اس کا نام ایمان تھا لیکن اپنا ایمان وہ
کھو چکی تھی اس کی بدنصیبی تھی کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی وہ جسٹ فار
انجوائمنٹ اور ٹائم پاس کا شکار ہوگئی تھی اور اس چکر نے اس سے وہ فخر چھین
لیا تھا جو ایک باپ کو بیٹی پر ہوتا ہے۔اب جب وہ خود ایک بیٹی کی ماں بنی
تھی تو یہ تصور اس کے رونگٹے کھڑے کردیتا کہ کہیں اس کی بیٹی بھی شکار بن
جائے اس لیئے وہ موبائل اور نیٹ کے مثبت استعمال کے فروغ کے لیئے قلم اٹھا
کر جہاد کرنے کا ارادہ کرچکی تھی تاکہ قوم کی بیٹیوں کو تصویر کے دوسرے رخ
سے متعارف کراسکے- |