امید کا چراغ کہاں سے لاؤں؟۔
(Sara Hussain Mughal, karachi)
عائشہ نے گاڑی سے نکل کر بچوں کو ڈانٹا اور
بھگا دیا۔ اس چوک پر موجود تمام دکاندار مسکرا کر بچوں کی مستیاں دیکھ رہے
تھے۔ بوڑھی دیوانی عورت جو منہ سے تو ان بچوں کو مسلسل گالیاں دے رھی تھی
جو اسے پتھر مار رہے تھے اور پاگل پاگل چلارہے تھے لیکن عائشہ کے بچوں کو
ڈانٹنے پر جب اُس عورت کی نظریں عائشہ سے ملیں تو عائشہ کو اُس دیوانی عورت
کی آنکھوں میں پانی، دکھ، دعا اور تشکر کی صورت نظر آیا۔ عائشہ خود سے یہ
سوال کرنے پر مجبور ھوگئیُ۔۔۔۔ “کیا ھم مستقبل کی ایسی تربیت کر رہے ہیں؟“۔ |
|