مقیم اثرؔ بیاولی : ایک اچھوتا نثر نگار
(Dr. Muhammed Husain Mushahid Razvi, Malegaon)
مابعد جدید ادب کے تخلیقیت افروز شاعر و نثار مقیم اثر بیاولی کی نثر نگاری پر
ڈاکٹر مشاہدرضوی کی ایک تاثراتی تحریر
ڈاکٹر مشاہدرضوی آن لائن ٹیم |
|
مقیم اثرؔ بیاولی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ
ایک اچھے نثر نگار اورمایۂ ناز انشاء پرداز بھی ہیں ۔آپ دراصل
اردودنیامیں ایک شاعر ہی کی حیثیت سے متعارف ہیں اور آپ کے شاعرانہ وصف
میں نثری صلاحتیں پس پردہ چلی گئی ہیں جب کہ آپ کی نثری کاوشات بھی اپنا
جواب آپ نہیں رکھتیں۔ خود مقیم اثر ؔ کہتے ہیں کہ ’’مجھے میری شاعری کی
بجائے میری نثر پر ناز ہے ۔‘‘ مقیم اثرؔ کا یہ کہنا ہمیں اس بات پر انگیز
کرتا ہے کہ ان کی نثری کاوشات کو پڑھا اور پرکھا جائے ۔ جب راقم نے آپ کے
مختلف مضامین کو پڑھاتو یہ واقعتا ایسا محسوس ہوا کہ آپ کی نثر بھی خاصے
کی چیز ہے۔
مقیم اثرؔ کی نثری نگارشات میں کتب و رسائل پر تبصرے ،تنقید، پیش لفظ
اورانشائیے نیزمختلف شخصیات پر مضامین موجود ہیں۔بعض غیر مطبوعہ تنقیدی
مضامین راقم کو پڑھنے کا اتفاق ہوا جن میں مقیم اثرؔ ایک بے لاگ نقاد کے
رُوپ میں نظر آتے ہیں ۔آپ کی نثری کاوشات کو دیکھ کر مجھے یہ کہنے میں
باک نہیں کہ آپ جہاں ایک بلند پایہ شاعر ہیں وہیں مایۂ ناز انشاء پرداز و
نثر نگار ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین ناقد بھی ہیں۔آپ کا طرزِ تحریر اور
اسلوب نگارش بھی اچھوتا اور نرالا ہے ،کم سے کم لفظوں میں بڑی سے بڑی بات
کہنے میں آپ کومہارت حاصل ہے ،سمندر کو کوزے میں بند کرنے میں آپ یدِ
طولیٰ رکھتے ہیں۔آپ کی نثر میں بھی نوتراشیدہ ترکیبی وصف کے جلوے نظر آتے
ہیں۔یہاں آپ کے چند نثری شہ پارے پیش کیے جارہے ہیں۔
اعلیٰ حضرت اما م احمد رضا بریلوی کی شاعری پر مقیم اثرؔ کے تحریر کردہ غیر
مطبوعہ مقالہ بعنوان’’رہبرِ قطرہ بہ دریا ہے خوشا موجِ شراب‘ ‘ کا اک
اقتباس ملاحظہ کریں :
(۱) ’’اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلوی خان احمد رضا کی روحانی شخصیت ژرف نگاہی در
احوال و معارف ِ شریعت و قرابت و محبتِ رسول(ﷺ)کی تہہ دار نسبتوں اور عشقِ
والہانہ اور ان کی دروں بینی کو اُجاگر کرنے کے لیے اجمالاً میں نے عرض
کردیا ہے کہ آپ نے بواسطۂ کملیِ سیاہ و آستانۂ رسول(ﷺ) و صحابۂ کرام
اجمعین و تابعین و تبع تابعین ،غوث ، قطب،ابدال کے فیضانِ روحانی سے جو فیض
حاصل کیا ہے مقدور بھر اسکی گرہ کُشائی میں آسانی ہو۔
اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلوی کو کلامِ حق کی ترجمانی کے لیے جو آہنگِ خاص رب
