ایک تھپّڑ کی گونج
(Atta ur Rehman, Karachi)
کچھ عرصے قبل ہی کی بات ہے کہ ایک تجربہ
کار اور انتہائی سینیئر صحافی و اینکرپرسن ایوان سندھ میں اسلحہ لیکر گھس
گئے جب گریبان دبوچا گیا تو یہ وجوہ سامنے آئیں کہ "خفیہ" اداروں کی ناقص
کارکردگی کو "سرِعام" لانا مقصود تھا...
اِس دوران اُن صاحب کی حمایت میں صحیح و غلط کو خاطر میں نا لاتے ہوئے حد
سے بڑھ چڑھ کر اُچھل کود کی گئی...
چاہنے والوں نے دھرنا دیا، خصوصی نشریات پیش کی گئیں، سوشل میڈیا کے 'دانشوروں'
نے چبڑ چبڑ بھی کی، Twitter پر ٹرینڈ بھی سیٹ کیے گئے... الغرض یہ کہ اُس
وقت کسی کے ذہین کو دونوں اطراف میں یکسوئی کے ساتھ بہنے کی نا سوجی!
اب جب کہ ایک خاتون صحافی نے کسی تربیت یافتہ اور انتہائی تمیز سے بدتمیزی
کرنے والے سے بدتہذیبی کرڈالی تو لوگوں کے اندر کا آدمی اِس قدر تِلملا
اُٹھا کہ جیسے کہہ رہے ہوں (معذرت کے ساتھ) "بدبخت! یہ کون ہوتی ہے؟ ہمیں
دھکیلنے والی! کہ انہیں گھسیٹنے اور روند کر جوتوں سے ٹھکرانے کے میڈل تو
ہم نے حاصل کیے ہیں...
اور سالی! (پھر معذرت) یہ کون ہوتی ہے؟ ہمارا بازو جھٹکنے والی کہ ان کے
گریبانوں میں ہاتھ ڈال کر حُرمتوں و عزتوں کو تار تار کرنے اور ہر تہذیب و
تمیز کے اُصولوں کو چھنّی چھنّی کرنے کا حلف تو ہم نے اُٹھایا ہے!! "
جنابِ مرد سے اپنی بےحرمتی قبول نا ہوئ اور خود کو برتریت کے مقام پر نسب
کسی بُت کی مانند اِس دھڑام سے کسی کے رُخسار پر گِرا کہ پھر انا، رعونت،
تکبّر اور 'ترشی' کا ہر اعضاء 'کرسی' سے گِر کر اِس شدّت سے بھسم ہوا کہ
ریزہ ریزہ ہوگیا!
ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسا بھی ہے کہ جو خاتون کو اِس لیے زیادہ قصوروار
سمجھتا ہے کہ وہ چار دیواری سے باہر نکلی اور اُن کے مطابق اِس حد کو
پھلانگنے کے بعد صحیح اور غلط کا تصور مٹ جاتا ہے...
نا جانے کیوں یہ لوگ تعلیمات اور تجربات کے درمان ایک سرحد پیدا کردیتے
ہیں. حقیقت تو یہ ہے کہ مکّہ مکرمہ کی سب سے بڑی کاروباری خاتون شخصیت
'حضرت خدیجہ' رضی الله تعالى عنها تھیں، غزوئہ بدر میں 'حضرت عائشہ صدیقہ'
رضی الله تعالى عنها نے میدانِ جنگ میں اُتر کر زخمیوں کی مرہم پٹی اور
پانی پلانے کا کام سنبھالا، حضرت ابوبکر صدیق رضی الله تعالى عنه کی ایک
اور اور صاحبزادی یعنی 'حضرت__' رضی اللہ تعالٰی عنہا نے غار میں جاکر نبی
اکرم صلى الله عليه وآله وسلم اور یارِ غار کو کھانا پہنچانے کا فریضہ
نبھایا، 'حضرت زینب' رضی الله تعالى عنها نے اپنی آواز کی گھن گھنج سے
یزیدی دربار کو ہِلا دیا، حضرت خالد بن ولید رضی الله تعالى عنه کا عمامہ
شریف ایک روز جنگ پر جاتے ہوئے گھر مین ہی رہ گیا تو انکی زوجہ نے میدان
جنگ میں اُتر کر مخالفین کا قلع قمع کرتے ہوئے ان تک عمامہ پہنچایا واضح
رہے کہ اس عمامے میں ان صحابی نے حضور اکرم علیہ صلوٰۃ وسلام کا موئے مبارک
نسب کر رکھا تھا اور انہیں الله کی تلوار یعنی سيف الله پکارا جاتا ہے....
اب نا جانے یہ لوگ اور کون سا اسلام چاہتے ہیں اور کس اسلام کا نفاذ؟ البتہ
یہ لوگ تو شاید یہ بھی نہیں جانتے کہ کسی بھی چیز کا نفوذ نفوس پر ہوتا ہے
نا کہ کسی زمین کے ٹکڑے پر!!
اُس ایک تھپّڑ نے فساد برپا کیا ہوا ہے اور وہ 'ایک تھپّڑ کی گونج" اب تلک
سنائی دیتی ہے مجھے گمان ہوتا ہے کہ یہ گونج اُن کانوں تک بھی پہنچی ہوگی
کہ جو اب یہ سوچتی ہیں کہ اے کاش! اسے پہلے ہی تمیز کے دائروں میں بند اور
تہذیب کے پنجرے میں قید کیا ہوتا تو اس "ایک تھپّڑ کی گونج" نا اُٹھی.... |
|