رات خواب میں مرد مومن مرد حق تشریف
لائے ، چہرے پر نورانیت کی بہار تھی اور بلا کا اعتماد بھی ،باچھیں کھلی
ہوئی تھیں اور کمانی مونچھیں تنی ہوئی تھیں تیل لگے بالوں کی بڑی ترتیب سے
مانگ نکالی ہوئی تھی آنکھوں کا بھینگا پن برقرار تھا ،اٹھائیس سال سے منوں
مٹی تلے دفن رہنے کے باوجود وہ ہشاش بشاش تھے میں نے آنے کی وجہ پوچھی تو
فرمانے لگے کہ بہت عرصے سے من چاہ رہا تھا کہ اپنوں سے ملوں لیکن قبر سے
نکلنے کا وقت ہی نہیں ملتا تھا میں نے پوچھا تو حضور آج پھر کیسے وقت مل
گیا فرمایا وقت ملا نہیں نکالنا پڑا اصل میں میرے سیاسی فرزند ارجمند نے
جمعرات کوجس طرح شکاریوں کا شکار کھیلا تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے
اپنی تمام غیر بشری مصروفیات کو بالائے طاق رکھ دیں اور عالم ارواح سے آنے
کی وجہ یہ ہے کہ مخالفین کو ٹھکانے لگانے کے لئے میرے شاگرد نے جو آمرانہ
رویہ اپنا یا اس سے جہاں کل پاکستانیوں کے ذہن میں میری یاد تازہ ہو گئی
وہیں اس نے حق فرزندی بھی خوب ادا کیا ہے ۔ بس اسے یہ کہنے کے لئے آیا ہوں
کہ شاباش نواز شریف ۔۔۔شاباش!
میاں صاحب کے استاد تو ماشااللہ بہت ہیں حضرت زرداری بھی ان کے استاد ہونے
کے دعویدار ہیں لیکن جناب بات سیدھی سی ہے جو اسکولِ سیاست کے رجسٹرڈ پر
لکھا ہوتا ہے ہم تو اسے ہی استاد مانتے ہیں اور وہاں نوازشریف کے مضمونِ
سیاست کے ماسٹر جی کا نام جنرل ضیا لکھا ہے ۔۔۔ مجھے یہ تو پتہ نہیں کہ
حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دینے کا نادراصول کیسے سکیھاجاتا ہے
لیکن یہ ضرور پتہ ہے کہ موصوف نے 2009 میں گوروں کے بنائے دفعہ 144 کو کالا
قانون کہا تھا میاں صاحب دن کو رات اور رات کو دن کہہ سکتے ہیں اور گزشتہ
روز ایسا ہوا بھی کہ ان کی ناک کے عین نیچے بابوؤں نے شہر اقتدار کا اقتدار
برقرار رکھنے کی خاطر دفعہ 144 نافذ کی اور حرام کو حلال کردیا بس پھر کیا
تھا بندر کے ہاتھ میں استرا آنے کی دیر تھی اور پھر خوب کھلاڑیوں کا حلیہ
بگاڑا گیا (بعض انتہا پسند لیگی کارکن اس پر بہت خوش ہیں) ۔ دوسری جانب وہ
جو ریلوے کے وزیر ہیں وہ بھی کچھ بغلیں بجانے کے قابل ہوئے ہوں گے ،بقول ان
کے برگر پارٹی والوں کو جمہوریت کے لئے دی جانی والی قربانیاں کا کیا پتہ ،ان
کے کارکنوں نے کہاں کوڑے اور ڈنڈے کھائے اور کہاں جیل کی سیر کی اس بہانے
ان کا گلہ تو دور ہو گیا ہو گا ۔
گوروں کے قانون کی بات چلی ہے تولاہو ر کی مال روڈ پر دفعہ 144 کا صدا بہار
پودا لگا ہوا ہے جہاں جلسے، جلوس اور احتجاج کرنے پر پابندی ہے لیکن ن لیگ
اور تحریک انصاف سمیت سب یہاں احتجاج کرتے ہیں لیکن کبھی قانون حرکت میں
نہیں آیا۔ 27 اکتوبر کو جب دنیا بھر میں کشمیری بھارتی قبضے کے خلاف یوم
سیاہ منا رہے تھے اسلام آباد پولیس نے لاک ڈاؤن کرنے والوں کے خلاف کریک
ڈاؤن کیا ۔ آخر ان کے سر پر ایسی کیا افتاد آن پڑی تھی کہ وہ اسلام آباد کے
ایک بند ہال میں ہونے والے پی ٹی آئی کے یوتھ ونگ کنوینشن پر دھاوا بول دیں
ان پر لاٹھیاں برسائیں خواتین کے ساتھ توہین آمیز سلوک کریں انہیں گرفتار
کرکے اڈیالہ جیل میں ڈال د یاجائے جیسے یہ کارکن نہ ہوں دہشت گرد ہوں ۔۔
حکومت کی اس پر بھی بس نہیں ہوئی شیخ رشید کی لال حویلی کے معاملے پر بھی
حکومت کالی ہنڈیا سر پر لئے سربازار پھرتی رہی ۔
ن لیگ کی گلو بٹ پلس پولیس نے جو پالیسی اپنائی اس کی پیپلز پارٹی اور ایم