تعالیٰ نے عطا کیا ہے وہ اتنا پُرکشش اور والہانہ اور وجد آفریں ہے کہ
چرند ، پرند ، درند، انس وجن وملائکہ سبھی اس میں گنگناتے ہیں۔صبح تڑکے
بعدنمازِ فجر اذان ونماز کی پُرتجلی فضامیں نعتِ احمدِ مجتبیٰ (ﷺ) کی مہکتی
گونج جو مشامِ جاں کو معطر کرجاتی ہے،آپ کی مقبولیت کی دلیل ہے۔
محبانِ اراکینِ بزمِ رضا (سرشارانِ جامِ وحدت و محبتِ رسول ﷺ)کی عقیدتوں
اور محبتوں سے بندھا ادب کا یہ حقیر طالب علم لرز گیا جب ان حضرات نے اعلیٰ
حضرت ذی وقار فاضلِ بریلوی خان احمد رضا کی مشہورِ عالم نعتیہ و منقبتی
تصنیف بعنوان’’حدائقِ بخشش‘‘کے کچھ مخصوص حصوں پر خیال آرائی کی دعوت یہ
کہہ کر دی کہ ازروئے عاشقِ رسول(ﷺ)اس کتاب پر کچھ لکھانے کا ہمارا بھی حق
بنتا ہے ۔التجا و اخلاص میں ڈوبی ہوئی اس محبت کا دبیز و مہین تاثُّر اس
قدر ہیجان انگیز تھا کہ انکار اور گریز کا دامن مرے ہاتھ سے جاتا رہا اور
میں نے اپنی بساط بھر خامہ فرسائی جو مکڑی کے نرم و نازک جال سے بھی نازک
تر ہے کرلیا ؎
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مرجاتے ہیں‘‘
اس اقتباس کی یہ عبارتیں ’’ژرف نگاہی در احوال و معارف ِ شریعت و قرابت و
محبتِ رسول(ﷺ)کی تہہ دار نسبتوں‘‘…’’صبح تڑکے بعدنمازِ فجر اذان ونماز کی
پُرتجلی فضامیں نعتِ احمدِ مجتبیٰ (ﷺ) کی مہکتی گونج جو مشامِ جاں کو معطر
کرجاتی ہے‘‘…’’التجا و اخلاص میں ڈوبی ہوئی اس محبت کا دبیز و مہین تاثُّر
اس قدر ہیجان انگیز تھا کہ انکار اور گریز کا دامن مرے ہاتھ سے جاتا رہا
اور میں نے اپنی بساط بھر خامہ فرسائی جو مکڑی کے نرم و نازک جال سے بھی
نازک تر ہے کرلیا‘‘ پڑھیے اور بار بار پڑھیے یہ چند جملے کئی صفحات پر
پھیلنے والے مضامین کو اس حُسن و خوبی اور اختصار سے بیان کرتے ہیں کہ بے
ساختہ دل سے داد نکلتی ہے ۔جومقیم اثرؔ جیسے منفرد شاعر کی منفرد نثر نگاری
کی روشن دلیل ہے۔
اسی طرح عبدالرشید ادیبؔ بھڑگانوی کے سفرنامے’’کاساً دہاقاً ‘‘پر مرقومہ
مقیم اثرؔ بیاولی کا پیش لفظ ہمارے اس دعوے کی تصدیق کرتا ہے کہ مقیم اثرؔ
اپنی نثر میں سمندر کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں اور وہ
مختصر مختصر جملوں میں بڑی سادگی و صفائی سے بڑے سے بڑا مفہوم ادا کردیتے
ہیں اور یہاں آپ کا نوتراشیدہ ترکیبی انداز بھی اپنی مکمل آب و تاب کے
ساتھ جلوہ گر نظر آتا ہے جو قاری کو مسرت و بصیرت کے احساس سے آشنا کرتا
ہے۔’’کاساً دہاقاً ‘‘ کے پیش لفظ کا اقتباس ملاحظہ کیجیے :
(۲) اے اہلِ نظر کیوںکہ میرے پیشِ نظر فولادی آئینہ نہیں قلبی آئینہ
