھے ہوئے ہیں۔آپ کی تصانیف کی فہرست درج ذیل ہے جوتصانیف وتراجم اور
تعلیقات وتحقیقات پر مشتمل ہیں۔
٭اردو: (۱)ہجرت رسول(۲) آثار قیامت(۳) ٹائی کا مسئلہ(۴) حضرت ابراہیم کے
والد تارخ یا آزر(۵) ٹی وی اور ویڈیوکا آپریشن مع شرعی حکم(۶) شرح حدیث
نیت(۷) سنو چپ رہو(۸) دفاع کنز الایمان (۲؍جلد)(۹)الحق المبین(۱۰) تین
طلاقوں کا شرعی حکم(۱۱)کیا دین کی مہم پوری ہو چکی ؟ (۱۲)جشن عید میلاد
النبی (۱۳)سفینہ بخشش (نعتیہ دیوان )(۱۴) فضیلت نسب(۱۵)تصویر کا
مسئلہ(۱۶)اسمائے سورۃ فاتحہ کی وجہ تسمیہ(۱۷)القول الفائق بحکم الاقتداء
بالفاسق(۱۸) سعودی مظالم کی کہانی اختر رضا کی زبانی (۱۹)العطایاالرضویہ فی
فتاویٰ الازہریہ المعروف بہ’’ ازہرالفتاویٰ‘‘ (۵؍جلد)
٭عربی تصانیف:(۲۰) الحق المبین(۲۱)الصحابۃ نجوم الاھتداء(۲۲) شرح حدیث
الاخلاص(۲۳)نبذۃ حیاۃ الامام احمد رضا(۲۴)سد المشارع(۲۵)حاشیۃ عصیدۃ الشہدۃ
شرح القصیدۃ البردۃ(۲۶)تعلیقاتِ زاہرۃ علی صحیح البخاری(۲۷) تحقیق أن
أباسیدنا ابراہیم (تارخ)لا(آذر) (۲۸) مراۃ النجدیۃ بجواب البریلویۃ
(۲؍جلد)(۲۹) نھایۃ الزین فی التخفیف عن ابی لہب یوم الاثنین(۳۰)الفردۃ فی
شرح قصیدۃالبردۃ
٭تراجم: (۳۱)انوار المنان فی توحید القرآن (۳۲)المعتقد والمنتقد مع المعتمد
المستمد(۳۳) الزلال النقیٰ من بحر سبقۃ الاتقی
٭تعاریب:(۳۴)برکات الامداد لاہل استمداد(۳۵) فقہ شہنشاہ(۳۶) عطایا القدیر
فی حکم التصویر(۳۷)اہلاک الوہابین علی توہین القبور المسلمین(۳۸)تیسیر
الماعون لسکن فی الطاعون(۳۹) شمول الاسلام لاصول الرسول الکرام (۴۰)قوارع
القھارفی الردالمجسمۃ الفجار (۴۱)الہاد الکاف فی حکم الضعاف(۴۲)الامن
والعلی لناعیتی المصطفی بدافع البلاء(۴۳) سبحان السبوح عن عیب کذب
المقبوح(۴۴)حاجز البحرین الواقی عن جمع الصلاتین۔
علاوہ ازیں چند مضامین مفتی اعظم ہند ،علم فن کے بحرذخاراوررویت ہلال کا
ثبوت وغیرہ شامل ہیں۔
وعظ وخطابت: حضورتاج الشریعہ کو تقریروخطاب کا ملکہ اپنے والد ماجد سے ملا
ہے۔آپ کی تقریرانتہائی مؤثر، نہایت جامع ، پرمغز،دل پذیر،دلائل سے مزین
ہوتی ہے۔ آپ کی مادری زبان اردو تو ہے ہی مگر عربی اور انگریزی میں بھی آپ
کی مہارت اہل زبان کے لیے بھی باعث حیرت ہوتی ہے۔اﷲ تعالیٰ نے آپ کو کئی
زبانوں پر ملکۂ خاص عطا فرمایا ہے۔عربی کے قدیم وجدید اسلوب پر آپ کو ملکۂ
راسخ حاصل ہے۔
اعزاز:مئی ۲۰۰۹ء میں حضورتاج الشریعہ دام ظلہ کے دورۂ مصر کے موقع
پرکعبۃالعلم والعلماء جامعۃ الازہر قاہر ہ مصر میں آپ کے اعزاز میں عظیم
الشان کانفرنس منعقد کی گئی۔ جس میں جامعہ کے جید اساتذہ اور دنیا بھر سے
تعلق رکھنے والے طلباء نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کی انفرادیت یہ تھی کہ
برصغیر کے کسی عالم دین کے اعزاز میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی کانفرنس
تھی۔اسی دورہ مصر کے موقع پر جامعۃ الازہر کی جانب سے آپ کو جامعہ کا اعلیٰ
ترین اعزاز ’’شکر و تقدیر(فخر ازہر ایوارڈ)‘‘ دیا گیا۔
مفکر اسلام علامہ قمرالزماں خاں اعظمی کی دینی وملی خدمات
صوبہ اتر پردیش میں کئی وارثین انبیا جلوہ فرما ہوئے جنھوں نے چمن اسلام کی
آبیاری کے لیے بے پناہ جدو جہد کیں۔ تاریخ کے اوراق جن کی حیات وخدمات سے
روشن ہے۔ دیدۂ انسانی کو خیرہ کردینا والا ایک نام سیاح یورپ وامریکہ،ایشیا
وافریقہ،حضور مفکر اسلام حضرت علامہ قمرالزماں خاں اعظمی صاحب قبلہ دامت بر
کاتہم القدسیہ کا بھی آتا ہے۔ علامہ موصوف کو 2010ء میں حج کے دوران خانۂ
کعبہ کی اندرونی زیارت کا شرف حاصل ہے ۔2009 سے دی رائیل اسلامک اسٹریٹیجک
اسٹڈی سینٹر(جارڈن)پوری دنیامیں اثرورسوخ رکھنے والے پانچ سو مسلم افراد پر
مشتمل سروے رپورٹ پیش کررہاہے ۔۲۰۱۶ء کی سروے رپورٹ میں آپ کا نام بھی شامل
تھااور اُمید قوی ہے کہ مستقبل میں شائع ہونے والی تمام رپورٹ میں آپ کانام
موجود رہے گا۔حضور مفکر اسلام کی شان میں زبان وقلم سے کچھ اظہار کرناسورج
کو چراغ دکھانے کے مماثل ہے۔ علامہ موصوف اپنے علم ،تدبر، تفکر، تقویٰ
وطہارت، سادگی ومتانت، تواضع وانکساری، اور اپنے صاف وشفاف کردار وعمل کے
ذریعہ پورے عالم اسلام میں یکساں مقبولیت کے حامل ہیں۔بلکہ یہ کہا جائے تو
بے جانہ ہوگا کہ حسب ذیل شعر حضرت علامہ صاحب قبلہ کی شخصیت پر حرف بہ حرف
صادق آرہا ہے۔
اٹھائے کچھ ورق لالہ نے کچھ نرگس نے کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری
٭نام ونسب: 23؍مارچ 1946ء کو عبدالحمید عرف ناتواں ؔ کے علمی گھرانے میں
خطیب اعظم مفکر اسلام علامہ قمرالزماں خاں اعظمی صاحب (جنرل سکریٹری ورلڈ
اسلامک مشن،انگلینڈ)کی ولادت ہوئی۔
٭تعلیم وتربیت: ابتدائی تعلیم والد عبدالحمید خان اور دادا عبدالصمد خان سے
حاصل کی۔8؍سال کی عمر میں مدرسہ انوارالعلوم جین پور،اعظم گڑھ میں داخل
ہوئے۔1958ء میں مولوی کا امتحان الٰہ آباد بورڈ سے پاس کیا،اسی سال
دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور میں داخل ہوئے اور حصول علم کے بعد دستار فضیلت
سے نوازے گئے۔
٭بیعت وخلافت :1963ء میں سرکار مفتی اعظم ہند کے دست حق پر بیعت ہوئے۔
٭اساتذہ کرام :حضور حافظ ملت،بحرالعلوم مفتی عبدالمنان صاحب،علامہ عبدالرؤف
صاحب،علامہ ظفر ادیبی،قاری محمد یحییٰ،مولاناسیدحامد اشرف،مولانا شمس الحق
اور مولاناخلیل احمدصاحبان جیسے وقت کے جلیل القدر وممتاز علمائے کرام سے
اکتساب فیض کیا۔
٭تدریسی خدمات:حضور حافظ ملت کے حکم پر دس سال1964ء سے 1974ء تک روناہی ضلع
فیض آباد میں تدریسی خدمات انجام دی۔۱۹۷۴ء کے بعد سے آپ باضابطہ کسی مقام
پر تدریس کا فریضہ تو انجام نہیں دیتے ہیں مگر آپ کی ہر مجلس اور ہرمحفل
درس ونصیحت پر مبنی ہوتی ہے۔آپ کی ایک مجلس نے سیکڑوں زندگیوں میں انقلاب
پیداکیاہے۔
٭اخلاق واوصاف :د ین وملت کی خدمات کے باب میں حضور مفکر اسلام بڑے متحرک
وفعال ہیں ۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ دین وملت کی خدمت کا جذبہ آپ کی شریانوں
میں لہو کے ساتھ گردش کر رہا ہو۔ اخلاق واخلاص آپ کا علامتی نشان ہے اسی
لئے بیرون ممالک میں آپ کو ’’ابو الاخلاص‘ ‘کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔آپ
ہر وقت اسلام کے ارتقاء اور مسلمانوں کی زبوں حالی کے سد باب کی فکر میں
مصروف رہتے ہیں۔ مذہبی اعتبار سے مولوی ،مولانا ، حافظ،وقاری،ہوجانا آسان
ہے مگر قائد مذہب وملت ہوجانا ،قائد فکر ونظر ہوجانا یہ ہر انسان کے بس کی
بات نہیں۔ جب انسان ان مراحل سے گزرتا ہے تب دنیا اسے’’ مفکر اسلام‘‘ کہتی
ہے۔ مفکر اسلام محض آپ کا لقب ہی نہیں بلکہ سحیح معنوں میں یہ اسلام کے
عظیم مفکر اور قوم مسلم کے عظیم مدبر ہیں۔
٭تصنیف وتالیف:آپ کی ادارت میں ورلڈ اسلامک مشن کی جانب سے 1965ء میں
بریڈفورڈ سے ’’الدعوۃ الاسلامیہ ‘‘نامی رسالہ جاری ہواجو اَب بھی انگلش اور
عربی میں کراچی سے شائع ہورہاہے۔اس کے علاوہ 1986ء میں ’’حجاز
انٹرنیشنل‘‘کے نام سے ماہانہ پرچہ جاری ہوااور اس وقت جرمنی سے ’’صدائے
حق‘‘ اور ساؤتھ افریقہ سے ’’دی مسیج‘‘وغیرہ شائع ہورہے ہیں۔آپ کی نعتوں
کامجموعہ ’’خیابان مدحت‘‘کے نام سے شائع ہوچکاہے، مقالات ومضامین کامجموعہ
’’مقالات خطیب اعظم‘‘ کے نام سے اور تقاریر پر مبنی دو حصے ’’خطبات
مفکراسلام‘‘کے نام سے شائع ہوکر مقبول زد خاص وعام ہے۔ان کے علاوہ جمال
