آئے دن ملک میں دہشت گردی کے واقعات رو نما
ہورہے ہیں ہر واقعہ کے بعد دہشت گردوں کے قلع قمع کرنے کا دعوی کیاجاتاہے ۔
ہر واقعہ میں سیکورٹی کی کمیوں اور خرابیوں کا رونا پیٹا جاتاہے لیکن عملا
ًاقدامات کرنے کی بجائے انکوائری کمیٹی تک ہی اکتفایا چند معطلیاں کرکے چپ
سادھ لی جاتی ہے۔ نتیجتاً چند دنوں یا ماہ کے بعد دوسرا واقعہ ہوجاتاہے ۔
قوم یہ تماشا گذشتہ کئی سالوں سے دیکھ رہی ہے لیکن دہشت گردی کی کمر توڑنے
کے دعوؤں کے باوجود نہ تو دہشت گردی ختم ہورہی ہے اور نہ ہی دہشت گرد ۔
ماؤں کی گودیں اجڑرہی ہیں بیویاں بیوہ اور بچے یتیم ہورہے ہیں لیکن کسی کے
کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ہمارے حکمران، سیاسی جماعتیں کرپشن و احتساب کا
کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ ہر کوئی اپنی ڈگڈگی بجاکر عوام کی ہمدردیاں
حاصل کرنے اور انہیں اپنی جماعت کی طرف متوجہ کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔
ان تمام کو احساس نہیں کہ جس گھر سے جنازے اٹھتے ہیں وہاں کیا حال ہوتاہے۔
جس کے بچے یتیم اور بیویاں وبیوہ ہوجاتی ہیں وہ کیسے زندگی گزارتے ہیں۔ اﷲ
کرے کے ہمارے اندر اس غم و دکھ درد کا احسا س پیدا ہوجائے جو حکمرانو ں کی
حد تک تو ناپیدہوچکاہے ۔ جو صرف سیلفیاں بنوانے او ر فوٹو سیشن کرنے میں
مصرف ہیں۔عملی اقدامات کرنے کی نہ تو ان کی نیت ہے اور نہ ہی ان کے بس کی
بات ہے کیونکہ آج تک خود کش حملوں کا علاج دنیا کی سپر پاور امریکہ کے پاس
نہیں ہے جو سیکورٹی کے انتظامات کے لحاظ سے بھی ایک طاقت ور ملک ہے جسے اﷲ
نے تمام تر وسائل دئیے ہیں لیکن خاص کر افغانستان جہاں اسے 28ممالک کی
فوجوں کا تعاون بھی حاصل ہے ایسے حملوں کو قابو نہیں کرپارہا ویسے یورپ بھر
میں خودکش حملہ آور ایسے واقعات بدستور کرتے چلے آرہے ہیں جن کی تعداد میں
آئے روز اضافہ ہورہاہے۔ پھر پاکستان جیسا ملک جہاں ہر قسم کے بجٹ میں سے
اکثر کرپشن ، غلط منصوبہ بندی کی نذر ہوجاتاہے وہاں ایسے فول پروف انتظامات
کرنا ناممکن نظر آتاہے۔ ہمارے ملک میں چیک پوسٹوں پر جسطرح چیکنگ کا فرسودہ
نظام موجود ہے جسطرح ہماری پولیس کو نذرانے دیکر توپ گزارلی جاتی ہے لیکن
چاقو والا پکڑلیاجاتاہے کسی المیہ سے کم نہیں ہے۔ افغانستان کے راستے جو
بھی ملک میں دہشت گردی کی غرض سے داخل ہوتے ہیں وہ آخر ہماری چیک پوسٹوں سے
گزر کر ہی آتے ہیں۔ پھر آگے ہمارے اداروں، سکولوں، کالجوں، پولیس و ایف سی
ٹریننگ سنٹرز ، ہماری مارکیٹوں، پلازوں، بسوں، ریلوے سٹیشن ، اڈوں میں دہشت
گردی کا واقعہ کرنا اور قیمتی جانوں کو ضیاع کرکے اپنے ناپاک منصوبوں کو
پایہ تکمیل تک پہنچانا کوئی مشکل کام نہیں ہے جس میں دہشت گرد کامیاب ہوتے
چلے آرہے ہیں یہا ں جب سابق وزیراعظم، گورنر، جج حضرات ، صنعتکار کے بیٹوں
تک کو اغواء کرکے سارے پاکستان سے گزار کر افغانستان پہنچادیاجاتاہے تو
وہاں دو چار دہشت گردوں کا داخل ہونا اور وارداتیں کرنا کوئی مشکل کام نہیں
ہے۔ مذکورہ تمام تر منفی پہلوؤں او رکمزوریوں کے باجود یہ نہیں ہے کہ ریاست
کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے ۔ انہیں اپنی کمزوریوں اور کرپشن کو قابو پانا
ضروری ہے۔ عوام کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے جو
وہ انجام نہیں دے پارہے ہیں۔ یہ تو تھا دہشت گردی کے واقعات کے سدباب