ہے،اور سب جانتے ہیں کہ اس صیقل نگۂ یار کی توجہ کے بغیر ممکن نہیں یہاں
آگ کو وصلیہ صیقل بنانا بے سود ہوگا،اس لیے اپنی بے نوری،اپنی کم مائیگی
کو رفو کرنے کے لیے، منوّر کرنے کے لیے کیوں نہ اسی بارگاہِ بصیرت نواز میں
خود کو بطورِ عجز پیش کردوںجہاں ذرہ بھی آفتابی خلعتوں کا اعزاز پاکر شانِ
خداوندی کی خاک نوازجہت کی روشن مثال بن جاتا ہے۔شاید یہ عاجزی اس درِ کرم
سے سعادت کا اعزاز ہی حاصل کرلے، کہاں میں اور قلبی آئینے کا انعکاس، جس
کی ہر کرن میں ایک کائناتِ معانی جلوہ گر ہے، جس کی دل فروز ضیا قبااور ادا
ہر سمتِ نظر کو خیرہ کیے ہوئے ہے۔ جس کا جمالِ جہاں افروز عرش و فرش کی سفر
وقیام کی داخلی و بیرونی وارداتوں کو موسموں کی جملہ حیرت زائیاں عطا کرکے
مجھے بھی حیرت آئینہ سے ہمکنار کررہا ہے ْفکر مند ہوں کہ ’’کاساً
دہاقا‘‘پر میری رائے کے اظہار کا کیا بنے گا؟واللہ ! دروبست الفاظ و معانی
سے کھیلتی روح و بدن کی صد رنگ حیرت فزا رعنائیاں اور تابناکیاں اور ان کا
نقرئی مترنم چشموں کا سا نور افشاں دلکش بہاوتسکینِ دل وجاں کا سامان بہم
کرگیا،ایسا محسوس ہونے لگا ہے جیسے میں بھی اس سفر نامے کا ایک مجلا و
مصفّیٰ ناقابلِ فراموش کردار بن گیا ہوں ۔‘‘
(کاساً دہاقا پر پیش لفظ ،مرقومہ مقیم اثرؔ بیاولی،بتاریخ ۲۵؍مارچ۲۰۰۱ء)
متذکرہ بالا نثری شہ پارہ اپنے اندر متنوع انداز لیے ہوئے ہے ۔پیرایۂ زبان
و بیان میںتصوفانہ آہنگ بھی ہے،سائنٹفک طرز بھی،……یہ نو تراشیدہ ترکیبیں
اپنے اندر ایک جہانِ معانی سموئے ہوئے ہیں ’’بصیرت نواز …خاک نوازجہت
…آفتابی خلعتوں…موسموں کی جملہ حیرت زائیاں … حیرت آئینہ‘‘…اور یہ جملہ
…’’دروبست الفاظ و معانی سے کھیلتی روح و بدن کی صد رنگ حیرت فزا رعنائیاں
اور تاب ناکیاں اور ان کا نقرئی مترنم چشموں کا سا نور افشاں دلکش
بہاوتسکینِ دل وجاں کا سامان بہم کرگیا‘‘…تو وجدانی کیفیت سے دوچار کرتا ہے
۔مقیم اثرؔ کے نثری شہ پاروں میںاجمال کے ساتھ ایسی تفصیل پوشیدہ ہے جسے
اہلِ نظر بہ خوبی محسوس کرسکتے ہیں ۔ذیل میں مقیم اثرؔ کے چند نثری
اقتباسات بلاتبصرہ ملاحظہ کریں اورآپ کی اعلیٰ ترین ادبی صلاحیتوں ،فصاحت
و بلاغت کا نظارا کریں۔
(۳) ’’ادبی ادوار کی تقسیم و تہذیب و ترتیب کے ارتقائی جاری دور کا پوری
معنوی،تہہ دار،غیب رس،صدرنگ ادبی منظر نامہ میری آنکھ میں بہ تمام وکمال
اپنے پورے طمطراق کے ساتھ محوِ گردش ہے سوچ رہا ہوں ، روایتی ادب، ترقی
پسند ادب، جدیدادب، مابعدجدیدادب، ساختیات، پسِ ساختیات، اور نئے عہد کی