مصطفی،الاسلام والمسیحیۃ(عربی)،تفسیر قرآن الحکیم(چند پارے)اور حضور مفتی
اعظم آپ کے قلمی شاہکار ہیں۔
٭وعظ وخطابت:پوری دنیامیں منعقد ہونے والی اسلامی کانفرنسوں ،اجلاس اور
سیمینارس میں آپ بحیثیت مقررشرکت فرماتے ہیں۔آپ کی آمد بڑے بڑے اجلاس کی
کامیابی کی ضمانت بن جاتی ہے۔ حضور حافظ ملت کے یہ شاگرد عظیم جب منبر
خطابت پر جلوہ فرما ہوتے تب حضور مفتی اعظم ہند اور برہان ملت علیہما
الرحمہ والرضوان بھی آپ کے خطبات کو سراہتے ۔اپنے خطابات میں الفاظ کی
جاذبیت، کلام کی عظمت اور زبان کی فصاحت وبلاغت کی وجہ سے کئی سالوں سے
برطانیہ میں رہائش کے باوجود ہندوستانیوں کے دلوں پر حکومت کر رہے ہیں۔
مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں آپ کے خطاب کو سننے کے بعد طلبہ کہتے ہیں کہ
حضرت آپ کو تو علی گڑھ مسلم نیورسٹی میں اردو کا ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ ہونا
چاہیے۔ گلبرگہ شریف میں پروفیسرس آپ کے خطاب کے اختتام پر کہتے ہیں کہ
علامہ موصوف صرف زبان داں نہیں بلکہ زبان گو اور اردو ساز بھی ہیں۔ اور
رشاق کہتے ہیں کہ مقررین دوران تقریر عمدہ الفاظ بولنے کو ترستے ہیں اور
عمدہ الفاظ علامہ موصوف کی زبان پر آنے کو ترستے ہیں۔
٭ خدمات:آپ نے ضلع فیض آبادکے قصبہ روناہی کواپنی تعلیمی اور تعمیری خدمات
کے لیے منتخب فرمایااور واقعی تعلیم وتعلم کے لحاظ سے ایک بنجرزمین کو اپنی
محنت شاقہ اور انتھک جدوجہد کا نذرانہ دے کر علم وآگہی کاایک سدابہارگلستان
بنادیا۔ ’’الجامعۃ الاسلامیہ‘‘ نہ صرف یوپی میں بلکہ ہندوستان کی گنی چنی
چند مشہور درس گاہوں میں ایک مثالی ادارہ ہے۔ہند وبیرون ہندبالخصوص یورپین
ممالک میں آپ کے تلامذہ دین متین کی عمدہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔فیض
آبادمیں تدریسی دس سالوں میں آپ تدریس کے ساتھ ہندوستان کے تمام قابل ذکر
قصبات ،اضلاع اور صوبوں میں کانفرنسوں ، سیمینار اور اجتماعات میں بحیثیت
مقرر شریک ہوتے رہے۔
آؤ ڈھونڈیں اُس مالی کو جس نے قلم لگائی تھی
گل سے کھیلنے والویہ گلشن اک دن ویرانہ تھا
٭تنظیمی خدمات:1974ء میں رئیس القلم علامہ ارشدالقادری صاحب کی دعوت پر
ورلڈ اسلامک مشن کے سکریٹری کی حیثیت سے انگلینڈ پہنچے۔مانچسٹر (برطانیہ)
کی مرکزی مسجد کے آپ بانی اور خطیب وامام بھی ہیں۔ اس کے علاوہ آپ جامعہ
مدینۃ الاسلام (ہالینڈ) کے نائب صدر، النور سوسائٹی، ہوسٹن (امریکہ) کے
ٹرسٹی، ورلڈ اسلامک مشن کینیڈا اور ڈیلاس (امریکہ) کے ٹرسٹی، الفلاح یوتھ
موؤمنٹ، بریڈ فورڈ(امریکہ) کے بانی اور عالمی تحریک سنی دعوت اسلامی ممبئی
(انڈیا) کے سر پرست ہیں۔ایران،عراق،لیبیا، برطانیہ،ہالینڈ،
ناروے،بلجیم،ڈنمارک، فرانس،جرمنی، افریقہ، امریکہ کی تمام اسٹیٹس،ہیوسٹن،
ٹیکساس ،شکاگو،نیویارک اور ایشیائی ممالک میں مدارس،مساجداور مختلف اداروں
کا قیام فرمایااور امت مسلمہ کی دینی وملّی اصلاح کی غرض سے مذکورہ مقامات
پر تبلیغی دورے فرمائیں۔
٭ایوارڈ:۴؍اپریل ۲۰۱۱ء میں رضااکیڈمی ممبئی کے زیراہتمام ممبئی میں ایک
عظیم الشان پروگرام کاانعقاد ہواجس میں حضور مفکراسلام کی بے لوث خدمات
کااعتراف کیاگیااور ’’توصیف نامہ ‘‘اور ’’مفتی اعظم گولڈ میڈل ‘‘پیش
کیاگیا۔اس پروگرام میں علامہ موصوف کی حیات وخدمات پر مبنی مختلف قلمکاروں
کے مضامین کامجموعہ بنام ’’تجلیات قمر‘‘بھی شائع کیاگیا۔
٭اہم کارنامہ:سیاسیات کے تعلق سے ورلڈ اسلامک مشن کی یہ پالیسی رہی ہے کہ
پوری دنیامیں سیاسی پارٹیوں یاملکوں کے ایسے فیصلے جواسلام اور روحِ اسلام
سے متصادم ہوں،ان کے خلاف احتجاج کیاجائے اور مختلف اشاعتی ذرائع سے ان کی
غیراسلامی حیثیت کو واضح کیاجائے اور حکومتوں پر دباؤڈالاجائے کہ وہ اس طرح
کے فیصلے مسلمانوں پر مسلط نہ کریں۔دنیابھر میں درپیش ایسے مسلم مسائل پر
علامہ اعظمی صاحب اپنی منفرداور بے مثال خدمات انجام دے رہے ہیں۔
داعی کبیر حضرت مولانامحمدشاکرنوری رضوی
داعی کبیرحضرت مولانامحمد شاکر علی نوری دام ظلہ (امیر سنّی دعوت اسلامی)کی
حیات کا ہر گوشہ اورہر پہلوتابندہ وتابناک ہے۔مختلف اعتبار سے حضرت
مولانامحمد شاکر علی نوری کی حیات نمایاں اور گوناگوں خصوصیات کی حامل
ہیں۔دین پر استقامت ،شریعت مطہرہ پر ثابت قدمی،علم میں اعلیٰ مقام،فن خطابت
میں مہارت اورتصنیف وتالیف میں دسترس وغیرہ غرضیکہ ہر پہلو اچھوتااور منفرد
ہے۔ لیکن ان تمام خوبیوں پر مستزاد سب سے عظیم صفت جوآپ میں نمایاں وہ ہے
’’دعوت وتبلیغ کی تڑپ‘‘ - اور اس میدان میں آپ نے جوخصوص و امتیاز حاصل کیا
وہ بہت کم لوگوں کو میسرآتاہے۔ یہی وہ نمایاں و صف ہے جسے دیکھ کر حضور
مفکر اسلام نے آپ کو ’’داعی کبیر ‘‘کا عظیم لقب عطاکیا۔آپ کی حیات میں ہر
جگہ داعیانہ تڑپ ،تبلیغی بصیرت ، قوت اجتہادی اور مشن رسول صلی اﷲ علیہ
وسلم کی تکمیل کے لیے بے پناہ جدوجہد کے نمونے ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں ۔
بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ سنّی دعوت اسلامی کی سربراہی کرتے ہوئے پورے پچیس
سال آپ کی دیدہ وری ، تبلیغی بصیرت اور قائدانہ صلاحیت کا عظیم شاہکار ہے
تو غلط نہ ہوگا۔ہر پانچ سالوں پر دی رائیل اسلامک اسٹریٹیجک اسٹڈی
سینٹر(جارڈن)پوری دنیامیں اثرورسوخ رکھنے والے پانچ سو مسلم افراد پر مشتمل
سروے رپورٹ پیش کررہاہے۔۲۰۰۹ء ، ۱۵۔۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۶ کی کی سروے رپورٹ میں
مولاناموصوف کانام مسلسل آرہاہے۔آپ کو خانۂ کعبہ میں نماز اداکرنے کا شرف
بھی حاصل ہے۔مولانا شاکر علی نوری نے اپنے اصلاحی کاموں کی بدولت دنیا بھر
میں شہرت پائی، آپ مخلص داعی، کامیاب مصلح اور اہل سنت کے عظیم عالم دین
ہیں۔
٭نام ونسب : ۱۷؍مارچ ۱۹۶۰ء بمقام جوناگڑھ،کاٹھیاواڑ،صوبۂ گجرات میں عالی
جناب عبدالکریم میمن نوری کے یہاں مولاناشاکر علی نوری کی ولادت ہوئی۔آپ کے
یہاں اکابر اہل سنت کی تشریف آوری ہوتی رہتی تھی جس سے ہندوستان کے مشہور
علمااور مشائخ سے آپ کے گھرانے کے روابط کا پتہ چلتاہے۔
٭تعلیم وتربیت: ایس ایس سی (میٹرک)تک تعلیم جونا گڑھ میں حاصل کی ،مدرسہ
عرفان العلوم اپلیٹہ اور دارالعلوم مسکینیہ دھوراجی میں حفظ قرآن کیا۔ وہیں
تجوید وقراء ت کا کورس بھی مکمل کیا،اس کے بعد سنی دارالعلوم محمدیہ، متصل
مینارہ مسجد ممبئی میں داخل ہوئے اور جماعت خامسہ تک درس نظامی کی تعلیم
حاصل کی پھر تبلیغ کے میدان میں آگئے۔
٭اساتذہ کرام : حضور امیرمحترم کے چند اساتذۂ کرام یہ ہیں:حضرت مولانا غلام
غوث علوی ہاشمی، حضرت مولانا نور الحق ، مولانا محمد حنیف خان اعظمی
مبارکپوری، مولانا مجیب الرحمن صاحب قادری، حضرت مولانا ظہیر الدین خان ،
حضرت مولانا توکل حسین حشمتی،حضرت مولانا جان محمد برکاتی وغیرہ سے تعلیم
حاصل کی اور اشرف العلما حضرت سید حامد اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ سے
وقتاً فوقتاً استفادہ کرتے رہے۔
٭تدریسی خدمات:یوں تو آپ نے باضابطہ کسی مدرسے میں تدریس کی خدمات انجام
نہیں دی ہے اس وجہ سے کسی رجسٹرسے آپ کے تلامذہ کی تعداد نہیں معلوم کی
جاسکتی مگر آپ کی ذات بابرکت سے فیض حاصل کرنے والے ہزاروں کی تعداد میں ہے
جو پوری دنیامیں اپنی شان کے مطابق دین حنیف کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