کادنیاوی پہلو اب ہم آتے ہیں اپنی جان و مال کی حفاظت کے دینی پہلو کی طرف
جس سے ہمارے حکمران اور عوام دونوں غافل ہیں۔ اکثریت اﷲ کے احکامات اور نبی
کریم ﷺ کے طریقوں کو چھوڑ بیٹھی ہے جس کے باعث ہمارا برا حال ہوگیاہے ۔
مولانا زاہد اﷲ راشدی کا ایک اقتباس میں کہیں پڑھ رہا تھا وہ فرماتے ہیں کہ
میں نے تبلیغی جماعت کے ایک بزرگ کی بات کسی بیان میں سنی جو آج مسلمانوں
کے حالات پر مکمل فٹ بیٹھتی ہے۔ بزر گ فرمارہے تھے کہ اﷲ تعالی نے بھینس کو
دودھ دینے کیلئے پیدا فرمایا ہے جب تک وہ ایسا کرتی رہتی ہے مالک اسکی خدمت
دیکھ بھال میں کوئی کمی نہیں چھوڑتا لیکن جیسے ہی وہ دودھ دینا بند کردیتی
ہے تو پھر اسے قصائی کے حوالے کردیاجاتاہے۔ ایسی ہی مثال اس امت مسلمہ کی
ہے جسے خاص کر انبیاء والے کام امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ذمہ داری
دیکر بھیجا گیا لیکن ا سنے اس کام کو چھوڑا تو اﷲ نے اسے غیروں کے حوالے
کردیا جو انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹنے میں مصروف ہیں۔ کشمیر، افغانستان
فلسطین، شام، عراق، لیبیا، مصر، سوڈان، یمن، پاکستان و دیگر ممالک اس کی
واضح مثال ہیں۔ اگر امت اپنی حیثیت کو پہچان لے او راپنی ذمہ داری کا احساس
کرلے تو دنیا کی کوئی طاقت بڑے سے بڑا دہشت گرد انہیں نقصان نہیں پہنچاسکتا
لیکن ایسا عملی طورپر نہیں ہورہا۔ مولانا الیاس ؒ کے فرزند مولانا یوسف ؒ
نے آج سے کئی سال پہلے فرمایا کہ ہم امن کیلئے اربوں خرچ کررہے ہیں لیکن
امن نہیں آرہا ہے۔ امن آئے گا نما زسے 95فیصد مسلمان نماز جیسے فرض سے غافل
ہیں۔ خوشحالی بھی نماز سے آئے گی ، برکتیں، رحمتوں کا حصول بھی نماز کے
ذریعے سے ممکن ہے۔ ہمارے نبی ﷺ کو جب بھی کوئی سختی پیش آتی تو وہ نماز کی
طرف رجوع کرتے تھے۔ مسلمانوں نے جنگوں میں فتوحات، مردہ جانوروں اور بچو ں
کو نماز کے زریعے سے زندہ کروایا۔ انہوں نے قحط سالی ، بے برکتی کو نماز کے
ذریعے سے دور کیا لیکن بدقسمتی سے ہم نے ٹی وی سے آذان ختم کردی۔ اناؤنسر
کے دوپٹے اتاردئیے، اذان کے وقت خاموش رہنے کا حکم ہے لیکن ہم کاروباری
زندگی کو جاری رکھتے ہیں۔ نماز کافر اور مسلمان کے درمیان فرق کرنے والی
عبادت ہے۔ نماز ذریعہ نجات ہے او رہمارے نبی ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے لیکن
ہمارے حکمرانوں نے تعلیمی اسباق سے دین کے بارے میں اسبا ق نکال باہر کئے۔
وہ یہودو نصاری کو خوش کرنے میں جتے ہوئے ہیں لیکن اﷲ تعالی کو ناراض
کربیٹھے ہیں۔ چند سال قبل سوات او رپشاوت کے تبلیغی مراکز میں بھی خودکش
حملے ہوئے کیا فوج اور پولیس طلب کرلی نہیں انہوں نے اﷲ کی طرف رجوع بڑھایا
اب مراکز میں ایک جماعت صرف حفاظت کی خاطر اﷲ کے زکر و عبادت میں مصروف
رہتی ہے۔ حالانکہ ان مراکز میں دہشت گردی کی واردات کرنا کتنا آسان ہے لیکن
اﷲ کی مدد و نصرت جو اسکام کو کرنے والوں کے ساتھ ہے کے باعث واقعات تقریبا
ختم ہورہے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے ہمیں آیت الکرسی جیسی حفاظت کرنے والی سورت
دی ہے نماز جیسی ذریعہ نجات والی عبادت ، گناہ معاف کروانے کیلئے حج کا
فریضہ، تزکیہ نفس کیلئے رمضان کے روزے اور مانگنے کیلئے وحدہ لاشریک اﷲ کی
ذات ہو وہ جب صرف دنیاوی اسباب پر ہی نظر رکھنے گی تو وہ کبھی بھی امن و
خوشحالی نہیں پائے گی۔ |