شعری تخلیقیت سے مزین شاہ راہِ حیات سے گذر کر قبرِ نشاطؔ کاطواف کچھ اس
انوکھے انداز سے کروں کہ رحمت و عقیدت و فضیلت بہم ہوکر ’’امر بیل‘‘ کی
ترجمانی میں تجلی ریز، شفق آلود افق بن کر نگاہ و دل کا مرکز بن جائیں۔‘‘
(اقتباس از:نشاطؔ…ایک شیریں زخم آلود دیوانگی،مرقومہ :مقیم اثرؔ بیاولی)
(۴) ’’ پڑھیے کہ یہی مقصودِ رب تعالیٰ بھی ہے،سوز و آہنگِ قلبی میں ڈھلے
اُس سفرِ حرفِ نوری پر لکھی گئیں چند تاثراتی شعاعیں جن سے حیات کی صد رنگ
بوقلمونی مترشح ہے۔ زندگی ایک منصوبہ بند، رازدار، طرح دار، پیچ دار حکمت
ہے، جس کی گرہیں ، تدبر، فکر، عقل، بصیرت، بصارت، شیریں دیوانگی ، مہکتی
فرزانگی، صبر واستقلال مسلسل جدوجہد کے ذریعے کھولی جاسکتی ہیں۔ یہ حکیمانہ
، فلسفیانہ، شاعرانہ، درد افروزتازیانہ، ہمارے حکمتِ پرور ذہن کشاہاتھوں کو
ان نظموں کے وسیلے سے دستیاب ہوتا ہے………عہدِ موجود اور عقل کی نئی اڑانیں
جو تاروں کی ہم نشینی کی آرزو مند ہیں، نئے قدم جو زمیں فرسائی سے آزاد
ہوکر فلک پیما ہوچکے ہیں ۔ ایسے نورانی دورِ تغیر و ارتقا پذیر میں بڑی عمر
کے تشنگانِ علم کی تربیت کی جانب اپنا رُخ کرنا صبح کے تختِ زریں سے اتر کر
زوالِ شام کو نئے آفتابِ علم و ہنر کی روشنی سے ہمکنار کرنا نہیں تو اور
کیا ہے؟………میں ان نظموں کے عمیق مطالعے کے بعد پورے وثوق سے یہ بات لکھ
رہاہوں کہ ان نظموں کے وسیلے سے ہم اکیسویں صدی کو درکار اُس بصیرت آگیں،
خیرپرور، روشنی کشا، دردآمیز، خیرکش، تمدّن نثار، عدل بیز، آبادی پسند،
پُر امن داعی وسائیں کی تخلیق کرسکتے ہیں۔ جس پر مہذب و متمدن نور افشاں
معاشرت و معیشت آفاقی سطح پر ہمیشہ ہمیشہ ناز کرتی رہے گی۔‘‘
(اقتباس از :مرحبا اے ضیاپاش نجمِ حیات آفریں ،مرقومہ :مقیم اثرؔ بیاولی
،مشمولہ:
کامیابی کے موتی ،رمضان فیمس،)
(۵) ’’یہ غزلیہ تفکر نامہ برادرم’’راحت اندوری‘‘ کی اس فکری جگر کاوی کے
نام جو حقائق کش، تیرہ و سنگلاخ، زمینوں پر’’دل و دماغ سے پھوٹتی لوؤں کے
سہارے کشتِ حرف و نوا‘‘ کی نمو کاری کو مقصودِ حیات بنا کر درد کی روشن
تفسیریں لکھنے میں ہمہ وقت سورج بنے اپنی ہی ذات میں سلگ رہے ہیں، مہک رہے
ہیں۔ اور دنیا گلاب رنگ آنکھوں سے اُن کے فن کے نظارے میں ڈوبی ہوئی ہے۔‘‘
(راحت اندوری کے لیے:از:مقیم اثرؔ بیاولی،بتاریخ ۲۹؍ دسمبر۲۰۰۷ء)
(۶) ’’یہ غزل میرؔ و غالبؔ کی عظمتِ فن کے وسیلے سے اُس حساس قد آور
فنکاراحمد فراز کی نذر کررہاہوں جنہوں نے غزل کی روایت کواپنے خون کی شرکت
سے ایک نئی جہت، اک نیاوقار، اک نیا آہنگ، اپنے عصر کی زندہ دھڑکنوں کی