٭ممتازتلامذہ:میدان دعوت وتبلیغ میں حضرت مولانامحمد شاکر علی نوری صاحب کی
صلاحیت،دینی خدمات اور اثرات اپنی جگہ،آپ کے تربیت یافتہ مبلغین میں مہارت
کا یہ حال کہ آج خصوصیت سے برصغیر اور دنیاکے مختلف علاقوں میں تحریک سنّی
دعوت اسلامی کے ذریعے آپ کے تربیت یافتہ علما،حفاظ اور مبلغین کی ایک بڑی
ٹیم دینی ،اصلاحی،ملی اور رفاہی خدمات انجام دے رہی ہیں۔آپ کے شاگردوں اور
فیض یافتگان میں کئی ایک ایسے مفتیان، علما،حفاظ اور مبلغین ہیں جن کی
مساعی جمیلہ سے کوئی ایک خطہ نہیں بلکہ گاؤں کے گاؤں، قصبوں اور شہروں کے
مکینوں کے ایمان وعقیدے کو تحفظ ملاہے۔
٭بیعت وخلافت مع:حضور پیرومرشد کو حضرت سیدی مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی
رضا قادری نوری علیہ الرحمۃ والرضوان سے شرف بیعت حاصل ہے اورسترہ صفر
المظفر۱۴۳۳ھ کوشہزادۂ حضورسیدالعلماء حسان الہندحضرت سید شاہ آل رسول حسنین
میاں نظمی مارہروی علیہ الرحمہ نے حضرت کو سلسلہ عالیہ قادریہ بر کاتیہ
قدیمہ وجدیدہ کی خلافت سے نوازااور خلافت عطا کرتے وقت فرمایاتھا :’’شاکر
بھائی!خوب لگن سے دین کاکام کرو،ذراسامغموم اور رنجیدہ نہ ہونا،یہ فقیر
برکاتی اور خاندان برکاتیت آپ کے ساتھ ہیں،میں آپ کو وہ خلافت دیتاہوں جو
حضرت نوری میاں علیہ الرحمہ نے حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کو دی
تھی،یعنی سلسلہ جدیدہ اور قدیمہ دونوں کی خلافت دیتاہوں-‘‘(اہل سنت کی
آواز،۲۰۱۴ء ،ص۴۳۴)
’’غور کیاجائے تو اس ایک جملے میں جہاں اعتماد،چاہت،اصاغر نوازی،اپنائیت
اور والہانہ سرپرستی کی رنگارنگی موجود ہے،وہیں اس میں تبلیغ دین اور اشاعت
مسلک حق کی مقبول بارگاہ خدمات اور دینی وعلمی اثرات کی دانش ورانہ پیشین
گوئی بھی عکس ریز ہے-‘‘(مرجع سابق)
الحمدﷲ! حضرت بھی نوری ہیں، آپ کی والدہ ماجدہ بھی نوری اور آپ کے والد
مرحوم بھی نوری تھے اور راقم الحروف بھی اسی سلسلۂ نوریہ سے منسلک ہے اور
آج تو ایک جہان اسی نور عرفان سے روشن ومنور ہے۔حضرت نے نوری پیر سے جو
اکتساب نور کیا وہ قابل رشک ہے ، مرشد بر حق کے فیضان نے انہیں سنت کا عامل
بھی بنا دیا اور شریعت کا عالمی مبلغ بھی۔
٭سجادگان وممتاز علماکے تاثرات:حضور نظمی مارہروی علیہ الرحمہ نے اپنا
نعتیہ مجموعہ ’’نوازش مصطفی‘‘تحریری دستخط کے ساتھ جب امیر سنّی دعوت
اسلامی کو بہ طور تحفہ عنایت فرمایاتو اس میں آپ نے اپنے دستخط کے ساتھ یہ
تاریخی جملہ قلم بند فرمایاتھا:’’اس مستانے کی نذر جسے اﷲ تعالیٰ نے ایک
ایسے مقدس کام کے لیے چناہے جو اس کے حبیب صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت ہے،یعنی
تبلیغ دین متین۔میری مراد علامہ شاکر نوری برکاتی سے ہے جنہیں میں اپنے
بھائی کی طرح چاہتاہوں-‘‘
(اہل سنت کی آواز،۲۰۱۴ء ،ص۴۳۴)
مولاناشاکر علی نوری صاحب نے ابتدا ہی سے زمینی اورانفرادی محنت پرخصوصی
توجہ مرکوز کیں جس کے سبب لاکھوں گم گشتگانِ راہ نے ہدایت پائی۔اس حقیقت کا
اعتراف کرتے ہوئے امین ملت پروفیسر سیدمحمد امین میاں برکاتی صاحب ( سجادہ
نشین آستانۂ قادریہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ ، وپروفیسر شعبہ اُردو مسلم
یونیورسٹی علی گڑھ)رقم طراز ہیں:
’’میں دِلی گہرائیوں سے مولانا شاکر رضوی صاحب اور ان کی تحریک ’’سنی دعوت
اسلامی ‘‘کے لیے دعاکرتا ہوں،نہ جانے کتنے گمراہ اس تحریک میں شامل ہوکر
صراط مستقیم پر گامزن ہوگئے۔اﷲ تعالیٰ مولانا کے علم وفضل ،جمال وکمال اور
تصلب دینی میں دن دونی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے ۔آمین-‘‘ (برکات شریعت
،حصہ اول ،ص۳۴)
اہل سنّت وجماعت کے مرکز روحانیت مارہرہ مطہرہ کے چشم وچراغ مشہور فکشن
رائٹر حضورشرف ملت حضرت علامہ سیدمحمد اشرف میاں صاحب برکاتی مارہروی(چیف
انکم ٹیکس کمشنر آف انڈیا، کولکاتا) دنیائے ادب میں اپنے مخصوص اسلوب اور
طرز تحریرکی بنیاد پر مقبول ہیں، امیر سنّی دعوت اسلامی کے نعتیہ مجموعۂ
کلام ’’مژدۂ بخشش ‘‘پر حضور شرف ملت اپنے تاثرات ان الفاظ میں تحریر فرماتے
ہیں:
’’امیر سُنی دعوت اسلامی مولانا حافظ و قاری محمد شاکر نوری رضوی کی شخصیت
اور تبلیغی کارنامے تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ لیکن آج ان کے ادبی اظہار سے
میرا پہلا باضابطہ سابقہ پڑا ہے اور اس کا ردِ عمل بہت دل خوش کن اور روح
کی گہرائیوں کو تر کرنے والا ہے۔․․․․․․ نعت کے میدان میں مولانا محمد شاکر
علی نوری کی سعیِ مشکور کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیے۔ لفظوں کا تناسب، معنی
کی وسعت، جذبوں کی فراوانی، مضامین کی بلندی، عاشق کی نیازمندی، طالب کا
عجز اور اشعار میں جاری و ساری ایک خاص قسم کی محتاط وارفتگی کے جلوؤں سے
آنکھیں خوب خوب ٹھنڈی ہوں گی۔‘‘ (مژدۂ بخشش ،مطبوعہ ممبئی،ص۵)
اسی طرح امیر سنّی دعوت اسلامی نے ملک و بیرون ممالک میں چمنستان سنیت کی
جو باغ وبہار لگائی ہے،ان خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے سنّی دعوت اسلامی کے
زیر اہتمام جاری علاقۂ خاندیش کی معیاری درس گاہ ’’دارالعلوم چشتیہ‘‘کے
سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے حضرت علامہ عبدالمنان رضامنانی میاں صاحب
نے تحسین آفرین کلمات ارشاد فرمائے،ملاحظہ کریں:’’پہلی مرتبہ مہاراشٹر کی
سرزمین پر ایسا ہواکہ امیر اہل سنت سنّی دعوت اسلامی کی جان، مسلک امام
احمد رضا خاں رحمۃ اﷲ علیہ کو پھیلانے والا انسان، نازش سنّیت، حضرت
مولاناحافظ قاری محمدشاکر علی نوری۔میں سمجھتاہوں کہ حضور مفتی اعظم ہند کی
روح بھی بہت خوش ہوگئی ہوگی۔اﷲ کا بڑافضل واحسان ہے کہ ان کے کام کو
نندوربار ہی میں نہیں دیکھا،منانی نے ان کے کام کو انگلینڈکی زمین پر بھی
دیکھاہے اور وہاں ان کے لندن کے پروگرام،لیسٹر کے پروگرام،لسبن کے
پروگرام،مانچسٹرکے پروگرام،پرسٹن کے پروگرام ۔علاقۂ عالم اسلامی میں منانی
گیااور ایک دو ملک نہیں،سولہ ملک میں۔الحمدﷲ!سولہ ملک میں جانا ہوا،کہیں
ہمیں بستر اٹھانانہیں پڑا،ہر جگہ بستر لگاہوامل گیا۔وہ بستر اٹھاتے پھرتے
ہیں جن کا کوئی نہیں،ہماراتو سب کچھ ہے :
کون دیتا ہے دینے کو منہ چاہئے
دینے والا ہے سچا ہمارا نبی
اﷲ کا بڑافضل واحسان ہے۔منّانی تو بعد میں گیا،پرسٹن،لسبن،بولٹن۔اعلیٰ حضرت
نے نمائندہ بناکر کے امیر اہلسنّت شاکر علی نوری کو پہلے بھیج دیا۔بعد میں
ہم گئے پہلے یہ گئے،سب بستر لگے لگائے مل گئے۔‘‘(۱۲؍اگست بروز منگل ۲۰۰۸ء
،نندوربارمہاراشٹر)
خانوادۂ اعلیٰ حضرت کے ایک ممتاز فرد کا یہ گراں قدر تاثر خصوصاً یہ
جملے:’’منّانی تو بعد میں گیا،پرسٹن،لسبن،بولٹن۔اعلیٰ حضرت نے نمائندہ
بناکر کے امیر اہلسنّت شاکر علی نوری کو پہلے بھیج دیا۔ ‘‘ مولانا شاکر علی
نوری صاحب کی بے پناہ مقبولیت پر دال ہے۔
٭اخلاق واوصاف :حسن اخلاق مومن کا جوہر ہے حضور داعی کبیر اس وصف سے متصف
ہیں اور فرائض و واجبات و سنن پر عمل میں منفرد المثال ۔اور آپ اپنی حیات
سے اسی کا درس بھی دے رہے ہیں۔ آپ کی زندگی کا ہر گوشہ شریعت اسلامیہ کی
پاسداری کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ آپ کی ایمانی جرأت کسی بھی قسم کی مصلحت کو شی
اور چشم پوشی سے مبرا ہیں ، خلاف شرع کام دیکھ کر فوراً اس کے ازالے کی
