خاتون صحافی کے منہ پر تھپڑ کی حمایت نہیں کی جاسکتی!
(عابد محمود عزام, Lahore)
اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خاتون
صحافی کا رویہ محلے کی کسی ماسی سے بھی زیادہ جارحانہ، غیر ذمہ دارانہ اور
نامناسب تھا، اس نے صحافتی اصولوں کی دھجیاں اڑائیں، زبردستی موقف دینے پر
مجبور کرنا اور موقف نہ دینے پر کسی کو کیمرے کے سامنے ذلیل و رسوا کرنے کو
کسی بھی رخ سے دیکھا جائے تو یہ سراسر صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔
صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی نہ تو پہلی بار ہوئی ہے اور نہ ہی آخری بار
ہوئی۔ ریٹنگ کے چکر میں آئے روز صحافی حضرات اس قسم کے نمونے پیش کرتے رہتے
ہیں، جن کی کسی طور بھی حمایت نہیں کی جاسکتی۔ ریٹنگ کے خبط نے عام رپورٹر
سے لے کر لاکھوں ناظرین کے سامنے بیٹھے معروف اینکرز تک کو ضرورت پڑنے پر
صحافتی اصولوں کی دھجیاں اڑانے پر مجبور کیا ہوا ہے، جو صحافتی تنظیموں،
صحافتی گروپس کے مالکان اور معتبر صحافتی شخصیات کی جانب سے ادنیٰ سے اعلیٰ
ہر صحافی کی تربیت کے لیے آواز بلند کرنے کی ضرورت و اہمیت کا تقاضا کرتا
ہے۔ اگر اس جانب توجہ نہ دی گئی تو انہیں غیرذمہ دارانہ رویوں کی وجہ سے
صحافتی برادری معاشرے میں اپنا بچا کھچا وقار بھی کھو بیٹھے گی، لیکن اس سب
کچھ کے باوجود کراچی میں خاتون صحافی کے منہ پر ایک مرد پولیس اہلکار کے
تھپڑ کی کسی طور بھی حمایت نہیں کی جاسکتی۔ غلطی خاتون صحافی نے کی تھی،
لیکن اس کے بدلے میں پولیس اہلکار نے بھی غلطی کا ارتکاب کیا اور تمام اصول
و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک خاتون کے منہ پر تھپڑ دے مارا۔
اس معاملے میں میرے لیے حیرت کا باعث ان لوگوں کا رویہ ہے، جو خاتون صحافی
کو لعن طعن اور پولیس اہلکار کو سلام پیش کر رہے ہیں، حالانکہ غلطی کا
ارتکاب دونوں نے کیا تو اس پر سرزنش بھی دونوں کی ہونی چاہیے۔ خاتون صحافی
کو پڑنے والے تھپڑ کے حامیوں کا موقف ہے کہ اس نے غیر ذمہ دارانہ رویہ
اپنایا، اس لیے اس کو تھپڑ ہی پڑنا چاہیے تھا۔ یاد رکھیے اگر غیر ذمہ
دارانہ رویے کو بنیاد بنا کر کسی کو تھپڑ مارنے کی اجازت دی جانے لگے تو
معاشرے میں کوئی بھی تھپڑ کھانے سے محفوظ نہیں رہے گا، کیونکہ یہاں مذہب سے
لے کر سیاست تک، عوام سے لے کر حکومت تک، نیچے سے لے کر اوپر تک شاید گنتی
میں ہی ایسے افراد ملیں، جو مکمل طور پر اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہوں
اور غیرذمہ دارانہ رویے نہ اپنائے ہوئے ہوں۔ اگر غیر ذمہ دارانہ رویے پر ہر
کسی کو تھپڑ مارے جانے لگیں تو منبر و محراب کا غلط استعمال کرکے مختلف
فرقوں کو دست و گریباں کرانے والے، غلط فتوے دے کر بے گناہ لوگوں کے خون
بہانے کا جواز فراہم کرنے والے بھی تھپڑوں سے محفوظ نہیں رہیں گے۔ اگر یہ
اجازت دے دی جائے تو عوام کو الو بنانے والے سیاست دانوں، قوم کا پیسہ لوٹ
کر اپنے بینک اکاؤنٹس بھرنے والے اور مختلف منصوبوں کے نام پر بے انتہا
کرپشن کرنے والے حکمرانوں کو بھی تھپڑ لگنے چاہیے۔جھوٹے پولیس مقابلوں میں
بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے، چھوٹی چھوٹی بات پر عوام سے رشوت لے کر انہیں
تنگ کرنے اور بااثر شخصیات کے گھر کی لونڈی بنی پولیس کو بھی تھپڑ لگنے
چاہیے۔ سب سے بڑھ کر سوشل میڈیا پر غیرذمہ دارانہ رویہ اپناتے ہوئے تعصب،
نفرت اور اشتعال کو جنم دینے والے افراد کو بھی تھپڑ لگنے چاہیے۔ اگر
خامیوں پر تھپڑ مارنے کا کسی کو اتنا ہی شو ق ہے تو کسی بااثر کرپٹ شخصیت
پر ہاتھ اٹھا کر دیکھے۔ ملک میں کس جگہ اور کسی شہر میں کرپٹ لوگ نہیں ہیں؟
لیکن ان پر کوئی ہاتھ نہیں اٹھاتا، کیونکہ معلوم ہے ان پر ہاتھ اٹھائیں گے
تو اگلے روز کسی کیس میں الجھ کر انہیں بااثر شخصیات کے اشاروں پر چلنے
والی پولیس کے مہمان ہوں گے۔
مانا خاتون صحافی نے صحافت کے اصولوں کی خلاف ورزی کی، لیکن کیا تھپڑ کی
حمایت کرنے والے لوگوں کے بھی کچھ اصول ہیں کہ نہیں؟ کیا حمایت کرنے والے
اپنے اصولوں کی خلاف ورزی نہیں کر رہے؟ خواتین کے احترام کے بھی کچھ تقاضے
ہیں کہ نہیں؟ کیا انسانیت مرد کے مقابلے میں خاتون کو کچھ اضافی احترام
دیتی ہے کہ نہیں؟ چلیے انسانی قوانین کو بھی ایک طرف رکھتے ہیں۔ یہ جو ہر
وقت یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اسلام نے عورت کو ہر جگہ عزت دی ہے۔ احترام دیا
ہے۔ کیا یہ صرف کہنے کی حد تک ہے؟ اسلام ہمیشہ عورت کی حفاظت کرتا ہے تو
بتائیے کیا اس خاتون صحافی پر تھپڑ کی حمایت کے معاملے میں اسلام اور اسلام
کے ضابطے یاد نہ آئے؟ اسلام تو جنگ کے اندر بھی عورت پر ہاتھ اٹھانے کی
اجازت نہیں دیتا، لیکن افسوس! آپ لوگ صرف ایک غلطی پر خاتون پر تھپڑ کو
جواز فراہم کر رہے ہیں ۔ بعض نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ عورت اسی وقت تک معزز
ہے، جب تک وہ مردوں کی عزت کرے اور عورت بن کر رہے۔ اگر وہ مردوں کے شانہ
بشانہ چلے تو اس کا احترام ختم ہوجاتا ہے۔ میں تمام علمائے کرام اور مبلغین
اسلام سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا اسلام ایسا کوئی حکم دیتا ہے کہ اگر عورت
مردوں کی برابری کرنے لگے تو اس کا احترام بھی ختم ہوجاتا ہے؟
جو صحافی عورت کے تھپڑ کی مخالفت کرنے والوں کو یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کو
صحافت کا ککھ پتا نہیں۔ ان کے نزدیک عورت نے صحافت کے اصولوں کو پامال کیا
تھا، اس لیے اسے تھپڑ ہی لگنا چاہیے تھا تو ان سے پوچھتا ہوں کہ ایک مسجد
میں بدفعلی کا امام مسجد پر جھوٹا الزام لگا کر تمام دینی مدارس، مذہبی
طبقے کو بدنام کرنے کی کوشش کرنے اور سچ واضح ہونے کے بعد معافی تک نہ
ماننے والوں نے بھی توصحافت کے اصولوں کو پامال کیا تھا۔ مولانا الیاس گھمن
پر بے بنیاد الزامات لگا اس کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کرنے والوں نے بھی
توصحافت کے اصولوں کی خلاف ورزی کی تھی۔ تو بتائیے جناب! اگر غیر ذمہ داری
پر خاتوں صحافی کو تھپڑ مارنا درست ہے تو کیا اس طرح جھوٹی صحافت کرنے والے
صحافی بھی تھپڑ کے حق دار ہیں کہ نہیں؟
|
|