کیو ایم سمیت حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے شدید مذمت کی جبکہ عمران خان
نے ملک بھر میں پرامن احتجاج کی کال دیدی یعنی تحریک انصاف نے 2 نومبر دن 2
بجے جو احتجاج اسلام آباد میں کرنا تھا وہ حکومتی دماغوں کی تندی کی وجہ سے
اب ملک بھر میں ہو رہا ہے اور اگر فرینڈلی مودی حکومت کی جانب سے کوئی مہم
جوئی ہوئی اور نہ کوئی سانحہ پیش آیا تو بدھ کو ہونے والا تحریک انصاف کا
اسلام آباد احتجاج شدت اختیا رکر جائے گا جسے عمران خان نے اپنی سیاسی
زندگی کا ورلڈ کپ قراردیا ہے۔
24 اکتوبر کے سانحہ پی ٹی سی کوئٹہ کے بعد سے ہی ن اور جنون کا معاملہ گرم
ہو گیا تھا اور خان صاحب نے ہر صورت 2 نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج کرنے
کا کہہ دیا تھا عمران خان کی سوچ ہے کہ وہ جب بھی حکومت کے خلاف کچھ کرنا
چاہتے ہیں کچھ نہ کچھ ہو جاتا ہے ان کا اشارہ سانحہ پولیس ٹریننگ کالج
کوئٹہ کی طرف تھا وہیں انہوں نے نوازشریف کو سکیورٹی رسک قرار دیا اب یہ
بھی عجب اتفاق ہے کہ جنہیں وہ سکیورٹی رسک قرار دے رہے ہیں وہ وزیر اعظم
ہیں ،،،، اور نوے کی دہائی میں جب یہی وزیراعظم اپوزیشن رہنما تھے تو انہوں
نے اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو سکیورٹی رسک قراردیا تھا اور اس کی
وجہ یہ تھی کہ پیپلز پارٹی کی حکومت اپوزیشن کے جلسے جلوس ا ور مارچ کی راہ
میں روڑے اٹکارہی تھی بالکل ایسے ہی جیسے آج کل ن لیگ تحریک انصاف والوں کی
ساتھ کر رہی ہے ۔
احتجاج جمہور کا جمہوری حق ہے آئین اس کی اجازت د یتا ہے تو پھر آپ اور میں
کون ہوتے ہیں کسی کو احتجاج نہ کرنے دیں، امریکا میں صدارتی انتخابات سر پر
ہیں ہلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ بڑے امیدوار ہیں وہ الفاظ کی گولا باری کرتے
ہیں عامیانہ زبان بھی استعمال کرتے ہیں جو غلط ہے لیکن وہ تشدد کا راستہ
نہیں اپناتے وہاں کی پولیس سیاسی ہے نہ وہاں سیاسی بتوں کی پو جا کی جاتی
ہے اور اس کی وجہ دو جماعتی نظام ہے جس پر سیاسی گدی نشینوں کی اولاد نہیں
بیٹھتی۔ ہمارے ہاں دو بڑی سیاسی جماعتوں کو کئی بار حکومت کرنے کا موقع ملا
تجربہ حاصل کیا لیکن ہر بار ان کا رونا اس دیہاتی جیسا ہوتا ہے جو شہر میں
میلہ دیکھنے آیا تو اس کا رومال چوری ہو گیا تو وہ یہ دہائی دیتے ہوئے واپس
گاؤں کا رخ کرتا ہے کہ یہ میلہ اس کا رومال چوری کرنے کے لئے لگایا گیا تھا
۔ تو جناب میاں صاحب آپ جمہور کے نمائندے ہیں اپنا رومال سنبھال کر رکھیں
عمران خان غلط کررہا ہے تو کرنے دیں آ پ اور آپ کی ٹیم اتنی بوکھلا کیوں
گئی ہے اور وہ اوچھی ،بھونڈی اور چھچھوری حرکتیں کیوں کی جارہیں ہیں کہ
کوئی پھر آپ کا رومال یعنی مینڈیٹ چوری کرلے اور میاں صاحب آپ پر اگر چوری
کا الزام لگایا گیا ہے تو تلاشی دینےمیں کیا ہرج ہے کپتان کی جامہ تلاشی
قوم خود ہی اگلے انتخابات میں لے لی گی ۔آپ منجھے ہوئے اور باربارکی
ٹھوکریں کھائے ہوئے سیاست دان ہیں آپ کو کم از کم اسلام آباد ہائی کورٹ کے
اس فیصلے کا ہی پاس کرلینا چاہیے تھا جس کی سیاہی بھی ابھی خشک نہیں ہوئی
تھی لیکن حکومت نے جو تماشا لگایا اس سے تو یہی لگتا ہے کہ آپ نے اس بار
کپتان اور اس کے کھلاڑیوں کی پچ اکھاڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے اگر ایسا ہوا تو
یہ جہاں جمہوریت اور اس قوم کے لئے اچھا نہیں ہو گا وہیں میرے خواب میں
جنرل ضیا دوبارہ آپ کو شاباش کا پیغام دینے ضرور آ جائیں گے ! |