کوشش فرماتے ہیں۔ آپ معرفت الٰہی کے لیے فکرسازی اور عملی زندگی میں دینی
احکام کی جلوہ گری پر زوردیتے ہیں۔آپ کی دعوت پر لاکھوں افراد گمراہی اور
ضلالت کے اندھیرے سے نکل کر راہِ راست پر زندگی گزاررہے ہیں۔حضور امیر سنّی
دعوت اسلامی اپنی عملی زندگی سے اور شریعت وطریقت پر استقامت سے اصلاح
وتربیت کافریضہ انجام دے رہے ہیں۔ گویاکہ آپ یہ ذہن دے رہے ہیں کہ دعوت کی
راہ میں کرداروعمل کی مضبوطی اشد ضروری ہے۔اسی کرداروعمل کی پختگی کا نتیجہ
ہے کہ تنظیم سے وابستہ افرادعلم وعمل کی طرف ْخاطرخواہ توجہ مرکوزکررہے
ہیں۔
٭وعظ وخطابت:حضور قائد محترم خطابت و تقریرکے ساتھ ساتھ اپنی ہر مجلس میں
تلقین ونصیحت فرمایا کرتے ہیں ۔آپ کی ہر مجلس بذات خود ایک تبلیغی ادارہ
ہوا کرتی ہے ۔ آپ کی محفل میں زندگی او ربندگی کا سلیقہ عطا ہوتا ہے
۔ہزاروں بندگان خداآپ کے خطابات کی اثرآفرینی کے سبب شریعت اسلامیہ کی
روشنی میں زندگی گزاررہے ہیں۔سچ ہی کہاہے کسی نے کہ ہر چیز اپنی اصل کی طرف
لوٹتی ہے۔ہم نے اکثر لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ مقرر تو بہت ہیں ،فکری
گفتگوکرنے،اصلاحی بیانات کرنے والے وغیرہ مگرخطابت میں حضور امیر سنّی دعوت
اسلامی جیسی اثرآفرینی ہر جگہ مفقودہے،ہم نے انہیں یہی کہاکہ یہاں لوگوں کے
دلوں میں بات اس لیے اترتی ہے کیوں کہ یہاں بات دل سے نکلتی ہے
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
حضرت موصوف اپنی تقریروں کے ذریعے حرارت ایمانی اور علم وعمل کا جذبہ بیدار
کرتے ہیں۔آپ موقع ومحل کے اعتبار سے سادہ اور فصیح وبلیغ تقاریر فرماتے
ہیں۔آپ جا بجا اپنی تقریروں میں قرآنی آیات کا کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔آپ
کے اندازخطابت کو دیکھ کر حضور مفکر اسلام حضرت علامہ قمرالزماں اعظمی صاحب
جیسے عالمی شہرت یافتہ خطیب آپ کو خطیب اعظم،خطیب بے مثال اور خطیب
منفردالمثال جیسے القابات سے نوازتے ہیں۔ مفکراسلام کی زبانی دیے گئے ان
القابات سے حضور امیر سنّی دعوت اسلامی کے فن خطابت میں مہارت کا بخوبی
اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔
٭تصنیف وتالیف:امیر محترم کی تصانیف علوم و معارف کا گنجینہ اور خزینہ
ہیں۔ورق ورق میں محبت و خشیت الٰہی مسطور ہے تو سطر سطر سے عشق و ادب رسول
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نور بیز کرنیں دلوں کو منورو مجلا کرتی ہیں
۔طرز تحریر سادہ سلیس ، عمدہ اور رواں دواں ہے۔ آپ اپنا موقف قرآن و حدیث
کی روشنی میں اس انداز سے تحقیق کرکے مبرھن کرتے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی
ہے اور شک و شبہہ کی گنجائش نہیں رہتی ۔تقریباً 50؍ سے زائد مختلف موضوعات
پر آپ کی تصنیفات کا گراں قدر ذخیرہ موجود ہے ۔آپ نے ’’برکات شریعت‘‘ لکھ
کر راہ دعوت وتبلیغ کے مسافروں کے لیے بڑی آسانی کردی ہے۔آپ کی تحریر کردہ
چند کتابوں کی فہرست درج ذیل ہے۔(۱) برکات شریعت (درسی کتاب)(۲) برکات
شریعت برائے خواتین (درسی کتاب)(۳) تذکرۂ صالحات (۴) نوری اور ادو وظائف(۵)
ماہِ رمضان کیسے گزاریں ؟(۶) بچوں کو نصیحتیں(۷)حیات سلطان الہند خواجہ
غریب نواز(۸) حیات مفتی اعظم ہند کے تابندہ نقوش(۹) طریقۂ کار و ہدایت براے
مبلغین(۱۰) خواتین کے واقعات(۱۱) خواتین کا عشق رسول(۱۲) مسلم کے چھ
حقوق(۱۳) امام احمد رضا اور اہتمام نماز(۱۴،۱۵،۱۶) معمولات حرمین ( حج کیسے
کریں ؟ ، حج کیوں کریں ؟، آدابِ مدینہ )(۱۷) بے نمازی کا انجام(۱۸) عذاب
قبر سے نجات کا ذریعہ(۱۹) قوموں کی تباہی کا اصلی سبب(۲۳-۲۲-۲۱-۲۰) تحفہ
نکاح ( نکاح کا اسلامی تصور، حقوق زوجین،طلاق اور عدت کے احکام، جہیز کی
حقیقت)(۲۴) داعیان دین کے اوصاف(۲۵) موبائیل کا استعمال قرآن کریم کی روشنی
میں(۲۶) عظمت ماہِ محرم اور امام حسین (۲۷) گلدستۂ سیرت النبی صلی اﷲ علیہ
وسلم(۲۸) قربانی کیا ہے؟(۲۹) مژدۂ بخشش(۳۰) طریقہ عمرہ و آداب مدینہ (برائے
خواتین)(۳۱) Condemnation of Adultery (۳۲) Evils of Sodomy(۳۳) The Wisdom
of Namaz (۳۴) Islamic Rules (۳۵) اسلاف کا دورِ طالب علمی(۳۶) اسلام میں
ڈپریشن کا علاج(۳۷) کامیابی کے پانچ اصول(۳۸)برکات درودوسلام-
٭شاعری:حضور امیر سنّی دعوت اسلامی کی شخصیت علم وفن کے باب میں نیر درخشاں
اور شعر و سخن کی فصل میں بدر کامل بن کرطلوع ہوتی ہے ۔حضور داعی کبیر جہاں
زندگی کے مختلف پہلو میں فقیدالمثال ، نادرروز گار اور نازش باغ و بہار ہیں
وہیں شعر و سخن کے آئینے میں بھی دیکھئے تو شعر کی زلف برہم سنوارتے اور
سخن کے عارض پرغازہ ملتے نظر آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنی قندیل شعورو
آگہی سے ظلمات فکر و نظر کے دبیز پردہ کو چاک کیا اور گم گشتگان راہ کو
نشان منزل اور شمع ہدایت عطا کی۔ہر بڑے مفکر کی طرح آپ نے بھی اپنے اصول
اور ایقان کی روشنی میں ایک فصیح و بلیغ و جدید کلام دنیا کو پیش کیا ہے
اور اپنی بانکی طبیعت سے گلشن شعرو سخن میں جذبۂ محبت اور ولولۂ عقیدت کا
ایسا کشادہ منفرد اور پر شکوہ تاج محل تعمیر کیا ہے جس کی خوبصورتی ،
فنکاری ، نئے نئے نقش و نگار اور انوکھے گل بوٹے دیکھ کر لوگ غرق حیرت
ہیں۔آپ کی شاعری میں طلاقت لسانی ، سلاست زبانی ، طرز ادا کی دل آویزی ،
اسلوب بیان کی دلکشی اور مضامین کی روانی و شگفتگی بدرجۂ اتم موجود ہے ۔ آپ
کی نعتوں کا مجموعہ ’’مژدۂ بخشش‘‘کے نام سے شائع ہو چکا ہے ۔جس میں حضرت کی
نعتیہ شاعری کی خصوصیات پرمشہور فکشن رائٹر حضور اشرف ملت حضرت علامہ سید
اشرف میاں صاحب برکاتی مارہروی (سجادہ نشین مارہرہ شریف)کا مضمون کافی اہم
ہے۔
٭تعمیری خدمات:حضور امیر محترم دنیابھر میں ۱۱۱؍مدارس کے قیام کا عزم رکھتے
ہیں اورالحمداﷲ آپ کو اس مقصد میں مسلسل کامیابی بھی ملتی جارہی ہیں۔چند
دہائی کے بعد آپ کے مدرسے کے فارغین اکثرجامعات اور درس گاہوں میں سربراہان
دارالافتا ، شیخ الحدیث اور صدرالمدرسین کے منصب پر نظرآئیں گے۔(ان شاء اﷲ)
٭دیگر قابل ذکر کارنامے:’’ مولانا محمد شاکر نوری اپنے سینے میں ایک درد
مند دل رکھتے ہیں جو امت مسلمہ کی زبوں حالی ، تحصیل علوم کے تئیں ان کی
عدم دلچسپی اور دین سے دوری کو دیکھ کر خون کے آنسو روتا ہے ،ان کی خواہش
ہے کہ سنی دعوت اسلامی کی خدمات کو اتنی وسعت دے دی جائے کہ ہماری نوجوان
نسل دین سیکھنے پر آمادہ ، اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے میں سنجیدہ ہو
جائے ۔ ان کے افکار میں دینی روشنی موجود ہو ، ان کے کردار وعمل سے اسلام
کی کرنیں پھوٹیں ، وہ دینی وعلمی اعتبار سے پختہ کار ہوجائیں ۔اور سب سے
بڑی فکر یہ ہے کہ انھیں سچا عشق رسول صلی اﷲ علیہ وسلم حاصل ہو جائے ۔ ’’
زمیں کے اوپر کام ، زمیں کے نیچے آرام ‘‘، اور’’ اتحاد زندگی ہے اور اختلاف
موت ‘‘ نوجوان علما کا مطمح نظر ہو ، ان میں دعوتی مزاج پیدا کیا جائے ،
انھیں سیاسی شعور عطا کیا جائے ، دور حاضر کے چیلنجز کا ادراک ہو ، جائز
حدود میں رہتے ہوئے ماڈرن ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے ، دینی وعصری
تعلیم کا پختہ انتظام ہو اور تعلیم کے ساتھ ساتھ منظم تربیت کا بھی انتظام
ہو ۔ انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ’’ ایک مرتبہ میں نے حضور مفکر اسلام دام