شمولیت کے ساتھ عطا کرکے آنے والوں کے لیے اُسے لالۂ صحرا کا بہشتی زیور
پہنا دیا ہے۔ ‘‘(احمدفراز کی نذر،مشمولہ :سرحدِ لفظ نہیں:مقیم اثرؔ، ص۲۹۹)
(۷) ’’ہرے بھرے دن، سہاگنوں سے جگمگاتی راتیں، شام کی اداسی میں گرم و تازہ
لہو کی سرخیاںبھرنے کی آرزوئیں افقِ حیات پر جگمگاتے خواب، موسموں کا
سیلانی مزاج، آبی برقی توانائیاں، محبتوں اوردشمنی سے بھری جلتی مہکتی زرد
سرخ بستیاں، لہولہان ساعتیں، حالات کی تمازت کی نذر ہوکر کافور سی پگھل چکی
ہیں۔
دوپہر کے جلتے سینے سے سبز گھاس کی نمود، ویران تپتی رہِ گذاروں پر لوٹتے
زہریلے سا نپوںکے منہ سے آبِ حیات کی توقع رکھنے کے مترادف ہے ۔ درد و ٹیس
سے بھری پیاس، اپنے زخموں کی تلافی اور سیرابی کس چشمۂ حیات سے طلب کرے ،
اس ایک سلگتے سوال نے ابھرتی مچلتی آرزووں کو بیوَگی کا لباس پہنا دیا ہے۔
وقت ڈھونڈ رہا ہے پھر کسی عیسیٰ نفس، کسی موسوی عصااور اس انگشتِ قمر شکن
کو جن کے روشن وجود کے سامنے ہمیشہ سر چڑھتی راتوں نے سجدے کیے ہیں۔
اُڑتی ہوئی دھول کو نئے آئینوں میں ڈھال کر ان سے نئی پرچھائیاں ایجاد
کرکے’’مکانِ جامد‘‘ کو لازمانی، لامکانی تحرک سے آشنا کرانا ہی فقط ادب و
فن کی ذمہ داری نہیں بلکہ اس عجائب کدے کے تمام مبہم عجائبات کو کما حقہٗ
نئے طور، نئی طرزپر ’’مٹی ‘‘ میں گھول کر اک نئے جہانِ حسن کی تخلیق کا
اعزاز عطا کرنا بھی اہلِ علم و ادب کا فریضہ و منصب بن جاتا ہے۔
نئے خواب، نئی دھوپ، نئے سایے، نئے نشیب، نئے فراز، نئے پیچ و خم، نئی
راہیں ، نئی منزلیں، نیا اضطراب، نیا سکون، نئے قیاس وگمان، نئے واہمے، نیا
یقین، نیا ایقان، نیا عرفان، نئے پرندے، نئی اُڑانیں، نئے خورشیدو قمر، مِن
جملہ غیاب و شہود کی نئی زمینوں پر کھینچے گئے خطوط پر اپنے افکار و خیالات
کے روشن نقوش ثبت کرنے والا عبقری شاعر ایک عرصے بعد زمانوں کی سمجھ میں
آتا ہے
لفظِ روشن ، مہر آگیں ہر جہت سے آشنا
مجھ کو ڈھلتے چاند کے ماتم کدوں سے دور رکھ
(دیباچہ سرحدِ لفظ نہیں :مقیم اثرؔ بیاولی)
مقیم اثرؔ بیاولی کی نثری کاوشوں کے یہ سات اقتباسات آپ کے مایۂ ناز
انشاء پرداز،بلند پایہ ادیب اور صاحبِ طرز نثر نگار ہونے پر دلالت کرتے
ہیں۔اہلِ علم و ادب ان اقتباسات کوپڑھ کر مقیم اثرؔ کی نثر میں پوشیدہ
نوتراشیدہ اور خود وضع کردہ ترکیبوں کا انوکھا ،اچھوتا اور البیلا نقش دیکھ
سکتے ہیں ۔ان اقتباسات اور مضامین کو ملاحظہ کرنے کے بعد مقیم اثرؔ کا یہ
کہنا کہ ’’مجھے میری شاعری کی بجائے میری نثر پر ناز ہے ۔‘‘ہمیں بھی یہ
کہنے پر انگیز کرتا ہے کہ مقیم اثرؔ کی شاعری تو شاعری نثر بھی اپنی مثال
آپ ہے۔
|
|