یتیم وفاقی ملازمین کی سوتیلی ماں
(M.Irfan Chaudhary, Lahore)
سوتیلی ماں کا سوتیلے بچوں کے ساتھ جو رویہ
ہوتا ہے وہ کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں ہے عموماََ اس بات کو بعض جگہوں پر
ضرب المثل کے طور پر بھی لیا جاتا ہے جوکہ صحیح بھی ہے کیونکہ سوتیلی ماں
ہمیشہ اپنے بچوں کو سوتیلے بچوں پر فوقیت دیتی ہے جو کہ ایک فطری عمل ہے
مگر سبھی مائیں ایسی نہیں ہوتی بعض مائیں سوتیلے بچوں کو اپنے بچوں سے
زیادہ پیار کرتی ہیں مگر اُس کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی اُس کا اپنا مفاد
پنہاں ہوتا ہے جن میں سے ایک تویہ ہے کہ شوہر کی وفات کے بعد جائیداد کا
بڑا حصہ بچوں میں منقسم ہو جانا ہے اِس مفاد پرستی کی بناء پر اُسے چار و
ناچار سوتیلے بچوں سے پیار کا اظہار کرنا پڑتا ہے اور دُوسری وجہ عورت کا
بانجھ ہونا ہے کہ اپنے بچے نہ ہونے کی وجہ سے سوتیلے بچوں کو پیار کرنا
پڑتا ہے شائد آپ میری اِن دونوں باتوں سے اتفاق نہ کریں کیونکہ ہر کسی کو
اپنی یا کسی اور کی بات سے متفق ہونا یا نہ ہونا اُ س کا جمہوری حق ہے اب
اگر جمہوری حق کی بات نکل ہی پڑی ہے تو ذرا گوش گزار کرتا چلوں کہ حال ہی
میں اسلام آباد پولیس کی اَپ گریڈیشن کر دی گئی ہے جس کے مطابق کانسٹیبل کو
گریڈ 5 سے گریڈ7 ، ہیڈ کانسٹیبل کو گریڈ 7 سے 9 اور اے ایس آئی کو گریڈ 9
سے 11 میں ترقی دے دی گئی ہے اور اس ترقی سے ذرائع کے مطابق تقریباََ
10,280 پولیس اہلکار مستفید ہوں گے جن میں 7,759 کانسٹیبل، 1423 ہیڈ
کانسٹیبل اور 1,079 اے ایس آئی شامل ہیں اور یقیناًحکومت کا یہ فیصلہ خوش
آئند ہے اور ایسے فیصلوں سے ملازمین میں کام کرنے کی لگن زیادہ ہو جاتی ہے
آپ بھی سوچ رہیں ہوں گے کہ بات تو سوتیلی ماں کی ہو رہی تھی درمیان میں یہ
پولیس اہلکار کہاں سے آ گئے؟ بات سیدھی اور سادہ سی ہے کہ سرکاری ملازمین
وہ سوتیلے بچے ہیں کہ جب تک حکومت جیسی سوتیلی ماں کو کوئی مفاد نہ ہو وہ
ان سوتیلے بچوں سے پیار نہیں کرتی میَں یہاں پولیس اہلکاروں کی ترقی میں
رکاوٹ بالکل نہیں بننا چاہتا چاہے یہ ترقی اسلام آباد میں عمران خان کے
دھرنے کے پیشِ نظر کی گئی ہو یا پھر کوئی اور وجہ ہو میں تو یہاں سوتیلی
ماں سے سوال کرنا چاہتا ہوں کہ وفاق کے اور بھی بہت سے یتیم ملازمین ہیں جن
کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک ہو رہا ہے اوراُن کا کوئی پُرسانِ حال نہیں
ہے اُن کے مرحوم وفاقی باپ کی کوئی جائیداد بھی نہیں ہے کہ جن کے بدلے
حکومتی سوتیلی ماں اُن کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھے اُن یتیم ملازمین کو
اپنی آغوش میں لے لے کے کب تک وہ ایڈہاک جیسے سوتیلے بھائیوں اور کنٹریکٹ
جیسی سوتیلی بہنوں کا ڈر دل میں سمائے سہما رہے ، کب تک وہ لوگوں کے طعنے