ظلہ سے عرض کیا کہ اختلافات کی ناگفتہ بہ پوزیشن میں دین کا کام کیسے کیا
جائے ؟ تو بڑی پیاری بات انھوں نے ارشاد فرمائی ، کہاکہ’’تم اپنے حصے کی
شمع جلاتے جاؤ - ‘‘ یعنی کسی کی فکر کیے بغیر جتنا کام تم کر سکتے ہو اتنا
ضرور کرو - ‘‘ (اہل سنت کی آواز،ص:۴۴۳)
سراج الفقہائمفتی نظام الدین رضوی
عصرحاضر کے عظیم محقق،فقہ اسلامی کے ماہر،محقق مسائل جدیدہ،سراج الفقہاء
حضرت علامہ مفتی محمدنظام الدین رضوی کی ذات محتاج تعارف نہیں ہے۔
٭نام ونسب :2؍مارچ 1957ء موضع بھوجولی اترپردیش میں سراج الفقہاء محقق
مسائل جدیدہ مفتی محمد نظام الدین رضوی صاحب (صدر مفتی وصدر المدرسین جامعہ
اشرفیہ مبارک پور)کی ولادت ایک دین دار گھرانے میں ہوئی۔
٭تعلیم وتربیت:آپ نے اپنے گاؤں کے مکتب سے تعلیمی سفر شروع کیاجو انجمن
معین الاسلام بستی،مدرسہ عزیزالعلوم نانپارہ ضلع بہرائچ ہوتے ہوئے جامعہ
اشرفیہ مبارکپورپرختم ہوا۔دارالعلوم اشرفیہ مبارکپور میں آپ نے ۱۹۷۶ء میں
درجۂ سابعہ میں داخلہ لیااور اپریل ۱۹۸۰ء میں درس نظامی وشعبۂ تحقیق فی
الفقہ سے فراغت حاصل کی۔آپ ہی کی خواہش پر الجامعۃ الاشرفیہ میں شعبۂ تحقیق
فی الفقہ کااضافہ کیاگیا اور اس شعبہ کے سب سے پہلے محقق آپ ہی تھے،آپ ہی
نے سب سے پہلامقالا بہ عنوان’’فقہ حنفی کاتقابلی مطالعہ کتاب وسنت کی روشنی
میں‘‘تحریر فرمایا۔
٭اساتذہ کرام :جامعہ میں آپ نے وقت کے جیدوسرخیل علمائے کرام سے اکتساب فیض
کیا۔
٭بیعت وخلافت :آپ نے مفتی اعظم ہند حضرت علامہ محمد مصطفی رضا خاں نوری
علیہ الرحمہ کے دست حق پر بیعت کی۔آپ کو حضرت سیدی برہان ملت مولانا محمد
برہان الحق صاحب علیہ الرحمہ(جبل پور) اور امین ملت حضرت سید محمد امین
میاں برکاتی صاحب(زیب سجادہ خانقاہ عالیہ برکاتیہ،مارہرہ شریف) سے اجازت
وخلافت حاصل ہیں۔حضور امین ملت نے آپ کو ’’برکاتی مفتی‘‘کے منصب پر بھی
فائز فرمایا ۔
٭تدریسی خدمات:فراغت کے بعد1981ء سے لے کر آج تک مسلسل پینتیس سالوں سے
پوری تیاری اور ذمہ داری کے ساتھ ،بڑی عرق ریزی اور جاں سوزی اور کمال ِ
مہارت کے ساتھ جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے تشنگان ِ علوم کو سیراب کررہے
ہیں۔آپ مجلس شرعی کے ناظم بھی ہیں اور شعبۂ افتاکے صدر بھی۔آپ کی درسی
تقریر بہت واضح،شستہ اور جامع ہوتی ہے جو درس کے تمام ضروری گوشوں کو محیط
ہوتی ہے۔اس طرح آپ تدریسی میدان میں ایک نہایت ذمہ دار ،مخلص اور کامیاب
استاذ نظر آتے ہیں۔
ٖ٭تصنیف وتالیف:سراج الفقہاء بحث وتحقیق اور مقالہ نگاری میں بھی منفرد
عالمانہ اسلوب کے مالک ہیں۔آپ کے مقالات ومضامین اور قلمی نقوش وآثار ،علمی
وتحقیقی اسلوب کا خوب صورت رنگ لیے رہتے ہیں۔باتیں نپی تلی اور پتے کی ہوتی
ہیں،مضامین کی فراوانی بھی خوب ہوتی ہیں لیکن مفہوم کی ترسیل اور معانی کی
تفہیم کہیں بھی متاثر ہوتی نظر نہیں آتی،آپ کے ان قلمی نقوش کا امتیازی وصف
تحقیق وتدقیق ہوتاہے۔مختلف دینی وعلمی موضوعات پر آپ کی قیمتی وجامع
تحریریں ،وقیع وگراں قدر مقالے مختلف رسالوں میں شائع ہوکر عوام وخواص کے
درمیان مقبول ہوتے رہے ہیں۔ حضرت سراج الفقہاء کے برق رفتار قلم سے اب تک
مختلف عنوانات پر سو اسو سے زائد مضامین ومقالات معرض ِ وجود میں آچکے
ہیں۔ان کے علاوہ تقریباً 45؍علمی وتحقیقی کتابیں آپ کے قلم سے معرضِ
تحریرمیں آچکے ہیں۔تفصیل حسب ذیل ہے۔(۱)الحواشی الجلیۃ فی تایید مذہب
الحنفیۃ(۲)فقہ حنفی کا تقابلی مطالعہ کتاب وسنت کی روشنی میں(۳)عصمت
انبیا(۴)لاؤڈ اسپیکر کاشرعی حکم(۵)شیئر بازار کے مسائل(۶)جدیدبینک کاری اور
اسلام(۷)مشینی ذبیحہ :مذاہب اربعہ کی روشنی میں(۸)مبارک راتیں(۹)عظمت
والدین(۱۰)فقہ حنفی سے دیوبندیوں کا ارتداد(۱۱)ایک نشست میں تین طلاق
کاشرعی حکم (۱۲)اسلام کے سات بنیادی اصول (۱۳)دوملکوں کی کرنسیوں
کااُدھار،تبادلہ وحوالہ (۱۴)انسانی خون سے علاج کا شرعی حکم (۱۵)دُکانوں
اور مکانوں کے پٹہ وپگڑی کے مسائل (۱۶)تحصیل صدقات پر کمیشن کاحکم
(۱۷)خاندانی منصوبہ بندی اور اسلام (۱۸)تعمیرمزارات احادیث نبویہ کی روشنی
میں (۱۹)عمرانہ کا مسئلہ نقل وعقل کی روشنی میں (۲۰)اعضاکی پیوند کاری
(۲۱)فلیٹوں کی خریدوفروخت کے جدید طریقے (۲۲)بیمہ وغیرہ میں ورثہ کی
نامزدگی کی شرعی حیثیت (۲۳)فقدان زوج کی مختلف صورتوں کے احکام (۲۴)کان
اورآنکھ میں دواڈالنامفسدِ صوم ہے یانہیں(۲۵)جدیدذرائع ابلاغ اور رویت ہلال
(۲۶)طویل المیعاد قرض اور ان کے احکام (۲۷)طبیب کے لیے اسلام اور تقویٰ کی
شرط (۲۸)نیٹ ورک مارکیٹنگ کاشرعی حکم (۲۹)فسخ نکاح بوجہ تعسُّر نفقہ
(۳۰)۱۴؍جلدوں میں ’’فتاویٰ نظامیہ‘‘جو دراصل ’’فتاویٰ اشرفیہ مصباح
العلوم‘‘ہے(۳۱)فقہ حنفی میں حالات زمانہ کی رعایت ،فتاویٰ رضویہ کے حوالے
سے (۳۲)چلتی ٹرین میں نماز کاحکم :فتاویٰ رضویہ اور فقہ حنفی کی روشنی میں-
٭وعظ وخطابت:سراج الفقہاء مفتی محمدنظام الدین صاحب بہت سے علمی مذاکروں
اور فقہی مجلسوں میں شرکت فرماچکے ہیں۔ان تمام مذاکرات میں آپ کی شرکت
مؤثر،فعال،باضابطہ اور بامقصد رہی۔بحثوں میں بھرپور حصہ لینا،موضوعات کے
تمام گوشوں کونگاہ میں رکھتے ہوئے ایسی محققانہ گفتگوفرمانا کہ تمام شکوک
وشبہات کے بادل چھٹ جائیں اور حق کا چہرہ روشن وتابندہ ہوجائے،یہ آپ کا طرۂ
امتیاز ہے۔آپ جس سمینار میں شرکت فرماتے ہیں اس کے میرِ مجلس اور روحِ رواں
نظر آتے ہیں،آپ کی بحثیں اور تنقیحات فیصلہ کی بنیاد بنتی ہیں۔حسن
استدلال،زورِ بیان،طرز استخراج اور جزئیات کا برمحل اور مناسب انطباق کرنے
میں اپنی مثال آپ ہیں۔سواد اعظم اہل سنت وجماعت کی عالمگیر تحریک سنّی دعوت
اسلامی کے زیر اہتمام دنیاکے بیشتر ممالک میں اجتماعات واجلاس کا انعقاد
ہوتاہے۔ان اجتماعات میں سوال وجواب کاکھلاسیشن ہوتاہے جس میں سراج الفقہاء
برملاسامعین کے ذریعے پوچھے گئے سوالات کے تسلی بخش جوابات عنایت فرماتے
ہیں۔
٭فتویٰ نویسی:آپ تدریس ،فتویٰ نویسی،تصنیف وتالیف،مقالہ نگاری، سمیناروں
میں شرکت اور مقالہ خوانی جیسی دینی وعلمی مشغولیات میں منہمک رہتے
ہیں۔مذہبی تعمیرات پر بھی آپ کی خصوصی توجہ ہے۔حضرت مفتی صاحب یوں تو مختلف
علمی وفنی میدانوں میں کمال دسترس رکھتے ہیں لیکن آپ کا خاص میدان فقہ
وافتا ہے۔اس میدان میں آپ اس قدر ممتاز ونمایاں ہیں کہ معاصرین میں دوردور
تک کوئی آپ کا ثانی نظر نہیں آتا۔آپ نے حضرت شارح بخاری مفتی محمد شریف
الحق امجدی صاحب سے بیس سالوں تک فتویٰ نویسی کی تربیت حاصل کی اور شارح
بخاری علیہ الرحمہ کی حیات ہی میں برصغیر کے ایک جلیل القدر فقیہ ومفتی اور
جدید شرعی مسائل کے ایک عظیم محقق کی حیثیت سے مشہورہوگئے۔حضرت شارح بخاری
نے صدرالشریعہ علامہ محمد امجد علی اعظمی اور مفتی اعظم ہند علامہ محمد
مصطفی رضا نوری ؔ سے فتویٰ نویسی کی تربیت پائی تھی اور سراج الفقہاء نے
شارح بخاری سے فقہ وافتا کی تربیت حاصل کی،اس طرح صرف دوواسطوں سے آپ فقہ
وافتا میں فیضانِ رضاسے بہرہ ور اور مستفیض ہیں اور آپ کے فتاویٰ میں امام
احمد رضا قدس سرہ کی علمی تحقیق کی جھلک صاف نظرآتی ہے۔آپ نے بہت سے نئے
فقہی مسائل کی تحقیق فرمائی،نہایت وقیع اور بیش قیمتی ابحاث و تحقیقات قوم
کے سامنے پیش فرمائیں،ہزاروں فتاویٰ لکھ کر امت مسلمہ کی الجھنوں کو دور
کیا۔جلد ہی آپ کے زیر نگرانی لکھے گئے فتاویٰ تقریباً 1350؍صفحات پر مشتمل
