بے لگام گھوڑے

ہمارےملک میں اور کوئی آزاد ہو یا نہ ہو ہمارا میڈیا آزاد ہے اس کی مثال آئے پر ملتی رہتی ہے آزاد میڈیا جس کو چاہے جیسے چاہے چاہے پرموٹ کرتا ہے اور جس کی چاہے مخالفت کرتا ہے ۔

پہلے ملالہ یوسف زئی کو پرموٹ کیا گیا اس کو کہاں سے کہں پہنچا دیا گیا وہ اب ایک ستارہ بن چکی ہے اس کا کریڈٹ میڈیا کو جاتا ہے پھر قندیل بلوچ کی باری آئی اس کو بھی ایک دو ہفتوں میں ایک سپر سٹار بنا دیا گیا پھر اس کو ایک آوارہ اور بدنام لڑکی بنا کر پیش کیا گیا اس کے گھر والوں سے پوچھا گیا آپ کو غیرت کیوں نہیں آتی پھر قندیل کے پیسوں سے نشہ کرنے والے بھائی نے اپنی سوئی ہوئی غیرت جگا کر اسے قتل کر دیاپھر میڈیا کا ماتم یورپ تک سنا گیا بدنامی پاکستان کی ہوئی نہ کہ میڈیا کی آج کل ایک غریب چائے والہ میڈیا کی آنکھ کا تارہ بن چکا ہے انجام ہونا ابھی باقی ہےکیونکہ پکچر ابھی باقی ہے اللہ کریم چائے والے کے حال پر رحم کرے ویسے چائے والہ سر پر کفن باندھ کر نکلا ہے اب دیکھتے ہیں میں میڈیا کی ریٹنگ میں اضافہ ہوتا ہے یا چاے والے کے نخروں میں مگر ایک بات طے ہے ہمارا میڈیا آزاد اور طاقتور ہے جس کو چاہے ذلیل کر دے جس کو چاہیے ایک دن میں ھیرو بنا دے۔کل ہی کی بات ہے ایک رپوٹرکو نادرا آفس میں ایک عدد تھپٹرپڑا جس کی گونج پورے پاکستان میں سنی گئی سارے کا سارا میڈیا اس گن مین کے پیچھے پڑھ گیا حقیقت جان لینا بھی ضروری نہیں سمجھا جاتا کوئی تحقیقات کیے بنا ایک شخص کو قصور وار کہنا ظلم ہے اب اس کا انجام آپ سب کے سامنے ہو گا عام انسان بھی اگر اس واقعہ کی ویڈیو دیکھے تو آرام سے بتا سکتا ہے کہ رپوٹر نے ایسے حالات پیدا کر دیے جس سے تنگ آکر وہ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوا وجہ وہی اپنی ریٹنگ اور کسی کی ماں بہن کو نامزد کرنےکی اجازت کوئی بھی تہذیب نہیں دیتی پھر میڈیا کے کچھ قواعدو ضوابط ہیں ان کو کوئی کیسے نظر انداز کر سکتا ہے آپ جب اپنے میڈیا آفس کے باہر ایک سیکیورٹی گارڈ رکھیں گیے تو اس کو کیا ٹاسک دیا جاے گا یہی نا کہ کوئی بھی شرارتی یا جذباتی انسان اندر نہ آنے پاے اسے باہر ہی روک لو ہم سےاجازت لو اگر اجازت ملے تو اندر آنے دو ان کا کام عورتوں کو تھپٹر مارنا تھوڑی ہوتا ہے وہ بس اپنی ڈیوٹی کرے گا وہ گن مین بھی اپنی ڈیوٹی ہی کر رہا تھا اس کو بلاوجہ غصہ دلایا گیا جو ہر کوئی دیکھ سکتا ہے ویڈیو میں۔۔۔۔۔۔ اب قصور تو سارا اس مرد کا ہے جس نے عورت کو تھپٹر مار دیا اس معاشرے میں تو بیگم کو بھی مارنے پر پرچہ کاٹا جاتا ہے پرچہ تو بنتا تھا میڈیا کو چاہیے کسی کو بھی اپنا نمائندہ بنانے سے پہلے ان کی تربیت کی جاے ان کو بتایا جاے کہ ہمارا کام عوام کی خدمت کرنا ہے ان سے دشمنی مول لینا نہیں سچ اور جھوٹ ثابت کرنا اب میڈیا کا کام تو نہیں ہے پھر کیوں دس ہزار روپے دے کر رپوٹر بن جانے والے لوگوں کو میڈیا کارڈ بنا کر دیا جاتا ہے پھر وہ اس میڈیا کے زور پر کبھی ریاستی اداروں سے بدتمیزی کرتے ہیں اور کبھی گلی محلوں میں لوگوں کو بلیک میل کرتے ہیں میری التجا ہے تمام ٹی وی چینل سے کہ پروپر ٹریننگ دے کر ہاتھ میں مائک دیا جاے اور ان کو بتایا جاے ہم بھی عوام کی آواز ہیں ہمارا کام عوامی مسائل کا حل ہے ہم عوام کے کیس کے وکیل ہیں ہم سب بھی عام لوگ ہیں میڈیا میں کام کرنے والی لڑکی کے علاوہ بھی روز اتنی عورتوں کو مارا جاتا ہے تیزاب ڈالا جاتا ہے اس وقت ہمارا میڈیا کہاں ہوتا ہے اس وقت برکنگ نیوز کیوں نہیں آتی ۔خدا کے لیے انصاف کرنے میں مددگار ہی بنے رہو ۔خود انصاف نہ کرو ورنہ یہی سب ہو گا۔ چینل بے شک زیادہ اہمیت کا حامل بن جاے مگر عالمی میڈیا میں ہمارے ملک کی بدنامی بھی ہوتی ہے لوگ ہستے ہیں کبھی ملالہ کبھی قندیل کبھی چاے والا اور کبھی یہ سیکیورٹی گارڈ ۔۔۔۔۔ہم کیوں لوگوں کو ہسنے کا موقع فرہم کرتے ہیں یہ کام سیاستدان کر تو رہے ہیں ان کی وجہ سے کم جگ ہسائی ہوئی ہے جو میڈیا کو بھی اپنا حصہ ڈالنا ہے ۔ہر معاملے کا حل ہم خود نہیں کر سکتے کاش یہ بات سمجھ آجاے ہمارے میڈیا اور گن مین جیسے لوگوں کو جو عالمی سطح پر ہماری ساکھ کو متاثر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ ملک کی بدنامی کا سبب بھی بنتے ہیں میری التجا ہے میڈیا اپنے بےلگام گھوڑوں کو تربیت دے کر میدان میں اتاریں اور تاکہ ریٹنگ کے ساتھ پاکستان کا نام بھی روشن ہو-
Ahmar Akbar
About the Author: Ahmar Akbar Read More Articles by Ahmar Akbar: 21 Articles with 16314 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.