سُنے اور کب تک وہ اپنے سگے بچوں کو بہتری کے جھوٹے دلاسے دے، کب تک وہ
ہسپتالوں کے آؤٹ ڈور سے اپنا پیٹ کاٹ کر بیماری کی دوا لے؟
’’دروغ گوئی نہیں عیب اس زمانے میں
جو بولا سچ ، وہی دُنیا ئے زر میں خوار ہوا
غریبِ شہر ہی پھرتا ہے مُنہ چُھپائے ہوئے
امیرِ شہر کبھی بھی نہ شرمسار ہوا‘‘
میری آواز ہے کے جدید خطوط پر استوار انفارمیشن ٹیکنالوجی کے کانوں تک
پہنچے کہ مُلک کے لئے معمار پیدا کرنے والے ادارے کے ملازمین پچھلے چار سال
سے اپ گریڈیشن کی راہ تک رہے ہیں حالانکہ اس ضمن میں وفاق کی جانب سے ایک
مراسلہ نمبری F.No.1(3)Imp/2015-630 مورخہ 07-July-2015 کو جاری کیا گیا جس
کے مطابق یکم جولائی2015سے وفاقی ملازمین کے بنیادی پے سکیل (Revise)
دُہرائے جائیں مگر یہاں پر ایک اور بد بختی کہ سوتیلی ماں نے وفاقی ملازمین
کو کسی اور کی گود میں دیا ہوا ہے یعنی کے سوتیلی ماں کی سوتیلی سہیلی!
’’نہ مانگ سکتا ہے وہ،اور نہ چھین سکتا ہے
پھنسا وہی ہے جو ہمیشہ وضع دار ہوا
زمین کو بیچ دیا، آسمان کو بیچ دیا
وطن میں میرے یہی ایک کاروبار ہوا‘‘
ہر سال بجٹ کے نام پر اُن پہ مہنگائی کا بم گرایا جاتا ہے مگر پچھلے چار
سال سے ایک بار بھی حکومتی سوتیلی ماں کی جانب سے دس فیصد روٹی کا لُقمہ جو
کہ اُس نے شائد بانجھ ہونے کی بناء پر وفاقی یتیم ملازمین پر ترس کھا کر
دیا مگر سوتیلی سہیلی نے ابھی تک اُن ملازمین کے پیٹ میں نہیں پہنچنے دیا
جس کی وجہ سے اب خالی پیٹ میں چوہوں نے بھی دوڑنا چھوڑ دیا ہے اس لئے اگر
تو وفاقی باپ اپنے ملازم بچوں کو خوش و خرم دیکھنا چاہتا ہے تو فوری طور پر
وفاقی ملازمین کی سوتیلی ماں کو حُکم جاری کرے کہ وہ اپنی سوتیلی سہیلی کے
توسط سے وفاق کے ملازمین کو فی الفور مستقل کرنے کے ساتھ ساتھ حکومتی
سوتیلی ماں کے ذمے پچھلے چار سال کے واجبات ادا کرے اور ملازمین کے اسلام
آباد پولیس اہلکاروں کی طرح اپ گریڈیشن کے احکامات بھی صادر فرمائیں کیونکہ
وفاقی باپ کے پاس ایک یہی تو کام ہے باقی تو وہ حکومتی جوڑُو کا غلام ہے کے
اُس کے دل میں جو آئے وہ کرے اس لئے بناء مفاد پرستی کے شفقت بھرا ہاتھ
رکھے تا کہ ملازمین کی دُعاؤں سے جو سوتیلی ماں پر بُرے حالات بنے ہوئے ہیں
اور شریکے نے دھرنے کے نام پر اودھم مچا رکھا ہے اُن تمام بلاؤں سے چھٹکارہ
پا سکے نہیں تو یتیم کی بد دُعا سیدھا عرش تک جاتی ہے اور کوئی کنٹینر ،
کوئی آنسو گیس کے شیل اُس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے اور جب یہ بد دُعا
اُوپر والے کی عدالت میں پہنچ گئی تو نیچے والوں کی عدالت کا کمیشن بھی کام
نہیں آئے گا۔
’’آج کا دن تو گزر ہی جائے گا
فکر کل کی ذہن کو بے کل کرے
بے ثباتی پہ ہے یہ کیسا یقین
مسئلہ کوئی ہمارا حل کرے‘‘ |
|