دو جلدوں میں منظر عام پر آرہے ہیں۔جن میں اکہتر ابواب کے ایک ہزار تین
سوتیرہ مسائل ہوں گے۔حضرت مفتی صاحب کی خدمات کا یہ بہترین ثمرہ ہے۔
٭تعمیری خدمات:امام احمدرضاجامع مسجد،بھوجولی پوکھراٹولہ،ضلع کوشی نگر۔
٭ایوارڈ:آپ کو دینی خدمات کے صلے میں کئی ایوارڈ مل چکے ہیں۔(۱) صدرالشریعہ
ایوارڈ،از:دارالعلوم حنفیہ ضیاء القرآن،لکھنؤ(۲)حافظی ایوارڈ ، از: مولانا
اکبر میاں چشتی،پھپھوند شریف(۳)شبیہ نعلِ پاک ،از:امین ملت،مارہرہ
شریف(۴)قائد اہل سنت ایوارڈ،از:علامہ ارشدالقادری چیرٹیز انٹرنیشنل، جمشید
پور(۵) امام احمدرضاایوارڈ،از:تنظیم حسان رسول مشن،مبارکپور اور دیگر کئی
ایوارڈکے ذریعے آپ کی دینی وملّی خدمات کوسراہاگیاہے۔
خیرالاذکیاء حضرت علامہ احمد مصباحی
خیرالاذکیاء حضرت علامہ محمداحمد مصباحی ایک متبحر عالم،باکمال مدرس،صاحب
طرزنثرنگار اور بلند پایہ محقق ہیں وہیں دین وسنیت کے بے لوث خادم اور
اخلاص وایثار کے سچے آئینہ دار ہیں۔
٭نام ونسب :۱۸؍ذی الحجہ ۱۳۷۱ھ/۹؍ستمبر۱۹۵۲ء بروزسہ شنبہ موضع بھیرہ ضلع
اعظم گڑھ صوبہ اترپردیش کے ایک دین دار گھرانے میں خیرالاذکیاء حضرت علامہ
محمداحمد مصباحی کی ولادت ہوئی ،’’ محمداحمد‘‘رکھاگیا اور دارالعلوم اشرفیہ
مبارکپور سے دستار فضیلت سے سرفراز ہونے کے بعدآپ
’’مولانامحمداحمدمصباحی‘‘کے نام سے مشہور ہوئے۔عمدۃ المحققین اور
خیرالاذکیاء آپ کے معروف القاب ہیں۔آپ کا سلسلۂ نسب یہ ہے:محمداحمدبن محمد
صابربن عبدالکریم بن محمداسحاق۔
٭تعلیم وتربیت:ابتدعاً والدہ ماجدہ سے اکتساب فیض کیا،پھر درجۂ سوم تک
پرائمری تعلیم مدرسہ اسلامیہ رحیمیہ بھیرہ میں حاصل کی۔پھر پانچ سالوں تک
مدرسہ اشرفیہ ضیاء العلوم خیرآباد ضلع اعظم گڑھ میں ابتدائی فارسی سے شرح
جامی تک تعلیم حاصل کی۔۲۲؍جنوری ۱۹۶۷ء میں دارالعلوم اہل سنت اشرفیہ مصباح
العلوم مبارک پور میں چار سال تک اساطین علم وفن اور وقت کے نامور مدرسین
ومحققین سے اکتساب فیض کیااور ۲۳؍اکتوبر ۱۹۶۹ء کی شب میں علماومشائخ کے
ہاتھوں دستار فضیلت سے سرفراز ہوئے۔
٭اساتذہ کرام :حافظ ملت علامہ شاہ عبدالعزیزمحدث مرادآبادی،علامہ مفتی
عبدالمنان مصباحی،علامہ مظفرحسین ظفرادیبی،علامہ محمدشفیع مبارکپوری،علامہ
سیدحامد اشرف کچھوچھوی،علامہ قاری محمدیحییٰ اور علامہ اسرار احمد مصباحی
جیسے جلیل القدر علما ومشائخ سے اکتساب علم وفیض کیا۔
٭بیعت وخلافت :یکم اپریل ۱۹۷۳ء میں مفتی اعظم ہند علامہ شاہ مصطفی رضاقادری
علیہ الرحمہ کے دست اقدس پر سلسلۂ قادریہ برکاتیہ میں بیعت وارادت سے شرف
یاب ہوئے۔عرس قاسمی کے موقع پر امین ملت سید شاہ محمد امین میاں برکاتی دام
ظلہ (سجادہ نشین خانقاہ برکاتیہ،مارہرہ شریف)نے آپ کو سلسلۂ عالیہ قادریہ
برکاتیہ کی اجازت وخلافت عطافرمائی اور مجمع میں آپ کے عظیم الشان کارناموں
کے اعتراف میں اراکین آستانۂ عالیہ قادریہ برکاتیہ کی جانب سے ’’سپاس
نامہ‘‘بھی پیش کیاگیا۔
٭تصنیف وتالیف:حضرتخیرالاذکیاء کا قرطاس وقلم سے بڑاگہراربط ہے،تصنیف
وتالیف ان کا محبوب مشغلہ ہے،آپ تحریرکے ساتھ اپنے تلامذہ اور متعلقین کو
لکھنے کاہنربھی سکھاتے ہیں،مصروفیات کی کثرت کے باوجود مختلف اندازسے آپ
قلمی خدمات انجام دے رہے ہیں،جیسے:(۱)تدوین قرآن(۲)معین العروض والقوافی
(۳)حدوث الفتن وجھاد اعیان السنن (۴)مواھب الجلیل لتجلیۃ مدارک التنزیل
(۵)امام احمدرضااور تصوف (۶)تنقید معجزات کا علمی محاسبہ (۷)رشتۂ ازدواج
اسلام کی نظرمیں (۸)امام احمد رضاکی فقہی بصیرت جدالممتار کے آئینہ میں
(۹)رسم قرآنی اور اصول کتابت (۱۰)بیان واحدوجمع (۱۱)فرائض وآداب متعلم
ومعلم (۱۲)طالبان علوم نبوی سے چند باتیں (۱۳)جماعت اہلسنّت کے تعلیمی
وتنظیمی امور ومعاملات (۱۴)فقہی سیمیناروں کے تین اہم صدارتی خطبے(۱۵)الکشف
شافیاحکم فونوجرافیا،اردوسے عربی(۱۶)عباب الانوار ان لانکاح بمجرد
الاقرار،اردوسے عربی (۱۷)ھبۃ النساء فی تحقیق المصاھرۃ بالزنا،اردوسے عربی
وغیرہ۔
اسی کے ساتھ فتاویٰ رضویہ جلداول،سوم،چہارم اور نہم کی عربی وفارسی عبارات
کااردوترجمہ کیااور متعددمعاصرین واکابرعلماومشائخ کی کتابوں پر تقدیم
وتقریب تحریر کی اور مختلف کتابوں کی تحقیق کرکے وقت وحالات کے مطابق جدید
ترتیب میں شائع کیاکئی کتابوں کو آسان بنا کر تعلیقات وحواشی سے آراستہ
کیا۔
٭تدریسی خدمات:دارالعلوم فیضیہ نظامیہ ضلع بھاگل پور میں ایک سال،مدرسہ فیض
العلوم جمشید پور میں پانچ سال،دارالعلوم ندائے حق ضلع فیض آباد میں ایک
سال،مدرسہ فیض العلوم ضلع اعظم گڑھ میں آٹھ سال اور دارالعلوم اہلسنّت
اشرفیہ مصباح العلوم مبارک پور میں ۱۷؍جون ۱۹۸۶ء سے ابھی تک مدتِ ملازمت
مکمل ہونے کے بعد بھی اعزازی طور پر جامعہ اشرفیہ میں بعض کتابوں کادرس
دیتے ہیں۔دیگر مقامات کے ساتھ ساتھ جامعہ اشرفیہ میں آپ نے نمایاں
تدریسی،تعلیمی،تصنیفی اور انتظامی خدمات انجام دیں۔فی الحال جامعہ میں آپ
ناظم تعلیمات کے منصب پر فائز ہے۔
٭ممتازتلامذہ:آپ کے ممتاز تلامذہ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔چند مشہور تلامذہ
کے اسما یہ ہیں:مولانانفیس احمد مصباحی،مولانامبارک حسین مصباحی ، مولانا
صدرالوریٰ مصباحی،مولاناناظم علی مصباحی،مفتی آل مصطفی مصباحی اور
مولاناانورنظامی مصباحی وغیرہ۔
٭ایوارڈ : خانقاہ صمدیہ پھپھونڈ شریف نے اکیسویں صدی کی ابتدائی دہائی میں
آپ کی دینی ، علمی وتحقیقی خدمات کے اعتراف میں ’’قبلہ عالم ایوارڈ ‘‘ پیش
کیا ۔اور بھی کئی اعزازات ہیں لیکن مجھے اس کی تفصیل نہیں معلوم ۔
رئیس التحریر حضرت مولانایٰسین اختر مصباحی
رئیس التحریر مولانایٰس ٓ اختر مصباحی صاحب برصغیر ہندوپا ک کے نامور
علمامیں سے ایک ہیں جو بالغ نظر ،ارباب لوح وقلم اور دانشوروں کے درمیان
ممتاز اور منفردمقام رکھتے ہیں۔آپ کی ذات محض ایک مدرس ومصنف کی نہیں ہے
بلکہ عوام وخواص میں آپ ایک مایہ ناز ادیب مشہور صحافی،عظیم اسکالر،دینی
مفکراور سیاسی مدبر کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔علامہ موصوف کی
خصوصیت یہ ہے کہ آپ عوام وخواص میں معروف اور اکابرومعاصرین میں یکساں
مقبول ہیں۔
٭نام ونسب :۱۲؍فروری ۱۹۵۳ء کو ریاست اترپردیش کے علمی گہوارہ ضلع اعظم گڑھ
کے خالص پور قصبہ ادری میں شیخ نور محمد (متوفی ۱۹۷۱ء )کے دین دار گھرانے
میں آپ کی پیدائش ہوئی۔والدین کی جانب سے آپ کا نام ’’یٰس ٓ ‘‘رکھاگیا،بعد
میں آپ نے اپناتخلص ’’اخترؔ ‘‘اختیار کیا،دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم
مبارک پور سے فراغت کے بعد’’ مصباحی‘‘لفظ کااضافہ ہوا،اس طرح عالم اسلام
میں آپ ’’ مولانایٰس ٓ اختر مصباحی‘‘کے نام سے مشہور ہیں۔
٭تعلیم وتربیت:ابتدائی تعلیم مدرسہ بیت العلوم خالص پورقصبہ ادری میں
ہوئی،مدرسہ ضیاء العلوم ادری اور مدرسہ ضیاء العلوم خیرآبادمیں عربی وفارسی
کے چند درجات کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دارالعلوم اشرفیہ مبارکپورمیں
داخلہ لیا۔۱۹۷۰ء میں سندودستار فضیلت سے نوازے گئے ،فراغت کے بعد عربی ادب
کی خصوصی تعلیم کے لیے لکھنؤ سے ’’الاختصاص فی الادب العربی‘‘کے دوسالہ
کورس کی تکمیل ۱۹۷۳ء میں کی،اس طرح لکھنؤ یونی ورسٹی سے بے اے سال اول
کابھی امتحان دیامگر سال آخر کے امتحان سے پہلے ہی ۱۹۸۲ء میں آپ ریاض سعودی
عرب چلے گئے اور ۱۹۸۴ء تک کمپیوٹر سروس اور اس کے متعلقات سے وابستہ رہے۔
٭اساتذہ کرام :آپ کے اساتذۂ کرام میں جلالۃ العلم حضور حافظ ملت مولانا
عبدالعزیز محدث مبارک پوری ،علامہ حافظ عبدالرؤف بلیاوی،مولانامحمدشفیع
مبارک پوری اوربحرالعلوم مفتی عبدالمنان اعظمی کے نام نمایاں ہیں۔علامہ شمس
الدین احمد جعفری رضوی، علامہ مفتی شریف الحق امجدی،علامہ ارشدالقادری اور
علامہ مشتاق احمد نظامی صاحبان جیسے جید اور مستند علمائے کرام سے سالہاسال
تک مجلسی استفادہ کیا۔
٭ممتازتلامذہ:دنیاکے بیشتر حصے میں آپ کے سیکڑوں باصلاحیت تلامذہ دینی
وعلمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
بیعت وخلافت :تاجداراہلسنّت حضور مفتی اعظم ہند مولانامصطفی رضا نوری علیہ
الرحمہ سے آپ کو شرف بیعت حاصل ہے اور فضیلۃ الشیخ سیدمحمدبن علوی بن عباس
مالکی مدظلہ العالی سے اجازت سلاسل واسانید کی سعادت حاصل ہے۔
٭تصنیف وتالیف:ہندوبیرون ہند کے مختلف رسائل وجرائد اور اخبارات ومجلات میں
آپ کے سیکڑوں مضامین کے ساتھ کئی کتابوں پر مقدمے ،تبصرے اور مراسلات بھی
شائع ہوچکے ہیں۔اگست ۱۹۸۸ء سے نومبر۱۹۹۲ء تک ماہ نامہ حجاز جدید دہلی کی
باوقار ادارت فرمائی،نومبر۱۹۸۸ء تاجون ۲۰۰۴ء تک ماہ نامہ کنزالایمان دہلی
کے مدیراعلیٰ کے عہدے پرفائز رہے جن کے اداریے ’’نقوش فکر‘‘کے نام سے شائع
ہوچکے ہیں۔نیز دینی وعلمی موضوعات پر چھوٹی بڑی تیس تصانیف وتراجم آپ کے
قلم کا شاہکار ہیں جن کے متعدد ایڈیشن ہندوستان اور دیگرممالک سے نکل چکے
ہیں۔جن کے اسمائے گرامی یہ ہے :
(۱)المدیح النبوی (۲) گنبدخضرا(۳)پیغام عمل(۴)معارف کنزالایمان (۵)امام
احمدرضاکی محدثانہ عظمت (۶)امام احمدرضاکی فقہی بصیرت(۷)امام احمدرضاکے
وصایاپر اجمالی نظر (۸)امام احمدرضاارباب علم ودانش کی نظرمیں(۹)امام
احمدرضااور رد بدعات ومنکرات(۱۰)اصلاح فکر و اعتقاد (۱۱) خصائص
رسول(۱۲)مسائل توسل و زیارت (۱۳) جشن میلادالنبی صلی اﷲ علیہ وسلم (۱۴)موئے
مبارک(۱۵)خاک حجاز(۱۶)تین طلاق کاشرعی حکم (۱۷)تین برگزیدہ
شخصیتیں(۱۸)بابری مسجد کی تعمیرِ نَو (۱۹) مسلم پرسنل لا کاتحفظ(۲۰)قائدین
تحریک آزادی(۲۱)خواجۂ ہند(۲۲)شارح بخاری (۲۳) الجامعۃ الاشرفیہ (۲۴) آیات
جہاد کاقرآنی مفہوم (۲۵)نقوشِ فکر (۲۶) ہندوتوا اور ہندوستانی
مسلمان(۲۷)نقوشِ راہ(۲۸)سنگھ پریوار کااکیس نکاتی فارمولہ (۲۹) امام
احمدرضا اور تحریکات جدیدہ (۳۰)تعارف اہلسنّت (۳۱) سواد اعظم (۳۲) مجاہدملت
کی مجاہدانہ عزیمت(۳۳)قرآن اور جہاد(۳۴)پیغام حجاز(۳۵)انگریز نوازی کی
حقیقت (۳۶)چند علمائے انقلاب ۱۸۵۷ء (۳۷)قائد جنگ آزادی علامہ فضل حق
خیرآبادی(۳۸)علماوقائدین جنگ آزادی ۱۸۵۷ء(۳۹)۱۸۵۷ء پس منظروپیش منظر
(۴۰)سواداعظم اہلسنّت عقائد ومعمولات (۴۱) الفوزالکبیرفی اصول
التفسیرکاترجمہ (۴۲)سلسلۂ ولی اللّٰہی عزیزی:دینی وعلمی احوال
وخدمات(۴۳)علماے فرنگی محل، لکھنؤ :دینی وعلمی احوال وخدمات(۴۴) صدرالا
فاضل مرادآبادی:حیات وخدمات۔
٭سمیناروں میں شرکت:آپ ہندوبیرون ہند مختلف سیمیناروں اور کانفرنسوں میں
شرکت فرماچکے ہیں اور تادم تحریر مختلف اجلاس میں اپنی علمی وفکری آرا سے
عوام وخواص کو مستفیض کررہے ہیں۔
٭تدریسی خدمات:۱۹۷۱ء میں دارالعلوم غریب نوازالٰہ آباد میں تدریسی خدمات
انجام دیں اور جنوری ۱۹۷۴ء سے اپریل ۱۹۸۲ء تک اپنے مادرعلمی الجامعۃ
الاشرفیہ مبارکپور میں شیخ الادب کی مسند پر فائز رہے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ
نئی دہلی میں ۱۹۸۸ء سے ۱۹۹۰ء تک اسلامیات کے استاذ کی حیثیت سے تعلیم
ولیکچردیتے رہے۔
٭تعمیری خدمات:تعمیری باب میں آپ کااہم کارنامہ ’’دارالقلم‘‘دہلی کی تعمیر
ہے ۔۱۹۹۱ء میں دارالقلم کے لیے زمین حاصل ہوئی ،۱۹۹۷ء میں اسی میں ’’قادری
مسجد‘‘کاقیام ہوا،جنوری ۲۰۰۰ء سے دارالقلم کاذیلی تعلیمی شعبہ’’الجامعۃ
القادریہ‘‘نمایاں خدمت انجام دے رہاہے۔دارالقلم کے ذریعے بہت سے موضوعات پر
کتابیں شائع ہوکر عوام وخواص میں مقبول ہورہی ہیں۔
٭تنظیمی خدمات:آپ میں تعمیر کے ساتھ تنظیمی صلاحیت بھی موجود ہے۔مختلف
اداروں کے سرپرست ونگراں اور ناظم ومشیر کی حیثیت سے آپ دینی اور ملی خدمات
انجام دے رہے ہیں۔
٭ممتازتلامذہ:مولاناڈاکٹر غلام یحییٰ انجم مصباحی ،مولانامعین الحق
علیمی،،مفتی محمود اختر قادری،مفتی بدرعالم مصباحی،مولانافتح احمد
بستوی،مولاناقمرالحسن بستوی،مولانااحمد القادری مصباحی اور مولاناعارف اﷲ
مصباحی وغیرہ۔
مصلح قوم وملت حضرت علامہ عبدالمبین نعمانی
مصلح قوم وملت حضرت علامہ عبدالمبین نعمانی مصباحی دعوت وتبلیغ،تصنیف
وتالیف اور درس وتدریس کی دنیاکاایک معتبرنام ہے۔آپ عظیم وجلیل عالم دین ہے
جن کی تعمیری،فکری، تعلیمی، اصلاحی، دعوتی ، دینی، تصنیفی ،صحافتی اور
تدریسی محاذ پر انمٹ نقوش موجود ہیں۔دینی استقامت،تقویٰ وطہارت اور فکری
اصابت حضرت موصوف کی شخصیت کاایک اہم حوالہ بن چکی ہے۔
٭نام ونسب :اترپردیش کے مشہور شہر بنارس کے محلہ چھتن پورہ میں ۲۵؍شعبان
المعظم ۱۳۷۲ھ بمطابق ۱۹۵۲ء بروزیک شنبہ کو ایک دین دار گھرانے میں حضرت
علامہ عبدالمبین نعمانی صاحب کی ولادت ہوئی۔آپ کاپورانام محمد عبدالمبین بن
محمد بشیر ہے۔حضرت امام اعظم کی طرف نسبت کرتے ہوئے آپ ’’نعمانی‘‘لگاتے ہیں
جو آپ کے اسم گرامی کاجزبن چکاہے۔
٭تعلیم وتربیت:ناظرۂ قرآن کی تکمیل اپنے چچا حافظ برکت اﷲ صاحب ،ابتدائی
اردوکی تعلیم مکتب مدار بخش بنارس،درجہ پنجم اور ابتدائی عربی کی تعلیم
مدرسہ مثہر العلوم بنارس اور متوسطات تک تعلیم مولاناعبدالسلام نعمانی سے
حاصل کرنے کے بعد دارالعلوم اشرفیہ میں داخلہ لیااور ۱۹۶۹ء میں فارغ
التحصیل ہوئے۔
٭بیعت وخلافت :آپ کوحضورمفتی اعظم ہند سے شرف بیعت وارادت حاصل ہے اور
اعلیٰ حضرت کے خلیفہ حضور برہان ملت جبل پوری علیہ الرحمہ سے خلعت خلافت سے
سرفرازہوئے اورحضرت امین ملت، مارہرہ مطہرہ سے بھی خلافت حاصل ہے۔
٭اساتذہ کرام :آپ کے اساتذۂ گرامی میں حضور حافظ ملت کے علاوہ علامہ
عبدالرؤف حافظ جی ،بحرالعلوم مفتی عبدالمنان اعظمی اور مولاناقاضی محمد
شفیع علیہما الرحمہ جیسے اکابراساتذہ شامل ہیں۔
٭تدریسی خدمات:اشرفیہ سے فراغت کے بعد چند مہینوں تک اپنے آبائی کاروبار
ہینڈلوم سے وابستہ ہوگئے لیکن حضور حافظ ملت کے حکم پر باقاعدہ درس وتدریس
کی طرف متوجہ ہوئے اورپھر مدرسہ بحرالعلوم بنارس،مدرسہ بحرالعلوم خلیل
آباد،مدینۃ العلوم بنارس،تنویرالعلوم جین پور،دارالعلوم ضیاء الاسلام ہوڑہ
اور دارالعلوم غوثیہ نظامیہ جمشید پور جھارکھنڈ وغیرہ مدارس میں اہم ذمے
داری سرانجام دی اور فی الوقت دارالعلوم قادریہ چریاکوٹ مؤ میں ناظم ومہتمم
کی حیثیت سے اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں۔یہاں حضرت بحیثیت صدرالمدرسین
تشریف لائے تھے اور برسوں تدریسی واشاعتی سرگرمیوں سے وابستہ رہے اور طلبہ
کی کثیر تعداد حضرت سے مستفیض ہوئی۔اس کے بعد اپنے دعوتی اسفار،تصنیفی پیش
رفت اور بے شمار دینی ،ملی،تبلیغی اور تصنیفی مصروفیات کے باعث تدریس سے
الگ تو ہوئے مگر اس کی نظامت واہتمام کی ذمہ داری اب بھی نبھارہے ہیں۔
٭اخلاق واوصاف :بلاشبہ آپ اسلاف کانمونہ ہیں۔اپنے مضامین کو اوروں کے نام
سے شائع کرناکس قدر دل گردے کاکام ہے یہ اہل کام بخوبی جانتے ہیں مگر
اخلاص،بے لوثی،بے نفسی،بے ریائی اور اہلسنّت کے فروغ کی سچی تڑپ کی بدولت
ایسی درجنوں کتابیں ہیں جن کی اشاعت میں نعمانی صاحب کاکلیدی کردار ہے۔آپ
کی حیات کاایک بڑاروشن پہلویہ ہے کہ اکثروبیشتر علماومشائخ اپنی بے پناہ
دعوتی،تصنیفی،دینی،فکری،تدریسی اور اشاعتی ذمہ داریوں اور مصروفیات کے سبب
اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت سے غافل رہتے ہیں مگر حضرت نعمانی صاحب کے تمام
بچے ماشاء اﷲ دینی تربیت سے مزین ہیں۔دو بیٹے باصلاحیت عالم دین،تیسرے بیٹے
ڈاکٹر،چوتھے اور پانچویں بیٹے زیرتعلیم اور دوبیٹیاں اسلامی تعلیم وتربیت
میں ڈھلے ہوئی ہیں اور عمدہ خصالی میں اپنی مثال آپ ہیں۔
٭تصنیف وتالیف:تحریروقلم سے آپ کی وابستگی زمانۂ طالب علمی سے ہی رہی
ہے۔ابتدامیں بہت سارے مقالات ماہنامہ اعلیٰ حضرت اور ماہنامہ نوری کرن
بریلی شریف سے چائع ہوتے تھے۔ماہ نامہ اشرفیہ مبارکپور کے لیے غالباً
چارسال تک ایڈیٹر شپ کی ذمے داریاں بحسن وخوبی نبھائی۔اب تک سیکڑوں کتابوں
کی تصحیح کرچکے ہیں اور انھیں قابلِ اشاعت بناکرنئی پود کو مستقبل کے لیے
تیار کرچکے ہیں۔آپ کی چالیس سے زائد کتابیں شائع ہوکر مقبول ہوچکی ہیں،ان
میں بہت ساری کتابیں ایسی ہیں جن کے کئی کئی ایڈیشن نکل چکے ہیں خاص کر پنج
سورہ رضویہ،ارشادات اعلیٰ حضرت،انتخاب ِ کلامِ اعلیٰ حضرت اور مسنون دعائیں
تو ایسی مقبول ومشہور ہوئیں کہ بے شمار مقامات سے شائع ہوئی اور ہورہی
ہیں۔استقامت ڈائجسٹ کے جتنے بھی شمارے شائع ہوئے ہیں ان میں سے بیشتر کی
ادارت واشاعت کے پیچھے حضرت نعمانی صاحب کی کوششیں کارفرمارہی ہیں۔ان
نمبروں میں خاص کر مفتی اعظم ہند نمبر،رسول عربی نمبر اور تحفظ عقائد نمبر
کے لیے مضامین کاحصول اور کتاب کی ترتیب وادارت وغیرہ حضرت ہی کے ذریعے
انجام پائی ہے بلکہ ان نمبروں میں نعمانی صاحب اور علامہ احمدمصباحی صاحب
کی کئی مضامین ہیں جو دوسروں کے ناموں سے شائع ہوئے ہیں۔
آپ کی کتابوں کے نام یہ ہیں:(۱)ارشادات اعلیٰ حضرت (۲)انتخاب کلام اعلیٰ
حضرت (۳)مسنون دعائیں (۴)ارکان اسلام (۵)احوال قبل (۶)نوائے نعت
،ترتیب(۷)انوار فضائل قرآن (۸)نذرحبیب (سوانح مجاہدملت)(۹)عورت اور
ہمارامعاشرہ(۱۰)چالیس حدیثیں(۱۱)اسلام میں رزق حلال کی اہمیت (۱۲)لاٹری
کیاہے؟(۱۳)شراب اور اس کے نقصانات (۱۴)اصلاح معاشرہ (۱۵)نورانی وظائف
(۱۶)شیخ الحدیث مولاناسردار احمد (۱۷)شب برأت (۱۸)رمضان کے فضائل ومسائل
(۱۹)جام رحمت،مجموعۂ نعت (۲۰)پنج سورہ رضویہ،ترتیب(۲۱)علم دین ودنیا(افادات
اعلیٰ حضرت)(۲۲)فضائل نماز (۲۳) مسائل نماز(۲۴)شعبان وشب برأ ت (۲۵)مراسم
محرم (۲۶)بیماری اور موت (۲۷)معاشرے کی چند خرابیاں اور ان کاعلاج (۲۸)شادی
اور اسلام (۲۹)امام احمدرضااور ان کی تعلیمات (۳۰)فہرست تصانیف (۳۱)امام
احمدرضا(۳۲)تخریج اختیارات مصطفی(۳۳)سنن ونوافل کے فضائل (۳۴)مسئلہ اقامت۔
٭خدمت قرآن:حضرت نعمانی صاحب کو یہ شرف حاصل ہے کہ انھیں خدمت قرآن کا موقع
ملا۔تراجمِ قرآن میں سب سے معتبر،مستنداور اہم ترین ترجمہ امام احمد
رضاعلیہ الرحمہ کاترجمۂ قرآن ’’کنزالایمان‘‘ہے۔اس میں کتابت کی بہت ساری
اغلاط تھیں ،حضرت نے اس کی تصحیح کافریضہ انجام دیااور نشریاتی ادارے اب
اسی نسخے کو شائع کررہے ہیں۔حضرت کی اس عظیم خدمت کے صلے میں مارہرہ شریف
میں حضور امین ملت کے ہاتھوں اعزازسے بھی نوازاگیا۔چند سال پہلے ادارۂ نشان
کے زیر اہتمام ’’الفی قرآن‘‘بھی آپ کی نگرانی وتصحیح کے بعد شائع ہواہے جس
کی ہرسطرکاپہلاحرف’’الف‘‘سے شروع ہوتاہے۔آپ کنزالایمان کے عام نسخوں کے لیے
بھی کام کررہے ہیں اور کنزالایمان کے مشکل الفاظ کی فرہنگ بھی تحریر کررہے
ہیں۔خدمت قرآن حضرت کی حیات کاغیر معمولی اثاثہ اور عظیم ترین سرمایہ ہے۔
٭وعظ وخطابت:دعوت وتبلیغ کی ذمہ داری نبھانا،اصلاحی کتابیں اور مقالات
لکھنااور لکھونا،المجمع الاسلامی کی اشاعتی سرگرمیوں میں حصہ لینااور
علماوطلبہ کی کتابوں پرنظرثانی واصلاحات کرنے کے ساتھ ساتھ آپ مختلف محفلوں
اور مجلسوں میں اصلاحی تقریریں بھی کرتے ہیں۔ملاقات تو پہلے بھی ہوچکی تھی
مگر پہلی مرتبہ آپ کی دردبھری اور انقلاب آفریں تقریرسننے کاشرف ۲۳؍اپریل
بروز اتوار۲۰۱۶ء کوسنّی دعوت اسلامی مالیگاؤں کے زیر اہتمام قائم ’’الجامعۃ
القادریہ نجم العلوم‘‘میں حاصل ہوا،چنداحادیث کادرس دینے کے بعد اپنے
اصلاحی خطاب میں آپ نے فرمایاتھا:’’ سنّی دعوت اسلامی میرے نزدیک مسلک
اعلیٰ حضرت کی تنظیم ہے۔اس تحریک کاکام مجھے بہت پسندآتاہے۔میں سنّی دعوت
اسلامی کے ہر نیک کام کااستقبال کرتا ہوں ۔استاذ محترم حضورحافظ ملت علیہ
الرحمہ فرماتے تھے کہ ’’میں لوگوں کی خوبیاں دیکھتاہوں خامیاں نہیں۔‘‘
مگرآج ہم نے اُستاذالعلما ء کی فکر کو چھوڑ دیاہے اسی سبب سے ہمارے معاشرے
میں بہت سی خرابیاں پیداہوگئی ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بزرگان دین کے
اقوال سے استفادہ کرتے ہوئے دین اسلام کی ترویج واشاعت کی جائے۔ آج تعلیم
گاہیں اور درس گاہیں بہت ہیں،ہر جگہ مولوی ،مولانااور مفتی بنانے کی کوششیں
کی جارہی ہیں ، عامل یاعالم باعمل بنانے کی جدوجہد نہیں،آپ لوگوں کی خوش
بختی یہ ہے کہ آپ ایک ایسے ادارے سے وابستہ ہوجہاں تعلیم کے ساتھ تربیت بھی
کی جاتی ہے۔ہندوستان میں جاری سنّی دعوت اسلامی کے مختلف مدارس کامیں نے
دورہ کیاہے بحمدہ تعالیٰ ہرجگہ عمدہ تعلیم وتربیت ،نظم ونسق اور اساتذہ کی
تربیتی مساعی دیکھ کر دل خوش ہواہے اور مختلف محافل و اجلاس میں ان مدارس
کی کاردگیوں کوبطورمثال بھی پیش کیاہوں۔خطاب کے بعد حضرت کی خدمت میں راقم
کی تین مطبوعات(حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ،سیدناابوہریرہ رضی اﷲ عنہ اور
حضرت سیداحمد کبیر رفاعی کی چند ناصحانہ باتیں) پیش گئی تو حضرت نے خوشی
کااظہارفرمایااور دعاؤں سے نوازا،اس سے معلوم ہوتاہے کہ نئے قلم کاروں کی
آپ کس قدر حوصلہ افزائی فرماتے ہیں۔
٭تعمیری خدمات:آپ ہندوستان کامایۂ ناز تصنیفی واشاعتی ادارہ ’’المجمع
اسلامی مبارکپور‘‘کے بانی رکن ہیں۔اس ادارے کے قیام کاتصور حضرت نعمانی
صاحب قبلہ ہی نے سب سے پہلے پیش کیاتھا۔اس ادارے کی بنیاد آپ کے چار
ساتھیوں مولانامحمداحمد مصباحی،مولانایاسین اخترمصباحی،مولانابدرالقادری
مصباحی اور مولاناافتخار احمداعظمی مصباحی نے سنہ ۱۹۷۶ء میں ڈالی تھی۔ حضرت
نعمانی صاحب کااخلاص دیکھیے کہ آپ نے کبھی نہیں کہاکہ المجمع اسلامی کااصل
بانی میں ہی ہوں۔یہ ادارہ آج اہل علم وفضل کے درمیان درجۂ اعتبار حاصل
کرچکاہے اور یہاں سے پچاسوں معیاری کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔اس ادارے کے ایک
شعبے ’’شعبۂ تربیت تصنیف‘‘کے ذریعے درجۂ فضیلت سے فارغ طلبہ دوسال تک حضرت
موصوف کی نگرانی وتربیت میں اپنے عروس فکروقلم کوسنوارتے ہیں۔ملک بھر میں
متعددتعلیمی ادارے حضرت کی سرپرستی ونگرانی میں چل رہے ہیں۔
اس مقالے کی تیاری میں درج ذیل کتب ورسائل سے مدد لی گئی ہے-
(۱)تجلیات تاج الشریعہ ،رضااکیڈمی۲۰۰۹ء
(۲)اہلسنّت کی آواز،جلد۲۱،خلفائے خاندان برکات۲۰۱۴ء
(۳)تجلیات قمر،رضااکیڈمی،۲۰۱۱ء
(۴)تجلیات نوری،سنی دعوت اسلامی مالیگاؤں۲۰۱۵ء
(۵)نقوش فکر،اسلامک پبلشر۲۰۰۴ء
(۶)فقہ اسلامی کے سات بنیادی اصول،مکتبۂ برہان ملت۲۰۰۹ء
(۷)تجلیات رضا،بحرالعلوم نمبر،امام احمدرضااکیڈمی۲۰۱۳ء |
|